اہل مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر استعمال کنویں ’’توٰی‘‘ کی بحالی کے متمنی

گرائیں

محفلین
فتنے میں پڑنے کا اندیشہ کیوں کر ہوا؟
کیا حضرت عمر کے دور میں سارے لوگ صحابہ نہ تھے؟؟ کیا صحابہ سارے عدول نہیں ہیں؟ اور کسی بھی صحابی کی اقتدا کی جائے تو درست نہیں ہے؟؟
کیا صحابی بھی فتنہ میں پڑ سکتے ہیں؟؟ کیا صحابہ کے کام سنت نہیں ہیں؟؟ تو اگر صحابہ اس درخت سے تبرک کرتے ہیں تو وہ سنت ہوتی۔۔ نہ کہ بدعت۔۔۔ صحابہ جو ہوئے۔

مسئلہ فتنے کا نہیں ہے۔۔۔ آثار نبوی وعلوی کو مٹانے کا ہے۔۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے خبر آئی تھی۔۔ کہ مسجد رد الشمس کو بھی مسمار کی گئی تھی۔۔۔ کیا مسجد سے بھی لوگ فتنہ میں پڑنے کا خدشہ تھا۔
اگر قبر کو پختہ بنانا اور اس کے گنبد بنانا ہی حرام ہے۔۔ تو بات قبر رسول تک بھی پہنچ جائے گا۔ بس کرے اللہ کے لیے۔
آخرت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے ملاقات ہوئی تو پوچھ لیجئے گا۔ ہم لوگ کیا کہیں اب۔ آپ کی سوچ ہم جاہلوں کو لا جواب کر دیتی ہے، حسینی بھائی۔
 

عمار عامر

محفلین
فتنے میں پڑنے کا اندیشہ کیوں کر ہوا؟
کیا حضرت عمر کے دور میں سارے لوگ صحابہ نہ تھے؟؟ کیا صحابہ سارے عدول نہیں ہیں؟ اور کسی بھی صحابی کی اقتدا کی جائے تو درست نہیں ہے؟؟
کیا صحابی بھی فتنہ میں پڑ سکتے ہیں؟؟ کیا صحابہ کے کام سنت نہیں ہیں؟؟ تو اگر صحابہ اس درخت سے تبرک کرتے ہیں تو وہ سنت ہوتی۔۔ نہ کہ بدعت۔۔۔ صحابہ جو ہوئے۔

مسئلہ فتنے کا نہیں ہے۔۔۔ آثار نبوی وعلوی کو مٹانے کا ہے۔۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے خبر آئی تھی۔۔ کہ مسجد رد الشمس کو بھی مسمار کی گئی تھی۔۔۔ کیا مسجد سے بھی لوگ فتنہ میں پڑنے کا خدشہ تھا۔
اگر قبر کو پختہ بنانا اور اس کے گنبد بنانا ہی حرام ہے۔۔ تو بات قبر رسول تک بھی پہنچ جائے گا۔ بس کرے اللہ کے لیے۔
محترم، حضرت عمر کے دور میں سب صحابہ تھے؟ یہ آپ کو کس نے کہہ دیا؟
نومسلم قبائل میں سے کسی نے یہ کوشش کی ہوگی اور خلیفہ راشد نے بصیرت سے کام لیتے ہوئے اس کا سدباب کر دیا۔ کہ اسلام میں ایسے توہم پالنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
مسجد کا تو معلوم نہیں۔ قبر کو پختہ بنانے سے تو منع کیا گیا ہے۔
 

حسینی

محفلین
محترم، حضرت عمر کے دور میں سب صحابہ تھے؟ یہ آپ کو کس نے کہہ دیا؟
نومسلم قبائل میں سے کسی نے یہ کوشش کی ہوگی اور خلیفہ راشد نے بصیرت سے کام لیتے ہوئے اس کا سدباب کر دیا۔ کہ اسلام میں ایسے توہم پالنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
مسجد کا تو معلوم نہیں۔ قبر کو پختہ بنانے سے تو منع کیا گیا ہے۔

تو کیا اس وقت کے مسلمان اس نو مسلم کے پیچھے چلتے؟ یا اس وقت موجود ہزاروں صحابہ کے پیچھے چلتے؟؟
اور اگر لوگوں کے گمراہ ہونے کا خدشہ تھا تو کیا خود رسول خدا کو اس بات کا علم نہٰیں تھا؟ وہ خود درخت کٹوا دیتے۔
لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے تبلیغ اور ان کو سمجھانا چاہیے۔۔۔ نہ کہ درخت کو ہی کاٹ دیا جائے۔۔

قبر کو پختہ بنانے کا موضوع الگ ہے۔۔ جس پر الگ بحث ہو سکتی ہے۔۔ البتہ ہم اس بات کو بھی نہیں مانتے۔
 

عمار عامر

محفلین
جی ہاں۔۔ بیسویں صدی تک کوئی بھی مسلمان نہیں تھا۔۔ اب یہ لوگ مسلمان جو ہوئے تو ان کو موقعہ ملا۔۔ اور جنت البقیع ساری کو مسمار کر دیا۔۔ اور اس کے علاوہ کتنی قبور کو۔
اس میں کتنے ہی صحابہ اور محترم شخصیات کی قبریں تھیں۔۔ جن پر بلڈوزر چلایا گیا۔۔ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اذیت کی گئی ۔۔۔

اپنی اپنی سمجھ ہے۔
قبروں کو اسلام نے پسند کیا ہوتا تو دور صحابہ سے ہی قبروں کی تزئین و آرائش ، ان کو پختہ کرنا، مزارات وغیرہ کا سلسلہ بھی اسی دور میں شروع کر دیا گیا ہوتا۔ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو باقاعدہ مشن دے کر اونچی قبروں کو برابر کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس وقت تو شاید کسی مسلمان کو اذیت نہیں ہوئی تھی، حالانکہ ان کے اپنے آباء و اجداد کی قبریں بھی مسمار ہوئی ہوں گی۔
 

عمار عامر

محفلین
تو کیا اس وقت کے مسلمان اس نو مسلم کے پیچھے چلتے؟ یا اس وقت موجود ہزاروں صحابہ کے پیچھے چلتے؟؟
اور اگر لوگوں کے گمراہ ہونے کا خدشہ تھا تو کیا خود رسول خدا کو اس بات کا علم نہٰیں تھا؟ وہ خود درخت کٹوا دیتے۔
لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے تبلیغ اور ان کو سمجھانا چاہیے۔۔۔ نہ کہ درخت کو ہی کاٹ دیا جائے۔۔

قبر کو پختہ بنانے کا موضوع الگ ہے۔۔ جس پر الگ بحث ہو سکتی ہے۔۔ البتہ ہم اس بات کو بھی نہیں مانتے۔
میرے بھائی، آپ سمجھ نہیں رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں تو وہ منع کس بات سے کرتے؟
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے، تب چند لوگوں نے بیعت رضوان والے درخت سے تبرک لینے کی نیت سے وہاں نماز پڑھنا شروع کی۔ غور کیجئے نماز ہی پڑھتے تھے کوئی غیرشرعی کام بھی نہیں کرتے تھے۔
اس کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ درخت کٹوا دیا، کہ بعد میں آنے والے لوگ اس درخت کو متبرک و مقدس جان کر یہاں نماز وغیرہ پڑھنے کو افضل نہ جاننے لگ جائیں۔
 
وہ بات سارے فسانے میں جسکا ذکر نہ تھا
وہ بات انکو بہت ناگوار گذری ہے۔۔۔۔

حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے آثار جو مدائن صالح میں ہیں انکو تو سعودی حکومت نے بڑی محبت کے ساتھ محفوظ رکھا ہوا ہے، ورلڈ ہیرٹیج سائٹ ہے اقوام متحدہ کی، ٹوسٹوں کیلئے وزٹ ویزے نکالے جاتے ہیں۔۔لیکن نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے آثار و باقیات کا نام آئے تو شرک کا ماتھا ٹھنکنے لگتا ہے۔۔۔
 

حسینی

محفلین
اپنی اپنی سمجھ ہے۔
قبروں کو اسلام نے پسند کیا ہوتا تو دور صحابہ سے ہی قبروں کی تزئین و آرائش ، ان کو پختہ کرنا، مزارات وغیرہ کا سلسلہ بھی اسی دور میں شروع کر دیا گیا ہوتا۔ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو باقاعدہ مشن دے کر اونچی قبروں کو برابر کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس وقت تو شاید کسی مسلمان کو اذیت نہیں ہوئی تھی، حالانکہ ان کے اپنے آباء و اجداد کی قبریں بھی مسمار ہوئی ہوں گی۔

