اہلِ دل چشمِ گہربار سے پہچانے گئے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اہلِ دل چشمِ گہربار سے پہچانے گئے
دیدہ ور تیرے ہی دیدار سے پہچانے گئے

ہم نے کب دعویٰ زمانے میں کیا الفت کا
ہم تو چپ تھے ، ترے انکار سے پہچانے گئے

خود کو آزاد سمجھتے تھے مگر وقتِ سفر
ایک زنجیر کی جھنکار سے پہچانے گئے

معرکے جو بھی سمندر سے ہوئے ساحل تک
میری ٹوٹی ہوئی پتوار سے پہچانے گئے

دشمنی میں نے اصولوں کی بنا پر رکھی
میرے دشمن میرے کردار سے پہچانے گئے

آگیا دست ِصحافت میں عدالت کا قلم
جھوٹ اور سچ بھی اب اخبار سے پہچانے گئے

آج کے دورِ ضرورت میں مشینوں کی طرح
آدمی کام کی رفتار سے پہچانےگئے


ظہیر احمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپریل ٢٠١٢

ٹیگ: محمد تابش صدیقی سید عاطف علی فاتح کاشف اختر
 
واہ ظہیر بھائی
خود کو آزاد سمجھتے تھے مگر وقتِ سفر
ایک زنجیر کی جھنکار سے پہچانے گئے

کیا ہی خوبصورت پیرایۂ اظہار ہے۔ اخلاصِ عمل ہو تو ایسا
دشمنی میں نے اصولوں کی بنا پر رکھی
میرے دشمن میرے کردار سے پہچانے گئے

بہت عمدگی سے حالیہ منظر نامہ پیش کیا ہے۔
آگیا دست ِصحافت میں عدالت کا قلم
جھوٹ اور سچ بھی اب اخبار سے پہچانے گئے

آج کے دورِ ضرورت میں مشینوں کی طرح
آدمی کام کی رفتار سے پہچانےگئے

بہت سی داد
 
Top