امین شارق
محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
ایسی چِنگاری لگی کہ گھر کا گھر سب جل گیا
اِک شِکستہ دِل کو میرے چھوڑ کر سب جل گیا
اشک میری آنکھ کے،دِل کی فغاں کافی نہ تھے
کیا بُجھاتی آگ؟ میری چشمِ تر، سب جل گیا
برقِ ظِالم کیا گِری ہے آشیاں کے ساتھ ہی
حوصلہ پرواز کا اور بال و پر سب جل گیا
عِشق کی جو آگ ہے وہ آب سے بُجھتی نہیں
دوستوں نے لاکھ کوشش کی مگر سب جل گیا
قیس کو کوئی بتائے لیلیٰ صحرا میں نہیں
وہ تو دیوانہ ہے اُس کو کیا خبر سب جل گیا
سو سمندر سے بھی کب بُجھتی حسد کی آگ ہے؟
ایک تِنکا بچ نہ پایا اس قدر سب جل گیا
حضرتِ واعظ ذرا اخلاق پر بھی دھیان دے
ہے تری شعلہ بیانی کا اثر سب جل گیا
ہیں برابر سب خُدا کے سامنے چھوٹے بڑے
جب عِتابِ رب ہوا زیر و زبر سب جل گیا
گُل جلا،بُلبُل جلا کلیاں جلیں، گُلشن جلا
یار نے دیکھا مُجھے جب اِک نظر سب جل گیا
پِھر نِگاہِ یار نے ہے پِیار سے دیکھا مجھے
پِھر رقیبِ جاں کا شارؔق پا تا سر سب جل گیا
اِک شِکستہ دِل کو میرے چھوڑ کر سب جل گیا
اشک میری آنکھ کے،دِل کی فغاں کافی نہ تھے
کیا بُجھاتی آگ؟ میری چشمِ تر، سب جل گیا
برقِ ظِالم کیا گِری ہے آشیاں کے ساتھ ہی
حوصلہ پرواز کا اور بال و پر سب جل گیا
عِشق کی جو آگ ہے وہ آب سے بُجھتی نہیں
دوستوں نے لاکھ کوشش کی مگر سب جل گیا
قیس کو کوئی بتائے لیلیٰ صحرا میں نہیں
وہ تو دیوانہ ہے اُس کو کیا خبر سب جل گیا
سو سمندر سے بھی کب بُجھتی حسد کی آگ ہے؟
ایک تِنکا بچ نہ پایا اس قدر سب جل گیا
حضرتِ واعظ ذرا اخلاق پر بھی دھیان دے
ہے تری شعلہ بیانی کا اثر سب جل گیا
ہیں برابر سب خُدا کے سامنے چھوٹے بڑے
جب عِتابِ رب ہوا زیر و زبر سب جل گیا
گُل جلا،بُلبُل جلا کلیاں جلیں، گُلشن جلا
یار نے دیکھا مُجھے جب اِک نظر سب جل گیا
پِھر نِگاہِ یار نے ہے پِیار سے دیکھا مجھے
پِھر رقیبِ جاں کا شارؔق پا تا سر سب جل گیا