ایران اور ماوراءالنہر کے مابین تاریخی باہمی فرقہ واریت

حسان خان

لائبریرین
"شیعی کیونکر ہو ماوراءالنہری"

"در اوایل قرن شانزدهم اوضاع موجود درحقیقت بسیار تغییر یافت. تشکیل دولت صفوی در ایران و قرار گرفتن ماوراءالنهر تحت ادارهٔ شیبانیان و به این علّت رسمیت یافتن مذهب شیعه در ایران و تشدید تعصّب مذهبی اهل تسنّن در ماوراءالنهر شدیدترین خصومت و ضدیّت سیاسی و مذهبی را بین دو مملکت به وجود آورد. شاه اسمٰعیل صفوی (۹۰۵/۱۵۰۰ - ۹۳۰/۱۰۲۴) از همان نخستین مرحلهٔ فتوحات خود نسبت به سنّیان خشونت بی‌اندازه ابراز نمود. چنانکه بعد از تصرف شیراز و تسخیر فارس علمای اهل سنت مقیم کازرون را به سختی سیاست کرد و عدهٔ کثیری از آن‌ها را عرصهٔ تیغ هلاکت گردانید و مقابر اجدادشان را خراب کرد.
این سخت‌گیری در زمان وارثان نزدیک او نیز ادامه داشت. شیبانیان برعکس صفوی‌ها در تسنن بسیار متعصب بودند و شیعیان را در قلمرو خود سخت تعقیب می‌نمودند. در جنگ و لشکرکشی‌های بین صفوی‌ها و شیبانیان که در طول قرن شانزدهم پی در پی صورت می‌گرفت، خراسان به صحنهٔ خونینی مبدّل گشت. طوس و مشهد، خاصّه هرات در این لشکر‌کشی‌ها بسیار خسارت دیدند، زیرا تقریباً در هر مورد قتل عام مذهبی با آن‌ها همراه بود. از جملهٔ ادبای معتبر این عصر که به هلاکت رسیدند، هلالی شاعر است که در سال ۹۳۵/۱۵۲۹ در هرات قربانی تعصب شیبانیان سنی شد، به همین گونه بنایی شاعر در سال ۹۱۸/۱۵۱۳ در شهر قرشی فدای سخت‌گیری و تعصب شیعیان گردید. در نتیجه اهل علم و ادب خراسان به هر طرف پراکنده گردیدند و شهر هرات اهمیت خود را از لحاظ مرکزیت علمی و ادبی به کلی از دست داد."

(روابط ادبی ایران و ماوراءالنهر در سده‌های ۱۶ و ۱۷، عبدالغنی میرزایف)


ترجمہ:
سولہویں صدی کے اوائل میں حالاتِ موجودہ در حقیقت بسیار تبدیل ہو گئے۔ ایران میں صفوی حکومت کی تشکیل اور ماوراءالنہر کے شیبانیوں کے زیرِ فرمان آنے اور اِس باعث ایران میں شیعیت کا سرکاری مذہب بن جانے اور ماوراءالنہر میں اہلِ تسنن کے مذہبی تعصب میں شدت آ جانے سے دونوں مملکتوں کے درمیان شدیدترین دشمنی و مخالفت وجود میں آ گئی۔ شاہ اسماعیل صفوی (۹۰۵-۹۳۰ھ/۱۵۰۰-۱۵۲۴ء) نے اپنی فتوحات کے اولین مرحلے ہی سے سنّیوں کی نسبت بے حد تشدد و ستیزہ گری ظاہر کی تھی۔ مثلاً شیراز کے تصرُّف اور فارس کی تسخیر کے بعد اُس نے کازرون کے علمائے اہلِ سنت کو سختی سے شکنجہ کیا تھا اور اُن کی ایک کثیر تعداد کو تہِ تیغِ ہلاکت کیا اور اُن کے اجداد کے مقبروں کو خراب کیا تھا۔
یہ سخت گیری اُس کے نزدیکی وارثوں کے زمانے میں بھی جاری رہی۔ صفویوں کے برعکس شیبانیان تسنّن میں بسیار متعصب تھے اور اپنی قلمرو میں شیعوں کے سخت تعاقب میں رہتے تھے۔ صفویوں اور شیبانیوں کے مابین سولہویں صدی کے دوران پے در پے ہونے والی جنگ اور لشکر کَشیوں نے خراسان کو خونیں میدان میں تبدیل کر دیا۔ طوس اور مشہد، خصوصاً ہِرات کو اِن لشکر کَشیوں میں بسیار نقصان پہنچا، کیونکہ تقریباً ہر مورد میں مذہبی قتلِ عام بھی اُن لشکر کَشیوں کے ہمراہ ہوتا تھا۔ اُس زمانے میں ہلاک ہونے والے معتبر ادیبوں میں ہلالی شاعر شامل ہیں جو ۹۳۵ھ/۱۵۲۹ء میں ہرات میں سنّی شیبانیوں کے تعصب کا شکار ہوئے تھے، اِسی طرح بنائی شاعر سال ۹۱۸ھ/۱۵۱۳ء میں شہرِ قرشی میں شیعوں کی سخت گیری و تعصب کا نشانہ بنے۔ نتیجتاً خراسان کے اہلِ علم و ادب ہر جانب پراکندہ ہو گئے اور علمی و ادبی مرکزیت کے لحاظ سے شہرِ ہرات کی اہمیت کاملاً ختم ہو گئی۔
 