شاید آپ کے علم میں ہو کہ پچھلی صدی میں صرف جنت البقیع میں مسمار ہونے والی صحابہ کی قبروں کی تعداد کتنی ہے؟؟ یہ قبریں عصر صحابہ سے چلی آرہی تھیں۔۔ اور ان پر گنبد بھی تھے۔
جن میں سید الشہداء حضرت حمزہ اور حضرت ام المومنین خدیجہ کبری کی قبریں بھی تھیں۔۔۔ اور ان کے علاوہ حضرت امام حسن، امام زین العابدین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہم السلام کی قبریں بھی تھیں۔۔
اگر مولائے متقیان کو قبریں مسمار کرنے کا حکم دیا ہوا ہوتا۔۔ تو یہ قبریں اب تک کیسے تھیں؟؟
ان قبروں کو تو خود رسول خدا نے بھی دیکھا۔۔ اور مولا علی نے بھی۔۔۔ لیکن مسمار کرنے کی جرات صرف آل سعود کو ہوئی۔
ان محترم حضرات کی قبریں بنانا تو حرام ہے۔۔۔ لیکن ان باتیں کرنے والوں کے اپنے بزرگوں کی قبریں اگر دیکٰھیں تو۔۔۔ تضاد واضح ہے۔
 

عمار عامر

محفلین
۔
شاید آپ کے علم میں ہو کہ پچھلی صدی میں صرف جنت البقیع میں مسمار ہونے والی صحابہ کی قبروں کی تعداد کتنی ہے؟؟ یہ قبریں عصر صحابہ سے چلی آرہی تھیں۔۔ اور ان پر گنبد بھی تھے۔
جن میں سید الشہداء حضرت حمزہ اور حضرت ام المومنین خدیجہ کبری کی قبریں بھی تھیں۔۔۔ اور ان کے علاوہ حضرت امام حسن، امام زین العابدین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہم السلام کی قبریں بھی تھیں۔۔
اگر مولائے متقیان کو قبریں مسمار کرنے کا حکم دیا ہوا ہوتا۔۔ تو یہ قبریں اب تک کیسے تھیں؟؟
ان قبروں کو تو خود رسول خدا نے بھی دیکھا۔۔ اور مولا علی نے بھی۔۔۔ لیکن مسمار کرنے کی جرات صرف آل سعود کو ہوئی۔
ان محترم حضرات کی قبریں بنانا تو حرام ہے۔۔۔ لیکن ان باتیں کرنے والوں کے اپنے بزرگوں کی قبریں اگر دیکٰھیں تو۔۔۔ تضاد واضح ہے۔
قبریں تو واقعی دور صحابہ سے چلی آ رہی ہیں۔ لیکن ان پر گنبد نہیں تھے۔ نہ یہ پختہ تھیں۔ آپ کے پاس کوئی ثبوت ہو تو پیش فرمائیے۔
یہ تو بہت بعد میں ان قبروں کی تزئین و آرائش کا کام کیا گیا ہے جو یقیناشرعی نقطہ نظر سے درست نہیں تھا۔
 
جبلِ بوقبیس پر بنی مسجدِ ہلال سے تو شائد اسلام کو بہت خطرہ تھا لیکن اسکو مسمار کرکے اس پر کنگ خالد کا محل بنانے سے اسلام نے بہت ترقی کی۔۔
مکہ میں بیت اللہ کے بعد افضل ترین مقام یعنی محلہ بنی ہاشم میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ کا وہ مکان جس میں زمانہ نبوت کے ابتدائی 13 سال تک رسول پاک مقیم رہے، اسکے باقی رکھنے سے شائد اسلام کے نیست و نابود ہوجانے کا خطرہ تھا۔۔لیک اس پورے محلے کو مسمار کرکے اسکی جگہ پر حاجیوں کیلئے بیت الخلا بنوانے سے شائد اسلام کی بری خدمت ہوئی۔۔۔ یا پھر شائد حاجیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر یہ سب کچھ توسیع کی زد میں آگیا۔۔لیکن خدا جانے کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا کنگ خالد کا محل جو بالکل اسکے ساتھ متصل تھا ، توسیع وہاں تک کیوں نہیں ہوسکی۔۔۔اس میں بھی کوئی حکمت ہوگی
 

حسینی

محفلین
۔

قبریں تو واقعی دور صحابہ سے چلی آ رہی ہیں۔ لیکن ان پر گنبد نہیں تھے۔ نہ یہ پختہ تھیں۔ آپ کے پاس کوئی ثبوت ہو تو پیش فرمائیے۔
یہ تو بہت بعد میں ان قبروں کی تزئین و آرائش کا کام کیا گیا ہے جو یقیناشرعی نقطہ نظر سے درست نہیں تھا۔

تزئین ہر دور اور زمانے کے لحاظ سے تبدیل ہوتی ہے۔۔ ہم تزیین کی بات نہیں کر رہے۔۔ خود قبروں کو بلڈوز کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
قبروں کو برابر کرنے کا حکم اگر تھا بھی تو۔۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہ تھا کہ زمین کے برابر کر دیا جائے۔۔ کہیں بھی سویھا بالارض یا مع الارض وغیر ہ کی لفظیں نہیں ہیں۔
بلکہ ان کو برابر کرنے کا مطلب یہ تھا کہ اونٹ کے کوہان کی طرح نہ بنایا جائے۔
بہرحال ثابت ہوگیا کہ اصلی "مسلمان" صرف پچھلی صدی میں پیدا ہوئے تھے۔۔۔ ان سے پہلے عہد صحابہ تک سارے مسلمان بدعتی تھے۔۔ اور اسلام کو سمجھ نہ پائے تھے۔
 
آخری تدوین:
اوپر مقام حدیبیہ میں موجود ایک درخت کی روایت کا ذکر کیا گیا ہے۔
وروی محمد بن وضاح وغیرہ ان عمر بن الخطاب امر بقطع الشجرۃ التی بویع تحتہا النبی بیعۃ الرضوان لان الناس کانوا یذہبون تحتہا فخاف عمر الفتنۃ علیہم-(- اقتضاء الصراط المستقیم:ج۱ ص ۳۸۶۔مطبعۃ السنۃ المحمدیہ القاہرہ)
محمد بن وضاح وغیرہ نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے اس درخت کو کاٹنے کا حکم فرمایاجس کے نیچے حضور اکرم ﷺ نے بیعت رضوان لی تھی ،اس لیے کہ لوگ اس کے نیچے جایا کرتے تھے تو حضرت عمر کو ان کے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہوا-
میں نے اس روایت کے بارے میں گوگل کیا تو ایک تحقیقی مضمون ملا جو یقیناً فائدہ مند ہے۔ اور ثابت کرتا ہے کہ مندرجہ بالا روایت درست نہیں۔
علامہ اسید الحق قادری بدایونی کی کتاب تحقیق و تفہیم سے ایک مضمون

حدیبیہ کے مقام پر سرور کائنات ﷺنے اپنے جاں نثار صحابہ سے جہاد پر بیعت لی،بیعت لینے کا یہ واقعہ جس وقت پیش آیا اس وقت آپ ﷺ ایک درخت کے نیچے تشریف فرما تھے،بیعت رضوان کا یہ واقعہ تاریخ اسلام میں بڑی اہمیت رکھتا ہے، اس لیے جس درخت کے نیچے یہ واقعہ رونما ہوا اس کو بھی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگئی،خود قرآن کریم نے اس درخت کا تذکرہ کر کے اس کے ذکر کو زندۂ جاوید کردیا،ارشاد ربانی ہے:لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ (الفتح ۱۸)ترجمہ:یقینا راضی ہوگیا اللہ تعالٰی مومنین سے جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے-روایات میں اس درخت کا نام ’’سمرہ‘‘ بتایا گیا ہے جس کا ترجمہ اردو مترجمین نے ’’کیکر کا درخت ‘‘کیا ہے-

