یہ ایک مناسب تجزیہ ہے۔ ہمیں اپنی خامیوں سے انکار نہیں۔ ہماری ترجیح بھی یہی ہونی چاہئیے کہ اپنی اصلاح کریں۔ لیکن اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہم مغرب سے اپنا موازنہ کرکے انہیں برتر اور اپنے آپ کو کم تر کریں۔ یہ یہود و ہنود کی سازش ہے کہ وہ ہمارے منہ سے یہ کہلوا رہے ہیں کہ ہم مسلمان برے اور مغربی کفار سے کمتر ہیں۔ جب یہ بات پوری قوم دل سے تسلیم کر لے گی تو اگلا "مشورہ" یہ ہوگا کہ "ایسے مسلمان" بنے رہنے سے بہتر ہے کہ "مغربی کفار" بن جائیں۔ تاکہ دنیا میں "کامیاب و کامران" بن سکیں۔ اللہ معاوف کرے اور ہمیں درست تجزیہ کی توفیق دے آمین
یوسف بھائی بات یہ ہے کہ ہم میں تمام تر بُرائیوں سے بڑھ کر ایک بُرائی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ ہم اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے لئے کوئی نہ کوئی بیرونی ذمہ دار ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اور نتیجتاً خود کو باآسانی بری الذمہ کروالیتے ہیں۔
پاکستان کے حالات کو ہی لے لیجے، ہم کیا کہتے ہیں:
- یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ امریکی سازش ہے۔
- یہ یہود کی سازش ہے۔
- یہ "را" کی کاروائی ہے۔
اور ہم ۔ ہم تو بے چارے معصوم ہیں۔ ہم تو سازشوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ ہم تو مظلوم ہیں ۔ بھلا مظلوموں کا بھی کوئی قصور ہوتا ہے۔ تو کیا جو کچھ ہو رہا ہے وہ باہر کے لوگ کر رہے ہیں کیا ہمارے حکمران اور اربابِ اختیار ہم میں سے ہی نہیں ہیں۔ ہم لوگ ذاتی حیثیت میں خراب ہیں سو ہم پر ہمارے جیسے ہی لوگ مسلط ہیں۔
اگر ہم اخلاقی طور پر پست ہوگئے ہیں تو
- یہ ہندوانہ ثقافت کی وجہ سے ہے ورنہ ہم تو بہت اچھے ہیں۔
- خراب چیزیں مغرب سے آئیں ہیں ورنہ ہم تو بہت پاکباز ہیں۔
ہم کب تک اپنی غلطیوں اپنی کوتاہیوں سے آنکھیں چرائیں گے۔ ہم اپنی غلطی تسلیم کریں گے تو اصلاح کی گنجائش نکلے گی۔ اگر ہم یوں ہی مظلوم اور معصوم بنے رہے تو کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو مظلوموں اور معصوموں کی اصلاح کرے گا۔
رہی بات اس مشورے کی کہ ایسے مسلمان بنے رہنے سے بہتر ہے کہ مغربی کفار بن جائیں تو میرا مشورہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو اگر واقعی مسلمان کرلیں تو کسی کو ایسا کہنے کی جرات نہیں ہوگی۔
اگر میرا یہ تجزیہ آپ کو مناسب نہ لگے تو پیشگی معذرت !