متلاشی
محفلین
اگست سے اگست تک
یہ اگست کا مہینہ ہے…دل خون کے آنسو رو رہا ہے… زُباں شدّتِ جذبات سے گنگ ہے …آنکھیں حیر ت و استعجاب سے کھلی کی کھلی ہیں… الہی…! تیری دھرتی پر کبھی ایسا ماجرا بھی ہوا…؟ چشم ِ فلک نے کیا اس سے پہلے ایسا کوئی نظارہ دیکھا…؟ نہیں …نہیں…یہ کیا ہو گیا…؟ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے…؟نہیں… ! مجھے تو یقین نہیں آتا… مگر میرے یقین نہ کرنے سے کیا ہوتا ہے…؟ جب حقیقت خود سامنے آکر ہمارا منہ چڑائے تو پھر اُس سے انکار ممکن نہیں…!
اِک وہ بھی اگست کا مہینہ تھا …اور اک یہ بھی اگست کا مہینہ ہے … مہینہ تو ایک ہی ہے … مگر فرق سال کا ہے … وہ سال 1947کا تھا … اور یہ سال 2008کا ہے … فرق صرف 61سالوں کا ہے … مگر کیا 61سال کسی قوم کی سوچ بدلنے کو کافی ہوتے ہیں … ؟ ہاں … ان 61سالوں میں ہم بہت بدل گئے … 61سال پہلے جب ہم نے ’’پاکستان‘‘ کا نام لیا تھا … تو ہم نے نعرہ لگایا تھا … ’’پاکستان کا مطلب کیا … لا الہ الا اللہ ‘‘ مگر ان 61سالوں کے اندر ہم نے بہت ’’ترقی ‘‘ کی … ہم ’’دقیانوسیت‘‘ سے چھٹکارا پا کر ’’روشن خیال ‘ ‘ بن گئے …ایسے روشن خیال کہ … ہمارے سامنے ہماری بیٹی کو بے آبرو کیا جائے … تو ہم اس پر تالیاں پیٹیں … ہمارے سامنے ہماری ماؤں کے سروں سے آنچل چھینا جائے … تو ہماری غیرت نہ جاگے … ہمارے سامنے کعبہ کی بیٹی کو دن دیہاڑے فاسفورس بمبوں سے تار تار کر دیا جائے … مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگے … ہمارے سامنے ہزاروں بہنوں پر گولیوں کی برسات کر دی جائے … مگر ہم دور کھڑے ہو کر تماشہ دیکھیں … ہمارے سامنے … ہمارے بھائیوں کو زندہ جلا دیا جائے … مگر ہمارے لب نہ ہلیں … ہمارے سامنے قرآنِ مجید کی بے حرمتی کی جائے … مگر ہم خاموش رہیں … ہمارے سامنے مساجد کو ملیا میٹ کر دیا جائے … مگر ہماری آنکھیں آنسوؤں سے خالی ہوں … ہمارے سامنے اسلام کے نام لیواؤں کو مشقِ ستم بنایا جائے … مگر ہم خوابِ غفلت سے نہ جاگیں …کیا یہی پاکستان تھا…؟ کیا پاکستان اسی لئے حاصل کیا گیا تھا…؟ …کیا…؟ ہمارے آباء و اجداد نے یہی دن دیکھنے کے لئے اپنی جان و مال اور عزت تک کی قربانی دی تھی …؟ الہی…! تو نے ہمیں یہی دن دکھانے کے لئے زندہ کیوں رکھا…؟ زمیں شق کیوں نہ ہوئی کہ ہم اس میں سما جاتے …؟ آسماں ہم پر کیوں نہ ٹوٹ گرا…؟ کہ ہم یہ دن دیکھنے سے بچ جاتے … کاش … کاش … ! یہ دن دیکھنے سے پہلے ہی ہمیں موت آ جاتی …!
اس زندگی سے تو موت ہی بہتر تھی … مگر ہم زندہ ہیں … زندہ تو ہیں… مگر موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں …ہمیں اللہ کے عذاب نے اپنی لپیٹ میں لے لیا … ہم نے اُن مظلومین کے ساتھ جو کچھ کیا … وہ سب اب ہم خود بھگت رہے ہیں … ہم نے اُن کا پانی بندکیا … ہمارا پانی بھی بند ہو گیا … ہم نے اُن کی بجلی کاٹی … ہم پر بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب آیا … ہم نے اُن کی گیس کاٹی…آج ہم بھی گیس سے محروم ہیں … ہم نے اُن کی خوراک بند کی … تو ہمارے ہاں بھی گندم اور خوراک کی قلت ہو گئی … ہم نے اُن کو بے گناہ خون میں نہلایا … آج …آئے دن کے بم دھماکوں میں ہم بھی خون میں تڑپائے جارہے ہیں … غرض ہم نے اُن کے ساتھ جو کچھ کیا … وہ سب آج ہمارے ساتھ ہو رہا ہے … مسلمانو…! ہوش کرو… خدارا…! اب تو خوابِ غفلت سے جاگو …! یہ خدا کا عذاب نہیں تو پھر اور کیا ہے … ؟ اور یہ تو صرف دنیا کا عذاب ہے … آخرت کا عذاب تو اس سے بھی بد تر ہے … اب بھی وقت ہے… اُٹھو…اپنے رب کی طرف دوڑو… اپنے گناہوں کا اعتراف کرو… … اپنے رب کو مناؤ… اپنے رب کو راضی کرو …اس سے معافی طلب کرو … ورنہ وہ دن دُور نہیں … کہ …
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں…
بتحریر… متلاشی…لاہور
29-07-2011
یہ اگست کا مہینہ ہے…دل خون کے آنسو رو رہا ہے… زُباں شدّتِ جذبات سے گنگ ہے …آنکھیں حیر ت و استعجاب سے کھلی کی کھلی ہیں… الہی…! تیری دھرتی پر کبھی ایسا ماجرا بھی ہوا…؟ چشم ِ فلک نے کیا اس سے پہلے ایسا کوئی نظارہ دیکھا…؟ نہیں …نہیں…یہ کیا ہو گیا…؟ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے…؟نہیں… ! مجھے تو یقین نہیں آتا… مگر میرے یقین نہ کرنے سے کیا ہوتا ہے…؟ جب حقیقت خود سامنے آکر ہمارا منہ چڑائے تو پھر اُس سے انکار ممکن نہیں…!
