محمد شکیل خورشید
محفلین
کتنا پختہ تھا یقیں ہم کو گماں سے پہلے
کیسا بے داغ تھا دل تیرے نشاں سے پہلے
اشک کچھ دیر تو بہہ لینے دو آخر ہم نے
خشک سالی بھی سہی سیلِ رواں سے پہلے
اتنے آساں تو نہ تھے رستے شہر کے تیرے
راہ میں موڑ بھی تھے تیرے مکاں سے پہلے
ایسے خوش بخت کہاں تھے کہ بہکنے پاتے
مل گئے ہم کو نصوح ،پیرِ مغاں سے پہلے
کس کو معلوم کہ وہ کاتبِ تقدیر شکیلؔ
لکھ چکا کتنا ادھم حرفِ اماں سے پہلے