محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ایبسرڈ غزل
ڈھلمل یقین وہ نہ تھا، مجھ کو یقین آ گیا
مجھ کو بھی حوصلہ ملا، مجھ کو یقین آگیا
پیار بہت سا اس نے جب آنکھوں میں اپنی بھرلیا
کہنے کو کچھ رہا نہ تھا ، مجھ کو یقین آ گیا
جانے یہ کیسے ہوگیا، مجھ کو پتہ نہیں چلا
دھیان مرا بٹا لیا ، مجھ کو یقین آ گیا
اس نے کبھی کہا نہ تھا، میں نے بھی کچھ سنا نہ تھا
دل میں مرے جب آگیا ، مجھ کو یقین آ گیا
کس نے کہا تھا اب مجھے یاد ذرا نہیں رہا
بس کچھ نہ پوچھ ناصحا ، مجھ کو یقین آ گیا
ہمدم ہے جب وہی مرا، وہ میری جاں مرا خلیلؔ
کچھ نہ کہا نہ کچھ سنا ، مجھ کو یقین آ گیا
ڈھلمل یقین وہ نہ تھا، مجھ کو یقین آ گیا
مجھ کو بھی حوصلہ ملا، مجھ کو یقین آگیا
پیار بہت سا اس نے جب آنکھوں میں اپنی بھرلیا
کہنے کو کچھ رہا نہ تھا ، مجھ کو یقین آ گیا
جانے یہ کیسے ہوگیا، مجھ کو پتہ نہیں چلا
دھیان مرا بٹا لیا ، مجھ کو یقین آ گیا
اس نے کبھی کہا نہ تھا، میں نے بھی کچھ سنا نہ تھا
دل میں مرے جب آگیا ، مجھ کو یقین آ گیا
کس نے کہا تھا اب مجھے یاد ذرا نہیں رہا
بس کچھ نہ پوچھ ناصحا ، مجھ کو یقین آ گیا
ہمدم ہے جب وہی مرا، وہ میری جاں مرا خلیلؔ
کچھ نہ کہا نہ کچھ سنا ، مجھ کو یقین آ گیا