اِک وہ بھی اگست کا مہینہ تھا …اور اک یہ بھی اگست کا مہینہ ہے … مہینہ تو ایک ہی ہے … مگر فرق سال کا ہے … وہ سال 1947کا تھا … اور یہ سال 2008کا ہے … فرق صرف 61سالوں کا ہے … مگر کیا 61سال کسی قوم کی سوچ بدلنے کو کافی ہوتے ہیں … ؟ ہاں … ان 61سالوں میں ہم بہت بدل گئے … 61سال پہلے جب ہم نے ’’پاکستان‘‘ کا نام لیا تھا … تو ہم نے نعرہ لگایا تھا … ’’پاکستان کا مطلب کیا … لا الہ الا اللہ ‘‘ مگر ان 61سالوں کے اندر ہم نے بہت ’’ترقی ‘‘ کی … ہم ’’دقیانوسیت‘‘ سے چھٹکارا پا کر ’’روشن خیال ‘ ‘ بن گئے …ایسے روشن خیال کہ … ہمارے سامنے ہماری بیٹی کو بے آبرو کیا جائے … تو ہم اس پر تالیاں پیٹیں … ہمارے سامنے ہماری ماؤں کے سروں سے آنچل چھینا جائے … تو ہماری غیرت نہ جاگے … ہمارے سامنے کعبہ کی بیٹی کو دن دیہاڑے فاسفورس بمبوں سے تار تار کر دیا جائے … مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگے … ہمارے سامنے ہزاروں بہنوں پر گولیوں کی برسات کر دی جائے … مگر ہم دور کھڑے ہو کر تماشہ دیکھیں … ہمارے سامنے … ہمارے بھائیوں کو زندہ جلا دیا جائے … مگر ہمارے لب نہ ہلیں … ہمارے سامنے قرآنِ مجید کی بے حرمتی کی جائے … مگر ہم خاموش رہیں … ہمارے سامنے مساجد کو ملیا میٹ کر دیا جائے … مگر ہماری آنکھیں آنسوؤں سے خالی ہوں … ہمارے سامنے اسلام کے نام لیواؤں کو مشقِ ستم بنایا جائے … مگر ہم خوابِ غفلت سے نہ جاگیں …کیا یہی پاکستان تھا…؟ کیا پاکستان اسی لئے حاصل کیا گیا تھا…؟ …کیا…؟ ہمارے آباء و اجداد نے یہی دن دیکھنے کے لئے اپنی جان و مال اور عزت تک کی قربانی دی تھی …؟ الہی…! تو نے ہمیں یہی دن دکھانے کے لئے زندہ کیوں رکھا…؟ زمیں شق کیوں نہ ہوئی کہ ہم اس میں سما جاتے …؟ آسماں ہم پر کیوں نہ ٹوٹ گرا…؟ کہ ہم یہ دن دیکھنے سے بچ جاتے … کاش … کاش … ! یہ دن دیکھنے سے پہلے ہی ہمیں موت آ جاتی …!
اس زندگی سے تو موت ہی بہتر تھی … مگر ہم زندہ ہیں … زندہ تو ہیں… مگر موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں …ہمیں اللہ کے عذاب نے اپنی لپیٹ میں لے لیا … ہم نے اُن مظلومین کے ساتھ جو کچھ کیا … وہ سب اب ہم خود بھگت رہے ہیں … ہم نے اُن کا پانی بندکیا … ہمارا پانی بھی بند ہو گیا … ہم نے اُن کی بجلی کاٹی … ہم پر بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب آیا … ہم نے اُن کی گیس کاٹی…آج ہم بھی گیس سے محروم ہیں … ہم نے اُن کی خوراک بند کی … تو ہمارے ہاں بھی گندم اور خوراک کی قلت ہو گئی … ہم نے اُن کو بے گناہ خون میں نہلایا … آج …آئے دن کے بم دھماکوں میں ہم بھی خون میں تڑپائے جارہے ہیں … غرض ہم نے اُن کے ساتھ جو کچھ کیا … وہ سب آج ہمارے ساتھ ہو رہا ہے … مسلمانو…! ہوش کرو… خدارا…! اب تو خوابِ غفلت سے جاگو …! یہ خدا کا عذاب نہیں تو پھر اور کیا ہے … ؟ اور یہ تو صرف دنیا کا عذاب ہے … آخرت کا عذاب تو اس سے بھی بد تر ہے … اب بھی وقت ہے… اُٹھو…اپنے رب کی طرف دوڑو… اپنے گناہوں کا اعتراف کرو… … اپنے رب کو مناؤ… اپنے رب کو راضی کرو …اس سے معافی طلب کرو … ورنہ وہ دن دُور نہیں … کہ …
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں…
بتحریر… متلاشی…لاہور
29-07-2011