ایسی چِنگاری لگی کہ گھر کا گھر سب جل گیا غزل نمبر 116 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
ایسی چِنگاری لگی کہ گھر کا گھر سب جل گیا
اِک شِکستہ دِل کو میرے چھوڑ کر سب جل گیا

اشک میری آنکھ کے،دِل کی فغاں کافی نہ تھے
کیا بُجھاتی آگ؟ میری چشمِ تر، سب جل گیا

برقِ ظِالم کیا گِری ہے آشیاں کے ساتھ ہی
حوصلہ پرواز کا اور بال و پر سب جل گیا

عِشق کی جو آگ ہے وہ آب سے بُجھتی نہیں
دوستوں نے لاکھ کوشش کی مگر سب جل گیا

قیس کو کوئی بتائے لیلیٰ صحرا میں نہیں
وہ تو دیوانہ ہے اُس کو کیا خبر سب جل گیا

سو سمندر سے بھی کب بُجھتی حسد کی آگ ہے؟
ایک تِنکا بچ نہ پایا اس قدر سب جل گیا

حضرتِ واعظ ذرا اخلاق پر بھی دھیان دے
ہے تری شعلہ بیانی کا اثر سب جل گیا

ہیں برابر سب خُدا کے سامنے چھوٹے بڑے
جب عِتابِ رب ہوا زیر و زبر سب جل گیا

گُل جلا،بُلبُل جلا کلیاں جلیں، گُلشن جلا
یار نے دیکھا مُجھے جب اِک نظر سب جل گیا

پِھر نِگاہِ یار نے ہے پِیار سے دیکھا مجھے
پِھر رقیبِ جاں کا
شارؔق پا تا سر سب جل گیا
 

الف عین

لائبریرین
عزیزم ایسی ردیفیں مت لیا کرو کہ نبھانا مشکل ہوں
ایسی چِنگاری لگی کہ گھر کا گھر سب جل گیا
اِک شِکستہ دِل کو میرے چھوڑ کر سب جل گیا
... 'کہ' اور 'نہ' دونو ں ںکامعاملہ وہی ہے کہ یک حرفی تقطیع ہوتا ہے۔

پہلے مصرع کے الفاظ بدل کر کوشش کرو

اشک میری آنکھ کے،دِل کی فغاں کافی نہ تھے
کیا بُجھاتی آگ؟ میری چشمِ تر، سب جل گیا
... دل کی فغاں غیر ضروری ہے، محض اشک کی بات میں ہی مصرع مکمل کرو

برقِ ظِالم کیا گِری ہے آشیاں کے ساتھ ہی
حوصلہ پرواز کا اور بال و پر سب جل گیا
.. درست

عِشق کی جو آگ ہے وہ آب سے بُجھتی نہیں
دوستوں نے لاکھ کوشش کی مگر سب جل گیا
.. درست

قیس کو کوئی بتائے لیلیٰ صحرا میں نہیں
وہ تو دیوانہ ہے اُس کو کیا خبر سب جل گیا
.. کیا جل گیا، اس کا تو حوالہ ہی نہیں! کیا صحرا ہی جل گیا؟ لیلی بھی صحرا میں بھٹک رہی تھی؟
لیلی کی آخری ی کا اسقاط اچھا نہیں

سو سمندر سے بھی کب بُجھتی حسد کی آگ ہے
ایک تِنکا بچ نہ پایا اس قدر سب جل گیا
... اسے نکال ہی دو، اس قدر قافیہ ہی فٹ نہیں ہوتا، سو سمندروں بھی کہنے کی ضرورت تھی

حضرتِ واعظ ذرا اخلاق پر بھی دھیان دے
ہے تری شعلہ بیانی کا اثر سب جل گیا
... یہاں بھی ردیف سمجھ میں نہیں آتی

ہیں برابر سب خُدا کے سامنے چھوٹے بڑے
جب عِتابِ رب ہوا زیر و زبر سب جل گیا
.. زیر و زبر جلنا؟

گُل جلا،بُلبُل جلا کلیاں جلیں، گُلشن جلا
یار نے دیکھا مُجھے جب اِک نظر سب جل گیا
.. یہ بھی مجھے خواہ مخواہ کا شعر لگ رہا ہے بلکہ قافیہ بندی

پِھر نِگاہِ یار نے ہے پِیار سے دیکھا مجھے
پِھر رقیبِ جاں کا شارؔق پا تا سر سب جل گیا

.. دوسرا مصرع سمجھ نہیں سکا
 

امین شارق

محفلین
جی سر آئندہ کوشش کروں گا کہ مشکل ردیف استعمال نہیں کروں۔
اصلاح کے بعد۔
ایسی چِنگاری لگی ہے گھر کا گھر سب جل گیا
اِک شِکستہ دِل کو میرے چھوڑ کر سب جل گیا

اصلاح کے بعد۔
اشک میری آنکھ سے بہتے رہے، کافی نہ تھے
کیا بُجھاتی آگ؟ میری چشمِ تر، سب جل گیا

.. زیر و زبر جلنا؟
زیر یعنی چھوٹا زبر یعنی بڑا جیسے زیردست/زبردست
.. دوسرا مصرع سمجھ نہیں سکا
پِھر نِگاہِ یار نے ہے پِیار سے دیکھا مجھے
پِھر رقیبِ جاں کا شارؔق پا تا سر سب جل گیا

سر یہاں یہ کہنا مقصود ہے کہ رقیب کا کام تو جلنا ہی ہوتا ہے محبوب نے جب مجھے پیار سے دیکھا تو رقیب پا تا سر یعنی سر تا پا جل گیا۔۔
 
Top