اہل جنوں تھے فصل بہاراں کے سرگئے ٭ عباس رضوی

اہل جنوں تھے فصل بہاراں کے سر گئے
ہم لوگ خواہشوں کی حرارت سے مر گئے

ہجر و وصال ایک ہی لمحے کی بات تھی
وہ پل گزر گیا تو زمانے گزر گئے

اے تیرگی شہر تمنا بتا بھی دے
وہ چاند کیا ہوئے وہ ستارے کدھر گئے

وحشت کے اس نگر میں وہ قوس قزح سے لوگ
جانے کہاں سے آئے تھے جانے کدھر گئے

خوشبو اسیر کر کے اڑائے پھری ہمیں
پھر یوں ہوا کہ ہم بھی فضا میں بکھر گئے

عباس رضوی
 
Top