سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 12 مئی، 2017

ایران سعودی تعلقات میں کشیدگی اور پاکستان
تحریر: سید انور محمود
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے کچھ عرصے پہلے تک سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات مثالی رہے ہیں ۔ آج بھی دس لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں کام کررہے ہیں ۔ سعودی حکومت اور سعودی عوام نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کی حکومت اور عوام نے بھی سعودی عرب کا ہمیشہ خاص خیال رکھا ہے۔افغان روس جنگ اور پھر نائن الیون کے بعد پاکستان تو ایک عرصے سے دہشتگردی کا شکار ہے لیکن اب دنیا بھر میں دہشتگردی بہت بڑھ چکی ہے، آج دہشتگردی کا شکار ہونے والےملکوں میں ایک کثیر تعداد مسلم ممالک کی ہے۔دسمبر 2015 میں سعودی عرب نے اپنی ہی قیادت میں دہشتگردی کے خلاف ایک تنظیم ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ کے نام سے بنانے کا اعلان کیا ،کہا جارہا تھا کہ یہ تنظیم دہشتگرد تنظیموں کے خلاف بنائی گئی ہے، لیکن اس اتحاد میں ایران، عراق، شام اور دوسرئے شعیہ ممالک شامل نہیں ہیں۔ مارچ 2016 میں جب سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے یمن پر حملہ کیا تو پاکستان پر اس جنگ میں شمولیت کےلیے براہِ راست دباؤ ڈالا گیا، لیکن پاکستان کی قومی اسمبلی کا جواب نفی میں تھا۔ نومبر2016 میں ایک مرتبہ پھر جب سعودی عرب نے اچانک’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ میں پاکستان کا نام اپنی طرف سے شامل کردیا تو پاکستانی دفترِ خارجہ نے پہلے تو حیرت ظاہر کی لیکن پھر اس اتحاد میں شامل ہونے کی حامی بھرلی۔ پاکستانی عوام اس بات پر پھر بھی راضی نہ تھے۔ اپریل 2017 میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے صد سالہ یوم تاسیس پر’’تین روزہ عالمی اجتماع’’ میں امام خانہ کعبہ الشیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب اورسعودی وزیرمذہبی امورشیخ صالح بن عبدالعزیز نے بھی شرکت کی ہے۔ اس تین روزہ عالمی اجتماع میں امام کعبہ اور سعودی وزیر پاکستانی عوام کو’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ کے حق میں کرنے کوشش کرتے رہے۔
ایران اور سعودی عرب سے پاکستان کا تعلق مذہبی بھی ہے، سیاسی بھی اور دوستانہ بھی ، لیکن ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں سخت کشیدگی ہے۔ جتنے حقوق ایران میں سنی اقلیت کو حاصل ہیں اتنے ہی سعودی عرب میں شیعہ اقلیت کو حاصل ہیں۔ سعودی عرب میں اسلامی بادشاہت ہے تو ایران میں مذہبی آمریت ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں سرد مہری اور کشیدگی آج کی بات نہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان مخاصمانہ تعلقات کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ بد قسمتی سے یہ تعلقات صرف حکومت کی سطح پر ہی خراب نہیں بلکہ دونوں ممالک کے عوام کی اکثریت بھی ایک دوسرے کو پسندنہیں کرتی اور انکے رویے بھی برادرانہ جذبات سے خاصی حد تک عاری ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات 85 سال سے زیادہ پرانے ہیں لیکن ان تعلقات کو کبھی بھی خوشگوار نہیں کہا گیا۔ اس وقت بھی ایران اور سعودی عرب کے درمیان بہت سےمختلف معاملات پر شدید اختلافات ہیں۔ سعودی عرب "وہابی سنی" نظریات کا حامل ہے تو ایران "اہل تشیع" نظریات کا امین۔ سعودی عرب کو خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے جبکہ ایران کو امریکہ کا مخالف مانا جاتا ہے۔2 جنوری 2016کو معروف شیعہ عالم شیخ نمر النمر اور دوسرے 46افراد کے سر قلم کرنے کی وجہ سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات مزید خراب ہو گئے۔
ایران سمجھتا ہے کہ پاکستان کا جھکاو سعودی عرب کی جانب ہے جس کی وجہ پاکستان کی اسلامی فوجی اتحاد میں شرکت ہے، اس لیے اب ایران پاکستان کےلیے مختلف مسائل کھڑئے کررہا ہے۔ ایرانی فوج کے سربراہ جنرل محمد حسین باقری نے دھمکی دی ہے کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر دہشتگردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو ایران خود انہیں نشانہ بنائے گا اور تباہ کردے گا۔ تاہم پاکستان اور ایران کی سرحد مشترک ہے جہاں اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے ہونے والی کارروائیوں کے علاوہ ایرانی سیکورٹی فورسز کی حکومت مخالف باغیوں کے درمیان اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ ایران کو شک ہے کہ باغیوں کی تنظیم جنداللہ کے دہشتگردوں نے پاکستانی علاقے میں اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں جہاں سے وہ ایرانی علاقے میں گھس کر حملے کرتے ہیں۔ چند روز قبل ایسے ہی ایک حملے میں کچھ ایرانی سیکورٹی گارڈز جاں بحق ہوگئے تھے۔ ادھر ایرانی وزیر دفاع جنرل حسین دیگہان نے سعودی ولی عہد کے ایک ایران مخالف بیان پرسعودی عرب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کوئی حماقت نہ کرے ورنہ اسلام کےمقدس مقامات مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے سوا پورے سعودی عرب کو تباہ کردیا جائےگا۔
پاکستان کے حکمرانوں کو سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بڑھتی کشیدگی پرشدید تشویش ہونی چاہیے، مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ صورتحال سے دہشتگرد اور انتہا پسند مسلم امہ میں اختلافات کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایک طرف ایران ہے جو ہمارا پڑوسی ہے اور جس کے ساتھ صوبہ بلوچستان میں ہزاروں میل کی مشترک سرحد ہے، جبکہ دوسری طرف سعودی عرب ہے جس سے ہمارئے بہت زیادہ معاشی مفادات وابستہ ہیں۔اس صورتحال میں پاکستان مسلسل دونوں ممالک سے درخواست کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے اختلافات پرامن طریقے سےحل کریں جبکہ دونوں ممالک کی ایٹمی قوت کے حامل ملک پاکستان سے یہ امید ہے کہ وہ ان کا ساتھ دئے۔ یہ صورتحال نواز شریف حکومت کے لیےمشکل ہے اور ان کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں۔اس صورتحال میں نواز شریف اور ہماری وزارت خارجہ کے زمہ داروں کو انتہائی دانشمندی سے پاکستان کا کردار متعین کرنا ہوگا۔خدا ہمیشہ پاکستان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔۔آمین۔