اس درخت کے بارے میں ایک روایت یہ مشہور ہے کہ بعض لوگ اس سے برکت حاصل کر نے کے لیے اس کے پاس نماز پڑھنے لگے، جب یہ خبر امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ تک پہنچی تو آپ نے ان لوگوں کو سرزنش فرمائی اور اس درخت کو کٹوانے کا حکم فرمایا لہٰذا آپ کے حکم سے وہ درخت کاٹ دیا گیا،انبیاو صالحین کے آثار وتبرکات سے برکت حاصل کرنے کے سلسلہ میں جب بھی بحث ہوتی ہے تو ایک مخصوص طبقہ اس روایت کو بڑی شدومد سے پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کو شش کرتا ہے کہ اگر انبیا کے آثار سے برکت حاصل کرنے کی شریعت میں ذرا بھی گنجائش ہوتی تو حضرت عمر اس مبارک درخت کو ہرگز نہ کٹواتے،تبرک بالآثار کے رد میں سب سے پہلے حافظ ابن تیمیہ نے اس روایت کو بطور دلیل پیش کیا، لکھتے ہیں :
وروی محمد بن وضاح وغیرہ ان عمر بن الخطاب امر بقطع الشجرۃ التی بویع تحتہا النبی بیعۃ الرضوان لان الناس کانوا یذہبون تحتہا فخاف عمر الفتنۃ علیہم-(۱)

محمد بن وضاح وغیرہ نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے اس درخت کو کاٹنے کا حکم فرمایاجس کے نیچے حضور اکرم ﷺ نے بیعت رضوان لی تھی ،اس لیے کہ لوگ اس کے نیچے جایا کرتے تھے تو حضرت عمر کو ان کے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہوا-حافظ ابن تیمیہ کے معتقدین و متبعین بغیر تحقیق کے محض ان کی ’’تقلید ‘‘ میں اس روایت کو آج تک بطور دلیل پیش کرتے چلے آرہے ہیں لیکن ہمیں اس روایت پر چند وجوہ سے تأمل ہے-

صحاح ستہ سمیت حدیث کی اکثر مشہورومعتبر کتب میں اس روایت کا کہیں نام و نشان نہیں ہے بلکہ یہ روایت صحیحین کی روایت کے معارض بھی ہے(جس کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے)،یہ روایت صرف دو کتابوں میں موجود ہے ایک طبقات ابن سعد دوسرے مصنف ابن ابی شیبہ (۲)

ان دونوں حضرات نے اس کو نافع مولی ابن عمر سے بطریق ابن عون روایت کیا ہے،یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب سے نافع مولی ابن عمر کی ملاقات اور سماع دونوں ثابت نہیں ہیںلہذا نافع اگر کسی درمیانی واسطے کے بغیر براہ راست حضرت عمر سے روایت کریں تو اصطلاح میں ایسی روایت کو ’’منقطع ‘‘کہا جائے گا،دوسری بات یہ کہ حافظ ابن تیمیہ نے محمد بن وضاح کی جس روایت کا حوالہ دیا ہے ہمیں نہیں معلوم کہ وہ روایت کس کتاب میں ہے اور اس کی سند کیا ہے، البتہ جہاں تک خود محمد بن وضاح کا سوال ہے تو ان کے بارے میں حافظ ابن حجر اور امام ذہبی نے حافظ ابن الفرضی کا یہ قول نقل کیا ہے :
قال ابن الفرضی لہ اخطاء کثیرہ واشیاء یصحفہا وکان لا علم لہ بالفقہ ولا بالعربیہ-(۳)
محمد بن وضاح کے بارے میں ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ:
انہ کان یکثر الرد للحدیث فیقول لیس ہذا من کلام النبی ﷺ وہو ثابت من کلامہ (۴)

اگرچہ حافظ ابن حجر اور امام ذہبی نے ابن وضاح کو ’’صدوق ‘‘ کہا ہے مگر ساتھ ہی ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ابن معین کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ابن معین امام شافعی کو ’’ثقہ‘‘ نہیں مانتے،حالانکہ ابن معین کا دامن اس الزام سے پاک ہے، شاید اسی لیے حافظ ابن عبد البر نے فرمایا:ابن و ضاح لیس بثقۃ (۵) ابن وضاح ثقہ نہیں ہیں-

اب ہم بخاری و مسلم کی ان روایات کی طرف توجہ کرتے ہیںجو اس مشہور روایت کے معارض ہیں،امام بخاری طارق بن عبدا لرحمٰن سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے ارشاد فرمایا:
’’میں حج کے لیے نکلا،تو میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جونمازپڑھ رہے تھے ،میں نے پوچھا کہ یہ کیسی مسجد ہے؟انہوںنے کہا یہ وہ درخت ہے جہاں رسول اکرمﷺ نے بیعت رضوان لی تھی،پھر میں سعید بن مسیب کے پاس آیا اور ان کو پورا واقعہ سنایا تو سعید نے فرمایا :مجھ سے میرے والد نے فرمایا کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا، جنہوںنے درخت کے نیچے رسول اکرم ﷺ سے بیعت کی تھی، پھر جب اگلے سال ہم وہاں گئے تو وہ درخت ہمیں فراموش ہوگیاکہ کون سا تھاہم اس کو پہچاننے میں کامیاب نہ ہوسکے،پھر سعید نے (طارق بن عبد الرحمان سے) کہا کہ حضور ﷺ کے اصحاب تو اس درخت (کی جگہ)کو نہیں جان سکے ا ور تم نے اس کو جان لیا،تو تم ان سے زیادہ جاننے والے ہوئے-(۶)

امام بخاری سعید بن مسیب ہی سے بطریق قتادہ روایت فرماتے ہیں:
سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ میرے والد نے کہا کہ میں نے بیعت رضوان والے درخت کو دیکھا تھاپھر اس کے بعد میں وہاں گیا تو اس کو نہیں پہچان سکا- (۷)
امام بخاری اس روایت کو ایک دوسرے طریقہ سے بیان فرماتے ہیں:
سعید بن مسیب کے والد نے فرمایا کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جن لوگوں نے اس درخت کے نیچے بیعت کی تھی پھر اگلے سال ہم وہاں گئے تو وہ درخت ہمیں نہیں ملا- (۸)
اس روایت کو امام مسلم نے بھی صحیح مسلم میں تین مختلف طرق سے بیان کیا ہے(۹)
طبقات ابن سعد اور مصنف ابن ابی شیبہ جن میں درخت کٹوانے والی روایت ہے ان میں بھی حضرت سعید بن مسیب کی مذکورہ روایت موجو د ہے،بلکہ طبقات ابن سعد میں نافع مولی ابن عمر سے ایک روایت یہ بھی ذکر کی گئی ہے:
اخبرنا علی بن محمد عن جویریۃ بن اسماء عن نافع قال خرج قوم من اصحاب رسول اللّٰہﷺ بعد ذلک باعوام فما عرف احد منہم الشجرۃواختلفوا فیہاقال ابن عمرکانت رحمۃ من اللّٰہ(۱۰)

ہمیں علی بن محمد نے خبر دی، وہ جویریہ سے روایت کرتے ہیںوہ نافع سے روایت کرتے ہیں کہ نافع نے کہا رسول اللہﷺ کے صحابہ میں سے ایک جماعت (اس واقعہ کے)کچھ سال بعد وہاں گئی تو ان میں سے کوئی بھی اس درخت کو نہیں پہچان سکا، اس درخت کے محل وقوع کو لے کر ان کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہواتو ابن عمر نے فرمایا کہ وہ درخت اللہ کی طرف سے رحمت تھا -

ضیاء الامت پیر کرم شاہ ازہری نے تاریخ الخمیس کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں خود حضرت عمر بن الخطاب کے حوالے سے درخت کو نہ پہچاننے کی بات کی گئی ہے، روایت یہ ہے:
ان عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ مر بذلک المقام بعد ذہاب الشجرۃفقال این کانت فجعل بعضہم یقول ہہنا وبعضہم یقول ہہنافلما کثر اختلافہ قال سیروا فقد ذہبت الشجرۃ(۱۱)

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ درخت کے غائب ہونے کے بعد وہاں سے گزرے،آپ نے پوچھاوہ درخت کس جگہ تھا؟کسی نے کہا اس جگہ تھا کسی نے کہا اس جگہ تھاجب اس درخت کی جگہ کے بارے میں لوگوں کا اختلاف بڑھا تو آپ نے فرمایا کہ آگے چلو وہ درخت غائب کر دیا گیا -

