کوئی بن گیا رونق پکھیاں دی، کوئی چھوڑ کے شیش محل چلیا
کوئی پلیا ناز تے نخریاں وچ، کوئی ریت گرم تے تھل چلیا
کوئی بُھل گیا مقصد آون دا، کوئی کر کے مقصد حل چلیا
ایتھے ہر کوئی یار مسافر اے، کوئی اج چلیا کوئی کل چلیا۔۔۔
الفاظ میں غلطی ممکن ہے جس کی تصحیح کی جا سکتی ہے۔۔۔
میں جانیا دکھ مجھ کو ، دکھ سبھاٸے جگ!!
اچے چڑھ کے ویکھیا تاں گھر گھر ایہا اگ
ترجمہ : میں سمجھا تھا کہ دکھ صرف مجھ ہی کو ہیں لیکن یہاں تو سارا جہاں دکھی ہے ۔ جب میں نے اوپر ہو کر دیکھا تو پتہ چلا کہ ہر گھر اسی آگ میں سلگ رہا ہے ۔
ریدا خاک نہ نندیے ، خاکوں جیڈ نہ کوٸی
جیوندیاں پیراں تھلے ، مویاں اوپر ہوٸی
ترجمہ : فریدا خاک کی ناقدری نہ کرو کیونکہ زندگی میں یہی خاک ہے جس پر ہم پاٶں رکھے کھڑے ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد یہی خاک ہمارے عیبوں پر پردہ ڈال دیتی ہے ۔
پکھیاں کا لغوی معنی ’ پرندے‘ ہیں۔
کیونکہ مصرعے میں موت کا ذکر ہو رہا ہے تو ممکنہ طور پر لاش کا گِدھوں کی دعوت ہو جانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ جیسے پارسی یا آتش پرست اپنی میتوں کو کھلے آسمان تلے گِدھوں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