ایسے کو شبِ وصل لگائے کوئی کیا ہاتھ - نظام شاہ نظام

فرخ منظور

لائبریرین
ایسے کو شبِ وصل لگائے کوئی کیا ہاتھ
ہر بار جھٹک کر جو کہے ٹوٹے ترا ہاتھ

یوں آپ کریں غیر کے شکوے مرے آگے
یہ آپ کے مضمون نیا آج لگا ہاتھ

اس بات کے ملنے کی بھی کچھ پائی گئی بات
قاصد ترے صدقے پہ اگر سچ ہے تو لا ہاتھ

یہ رشک ہے تو آپ ہے اب دل کو شکایت
ظالم مرے ملنے سے نہ تو ایسا اُٹھا ہاتھ

پھر میں تپشِ دل کی شکایت نہ کروں گا
رکھ دے مرے سینے پہ ذرا مہندی لگا ہاتھ

اُس دستِ نگاریں کو ذرا میں نے چھوا تھا
کس ناز سے کہنے لگے اُف چھوڑ، گیا ہاتھ

ایسی نگہ یاس سے دیکھا تہہ خنجر
قاتل نے مجھے دیکھتے ہی روک لیا ہاتھ

نظام شاہ نظام (نظام رامپوری)
 

فرخ منظور

لائبریرین
خوب چلبلی غزل پوسٹ کی آپ نے فرخ صاحب، لطف آ گیا :)

حضور بہت شکریہ! :) آپ کی نذر نظام کے کچھ اور اشعار

مجھ سے اور الفتِ بتاں چھوٹے
ایسی باتوں سے ناصحا توبہ

توبہ توبہ شراب دے ساقی
اب میں توبہ سے کرچکا توبہ

تو وہ بُت ہے کہ دیکھتے ہی تجھے
لوگ کہتے ہیں یاخدا توبہ

تجھ سے میں عہد توڑنے کا نہیں
توڑ ڈالوں گا ساقیا توبہ

میری گستاخیوں پہ بولے نظام
تو بھی ہے کتنا بے حیا، توبہ! ;)
 

فاتح

لائبریرین
واہ فرخ صاحب کہاں سے ڈھونڈ کر لائے ہیں بقول وارث یہ "چلبلے" اشعار
واقعی سواد آ گیا
 
Top