تاریخ الخمیس پیش نظر نہیں ہے، اس لیے اس روایت کی صحت و ضعف کے سلسلہ میں میں کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتا-بہر حال بخاری ،مسلم،طبقات ابن سعد اور تاریخ الخمیس وغیرہ کی مذکورہ روایتوں کی روشنی میں چند باتیں سامنے آتی ہیں:
( ۱) بیعت رضوان کے اگلے سال حضرت مسیب نے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ اس درخت کو تلاش کرنا چاہا مگران کو وہ درخت نہیں مل سکا -
(۲) کچھ سال بعد ایسا ہی واقعہ حضرت عمرکی معیت میں چند صحابہ کے ساتھ بھی پیش آیا-
(۳) پھر کچھ سال بعد ایسا ہی واقعہ حضرت ابن عمر اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ بھی پیش آیا-
(۴) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اس قسم کے متبرک مقامات کی تلاش میں رہا کرتے تھا-
(۵) بخاری شریف کی پہلی روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی دوسرے درخت کو لوگوں نے غلطی سے بیعت رضوان والا درخت سمجھ لیا تھااور وہاں آکر نمازیں پڑھا کرتے تھے-

ان نکات سے یقینی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جب ایک سال بعد ہی اس درخت کا محل وقوع اختلاف رائے کا شکار ہو گیا تھا اورایک روایت کے مطابق وہ کسی مصلحت خداوندی کے تحت نظروں سے اوجھل کر دیا گیا تھا تو خلافت فاروقی میں اس کو کٹوانے والی بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے؟ طبقات ابن سعد اور مصنف ابن ابی شیبہ والی روایت جس میں درخت کٹوانے کی نسبت حضرت عمر کی طرف کی گئی ہے وہ منقطع ہونے کے علاوہ صحیحین کی روایت سے معارض بھی ہے اس لیے ہمیں یہ تسلیم ہی نہیں کہ حضرت عمر نے بیعت رضوان والا درخت کاٹنے کا حکم دیا تھا اور اگر بر سبیل تنزل ابن سعد کی روایت تسلیم کر لی جائے تو پھر بخاری شریف کی روایت کی روشنی میں یہ کہا جائے گا کہ لوگوں نے کسی دوسرے درخت کو غلطی سے بیعت رضوان والا درخت گمان کرلیا تھااس لیے حضرت عمر نے اس کو کاٹنے کا حکم دیا تاکہ نقلی درخت کو لوگ اصلی نہ سمجھنے لگیں -اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ درخت کو کیوں لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ اور مخفی کردیا گیا ؟اس کا جواب صرف یہی ہے کہ اس کی حکمت اور مصلحت کا صحیح علم اسی ذات کے پاس ہے جس نے اس کو پوشیدہ فرمایا یعنی اللہ تبارک و تعالٰی،البتہ شارح مسلم امام النووی نے اس کی یہ حکمت تحریر فرمائی ہے:
قال العلماء سبب خفائہا ان لا یفتتن الناس بہا لما جری تحتہا من الخیر ونزول الرضوان والسکینہ وغیرہ ذلک ظاہرۃ معلومۃ لخیف تعظیم الاعراب والجہال ایاہا لہا فکان خفائہا رحمۃ من اللہ تعالٰی(۱۲)

علما نے فرمایا ہے کہ اس کے مخفی ہونے میں حکمت یہ تھی کہ لوگ اس کی وجہ سے فتنہ میں نہ پڑجائیں کیوں کہ اس کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی اور سکینہ نازل ہوا تھا،یہ بات ظاہر اور معلوم تھی اندیشہ ہوا کہ دیہاتی اور ناواقف لوگ اس کی تعظیم کریں گے پس اس کا مخفی ہونا بھی اللہ کی رحمت تھا-

امام نووی کی جلالت علمی کے سامنے میری حیثیت ’’صفر محض‘‘ سے بھی کم ہے اس کے باوجود میری ناقص فہم میں یہ بات نہیں آئی کہ اگر درخت کے مخفی ہونے کی یہی حکمت ہے (یعنی جہال کی تعظیم کا اندیشہ)تو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں صرف یہی ایک درخت نہیں تھا جہاں یہ اندیشہ ہو بلکہ غار حرا سے لے کر منبر رسول اور قبر اطہر تک بے شمار ایسے متبرک اور مقدس مقامات موجود تھے جہاں مذکورہ اندیشہ ہو سکتا تھا تو پھر آخر وہ سارے مقامات کیوں نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئے؟
(جامِ نور دسمبر ۲۰۰۵ئ)
م۔۔۔۔راج۔۔۔۔ع
۱- اقتضاء الصراط المستقیم:ج۱ ص ۳۸۶۔مطبعۃ السنۃ المحمدیہ القاہرہ
۲- الطبقات الکبری لابن سعد:ج۲ ص۱۰۰۔دار صادر بیروت (سن ندارد)و مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص۱۵۰مکتبۃ الرشد ریاض ۱۴۰۹ھ
۳و ۴-لسان المیزان ج۵ ص۴۱۶مؤسسۃالاعلمی للمطبوعات بیروت ۱۴۰۶ھ ومیزان الاعتدال فی نقد الرجال ج۶ص۳۶۰ دارالکتب العلمیہ بیروت الطبعۃ الا ولی ۱۹۹۵ء
۵- الرواۃ الثقات للذہبی ص۹:دار البشائر الاسلامیہ بیروت الطبعۃ الاولی(سن ندارد)
۶،۷، ۸- صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الحدیبیہ)
۹- صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب استحباب مبایعۃالامام الجیش عند ارادۃ القتل وبیان بیعۃ الرضوان تحت الشجرہ)
۱۰- طبقات ابن سعد:ج۲ ص۱۰۵ ،دارصادر بیروت
۱۱- ضیاء النبی ج۴ ص۱۶۵ ،اسلامک پبلشر دہلی (سن ندارد)
۱۲- شرح مسلم لنووی:ج۱۳ص۵، دار احیا ء التراث العربی بیروت،الطبعۃ الثانیہ۱۳۹۲
 

حسینی

محفلین
اوپر مقام حدیبیہ میں موجود ایک درخت کی روایت کا ذکر کیا گیا ہے۔

میں نے اس روایت کے بارے میں گوگل کیا تو ایک تحقیقی مضمون ملا جو یقیناً فائدہ مند ہے۔ اور ثابت کرتا ہے کہ مندرجہ بالا روایت درست نہیں۔
علامہ اسید الحق قادری بدایونی کی کتاب تحقیق و تفہیم سے ایک مضمون

حدیبیہ کے مقام پر سرور کائنات ﷺنے اپنے جاں نثار صحابہ سے جہاد پر بیعت لی،بیعت لینے کا یہ واقعہ جس وقت پیش آیا اس وقت آپ ﷺ ایک درخت کے نیچے تشریف فرما تھے،بیعت رضوان کا یہ واقعہ تاریخ اسلام میں بڑی اہمیت رکھتا ہے، اس لیے جس درخت کے نیچے یہ واقعہ رونما ہوا اس کو بھی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگئی،خود قرآن کریم نے اس درخت کا تذکرہ کر کے اس کے ذکر کو زندۂ جاوید کردیا،ارشاد ربانی ہے:لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ (الفتح ۱۸)ترجمہ:یقینا راضی ہوگیا اللہ تعالٰی مومنین سے جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے-روایات میں اس درخت کا نام ’’سمرہ‘‘ بتایا گیا ہے جس کا ترجمہ اردو مترجمین نے ’’کیکر کا درخت ‘‘کیا ہے-

اس درخت کے بارے میں ایک روایت یہ مشہور ہے کہ بعض لوگ اس سے برکت حاصل کر نے کے لیے اس کے پاس نماز پڑھنے لگے، جب یہ خبر امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ تک پہنچی تو آپ نے ان لوگوں کو سرزنش فرمائی اور اس درخت کو کٹوانے کا حکم فرمایا لہٰذا آپ کے حکم سے وہ درخت کاٹ دیا گیا،انبیاو صالحین کے آثار وتبرکات سے برکت حاصل کرنے کے سلسلہ میں جب بھی بحث ہوتی ہے تو ایک مخصوص طبقہ اس روایت کو بڑی شدومد سے پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کو شش کرتا ہے کہ اگر انبیا کے آثار سے برکت حاصل کرنے کی شریعت میں ذرا بھی گنجائش ہوتی تو حضرت عمر اس مبارک درخت کو ہرگز نہ کٹواتے،تبرک بالآثار کے رد میں سب سے پہلے حافظ ابن تیمیہ نے اس روایت کو بطور دلیل پیش کیا، لکھتے ہیں :
وروی محمد بن وضاح وغیرہ ان عمر بن الخطاب امر بقطع الشجرۃ التی بویع تحتہا النبی بیعۃ الرضوان لان الناس کانوا یذہبون تحتہا فخاف عمر الفتنۃ علیہم-(۱)

