کاشفی
محفلین
افتخارِحسن علیہ السلام
(علامہ ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی)
اہل دنیا خاک سمجھیں گے حسن کا افتخار
خاک کے پتلے ہیں یہ، وہ رحمتِ پروردگار
مالکِ جنّت کا رتبہ اور سمجھیں اہلِ نار
فرش کے ساکن بتائیں عرش والوں کا وقار
یاد رکھو مختصر یہ ہے حسن کا اقتدار
وقت کا قیصر بھی ہے اس در کا اک خدمت گزار
اُس کو خالق نے دیا ہے کل جہاں کا اختیار
اُس کے قبضہ میں سبھی ہیں باغِ جنت ہو کہ نار
وہ زمیں پر رہ کے ہے اہلِ فلک کا افتخار
ملک کو ٹھکرا کے بھی رہتا ہے اس کا اقتدار
کاٹ سکتا ہے رگِ باطل کو اس کا ایک وار
وہ بنا سکتا ہے لفظوں کو جواب ذوالفقار
وہ حسن جس کا شرف ہے کلا جہاں پر آشکار
جس کے جد کی جوتیاں اہلِ فلک کا افتخار
جس کا دادا محسنِ اسلام شیر کردگار
جس کا بابا صنعت دست خدا کا شاہکار
شاہ مرداں، شیریزداں، قوت پروردگار
لافتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار
نام سے اُس کے نہ کیوں حسنِ ازل ہو آشکار
ذکر سے اُس کے نہ کیوں ہو چہرہء دیں پر نکھار
اُس کی آمد تھی علاجِ ضعفِ شاہِ ذی وقار
وہ کسا میں آیا مثلِ رحمتِ پروردگار
اُس پہ صدقے اس لئے ہے گلستانِ روزگار
گلشنِ زہرا و حیدر کی یہ ہے پہلی بہار
آج دنیا میں جو صلح و آشتی کی ہے پکار
در حقیقت ہے حسن کی صلح کا اک شاہکار
اس نے بخشا صلح کو بھی ایک رنگِ کارزار
پردہء الفاظ میں ایسا کیا باطل پہ وار
ملک دے کر رہ گیا دنیا میں اس کا اقتدار
ملک لینے والا ہے صدیوں سے اب تک بے دیار
(علامہ ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی)
اہل دنیا خاک سمجھیں گے حسن کا افتخار
خاک کے پتلے ہیں یہ، وہ رحمتِ پروردگار
مالکِ جنّت کا رتبہ اور سمجھیں اہلِ نار
فرش کے ساکن بتائیں عرش والوں کا وقار
یاد رکھو مختصر یہ ہے حسن کا اقتدار
وقت کا قیصر بھی ہے اس در کا اک خدمت گزار
اُس کو خالق نے دیا ہے کل جہاں کا اختیار
اُس کے قبضہ میں سبھی ہیں باغِ جنت ہو کہ نار
وہ زمیں پر رہ کے ہے اہلِ فلک کا افتخار
ملک کو ٹھکرا کے بھی رہتا ہے اس کا اقتدار
کاٹ سکتا ہے رگِ باطل کو اس کا ایک وار
وہ بنا سکتا ہے لفظوں کو جواب ذوالفقار
وہ حسن جس کا شرف ہے کلا جہاں پر آشکار
جس کے جد کی جوتیاں اہلِ فلک کا افتخار
جس کا دادا محسنِ اسلام شیر کردگار
جس کا بابا صنعت دست خدا کا شاہکار
شاہ مرداں، شیریزداں، قوت پروردگار
لافتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار
نام سے اُس کے نہ کیوں حسنِ ازل ہو آشکار
ذکر سے اُس کے نہ کیوں ہو چہرہء دیں پر نکھار
اُس کی آمد تھی علاجِ ضعفِ شاہِ ذی وقار
وہ کسا میں آیا مثلِ رحمتِ پروردگار
اُس پہ صدقے اس لئے ہے گلستانِ روزگار
گلشنِ زہرا و حیدر کی یہ ہے پہلی بہار
آج دنیا میں جو صلح و آشتی کی ہے پکار
در حقیقت ہے حسن کی صلح کا اک شاہکار
اس نے بخشا صلح کو بھی ایک رنگِ کارزار
پردہء الفاظ میں ایسا کیا باطل پہ وار
ملک دے کر رہ گیا دنیا میں اس کا اقتدار
ملک لینے والا ہے صدیوں سے اب تک بے دیار