اگر کورونا ہونا ہی ہے تو احتیاط کیوں؟

شفاعت شاہ

محفلین
ہمارے ملک کے طول و عرض میں کورونا کی بیماری (کووڈ 19) اب کافی حد تک پھیل چکی ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ بیماری بہت تیزی سے ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتی ہے۔ لیکن اگر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تو ہم اس بیماری سے اپنے آپ کو، اپنے بزرگوں، رشتہ داروں، دوستوں اور دوسرے لوگوں کو کافی حد تک محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم سب کو یا ہم میں سے بیشتر لوگوں کو بہر حال کورونا کا مرض لاحق ہونا ہی ہے تو اس سے بچنے کی کوشش کیوں کی جائے اور احتیاطی تدابیر کیوں اختیار کی جائیں۔ مندرجہ ذیل میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اول اگر طبی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس بیماری کو ملتوی کرنے سے ہمیں نہ صرف اپنے ہسپتالوں پر بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ یہ ہمیں اس بات کے لیے بھی وقت اور موقع فراہم کرے گا کہ ہم اس سلسلے میں دنیا بھر میں جاری مسلسل تحقیق سے مستفید ہو سکیں۔ ہمیں قوی امید ہے کہ مستقبل میں تحقیق کے نتیجے میں اس بیماری کو زیادہ اچھی طرح سے سمجھا جا سکے گا اور اس کا بہتر علاج میسر ہو سکے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں اس بیماری سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ویکسین بھی تیار ہو جائے۔ ہم گزشتہ کئی مہینوں کے دوران اس بیماری سے متعلق کافی چیزیں جان چکے ہیں اور آج جو علاج ہو رہا ہے وہ یقیناً تین مہینے پہلے کے مقابلے میں کافی بہتر ہے۔ ہم اس بیماری کی متعدد غیر معمولی علامات اور پیچیدگیوں سے متعلق بھی بہت کچھ جان چکے ہیں۔ بچوں میں یہ بیماری مختلف انداز میں بھی ظاہر ہوسکتی ہے، ہمیں اس بارے میں بھی کافی معلومات حاصل ہو چکی ہیں۔

دوم، اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اجتماعی مدافعت (Herd immunity) حاصل ہونے کی صورت میں بھی ایسی بیماریاں جن کے پھیلاؤ کی شرح بہت زیادہ ہے، ان پر مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکتا اور ایسی بیماریاں غیر متوقع طور پر کسی بھی وقت، کسی بھی علاقے میں دوبارہ حملہ آور ہو سکتی ہیں۔ مزید براں ابھی تک اس بات کی بھی کوئی اطمینان بخش شہادت موجود نہیں ہے کہ آیا یہ بیماری ایک بار ہونے کے بعد آئندہ کے لیے قوت مدافعت دے سکے گی یا نہیں اور اگر دے سکے گی تو کس حد تک اور کتنے عرصے تک دے سکے گی۔

تیسری وجہ اخلاقی ہے اور وہ یہ کہ اگرچہ ہمیں یہ پتا ہے کہ ہم سب کو ایک نہ ایک دن فوت ہو جانا ہے، یعنی سو فی صد لوگ بالآخر فوت ہو ہی جاتے ہیں، لیکن ہم پھر بھی اپنے پیاروں کی جان بچانے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح بطور معالج ہم کسی مریض کا علاج کرتے ہوئے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ بالآخر اس مریض کو کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی وجہ سے فوت ہو ہی جانا ہے اور ہم یہ جنگ ایک نہ ایک دن ہار جائینگے، لیکن ہم پھر بھی اس کی تکلیف کو دور کرنے اور اس افسوسناک لمحے کو ملتوی کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں، اور یہی ہمارے منصب کا تقاضا بھی ہے۔ جب ہم ایک انسان کی جان بچا کر پوری انسانیت کی جان بچاتے ہیں، تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم اس کی جان ہمیشہ کے لیے بچا لیتے ہیں، بلکہ ہم تو اپنی بساط کے مطابق کوشش کر کے صرف ایک مدت تک اس کی موت کو بظاہر ملتوی کرنے اور اس کو کچھ عرصہ مزید جینے کا موقع فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن اس مریض کو ملنے والا ایک لمحہ بھی اس مریض اور اس کے خاندان کے لیے ایک نئی زندگی کا پیام ہوتا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی۔ زندگی، موت اور شفا اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے، ہمیں تو بس اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ یاد رکھیے! اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کرنا لوگوں کی زندگیوں کو بچانے کے مترادف ہے اور کسی ایک انسان کی جان بچانا تمام انسانیت کی جان بچانا ہے۔ آئیے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور زندگیوں کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
 
آخری تدوین:
Top