محمد بن وضاح وغیرہ نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے اس درخت کو کاٹنے کا حکم فرمایاجس کے نیچے حضور اکرم ﷺ نے بیعت رضوان لی تھی ،اس لیے کہ لوگ اس کے نیچے جایا کرتے تھے تو حضرت عمر کو ان کے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہوا-حافظ ابن تیمیہ کے معتقدین و متبعین بغیر تحقیق کے محض ان کی ’’تقلید ‘‘ میں اس روایت کو آج تک بطور دلیل پیش کرتے چلے آرہے ہیں لیکن ہمیں اس روایت پر چند وجوہ سے تأمل ہے-

صحاح ستہ سمیت حدیث کی اکثر مشہورومعتبر کتب میں اس روایت کا کہیں نام و نشان نہیں ہے بلکہ یہ روایت صحیحین کی روایت کے معارض بھی ہے(جس کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے)،یہ روایت صرف دو کتابوں میں موجود ہے ایک طبقات ابن سعد دوسرے مصنف ابن ابی شیبہ (۲)

ان دونوں حضرات نے اس کو نافع مولی ابن عمر سے بطریق ابن عون روایت کیا ہے،یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب سے نافع مولی ابن عمر کی ملاقات اور سماع دونوں ثابت نہیں ہیںلہذا نافع اگر کسی درمیانی واسطے کے بغیر براہ راست حضرت عمر سے روایت کریں تو اصطلاح میں ایسی روایت کو ’’منقطع ‘‘کہا جائے گا،دوسری بات یہ کہ حافظ ابن تیمیہ نے محمد بن وضاح کی جس روایت کا حوالہ دیا ہے ہمیں نہیں معلوم کہ وہ روایت کس کتاب میں ہے اور اس کی سند کیا ہے، البتہ جہاں تک خود محمد بن وضاح کا سوال ہے تو ان کے بارے میں حافظ ابن حجر اور امام ذہبی نے حافظ ابن الفرضی کا یہ قول نقل کیا ہے :
قال ابن الفرضی لہ اخطاء کثیرہ واشیاء یصحفہا وکان لا علم لہ بالفقہ ولا بالعربیہ-(۳)
محمد بن وضاح کے بارے میں ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ:
انہ کان یکثر الرد للحدیث فیقول لیس ہذا من کلام النبی ﷺ وہو ثابت من کلامہ (۴)

اگرچہ حافظ ابن حجر اور امام ذہبی نے ابن وضاح کو ’’صدوق ‘‘ کہا ہے مگر ساتھ ہی ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ابن معین کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ابن معین امام شافعی کو ’’ثقہ‘‘ نہیں مانتے،حالانکہ ابن معین کا دامن اس الزام سے پاک ہے، شاید اسی لیے حافظ ابن عبد البر نے فرمایا:ابن و ضاح لیس بثقۃ (۵) ابن وضاح ثقہ نہیں ہیں-

اب ہم بخاری و مسلم کی ان روایات کی طرف توجہ کرتے ہیںجو اس مشہور روایت کے معارض ہیں،امام بخاری طارق بن عبدا لرحمٰن سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے ارشاد فرمایا:
’’میں حج کے لیے نکلا،تو میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جونمازپڑھ رہے تھے ،میں نے پوچھا کہ یہ کیسی مسجد ہے؟انہوںنے کہا یہ وہ درخت ہے جہاں رسول اکرمﷺ نے بیعت رضوان لی تھی،پھر میں سعید بن مسیب کے پاس آیا اور ان کو پورا واقعہ سنایا تو سعید نے فرمایا :مجھ سے میرے والد نے فرمایا کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا، جنہوںنے درخت کے نیچے رسول اکرم ﷺ سے بیعت کی تھی، پھر جب اگلے سال ہم وہاں گئے تو وہ درخت ہمیں فراموش ہوگیاکہ کون سا تھاہم اس کو پہچاننے میں کامیاب نہ ہوسکے،پھر سعید نے (طارق بن عبد الرحمان سے) کہا کہ حضور ﷺ کے اصحاب تو اس درخت (کی جگہ)کو نہیں جان سکے ا ور تم نے اس کو جان لیا،تو تم ان سے زیادہ جاننے والے ہوئے-(۶)

امام بخاری سعید بن مسیب ہی سے بطریق قتادہ روایت فرماتے ہیں:
سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ میرے والد نے کہا کہ میں نے بیعت رضوان والے درخت کو دیکھا تھاپھر اس کے بعد میں وہاں گیا تو اس کو نہیں پہچان سکا- (۷)
امام بخاری اس روایت کو ایک دوسرے طریقہ سے بیان فرماتے ہیں:
سعید بن مسیب کے والد نے فرمایا کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جن لوگوں نے اس درخت کے نیچے بیعت کی تھی پھر اگلے سال ہم وہاں گئے تو وہ درخت ہمیں نہیں ملا- (۸)
اس روایت کو امام مسلم نے بھی صحیح مسلم میں تین مختلف طرق سے بیان کیا ہے(۹)
طبقات ابن سعد اور مصنف ابن ابی شیبہ جن میں درخت کٹوانے والی روایت ہے ان میں بھی حضرت سعید بن مسیب کی مذکورہ روایت موجو د ہے،بلکہ طبقات ابن سعد میں نافع مولی ابن عمر سے ایک روایت یہ بھی ذکر کی گئی ہے:
اخبرنا علی بن محمد عن جویریۃ بن اسماء عن نافع قال خرج قوم من اصحاب رسول اللّٰہﷺ بعد ذلک باعوام فما عرف احد منہم الشجرۃواختلفوا فیہاقال ابن عمرکانت رحمۃ من اللّٰہ(۱۰)

ہمیں علی بن محمد نے خبر دی، وہ جویریہ سے روایت کرتے ہیںوہ نافع سے روایت کرتے ہیں کہ نافع نے کہا رسول اللہﷺ کے صحابہ میں سے ایک جماعت (اس واقعہ کے)کچھ سال بعد وہاں گئی تو ان میں سے کوئی بھی اس درخت کو نہیں پہچان سکا، اس درخت کے محل وقوع کو لے کر ان کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہواتو ابن عمر نے فرمایا کہ وہ درخت اللہ کی طرف سے رحمت تھا -

ضیاء الامت پیر کرم شاہ ازہری نے تاریخ الخمیس کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں خود حضرت عمر بن الخطاب کے حوالے سے درخت کو نہ پہچاننے کی بات کی گئی ہے، روایت یہ ہے:
ان عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ مر بذلک المقام بعد ذہاب الشجرۃفقال این کانت فجعل بعضہم یقول ہہنا وبعضہم یقول ہہنافلما کثر اختلافہ قال سیروا فقد ذہبت الشجرۃ(۱۱)

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ درخت کے غائب ہونے کے بعد وہاں سے گزرے،آپ نے پوچھاوہ درخت کس جگہ تھا؟کسی نے کہا اس جگہ تھا کسی نے کہا اس جگہ تھاجب اس درخت کی جگہ کے بارے میں لوگوں کا اختلاف بڑھا تو آپ نے فرمایا کہ آگے چلو وہ درخت غائب کر دیا گیا -

تاریخ الخمیس پیش نظر نہیں ہے، اس لیے اس روایت کی صحت و ضعف کے سلسلہ میں میں کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتا-بہر حال بخاری ،مسلم،طبقات ابن سعد اور تاریخ الخمیس وغیرہ کی مذکورہ روایتوں کی روشنی میں چند باتیں سامنے آتی ہیں:
( ۱) بیعت رضوان کے اگلے سال حضرت مسیب نے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ اس درخت کو تلاش کرنا چاہا مگران کو وہ درخت نہیں مل سکا -
(۲) کچھ سال بعد ایسا ہی واقعہ حضرت عمرکی معیت میں چند صحابہ کے ساتھ بھی پیش آیا-
(۳) پھر کچھ سال بعد ایسا ہی واقعہ حضرت ابن عمر اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ بھی پیش آیا-
(۴) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اس قسم کے متبرک مقامات کی تلاش میں رہا کرتے تھا-
(۵) بخاری شریف کی پہلی روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی دوسرے درخت کو لوگوں نے غلطی سے بیعت رضوان والا درخت سمجھ لیا تھااور وہاں آکر نمازیں پڑھا کرتے تھے-

