طارق شاہ
محفلین
غزلِ
جگرمُرادآبادی
دل میں کسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں
کتنا حسِیں گُناہ کیے جا رہا ہوں میں
دُنیائے دِل تباہ کیے جارہا ہوں میں
صرفِ نگاہ و آہ کیے جارہا ہوں میں
فردِ عمل سیاہ کیے جا رہا ہوں میں
رحمت کو بے پناہ کیے جارہا ہوں میں
کتنا حسِیں گُناہ کیے جا رہا ہوں میں
دُنیائے دِل تباہ کیے جارہا ہوں میں
صرفِ نگاہ و آہ کیے جارہا ہوں میں
فردِ عمل سیاہ کیے جا رہا ہوں میں
رحمت کو بے پناہ کیے جارہا ہوں میں
ایسی بھی اِک نِگاہ کیے جارہا ہوں میں
ذرّوں کو مہر و ماہ کیے جا رہا ہوں میں
ذرّوں کو مہر و ماہ کیے جا رہا ہوں میں
مجھ سے لگے ہیں عشق کی عظمت کو چار چاند
خود حُسن کو گواہ کیے جارہا ہوں میں
دفتر ہے ایک معنیِ بے لفظ و صوت کا
سادہ سی جو نگاہ کے جا رہا ہوں میں
آگے قدم بڑھائیں، جنھیں سُوجھتا نہیں
روشن چراغ کیے جا رہا ہوں میں
معصومئ جمال کو بھی جن پہ رشک ہے
ایسے بھی کُچھ گناہ کیے جا رہا ہوں میں
خود حُسن کو گواہ کیے جارہا ہوں میں
دفتر ہے ایک معنیِ بے لفظ و صوت کا
سادہ سی جو نگاہ کے جا رہا ہوں میں
آگے قدم بڑھائیں، جنھیں سُوجھتا نہیں
روشن چراغ کیے جا رہا ہوں میں
معصومئ جمال کو بھی جن پہ رشک ہے
ایسے بھی کُچھ گناہ کیے جا رہا ہوں میں
تنقیدِ حُسن مصلحتِ خاصِ عشق ہے
یہ جُرم گاہ گاہ کیے جا رہا ہوں میں
اُٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اُس کے رُوبرُو
نا دیدہ اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
گُلشن پرست ہُوں مجھے گُل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نِباہ کیے جارہا ہوں میں
یہ جُرم گاہ گاہ کیے جا رہا ہوں میں
اُٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اُس کے رُوبرُو
نا دیدہ اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
گُلشن پرست ہُوں مجھے گُل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نِباہ کیے جارہا ہوں میں
یُوں زندگی گزُار رہا ہُوں تِرے بغیر
جیسے کوئی گنُاہ کیے جارہا ہوں میں
جیسے کوئی گنُاہ کیے جارہا ہوں میں
مجھ سے جگر، ہُوا ہے ادا جستُجو کا حق
ہر ذرّے کو ، گواہ کیے جارہا ہوں میں
ہر ذرّے کو ، گواہ کیے جارہا ہوں میں
جگرمُراد آبادی
آخری تدوین: