عاطف ملک
محفلین
ایک کاوش استادِ محترم ،دیگر اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔امید ہے احباب اپنی رائے سے نوازیں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ انجامِ سفر ہے ہی نہیں
منزلیں کیا ملیں جب راہ گزر ہے ہی نہیں
سب نے سمجھایا مگر مجھ پہ اثر ہے ہی نہیں
جز ترے کوئی مرے پیشِ نظر ہے ہی نہیں
اپنی آنکھوں میں جلا رکھے ہیں امید کے دیپ
کیسے کہہ دوں کہ شبِ غم کی سحر ہے ہی نہیں
جس میں آسائش و آرام کی ہے فکر تجھے
عارضی جائے سکونت ہے یہ گھر ہے ہی نہیں
میں اگر تجھ سے نہ مانگوں،تو کروں کس سے سوال
اک ترے در کے سوا دوسرا در ہے ہی نہیں
وہ رگِ جاں سے قریں ہے ترے، پھر بھی عاطفؔ
تو سمجھتا ہے اسے تیری خبر ہے ہی نہیں
عاطفؔ ملک
(فروری ۲۰۲۰)
منزلیں کیا ملیں جب راہ گزر ہے ہی نہیں
سب نے سمجھایا مگر مجھ پہ اثر ہے ہی نہیں
جز ترے کوئی مرے پیشِ نظر ہے ہی نہیں
اپنی آنکھوں میں جلا رکھے ہیں امید کے دیپ
کیسے کہہ دوں کہ شبِ غم کی سحر ہے ہی نہیں
جس میں آسائش و آرام کی ہے فکر تجھے
عارضی جائے سکونت ہے یہ گھر ہے ہی نہیں
میں اگر تجھ سے نہ مانگوں،تو کروں کس سے سوال
اک ترے در کے سوا دوسرا در ہے ہی نہیں
وہ رگِ جاں سے قریں ہے ترے، پھر بھی عاطفؔ
تو سمجھتا ہے اسے تیری خبر ہے ہی نہیں
عاطفؔ ملک
(فروری ۲۰۲۰)