loneliness4ever
محفلین
اگر گوگل نہ ہوتا
س ن مخمور
ہم جیسا نالائق اور کاہل وجود انسان بھی آج اگر اپنی کامیابیوں پر نظر ڈالتا ہے تو اس میں قدم بہ قدم گوگل کا ہاتھ شامل نظر آتا ہے. یونی ورسٹی میں استاد کی طرف سے کسی مضمون پر تحقیق ہو یا کسی لیب میں کئے گئے تجربے کے نتائج کی تلاش ہو، ہمارا مددگار ہمیشہ گوگل رہا. یوں اپنے احباب اور ہم جماعتوں مِیں ہم کو ہمیشہ ہی ایک نمایاں حیثیت حاصل رہی، اور گوگل کی مدد سے ہم منزل منزل مارتے ہوئے تمام تعلیمی مراحلے طے کرگئے اور پھر فکر ِمعاش نے آ گھیرا۔ نوکری کی تلاش جیسے کٹھن مرحلے میں بھی گوگل ہمارا معاون رہا اور اس عالمی سراغ رساں نے لمحوں میں ہمارے سامنے مطلوبہ نوکریوں کی کھوج مکمل کر لی. اور آخر کار ہم ایک جگہ کامیاب انٹرویو دیکر نوکری کے لئے منتخب ہوگئے.اور ہمارے انتخاب اور انٹرویو کے پیچھے بھی گوگل صاحب کا ہی ہاتھ رہا. جنھوں نے اپنے علمی خزانے سےانٹرویو میں عموما پوچھے جانے والے سوالات و جوابات کا انبار لگا کر ہمیں عہد ِحاضر کے کاروباری قصایوں کے آگے سرفروش کیا.
زندگی یوں ہی گزرتی رہی یہ ہماری خوش قسمتی کہ ادارے کے آئی ٹی یونٹ سے ہماری دوستی ایسی ہوئی کہ انھوں نے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر اور افسران کو لاعلم رکھ کرہمارے کمپیوٹر پر نیٹ کی سہولت عنایت کر دی اور یوں نوکری کے مختلف معاملات کو سنبھالنے کے لئے بھی گوگل ہمارے ساتھ ہمیشہ رہے، اور ہم یہاں بھی مقبول ہوگئے. احباب ہم کو علمی زنبیل سمجھنے لگے، گوگل کی عطا کردہ معلومات جب ہم بیان کرتے تو لوگ ہمارے علم پر رشک کرتے، اور یہ سلسلہ چل پڑا کہ کسی کو کوئی درخواست لکھوانی ہو یا کچھ لکھت پڑھت کا کام ہو یا کسی لفظ کے معنی دریافت کرنے ہوں احباب ہمارے پاس آنے لگے اور ہم کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے سائل کو تھوڑی دیر بعد آنے کا کہہ کر چپکے سے گوگل سے مدد لیتے اور پھر وہی ہوتا یعنی اندھوں میں کانے راجہ بن جاتے.
یوں طالب علمی سے نوکری تک ہر عہد میں گوگل کی بدولت ہم اپنی جھوٹی علمی شان بڑھتے رہے، دوسری جانب ہماری علمی اور ذہنی قابلیت گوگل کے بے دریغ استعمال سے زنگ آلود ہو کر رہ گئی اور رفتہ رفتہ گوگل کا بے تحاشہ استعمال ہماری قابلیت کو دیمک کی طرح چاٹ گیا. ہم اس پر بھی باز نہ آئے اور نوکری ملنے کے بعد جب گھر کے آنگن میں ہماری شادی کی سازشیں ہونے لگیں تو بھی گوگل ہماری مدد کو آئے اور ہم شادی خانہ آبادی کی مشہور ویب سائٹ تک جا پہنچے یوں ہمیں گوگل سے ایک عدد بیگم بھی نصیب ہوئی ہیں.
اور اب ہم گوگل کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کے اس کے بغیر جیون کو بیساکھیوں پر تصور کرتے ہیں. دو روز گوگل سے دوری برداشت نہیں ہوتی جینا محال ہو جاتا ہے، بارہا چاہا اور عہد کیا کہ اپنا ذہن استعمال کریں گے، اور کاروباری خط و کتابت سے لیکر اکاوئنٹنگ کے تمام اصولوں کو دوبارہ ذہن میں تازہ کر لیں گے مگر طبیعت ہے کہ اس جانب مائل نہیں ہوتی اور گوگل کوہم اپنے آپ سے جدا کرنے پر راضی ہی نہیں ہو پاتے. غرض زندگی کے ہر معاملات کے لئے گوگل کے آگے ہماری حاضری معمول بن چکی ہے، اور اگر کوئی ہم سے ازرائے مذاق بھی یہ کہہ دیتا ہے کہ حکومت نے یوٹیوب کی طرح گوگل تک رسائی پر پابندی لگا دی ہے تو اس پل ہم کو ایسا لگتا ہے کہ جان لبوں پر آگئی ہو، اپنی جھوٹی علمی قابلیت اپنے آپ گلے میں پھندا نظر آنے لگتی ہے، جیون کی سبک رفتار کار ایک دم پنکچر ہو جاتی ہے، اور زندگی بیساکھیوں پر آجاتی ہے، اور یہ دعا ہی اس غیر شائستہ مذاق پر لبوں پہ آ جاتی ہے کہ کچھ ہو جائے گوگل سے ہمارا ساتھ نہ چھوٹے، کبھی ہمارے چھوٹے اگرہم یہ سوال کر لیتا ہیں تو یقین جانیں دل میں لگتا ہے کسی نے نشتر چبھو دیا ہم ایسی قہر آلود نگاہوں سے سوالی کو دیکھتے ہیں کہ وہ ہماری نگاہوں کے سامنے سے دور ہو جانے ہی میں اکتفا سمجھتا ہے اور اس کے نظروں کے سامنے سے گم ہو جانے کے بعد ہم بھیگی آنکھوں سے اپنے رب سے پھر دعا کرتے ہیں کہ کوئی ہم سے کبھی ایسا سوال بھی نہ کرے کہ گوگل نہ ہوتا تو کیا ہوتا، کیوں کہ اس کے جواب کے لئے بھی ہمیں گوگل کی خدمات درکار ہیں. دعا ہے مالک ہمیشہ پردہ رکھے اور ہمارے اور گوگل کے ساتھ کو بد نظری سے محفوظ رکھے۔
س ن مخمور