ویسے ڈاکٹر اقبال نے کس پیرائے میں کہا تھا ۔
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبیست؟
مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او ندسیدی تمام بو لہبیست ۔
یہ محض سوال ہے۔شاید میری یادداشت ڈھلتی عمر اور کچھ آلام روز و شب کی نذر ہو رہی ہے ؟ اسے کچھ اور نہ سمجھا جاوے۔
لیجئے مکمل اقتباس پیش کرتا ہوں ۔ کب کیسےاور کیا ہوا؟
اس میں اقبال کی تندی گفتار کا جواب ’’اقبال سہیل‘‘ نے دیا ہے۔
متحدہ قومیت اسلام اور حسین احمد مدنی ؒ ...
۸/جنوری ۱۹۳۸/ کی شب میں صدر بازار دہلی کے ایک جلسے میں مولانا مدنی نے تقریر فرمائی، جس کا بڑا حصہ ۹/جنوری کے روزنامہ ”تیج“ اور ”انصاری“ دہلی میں شائع ہوا، اس جلسے میں روزنامہ ”الامان“ (اس کے مدیر مولانا مظہرالدین شیرکوٹی فاضل دیوبند تھے، جو پکے مسلم لیگی تھے) کا رپورٹر بھی موجود تھا، اس نے اپنے حساب سے اس تقریر کی رپورٹنگ کی اوراس کے بعداسے ”الامان“ میں شائع کردیاگیا، پھر اس سے ”زمیندار“ اور ”انقلاب“ لاہورنے بھی نقل کیا اور یہ جملہ مولانا سے منسوب کردیا کہ انھوں نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ چوں کہ اس زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں، مذہب سے نہیں؛ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی قومیت کی بنیاد وطن کو بنائیں۔
اُدھر علامہ اقبال، جو اپنے وقت کے بے مثال اسلامی شاعر اور مفکر تھے اور وہ بھی ایک عرصے تک قومی نظریے کی حمایت میں لکھتے، بولتے اور اس کی ہم نوائی کرتے رہے تھے، ان کی مشہور نظم ”ہمالیہ“ اور ”ترانہٴ ہندی“ اسی دور کی یادگار ہیں؛ مگر جب انھوں نے یورپ کا دورہ کیا اور وہاں کی تہذیب، طریقہٴ زندگی، سیاسی نظریات وافکار کا مشاہدہ کرنے کے بعد وہاں سے واپس ہوئے، تو ان کا سیاسی نقطئہ خیال بدل چکا تھا، انھوں نے واپسی کے بعد قومی راہ نماؤں کو خطوط لکھے، اخبارات میں اپنے مضامین شائع کروائے اور مسلمانوں کو دوقومی نظریے پر ابھارنا شروع کردیا اور چوں کہ اس وقت مسلم لیگ کا اساسی نظریہ یہی تھا؛ اس لیے علامہ اقبال اسی کی حمایت وموافقت میں جٹ گئے، انھوں نے سب سے پہلے ۱۹۳۰/ کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں خطبہٴ صدارت پیش کرتے ہوئے شمال مغربی ہندوستان کی علیحدگی کی تجویز پیش کی اوراسے وطن کی معاشرتی مشکلات اور ہندومسلم منافرتوں کا حل بتلایا، اس کے بعد ان کے افکار کی ساری توانائی اور تخیلات کی تمام تر بلند پروازیاں اسی خیال کو تقویت پہنچانے اور قوم پرست علما اور لیڈران پر پھبتیاں کسنے میں صرف ہوئیں۔
”الامان“ کے واسطے سے نقل شدہ خبر جب علامہ موصوف کو پہنچی، جو ان کے نظریے کے سخت خلاف تھی، تو انھوں نے مولانا حسین احمدمدنی پر سخت تنقید کی :
عجم ہنوز نہ داند رموزِ دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد ای چہ بوالعجبی ست؟
سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن ست
چہ بے خبر زمقامِ محمدِ عربی ست
بہ مصطفی بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی ست
علامہ اقبال کے یہ اشعار روزنامہ ”احسان“ میں شائع ہوئے، اس کے بعد پورے ملک میں ہنگامہ، بے چینی اور خلش کا ماحول پیدا ہوگیا، جہاں علامہ اقبال کے حامیین مولانا مدنی کے خلاف زبان درازی وقلم درازی پر اتر آئے، وہیں خود حضرت کے متوسلین کی طرف سے بھی جوابِ آں غزل کے طور پر تحریروں اور بیانات کا اک سلسلہٴ دراز شروع ہوگیا، جو کسی آن تھمنے کا نام نہ لیتا تھا، مولانا کی طرف سے وضاحتی بیان بھی شائع ہوا، جس میںآ پ نے اپنی جانب منسوب کیے گئے جملے کی تردید کی تھی، اسی کے بعداعظم گڑھ کے مشہور شاعر اقبال سہیل نے بھی علامہ اقبال کے خلاف انہی کی بحر میں ایک لمبی اور تیز وتند نظم کہی تھی:
