فرحان محمد خان
محفلین
تہوں میں کیا ہے، دریا کی روانی بول پڑتی ہے
اگر کردار زندہ ہوں، کہانی بول پڑتی ہے
جہاں بھی جائیں اک سایہ ہمیشہ ساتھ رہتا ہے
نئے موسم میں بھی تہمت پُرانی بول پڑتی ہے
تماشا گاہ سے خاموش کیا گزروں کہ خود مجھ میں
کبھی تُو اور کبھی تیری نشانی بول پڑتی ہے
اسی ہنگامۂ دنیا کی وارفتہ خرامی میں
کوئی شے روکتی ہے، ناگہانی بول پڑتی ہے
سلیم کوثر
اگر کردار زندہ ہوں، کہانی بول پڑتی ہے
جہاں بھی جائیں اک سایہ ہمیشہ ساتھ رہتا ہے
نئے موسم میں بھی تہمت پُرانی بول پڑتی ہے
تماشا گاہ سے خاموش کیا گزروں کہ خود مجھ میں
کبھی تُو اور کبھی تیری نشانی بول پڑتی ہے
اسی ہنگامۂ دنیا کی وارفتہ خرامی میں
کوئی شے روکتی ہے، ناگہانی بول پڑتی ہے
سلیم کوثر
آخری تدوین: