اعتبار ساجد ایسے نہ تھے ہم اہلِ دل ، اتنے کہاں خراب تھے

ظفری

لائبریرین

ایسے نہ تھے ہم اہلِ دل ، اتنے کہاں خراب تھے
ہم بھی کسی کی آس تھے ، ہم بھی کسی کا خواب تھے

اب جو ہوئے ہیں خیر سے ، راندۂ خلقِ شہر ہم
چہرۂ شب کا نور تھے ، شیشۂ فن کی آب تھے

دل پہ کسی کے نقش تھے صورتِ حرف آرزو
اس کی کتابِ زیست میں لائقِ انتساب تھے

ایسی تھیں وہ رفاقتیں ، جیسے ہم اپنے آپ میں
رنگِ شعاع مہر تھے ، ریزۂ آفتاب تھے

وعدوں کا ایک شہر تھا جس سے گزر رہے تھے ہم
آنکھیں کھلیں تو دور تک ہر سو وہی سراب تھے

دل سا چراغ کیا بجھا ، آنکھیں دھواں دھواں ہوئیں
کہنے کو اپنے آس پاس کتنے ہی ماہتاب تھے

( اعتبار ساجد )
 

محمد وارث

لائبریرین

ایسے نہ تھے ہم اہلِ دل ، اتنے کہاں خراب تھے
ہم بھی کسی کی آس تھے ، ہم بھی کسی کا خواب تھے

دل پہ کسی کے نقش تھے صورتِ حرف آرزو
اس کی کتابِ زیست میں لائقِ انتساب تھے

دل سا چراغ کیا بجھا ، آنکھیں دھواں دھواں ہوئیں
کہنے کو اپنے آس پاس کتنے ہی ماہتاب تھے

( اعتبار ساجد )


بہت خوب ظفری بھائی، بہت اچھا انتخاب ہے۔
 

فاتح

لائبریرین

دل پہ کسی کے نقش تھے صورتِ حرف آرزو
اس کی کتابِ زیست میں لائقِ انتساب تھے

ایسی تھیں وہ رفاقتیں ، جیسے ہم اپنے آپ میں
رنگِ شعاع مہر تھے ، ریزۂ آفتاب تھے

وعدوں کا ایک شہر تھا جس سے گزر رہے تھے ہم
آنکھیں کھلیں تو دور تک ہر سو وہی سراب تھے

ظفری بھائی! بہت ہی خوبصورت انتخاب ہے۔
اعتبار ساجد کا اپنا الگ ہی انداز ہے اور یہ غزل پڑھ کر انہی کا ایک شعر یاد آ گیا:
خود کو سجا سنوار کے رکھنے کا شوق تھا
پھر اپنے آپ سے مجھے وحشت سی ہو گئی​
 
Top