شمشاد
لائبریرین
ایسا احوال محبت میں کہاں تھا پہلے
دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے
ایک امکان میں رُوپوش تھا سارا عالم
میں بھی اُس گرد ِ تحیّر میں نہاں تھا پہلے
ایک خوشبو سی کیے رہتی تھی حلقہ میرا
جیسے اطراف کوئی رقص کناں تھا پہلے
اُس نے مجھ سا کبھی ہونے نہ دیا تھا مجھ کو
کیا تغیّر مری جانب نگراں تھا پہلے
اب فقط میرے سخن میں ہے جھلک سی باقی
ورنہ یہ رنگ تو چہرے سے عیاں تھا پہلے
کون مانے گا کہ مجھ ایسا سراپا تسلیم
سربرآوردہ ءِ آشفتہ سراں تھا پہلے
کون یہ لوگ ہیں ناواقف ِ آداب و لحاظ
تیرا کوچہ تو رہ ِ دل زدگاں تھا پہلے
اب تو اک دشت ِ تمنّا کے سِوا کچھ بھی نہیں
کیسا قُلزم مرے سینے میں رواں تھا پہلے
اب کہیں جاکے یہ گیرائی ہوئی ہے پیدا
تجھ سے ملنا تو توجّہ کا زیاں تھا پہلے
جانے ہے کس کی اداسی مری وحشت کی شریک
مجھ کو معلوم نہیں، کون یہاں تھا پہلے
میں نے جیسے تجھے پایا ہے وہ میں جانتا ہوں
اب جو تُو ہے، یہ فقط میرا گُماں تھا پہلے
دل ترا راز کسی سے نہیں کہنے دیتا
ورنہ خود سے یہ تعلق بھی کہاں تھا پہلے
اب جو رہتا ہے سر ِ بزم ِ سخن مہر بہ لب
یہی عرفان عجب شعلہ بیاں تھا پہلے
(عرفان ستار)
دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے
ایک امکان میں رُوپوش تھا سارا عالم
میں بھی اُس گرد ِ تحیّر میں نہاں تھا پہلے
ایک خوشبو سی کیے رہتی تھی حلقہ میرا
جیسے اطراف کوئی رقص کناں تھا پہلے
اُس نے مجھ سا کبھی ہونے نہ دیا تھا مجھ کو
کیا تغیّر مری جانب نگراں تھا پہلے
اب فقط میرے سخن میں ہے جھلک سی باقی
ورنہ یہ رنگ تو چہرے سے عیاں تھا پہلے
کون مانے گا کہ مجھ ایسا سراپا تسلیم
سربرآوردہ ءِ آشفتہ سراں تھا پہلے
کون یہ لوگ ہیں ناواقف ِ آداب و لحاظ
تیرا کوچہ تو رہ ِ دل زدگاں تھا پہلے
اب تو اک دشت ِ تمنّا کے سِوا کچھ بھی نہیں
کیسا قُلزم مرے سینے میں رواں تھا پہلے
اب کہیں جاکے یہ گیرائی ہوئی ہے پیدا
تجھ سے ملنا تو توجّہ کا زیاں تھا پہلے
جانے ہے کس کی اداسی مری وحشت کی شریک
مجھ کو معلوم نہیں، کون یہاں تھا پہلے
میں نے جیسے تجھے پایا ہے وہ میں جانتا ہوں
اب جو تُو ہے، یہ فقط میرا گُماں تھا پہلے
دل ترا راز کسی سے نہیں کہنے دیتا
ورنہ خود سے یہ تعلق بھی کہاں تھا پہلے
اب جو رہتا ہے سر ِ بزم ِ سخن مہر بہ لب
یہی عرفان عجب شعلہ بیاں تھا پہلے
(عرفان ستار)