ان نکات سے یقینی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جب ایک سال بعد ہی اس درخت کا محل وقوع اختلاف رائے کا شکار ہو گیا تھا اورایک روایت کے مطابق وہ کسی مصلحت خداوندی کے تحت نظروں سے اوجھل کر دیا گیا تھا تو خلافت فاروقی میں اس کو کٹوانے والی بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے؟ طبقات ابن سعد اور مصنف ابن ابی شیبہ والی روایت جس میں درخت کٹوانے کی نسبت حضرت عمر کی طرف کی گئی ہے وہ منقطع ہونے کے علاوہ صحیحین کی روایت سے معارض بھی ہے اس لیے ہمیں یہ تسلیم ہی نہیں کہ حضرت عمر نے بیعت رضوان والا درخت کاٹنے کا حکم دیا تھا اور اگر بر سبیل تنزل ابن سعد کی روایت تسلیم کر لی جائے تو پھر بخاری شریف کی روایت کی روشنی میں یہ کہا جائے گا کہ لوگوں نے کسی دوسرے درخت کو غلطی سے بیعت رضوان والا درخت گمان کرلیا تھااس لیے حضرت عمر نے اس کو کاٹنے کا حکم دیا تاکہ نقلی درخت کو لوگ اصلی نہ سمجھنے لگیں -اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ درخت کو کیوں لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ اور مخفی کردیا گیا ؟اس کا جواب صرف یہی ہے کہ اس کی حکمت اور مصلحت کا صحیح علم اسی ذات کے پاس ہے جس نے اس کو پوشیدہ فرمایا یعنی اللہ تبارک و تعالٰی،البتہ شارح مسلم امام النووی نے اس کی یہ حکمت تحریر فرمائی ہے:
قال العلماء سبب خفائہا ان لا یفتتن الناس بہا لما جری تحتہا من الخیر ونزول الرضوان والسکینہ وغیرہ ذلک ظاہرۃ معلومۃ لخیف تعظیم الاعراب والجہال ایاہا لہا فکان خفائہا رحمۃ من اللہ تعالٰی(۱۲)

علما نے فرمایا ہے کہ اس کے مخفی ہونے میں حکمت یہ تھی کہ لوگ اس کی وجہ سے فتنہ میں نہ پڑجائیں کیوں کہ اس کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی اور سکینہ نازل ہوا تھا،یہ بات ظاہر اور معلوم تھی اندیشہ ہوا کہ دیہاتی اور ناواقف لوگ اس کی تعظیم کریں گے پس اس کا مخفی ہونا بھی اللہ کی رحمت تھا-

امام نووی کی جلالت علمی کے سامنے میری حیثیت ’’صفر محض‘‘ سے بھی کم ہے اس کے باوجود میری ناقص فہم میں یہ بات نہیں آئی کہ اگر درخت کے مخفی ہونے کی یہی حکمت ہے (یعنی جہال کی تعظیم کا اندیشہ)تو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں صرف یہی ایک درخت نہیں تھا جہاں یہ اندیشہ ہو بلکہ غار حرا سے لے کر منبر رسول اور قبر اطہر تک بے شمار ایسے متبرک اور مقدس مقامات موجود تھے جہاں مذکورہ اندیشہ ہو سکتا تھا تو پھر آخر وہ سارے مقامات کیوں نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئے؟
(جامِ نور دسمبر ۲۰۰۵ئ)
م۔۔۔۔راج۔۔۔۔ع
۱- اقتضاء الصراط المستقیم:ج۱ ص ۳۸۶۔مطبعۃ السنۃ المحمدیہ القاہرہ
۲- الطبقات الکبری لابن سعد:ج۲ ص۱۰۰۔دار صادر بیروت (سن ندارد)و مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص۱۵۰مکتبۃ الرشد ریاض ۱۴۰۹ھ
۳و ۴-لسان المیزان ج۵ ص۴۱۶مؤسسۃالاعلمی للمطبوعات بیروت ۱۴۰۶ھ ومیزان الاعتدال فی نقد الرجال ج۶ص۳۶۰ دارالکتب العلمیہ بیروت الطبعۃ الا ولی ۱۹۹۵ء
۵- الرواۃ الثقات للذہبی ص۹:دار البشائر الاسلامیہ بیروت الطبعۃ الاولی(سن ندارد)
۶،۷، ۸- صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الحدیبیہ)
۹- صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب استحباب مبایعۃالامام الجیش عند ارادۃ القتل وبیان بیعۃ الرضوان تحت الشجرہ)
۱۰- طبقات ابن سعد:ج۲ ص۱۰۵ ،دارصادر بیروت
۱۱- ضیاء النبی ج۴ ص۱۶۵ ،اسلامک پبلشر دہلی (سن ندارد)
۱۲- شرح مسلم لنووی:ج۱۳ص۵، دار احیا ء التراث العربی بیروت،الطبعۃ الثانیہ۱۳۹۲

اب دیکھنا اس کے بھی کوئی تاویل فورا آجائے گی۔۔۔ اور کہا جائے گا نہیں یہ نہیں تھا تو وہ نہیں تھا۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے۔۔ کہ عام طور پر اک فکر پہلے بنا لیتے ہیں۔۔ اور پھر قرآن وحدیث سے شد ومد کے ساتھ اس کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ہم قرآن وحدیث دیکھ کر ہی اپنی فکر اور عقیدہ بنا لیں۔
اللہ ہم سب کو قرآن وحدیث پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 

ساجد

محفلین
ماشاء اللہ ۔ خوب خوب مذہب کی آڑ میں چھپا جا رہا ہے ۔
گو کہ میرے عالم و فاضل دوست میرے پہلے سوالوں کا جواب دینے میں بھی ناکام رہے ہیں پھر بھی مزید استفسار کرتا ہوں کہ ،
غار حرا جو کہ ابھی تک اصلی حالت میں موجود ہے اور جس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کافی وقت گزرا ، اس غار کو کتنے مسلمان سجدہ کرتے ہیں ؟
مسجد قبلتین کی عمارت کو کتنے لوگ سجدہ کرتے ہیں ، حالانکہ وہاں تحویل کعبہ ہوئی ؟
جنت البقیع کو کتنے مسلمان سجدہ کرتے ہیں ؟
جنت المعلی کو کتنے مسلمان سجدہ کرتے ہیں ؟
نبی علیہ صلوۃ والسلام کی قبر مبارک پر کتنے مسلمان ماتھا ٹیکتے ہیں ؟
مسجد الاجابہ کی عمارت کو کتنے لوگ سجدہ کرتے ہیں ؟
اگر یہ سارے متبرکات بغیر شرک کا ارتکاب کئے آج بھی موجود ہیں تو یار لوگ کچھ چیزوں کے بارے میں اندیشہ ہائے دور و دراز کے چکر میں کیوں پڑتے ہیں ؟
مستقبل کا صیغہ یوں استعمال کرتے ہیں جیسا کہ عالم الغیب ہوں اور انہیں پہلے ہی سے پتہ ہو کہ مستقبل میں یہ ہو جائے گا ۔ حاانکہ بالا کی مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ صرف اندیشوں کی بنیاد پر ایسا غلط اقدام قابل مذمت ہے ۔
-------------------
کیا ہے جناب آج کے حالات میں ۔ آئیے میں آپ کو روشنی میں لے چلوں ۔
جیسا کہ میں نے پہلے ہی بتایا کہ ہر مسلک کی طرح بریلوی مسلک میں بھی کم فہم اور غلو کرنے والے لوگ شامل ہیں تو ان کی اصلاح کی جانی چاہئیے اور مجھے اعتراف ہے کہ اس پر مناسب توجہ نہیں دی جا رہی لیکن کیا یہ مسئلہ صرف درباروں اور بریلویوں تک موقوف ہے ؟ ۔
ذرا دماغ پر زور دیجئے کہ اہلسنت والجماعت میں کون ایسے لوگوں کو زبردستی شامل کرنے پر بضد ہے جن پر معصوم عوام کو قتل کرنے کی وجہ سے پابندی لگائی گئی ہے ۔ کیا میرے عالی دماغ دوست نہیں جانتے کہ اگر ہم چند غلط لوگوں کے اقدام پر پورے مسلک کو بدنام کرنے کا مذمتی کام شروع کریں گے تو انہیں اپنی چارپائی کے نیچے بھی جھاڑو پھیرنا ہو گا کہ وہاں کتنا گند بکھر چکا ہے ۔ کیا ان کالعدم تنظیموں کو اہلسنت کا نام دے کر وہ ایسی لاجواب منافقت نہیں کر رہے کہ ایک طرف تو وہ غلط لوگوں کے غلط کام کی وجہ سے پورے مسلک کو بدنام کرنے میں شیر ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف اعلانیہ مجرموں اور قاتلوں کو اپنی صفوں میں اہلسنت کے نام سے شامل کر کے بھی کوئی احساس ندامت انہیں نہیں ہوتا ۔
مجھے آپ کی علمیت اور فصاحت کا اعتراف ہے لیکن جس چیز کی اپ کے پاس کمی ہے وہ ہے دوسروں کی شکل پر تنقید کرنے سے پہلے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنا
------------------------
اور آخر میں یہ بھی بتا دوں کہ وہ کنواں مکے میں ہے لالہ موسی میں نہیں اور مکے کے لوگ ہی اسے دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کر رہے ہیں پاکستانی نہیں ۔ تو پھر کہہ دیجئے کہ مکے کے لوگ بھی بدعتی ہو گئے ہیں ۔۔۔۔ کہئیے کہئیے جناب کون روکتا ہے :)
انا للہ وانا الیہ راجعون
 

