سید شہزاد ناصر
محفلین
کہتے ہیں کسی ملک میں امن و آشتی کا بڑا دور دورہ تھا۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ اس ملک کے بادشاہ کی زندگی میں کوئی ایڈونچر، کوئی Thrill نہیں تھی۔ بادشاہ کچھ مہم جویانہ طبیعت کا مالک تھا۔ اس نے سوچا: یہ بھی کوئی ملک ہے، نہ جلسے جلوس نہ ہڑتالیں… زندگی میں کچھ تو ’’رونق‘‘ ہونی چاہیے۔ اس ملک میں لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے ایک پل پار کرنا پڑتا تھا۔ بادشاہ نے اس پل کے پار جانے والوں پر بھاری ٹیکس لگا دیا۔ بچارے عوام نے سرجھکا کر یہ ٹیکس ادا کرنا شروع کردیا۔ بادشاہ نے پل سے واپس آنے پر دگنا ٹیکس لگا دیا۔ عوام نے اس پر بھی صبرو شکر کرلیا اور کوئی مظاہرہ اور ’’ہڑتال‘‘ نہ کی۔ بادشاہ نے جھنجلا کر یہ حکم جاری کردیا کہ پل پر سے گزرنے والے ہر شخص کو پانچ جوتے مارے جائیں گے۔ عوام نے پہلے دن تو کسی ردعمل کا مظاہرہ نہ کیا لیکن دوسرے دن پورے ملک میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ بادشاہ نے جب ’’بریکنگ نیوز‘‘ میں مظاہروں کی خبر سنی تو اس کی مہم جویانہ فطرت کو کچھ تسکین ہوئی کہ چلو ’’جوتے‘‘ نے عوام میں کچھ ہلچل تو پیدا کی۔ اس نے فوراً قوم سے خطاب کیا اور کہا: ’’میرے عزیز ہم وطنو! کیا آپ ’’جوتے‘‘ سے پریشان ہیں؟‘‘ عوام نے کہا ’’نہیں جنابِ عالی! ہماری گزارش صرف اتنی ہے کہ آپ نے جوتے مارنے کے لیے صرف ایک آدمی مقرر کیا ہے۔ لمبی لائن کی وجہ سے ہمیں کام پر پہنچنے میں دیر ہوجاتی ہے، آپ مہربانی کرکے ’’جوتے‘‘ مارنے والوں کی تعداد بڑھا دیں تا کہ ہم جلد فارغ ہوکر اپنے کاموں پر پہنچ سکیں…‘‘
قارئین کرام!! اس کہانی یا روایت پر ہمیں کچھ کچھ اپنی ’’قومی آپ بیتی‘‘ کا گمان ہوتا ہے… جی ہاں! ویسے بھی سنا ہے اقوامِ عالم میں ہمیں بڑی زندہ دل قوم سمجھا جاتا ہے… بھئی کوئی مانے یا نہ مانے ہم تو سلیوٹ (سلام) پیش کرتے ہیں اپنی صابر و شاکر اور زندہ دل قوم کو… کیا بات ہے ہماری… پہلے شروع میں لوڈشیڈنگ ایک دو گھنٹہ تھی، قوم تھوڑی پریشان ہوئی مگر پھر جب معاملہ چھ سے آٹھ گھنٹے کا آیا تو قوم کو صبر آگیا۔ اب اگر عوام حکومت سے گزارش کرتے ہیں تو صرف یہ کہ جناب لوڈشیڈنگ ضرور کریں مگر ذرا شیڈول کے حساب سے کرلیا کریں، ورنہ تھوڑی گڑبڑ ہوجاتی ہے… اور آج کل یہ جو CNG کے لیے لمبی لمبی لائنوں پر تھوڑا اضطراب ہے یہ صرف چند دن کی بات ہے… پھر یہی دو، تین کلومیٹر لمبی لائنیں ہوں گی اور یہی ہماری زندہ دلی ہوگی… گاڑی کے بونٹ پر رکھ کر لوڈو اور تاش کی محفلیں جمیں گی… ’’تازہ ہوا‘‘ میں چنا چاٹ، دہی بڑے اور حلیم کے مزے لوٹے جائیں گے۔ یقین کریں چند دن کی بات ہے، پھر بچے والدین سے ضد کیا کریں گے کہ ’’ابو بہت دن ہوگئے آپ CNG بھروانے نہیں گئے… اب کے وہیں سے بھروائیے گا جہاں سے پچھلی بار بھروائی تھی۔ وہاں کے نان چھولے بڑے زبردست تھے‘‘… اور جناب ہمیں تو قوی امید ہے کہ اگر یہی حکومت ’’اگلی واری‘‘ بھی رہی اور CNG کی عدم دستیابی اور مہنگائی کا یہی حال رہا تو پھر بس چند دن کی بات ہے، عوام بیل گاڑی کے مزے لوٹیں گے… صرف چند ہی دن کی تو بات ہے… الیکشن ہونے دیں… پھر دیکھیے گا… اگلی واری… ارے ارے وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ ہمارا مطلب ہے اگلی واری، گھوڑا گاڑی، گدھا گاڑی، بیل گاڑی… اُف کتنا خوبصورت منظر ہوگا… ہر گھر کے باہر گھوڑے، گدھے اور بیل بندھے ہوں گے… بچے، بڑے خشوع و خضوع سے ان کو چارہ کھلا رہے ہوں گے… ہمارے بچے تو اس سہانے منظر کا تصور کرکے بار بار پوچھتے ہیں کہ امی الیکشن کب ہوں گے…؟ ہمارے گھر میں تو بس یہی نعرے گونج رہے ہیں: اگلی واری… گھوڑا گاڑی، گدھا گاڑی، بیل گاڑی…
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/48340
قارئین کرام!! اس کہانی یا روایت پر ہمیں کچھ کچھ اپنی ’’قومی آپ بیتی‘‘ کا گمان ہوتا ہے… جی ہاں! ویسے بھی سنا ہے اقوامِ عالم میں ہمیں بڑی زندہ دل قوم سمجھا جاتا ہے… بھئی کوئی مانے یا نہ مانے ہم تو سلیوٹ (سلام) پیش کرتے ہیں اپنی صابر و شاکر اور زندہ دل قوم کو… کیا بات ہے ہماری… پہلے شروع میں لوڈشیڈنگ ایک دو گھنٹہ تھی، قوم تھوڑی پریشان ہوئی مگر پھر جب معاملہ چھ سے آٹھ گھنٹے کا آیا تو قوم کو صبر آگیا۔ اب اگر عوام حکومت سے گزارش کرتے ہیں تو صرف یہ کہ جناب لوڈشیڈنگ ضرور کریں مگر ذرا شیڈول کے حساب سے کرلیا کریں، ورنہ تھوڑی گڑبڑ ہوجاتی ہے… اور آج کل یہ جو CNG کے لیے لمبی لمبی لائنوں پر تھوڑا اضطراب ہے یہ صرف چند دن کی بات ہے… پھر یہی دو، تین کلومیٹر لمبی لائنیں ہوں گی اور یہی ہماری زندہ دلی ہوگی… گاڑی کے بونٹ پر رکھ کر لوڈو اور تاش کی محفلیں جمیں گی… ’’تازہ ہوا‘‘ میں چنا چاٹ، دہی بڑے اور حلیم کے مزے لوٹے جائیں گے۔ یقین کریں چند دن کی بات ہے، پھر بچے والدین سے ضد کیا کریں گے کہ ’’ابو بہت دن ہوگئے آپ CNG بھروانے نہیں گئے… اب کے وہیں سے بھروائیے گا جہاں سے پچھلی بار بھروائی تھی۔ وہاں کے نان چھولے بڑے زبردست تھے‘‘… اور جناب ہمیں تو قوی امید ہے کہ اگر یہی حکومت ’’اگلی واری‘‘ بھی رہی اور CNG کی عدم دستیابی اور مہنگائی کا یہی حال رہا تو پھر بس چند دن کی بات ہے، عوام بیل گاڑی کے مزے لوٹیں گے… صرف چند ہی دن کی تو بات ہے… الیکشن ہونے دیں… پھر دیکھیے گا… اگلی واری… ارے ارے وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ ہمارا مطلب ہے اگلی واری، گھوڑا گاڑی، گدھا گاڑی، بیل گاڑی… اُف کتنا خوبصورت منظر ہوگا… ہر گھر کے باہر گھوڑے، گدھے اور بیل بندھے ہوں گے… بچے، بڑے خشوع و خضوع سے ان کو چارہ کھلا رہے ہوں گے… ہمارے بچے تو اس سہانے منظر کا تصور کرکے بار بار پوچھتے ہیں کہ امی الیکشن کب ہوں گے…؟ ہمارے گھر میں تو بس یہی نعرے گونج رہے ہیں: اگلی واری… گھوڑا گاڑی، گدھا گاڑی، بیل گاڑی…
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/48340