کاشفی
محفلین
ایثارِ حُسن
(وقار انبالوی )
1931 میں فرانس کے ایک مشہور مقتدر رکن حکومت قوت بینائی سے محروم ہو گئے۔۔۔اُنہوں نے اپنی منگیتر سے کہا۔کہ میں اب اندھا ہو گیا ہوں اور اس قابل نہیں رہا کہ محبت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکوں۔۔لیکن غیرت مند منگیتر نے جواب دیا۔کہ یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا ۔۔میں اپنی محبت میںثابت قدم ہوں۔۔۔چنانچہ دونوں کی شادی ہو گئی۔۔
مجبورِ مشیّت
بہت گہرا ہے گرچہ دل پر الفت کا اثر پیاری
مگر قدرت نے مجھ سے چھین لی حسن بصر پیاری
مری دنیائے عشرت پر اندھیرا چھا گیا یکسر
اب ان آنکھوں سے کچھ آتا نہیں مجھکو نظر پیاری
میں اب بھٹکونگا مستقبل کی اُن تاریک راہوں میں
جہاں کام آ نہیں سکتا ہے کوئی راہبر پیاری
محبت کا تری معترف ہوں ۔ کیا کروں لیکن؟
نبھانے کی کوئی صورت نہیں آتی نظر پیاری
بن آئے کیا ۔ مشیت ہی جو محرومِ نظر کر دے !
بھُلا دے اپنے دل سے مجھکو قصہ مختصر کر دے
مُختارِ محبت
یہ مانا ! آدمی بے شک ہے مجبورِ مشیت بھی
مگر تم ساتھ بینائی کے کھو بیٹھے بصیرت بھی
تعجب ہے ہوئے جاتے ہو تم مایُوس کیوں آخر؟
بھُلا دی تم نے اپنے دل سے کیا میری محبت بھی
محبت امتیازِ کور و دیدہ ور سے بالا ہے
سمجھتے ہو مجھے تم۔ آہ ! کیا ننگِ محبت بھی
رہونگی میں شریکِ حال پیارے رنج و راحت میں
مصیبت آپڑے تو میں اٹھاؤنگی مصیبت بھی
تمہاری شکل میرے واسطے جیسی ہے اچھی ہے!
تم اندھے ہو تو کیا غم ہے محبت خود بھی اندھی ہے