آبی ٹوکول

محفلین
وروی محمد بن وضاح وغیرہ ان عمر بن الخطاب امر بقطع الشجرۃ التی بویع تحتہا النبی بیعۃ الرضوان لان الناس کانوا یذہبون تحتہا فخاف عمر الفتنۃ علیہم-(- اقتضاء الصراط المستقیم:ج۱ ص ۳۸۶۔مطبعۃ السنۃ المحمدیہ القاہرہ)
محمد بن وضاح وغیرہ نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے اس درخت کو کاٹنے کا حکم فرمایاجس کے نیچے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت رضوان لی تھی ،اس لیے کہ لوگ اس کے نیچے جایا کرتے تھے تو حضرت عمر کو ان کے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہوا-
اول تو یہ محمد بن وضاح وغیرہ سے جو روایت ہے خود اس روایت میں " وغیرہ " کا لفظ بتا رہا ہے کہ یہ روایت اصول حدیث کے مطابق قابل استدلال نہیں شیخ ابن تیمیہ جو خود روایات کے حق میں بہت متشدد واقع ہوئے ہیں نہ جانے انھوں نے اپنی کتاب " اقتضاء " میں ایسی روایت کو بلاسند کے کس طرح سے محل استدلال میں پیش کیا ہے حالانکہ خود انکی اپنی حالت ایسی ہے کہ وہ اپنی مطلب براری کے لیے صحاح ستہ کی صحیح روایات کو بھی اکثر خاطر میں نہیں لاتے مگر یہاں
ایک " مجہول السند " روایت کو مستدل بتا رہے ہیں فیا للعجب ؟؟؟ دوم یہ روایت علماء و محدثین کی تحقیق کہ مطابق صحیحین کی روایات کے بھی مخالف ہے
کیونکہ امام بخاری طارق بن عبدا لرحمٰن سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے ارشاد فرمایا:
حدثنا محمود حدثنا عبيد الله عن إسرائيل عن طارق بن عبد الرحمن قال انطلقت حاجا فمررت بقوم يصلون قلت ما هذا المسجد قالوا هذه الشجرة حيث بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم بيعة الرضوان فأتيت سعيد بن المسيب فأخبرته فقال سعيد حدثني أبي أنه كان فيمن بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم تحت الشجرة قال فلما خرجنا من العام المقبل نسيناها فلم نقدر عليها فقال سعيد إن أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم لم يعلموها وعلمتموها أنتم فأنتم أعلم
’’میں حج کے لیے نکلا،تو میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جونمازپڑھ رہے تھے ،میں نے پوچھا کہ یہ کیسی مسجد ہے؟ انہوںنے کہا یہ وہ درخت ہے جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت رضوان لی تھی،پھر میں سعید بن مسیب کے پاس آیا اور ان کو پورا واقعہ سنایا تو سعید نے فرمایا :مجھ سے میرے والد نے فرمایا کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا، جنہوںنے درخت کے نیچے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، پھر جب اگلے سال ہم وہاں گئے تو وہ درخت ہمیں فراموش ہوگیا کہ کون سا تھا ہم اس کو پہچاننے میں کامیاب نہ ہوسکے،پھر سعید نے (طارق بن عبد الرحمان سے) کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تو اس درخت (کی جگہ) کو نہیں جان سکے ا ور تم نے اس کو جان لیا،تو تم ان سے زیادہ جاننے والے ہوئے
امام بخاری سعید بن مسیب ہی سے بطریق قتادہ روایت فرماتے ہیں:
حدثني محمد بن رافع حدثنا شبابة بن سوار أبو عمرو الفزاري حدثنا شعبة عن قتادة عن سعيد بن المسيب عن أبيه قال لقد رأيت الشجرة ثم أتيتها بعد فلم أعرفها
سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ میرے والد نے کہا کہ میں نے بیعت رضوان والے درخت کو دیکھا تھاپھر اس کے بعد میں وہاں گیا تو اس کو نہیں پہچان سکا-
امام بخاری اس روایت کو ایک دوسرے طریقہ سے بیان فرماتے ہیں:
حدثنا موسى حدثنا أبو عوانة حدثنا طارق عن سعيد بن المسيب [ ص: 1529 ] عن أبيه أنه كان ممن بايع تحت الشجرة فرجعنا إليها العام المقبل فعميت علينا
سعید بن مسیب کے والد نے فرمایا کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جن لوگوں نے اس درخت کے نیچے بیعت کی تھی پھر اگلے سال ہم وہاں گئے تو وہ درخت ہمیں نہیں ملا-
اس روایت کو امام مسلم نے بھی صحیح مسلم میں تین مختلف طرق سے بیان کیا ہے ۔
خلاصۃ الکلام یہ کہ اول شیخ ابن تیمیہ کی بیان کردہ روایت کی سند مجہول ہے سو لائق استدلال نہیں اور دوم خود اصول حدیث کے مطابق وہ روایت صحیحین کی روایت کے معارض ہے لہذا یوں بھی وہ قابل استدلال نہیں رہتی اور اگر برسبیل تنزل اسے درست مان بھی لیا جائے تو اس کی تطبیق یوں کی جائے گی کہ چونکہ بخاری و مسلم کی روایات کہ مطابق بییعت رضوان والا درخت اگلے ہی سال حج کے موقع پر اللہ پاک نے صحابہ سے اوجھل کردیا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ جس درخت کو وہ اصل والا درخت سمجھ رہے تھے وہ ،وہ تھا ہی نہیں ، سو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک غلط درخت سے تبرک حاصل کرنے سے روکنے کے لیے یہ اقدام کیا ثانیا اگر کسی کوپھر بھی اعتراض ہوتو خود روایات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آیا ہے کہ مقام ابراہیم کو مصلٰی بنانے کا مشورہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا کہ جس پر قرآن کی آیت مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالو اتری اس کے علاوہ خود انکے بیٹے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کے حالات زندگی پڑھ کردیکھ لیجیے وہ آثار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طرح سے اتباع کیا کرتے تھے کہ محدثین نے لکھا ہے کہ ان پر مجنون کا سا گمان ہونے لگتا تھا اور اس کے علاوہ بھی اگر خود قرآن ہی کا مطالعہ کرلیا جائے تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہی۔ں قرآن نے اول تو شعائر اللہ کے احترام کی بار بار تاکید کی ہے اور دوم شعائراللہ کی تعظیم کو دلوں کی پرہیزگاری بتلایا ہے ۔۔ ۔۔۔شاید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔۔والسلام
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
ماشاء اللہ آبی بھائی

میری رائے میں آپ کا بھیجا ہوا مراسلہ اس لڑی کا آخری مراسلہ ہونا چاہیے کہ کہننے سُننے کو باقی کچھ بھی نہیں بچتا۔