’’کسے کہ خردہ گرفت بر حسین احمد
زبانِ او عجمی وکلام در عربی ست
کہ گفت برسرِ منبر کہ ملت از وطن است
دروغ گوئی وایراد، ایں چہ بوالعجبی ست
درست گفت محدث کہ قوم از وطن ست
کہ مستفاد زفرمودئہ خدا ونبی ست
زبانِ طعن کشودی وایں نہ دانستی
کہ فرقِ ملت وقوم از لطائفِ ادبی ست
تفاوتے ست فراواں میانِ ملت وقوم
یکے زکیش ودگر کشوری ست یا نسبی ست
خداے گفت بہ قرآں ”لکل قوم ہاد“
مگر بہ نکتہ کجا پے بَرد کسے کہ غبی ست
بہ قومِ خویش خطابِ پیمبراں بہ نگر
پُر از حکایتِ ”یاقوم“ مصحفِ عربی ست
رموزِ حکمتِ ایماں زفلسفی جستن
تلاشِ لذتِ عرفاں زبادئہ عنبی ست
بہ دیوبند درآ گر نجات می طلبی
کہ دیوِ نفس سلحشورو دانشِ تو صبی ست
بہ گیر راہِ حسین احمد گر خدا خواہی
کہ نائب ست نبی را وہم ز آلِ نبی ست‘‘
خوش قسمتی سے ایک دردمند اور باشعور وذی فہم مسلمان (جو عالمِ دین بھی تھے اور ادیب وصحافی بھی) جنھوں نے مصلحتاً اپنا نام طالوت (اصل نام عبدالرشید نسیم) رکھ لیا تھا، حقیقت حال دریافت کرنے کے لیے حضرت مدنی کی خدمت میں ایک خط لکھا، جس کا حضرت مدنی نے جواب دیا اور اپنی تقریر کا مدعا بہ وضاحت بیان کیا، پھر انھوں نے ان کے خط کا اقتباس علامہ اقبال کی خدمت میں ارسال کیا، جس کو دیکھنے کے بعد علامہ موصوف نے اپنا تبصرہ واپس لے لیا اور فرمایا کہ: ”میں اس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ کو مولانا کے اس اعتراف کے بعد کسی قسم کا کوئی حق ان پر اعتراض کرنے کا نہیں رہتا․․․ مولانا کی حمیت دینی کے احترام میں میں ان کے کسی عقیدت مند سے پیچھے نہیں ہوں“۔(۸)
علامہ اقبال کا یہ اعتراف نامہ ”احسان“ کے علاوہ ۵/مارچ ۱۹۳۸/ کو روزنامہ ”مدینہ“ بجنور میں بھی شائع ہوا تھا، خیر! علامہ اقبال نے تو اپنی بات واپس لے لی؛ مگر ان کا وہ قطعہ ”ارمغانِ حجاز“ کے ترتیب کاروں نے نہ معلوم کن مصلحتوں کے تحت چھاپ دیا اور اب تک یہ سلسلہٴ زبوں جاری ہے؛ حالاں کہ علامہ کے بعض دوستوں اورماہرین اقبالیات کی یہ راے تھی کہ اگر وہ ان کی زندگی میں چھپتی، تو یہ اشعار اس میں شامل نہ کیے جاتے، خواجہ عبدالوحید لکھتے ہیں:
”ارمغانِ حجاز“ اگر حضرت علامہ کی زندگی میں چھپتی، تو یہ نظم اس میں شامل نہ ہوتی“۔(۹)
ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے بھی ”سرگزشت اقبال“ میں تحریرکیا ہے:
”اگر وہ ”ارمغانِ حجاز“ کی ترتیب اپنی زندگی میں کرتے، تو شاید وہ تین اشعار درج نہ کرتے، جن میں مولانا حسین احمد مدنی پر چوٹ کی گئی تھی“۔(۱۰)
ماہرِ اقبالیات وشارحِ کلیاتِ اقبال پروفیسر یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں:
”حقیقتِ حال سے واقف ہونے کے بعد علامہ نے اپنا اعتراض واپس لے لیا تھا اور وہ اشعار محض اس وجہ سے ”ارمغانِ حجاز“ میں راہ پاگئے کہ اس اعتراف کے محض تین ہفتوں کے بعد علامہ وفات پاگئے اور انھیں یہ ہدایت دینے کا موقع نہ مل سکا کہ ان اشعار کو ”ارمغانِ حجاز“ میں شامل نہ کیاجائے، اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ ”ارمغانِ حجاز“ میں اس نظم کے ساتھ یہ صراحت کردی جائے کہ حقیقتِ حال سے آگاہ ہوجانے کے بعد علامہ مرحوم نے ان اشعار کو کالعدم قرار دے دیا تھا، تو بہت اچھا ہو؛ کیوں کہ اس تصریح کی بہ دولت قارئین حضرتِ اقدس کے خلاف سوءِ ظن سے محفوظ ہوجائیں گے“۔(۱۱)
مولانا حکیم فضل الرحمن سواتی نے بھی حافظ شیراز اور مسٹرمحمدعلی جناح کے تعلق سے علامہ موصوف کے ایرادات سے رجوع کی تفصیلات تحریر کرتے ہوئے یہی بات لکھی ہے۔‘‘
( مولانا حسین احمد مدنی ‘‘ نام کے فیس بک پیج سے نقل کیا ہے ،اس میں دارالعلوم دیوبند ویب سائٹ کا حوالہ دیا گیا ہے۔)