فاخر رضا

محفلین
"شیعی کیونکر ہو ماوراءالنہری"

"در اوایل قرن شانزدهم اوضاع موجود درحقیقت بسیار تغییر یافت. تشکیل دولت صفوی در ایران و قرار گرفتن ماوراءالنهر تحت ادارهٔ شیبانیان و به این علّت رسمیت یافتن مذهب شیعه در ایران و تشدید تعصّب مذهبی اهل تسنّن در ماوراءالنهر شدیدترین خصومت و ضدیّت سیاسی و مذهبی را بین دو مملکت به وجود آورد. شاه اسمٰعیل صفوی (۹۰۵/۱۵۰۰ - ۹۳۰/۱۰۲۴) از همان نخستین مرحلهٔ فتوحات خود نسبت به سنّیان خشونت بی‌اندازه ابراز نمود. چنانکه بعد از تصرف شیراز و تسخیر فارس علمای اهل سنت مقیم کازرون را به سختی سیاست کرد و عدهٔ کثیری از آن‌ها را عرصهٔ تیغ هلاکت گردانید و مقابر اجدادشان را خراب کرد.
این سخت‌گیری در زمان وارثان نزدیک او نیز ادامه داشت. شیبانیان برعکس صفوی‌ها در تسنن بسیار متعصب بودند و شیعیان را در قلمرو خود سخت تعقیب می‌نمودند. در جنگ و لشکرکشی‌های بین صفوی‌ها و شیبانیان که در طول قرن شانزدهم پی در پی صورت می‌گرفت، خراسان به صحنهٔ خونینی مبدّل گشت. طوس و مشهد، خاصّه هرات در این لشکر‌کشی‌ها بسیار خسارت دیدند، زیرا تقریباً در هر مورد قتل عام مذهبی با آن‌ها همراه بود. از جملهٔ ادبای معتبر این عصر که به هلاکت رسیدند، هلالی شاعر است که در سال ۹۳۵/۱۵۲۹ در هرات قربانی تعصب شیبانیان سنی شد، به همین گونه بنایی شاعر در سال ۹۱۸/۱۵۱۳ در شهر قرشی فدای سخت‌گیری و تعصب شیعیان گردید. در نتیجه اهل علم و ادب خراسان به هر طرف پراکنده گردیدند و شهر هرات اهمیت خود را از لحاظ مرکزیت علمی و ادبی به کلی از دست داد."

(روابط ادبی ایران و ماوراءالنهر در سده‌های ۱۶ و ۱۷، عبدالغنی میرزایف)


ترجمہ:
سولہویں صدی کے اوائل میں حالاتِ موجودہ در حقیقت بسیار تبدیل ہو گئے۔ ایران میں صفوی حکومت کی تشکیل اور ماوراءالنہر کے شیبانیوں کے زیرِ فرمان آنے اور اِس باعث ایران میں شیعہ مذہب کا سرکاری مذہب بن جانے اور ماوراءالنہر میں اہلِ تسنن کے مذہبی تعصب میں شدت آ جانے سے دونوں مملکتوں کے درمیان شدیدترین دشمنی و مخالفت وجود میں آ گئی۔ شاہ اسماعیل صفوی (۹۰۵-۹۳۰ھ/۱۵۰۰-۱۵۲۴ء) نے اپنی فتوحات کے اولین مرحلے ہی سے سنّیوں کی نسبت بے حد تشدد و ستیزہ گری ظاہر کی تھی۔ مثلاً شیراز کے تصرُّف اور فارس کی تسخیر کے بعد اُس نے کازرون کے علمائے اہلِ سنت کو سختی سے شکنجہ کیا تھا اور اُن کی ایک کثیر تعداد کو تہِ تیغِ ہلاکت کیا اور اُن کے اجداد کے مقبروں کو خراب کیا تھا۔
یہ سخت گیری اُس کے نزدیکی وارثوں کے زمانے میں بھی جاری رہی۔ صفویوں کے برعکس شیبانیان تسنّن میں بسیار متعصب تھے اور اپنی قلمرو میں شیعوں کے سخت تعاقب میں رہتے تھے۔ صفویوں اور شیبانیوں کے مابین سولہویں صدی کے دوران پے در پے ہونے والی جنگ اور لشکر کَشیوں نے خراسان کو خونیں میدان میں تبدیل کر دیا۔ طوس اور مشہد، خصوصاً ہِرات کو اِن لشکر کَشیوں میں بسیار نقصان پہنچا، کیونکہ تقریباً ہر مورد میں مذہبی قتلِ عام بھی اُن لشکر کَشیوں کے ہمراہ ہوتا تھا۔ اُس زمانے میں ہلاک ہونے والے معتبر ادیبوں میں ہلالی شاعر شامل ہیں جو ۹۳۵ھ/۱۵۲۹ء میں ہرات میں سنّی شیبانیوں کے تعصب کا شکار ہوئے تھے، اِسی طرح بنائی شاعر سال ۹۱۸ھ/۱۵۱۳ء میں شہرِ قرشی میں شیعوں کی سخت گیری و تعصب کا نشانہ بنے۔ نتیجتاً خراسان کے اہلِ علم و ادب ہر جانب پراکندہ ہو گئے اور علمی و ادبی مرکزیت کے لحاظ سے شہرِ ہرات کی اہمیت کاملاً ختم ہو گئی۔
کاش کہ کچھ آسان الفاظ میں ہوتا، کام کا ہوتا اور سمجھ بھی آ جاتا.
 
Top