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧
 

دوست

محفلین
تبرک یا غیر تبرک۔ آلِ سعود نے اسلامی تاریخ کو دیو مالا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ زمانہ نبوی ﷺ کے ہر اس آثار کو چن چن کر مٹایا گیا جس سے "شرک" کا خطرہ تھا۔ عثمانی دور کی عمارات سڑ رہی ہیں۔ نبوی دور کے قلعے اور مکانات یا تو توسیع پسندیوں کی بھینٹ چڑھ گئے یا وہاں الو بولتے ہیں۔ کسی کویاد ہے کہ خیبر کا قلعہ کتنا بڑا تھا؟ وہ ایک کمپاؤنڈ نما قلعہ جو ذاکروں کی زبان سے اتنا بڑا ہو جائے گا کہ ناپ لینا ممکن نہ رہے۔ اور اصل قلعہ؟ اس کے کھنڈروں میں سے بھی چند دیواریں کھڑی ہیں پرانے خیبر میں۔ کوہِ حرا کے قدموں میں پلاسٹک کی بوتلوں اور شاپروں کے ڈھیر (یہ مستنصر حسین تارڑ کے الفاظ ہیں)۔ ان کا بس نہ چل سکا کہ حرا اور ثور کو پیوندِ زمین کر دیں۔
زمانہ نبوی ﷺ کی ہر چیز عالمی اسلامی ورثہ ہے اور یہ ہر ایک مسلمان کی اتنی ہی میراث ہے جتنی سعودی آلِ سعود کی ہے۔ عربوں نے بہت کھا لیا حج اور عمرے کا مال۔ اب اسے عالمی اسلامی وقف کے سپرد کریں۔ مکہ اور مدینہ کسی بھی ملک کی عملداری سے باہر ہونا چاہیئے۔ پر ایسا کر دیا تو آپاں دین کے مامے کیسے رہیں گے پھر؟
 

عمار عامر

محفلین
محترم لئیق احمد اورمحترم آبی ٹو کول کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے عمدگی سے راہنمائی کی۔
اگرچہ مجھے ادب کے ساتھ اختلاف ہے کہ یہ روایت سنداً بھی درست ہے اور صحیح بخاری کی پیش کی گئی دونوں روایات کے خلاف بھی ہرگز نہیں۔
اس بارے میں دونوں طرف کے علمائے کرام نے کافی کچھ لکھا ہے۔ کافی عرصہ پہلے اسی روایت سے متعلق تحقیق نظروں سے گزری تھی۔ ان شاء اللہ ڈھونڈ کر پیش کرتا ہوں۔
لیکن عرض ہے کہ اگر بیعت رضوان والے درخت کو صحابہ کرام کا نہ پہچان سکنا ہی ذہن میں رکھ لیا جائے تو یہ تاثر زائل ہو جاتا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے چیزوں کو مقدس و متبرک قرار دے سکتے ہیں۔
شعائر اللہ وہی ہیں، جنہیں خود اللہ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیں۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک ایسے اہم مقام کو بھول گئے جس کی تعظیم فرض تھی کیونکہ وہ شعائر اللہ میں شامل تھا۔
اور جیسا کہ آبی بھائی نے بھی وضاحت کی کہ اگر اس روایت کو درست مان لیا جائے تو بھی اس سے یہ ثابت ہوگا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک غلط درخت سے تبرک کے حصول سے روکنے کے لئے یہ اقدام کیا۔
اسی سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جیسے شعائراللہ کی تعظیم فرض ہے، ویسے ہی وہ مقامات جو شعائر اللہ میں داخل نہیں، ان سے بچنا اور لوگوں کا بچانا بھی لازم ہے۔ واللہ اعلم۔
 

x boy

محفلین
اول تو یہ محمد بن وضاح وغیرہ سے جو روایت ہے خود اس روایت میں " وغیرہ " کا لفظ بتا رہا ہے کہ یہ روایت اصول حدیث کے مطابق قابل استدلال نہیں شیخ ابن تیمیہ جو خود روایات کے حق میں بہت متشدد واقع ہوئے ہیں نہ جانے انھوں نے اپنی کتاب " اقتضاء " میں ایسی روایت کو بلاسند کے کس طرح سے محل استدلال میں پیش کیا ہے حالانکہ خود انکی اپنی حالت ایسی ہے کہ وہ اپنی مطلب براری کے لیے صحاح ستہ کی صحیح روایات کو بھی اکثر خاطر میں نہیں لاتے مگر یہاں
ایک " مجہول السند " روایت کو مستدل بتا رہے ہیں فیا للعجب ؟؟؟ دوم یہ روایت علماء و محدثین کی تحقیق کہ مطابق صحیحین کی روایات کے بھی مخالف ہے
کیونکہ امام بخاری طارق بن عبدا لرحمٰن سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے ارشاد فرمایا:
حدثنا محمود حدثنا عبيد الله عن إسرائيل عن طارق بن عبد الرحمن قال انطلقت حاجا فمررت بقوم يصلون قلت ما هذا المسجد قالوا هذه الشجرة حيث بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم بيعة الرضوان فأتيت سعيد بن المسيب فأخبرته فقال سعيد حدثني أبي أنه كان فيمن بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم تحت الشجرة قال فلما خرجنا من العام المقبل نسيناها فلم نقدر عليها فقال سعيد إن أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم لم يعلموها وعلمتموها أنتم فأنتم أعلم
’’میں حج کے لیے نکلا،تو میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جونمازپڑھ رہے تھے ،میں نے پوچھا کہ یہ کیسی مسجد ہے؟ انہوںنے کہا یہ وہ درخت ہے جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت رضوان لی تھی،پھر میں سعید بن مسیب کے پاس آیا اور ان کو پورا واقعہ سنایا تو سعید نے فرمایا :مجھ سے میرے والد نے فرمایا کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا، جنہوںنے درخت کے نیچے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، پھر جب اگلے سال ہم وہاں گئے تو وہ درخت ہمیں فراموش ہوگیا کہ کون سا تھا ہم اس کو پہچاننے میں کامیاب نہ ہوسکے،پھر سعید نے (طارق بن عبد الرحمان سے) کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تو اس درخت (کی جگہ) کو نہیں جان سکے ا ور تم نے اس کو جان لیا،تو تم ان سے زیادہ جاننے والے ہوئے
امام بخاری سعید بن مسیب ہی سے بطریق قتادہ روایت فرماتے ہیں:
حدثني محمد بن رافع حدثنا شبابة بن سوار أبو عمرو الفزاري حدثنا شعبة عن قتادة عن سعيد بن المسيب عن أبيه قال لقد رأيت الشجرة ثم أتيتها بعد فلم أعرفها
سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ میرے والد نے کہا کہ میں نے بیعت رضوان والے درخت کو دیکھا تھاپھر اس کے بعد میں وہاں گیا تو اس کو نہیں پہچان سکا-
امام بخاری اس روایت کو ایک دوسرے طریقہ سے بیان فرماتے ہیں:
حدثنا موسى حدثنا أبو عوانة حدثنا طارق عن سعيد بن المسيب [ ص: 1529 ] عن أبيه أنه كان ممن بايع تحت الشجرة فرجعنا إليها العام المقبل فعميت علينا
سعید بن مسیب کے والد نے فرمایا کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جن لوگوں نے اس درخت کے نیچے بیعت کی تھی پھر اگلے سال ہم وہاں گئے تو وہ درخت ہمیں نہیں ملا-
اس روایت کو امام مسلم نے بھی صحیح مسلم میں تین مختلف طرق سے بیان کیا ہے ۔
خلاصۃ الکلام یہ کہ اول شیخ ابن تیمیہ کی بیان کردہ روایت کی سند مجہول ہے سو لائق استدلال نہیں اور دوم خود اصول حدیث کے مطابق وہ روایت صحیحین کی روایت کے معارض ہے لہذا یوں بھی وہ قابل استدلال نہیں رہتی اور اگر برسبیل تنزل اسے درست مان بھی لیا جائے تو اس کی تطبیق یوں کی جائے گی کہ چونکہ بخاری و مسلم کی روایات کہ مطابق بییعت رضوان والا درخت اگلے ہی سال حج کے موقع پر اللہ پاک نے صحابہ سے اوجھل کردیا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ جس درخت کو وہ اصل والا درخت سمجھ رہے تھے وہ ،وہ تھا ہی نہیں ، سو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک غلط درخت سے تبرک حاصل کرنے سے روکنے کے لیے یہ اقدام کیا ثانیا اگر کسی کوپھر بھی اعتراض ہوتو خود روایات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آیا ہے کہ مقام ابراہیم کو مصلٰی بنانے کا مشورہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا کہ جس پر قرآن کی آیت مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالو اتری اس کے علاوہ خود انکے بیٹے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کے حالات زندگی پڑھ کردیکھ لیجیے وہ آثار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طرح سے اتباع کیا کرتے تھے کہ محدثین نے لکھا ہے کہ ان پر مجنون کا سا گمان ہونے لگتا تھا اور اس کے علاوہ بھی اگر خود قرآن ہی کا مطالعہ کرلیا جائے تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہی۔ں قرآن نے اول تو شعائر اللہ کے احترام کی بار بار تاکید کی ہے اور دوم شعائراللہ کی تعظیم کو دلوں کی پرہیزگاری بتلایا ہے ۔۔ ۔۔۔شاید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔۔والسلام

جامع
 
Top