سید زبیر
محفلین
ناصر زیدی |
روزنامہ پاکستان
12 مئی 2013
ایس ایم ظفر کی اپنی کہانی اور اشعار!
بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے حوالے سے شاید قارئین کے علم میں یہ بات نہ ہو کہ انہیں اپنی قائم کردہ انجمن ترقی اردو، اردو کالج اور اس میں قائم کردہ لائبریری سے کس قدر شغف تھا، کیسی والہانہ محبت تھی؟.... اگر اُن کی کوئی کھانے کی دعوت کرتا تو وہ دعوت کرنے والے سے معلوم کرتے کہ تخمیناً اس دعوت پر کتنا خرچہ آئے گا؟.... وہ شخص جب رقم بتاتا تو مولوی صاحب کہتے: اتنی رقم میری انجمن کے لئے عطیہ دے دو، آپ کی طرف سے دعوت قبول ہوگئی“....! مَیں مولوی عبدالحق کی خاکِ پا بھی نہیں، البتہ کتابوں کا رَسیا شخص ہوں۔ اول تو کوئی مولوی عبدالحق کی طرح تواتر سے میری دعوت نہیں کرتا اور اگر کوئی بڑے ہوٹل میں یا جمخانہ کلب میں لنچ یا ڈنر کرا ہی دے تو مَیں حساب لگاتا ہوں کہ یہ کھانا مَیں اپنے پیسوں سے کھاتا تو کتنے کا ہوتا، اور اُتنی ہی رقم کی اُسی روز کوئی نہ کوئی کتاب ضرور خریدتا ہوں...!
یہ الگ بات کہ اس حکمتِ عملی سے نصف صدی تک کی جمع کردہ ہزاروں کُتب راولپنڈی کے ایک گھر میں رکھئی ہوئی، حادثاتی طورپر ردّی کے بھاو¿ بیچ دی گئیں، تاہم میری یہ للک یہ چسکا ختم ہونے والا نہیں
اب زندگی کے ساتھ یہ آزار جائے گا
گزشتہ روز ایک کرم فرما نے، ایک بڑے ہوٹل میں لنچ کرا دیا، حالانکہ عموماً مَیں اپنے اُستادِ گرامی قدر مرحوم احسان دانش کی طرح اور حکیم محمد سعید شہید کی طرح دوپہر کا کھانا نہیں کھاتا مگر”دل بدست آور کہ حجِ اکبراست“....کسی کی دلجوئی مقصود تھی، کھانا کھا لیا اور حساب لگایا کہ خود بل ادا کرتا تو میرا اکیلے کا کتنا ہوتا؟.... چنانچہ اس رقم کو بچت پر محمول کرتے ہوئے ایس ایم ظفر صاحب کی نئی کتاب خرید لی۔ وہ ضخیم کتاب ان دنوں پڑھ رہا ہوں۔ سوچا قارئین کو بھی اپنے مطالعے میں کیوں نہ شامل کر لوں؟....
جناب ایس ایم ظفر کی نئی کتاب بعنوان ”سینیٹر ایس ایم ظفر کی کہانی، اُن کی اپنی زبانی“ پڑھتے ہوئے یوں لگا کہ اس میں نفسِ مضمون سے زیادہ حواشی درج ہیں۔ 24 صفحات پر محیط اشاریہ اس پر مستزاد ہے....!
کتاب کے صفحہ182 پر ایک مشہور زمانہ شعر، اس تمہید کے ساتھ بغیر شاعر کے نام کے درج ہے:
فرمانِ الٰہی ہے کہ
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
اکثر اوقات مولانا حالی، مولانا محمد علی جوہر اور علامہ اقبال سے منسوب ہو جانے والا یہ شعر دراصل مولانا ظفر علی خان کا ہے، اُنہوں نے قرآن مجید کی ایک آیت کو خوبصورتی سے شعر کے قالب میں ڈھالا، مگر دوسرے مصرعے میں ”خود اپنی حالت“ نہیں کہا کہ مصرع ہی خارج از وزن ہو جاتا۔ انہوں نے ”آپ اپنی حالت“ کہہ رکھا ہے۔ مولانا ظفر علی خان کا صحیح شعر اس طرح ہے
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اضافی معلومات دیتا چلوں کہ ”نوائے وقت“ کی اشاعت جمعرات9 مئی2013ءمیں قیوم نظامی صاحب نے اپنے کالم ”منظر نامہ“ میں اسی شعر کو حضرت علامہ اقبالؒ کو بخش دیا ہے
زیرِ نظر کتاب کے صفحہ 188 پر میر کا ایک بہت مشہور شعر اس طرح درج ہے:
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا
شعر کی متذکرہ شکل میں دوسرے مصرعے میں خاص گڑ بڑ ہوگئی ہے جبکہ دوسرے مصرعے کی درستی کے ساتھ۔ خدائے سخن میر تقی میر کا صحیح شعر اس طرح ہے
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
اسی غزل کا مشہور مقطع ہے
میر کے دین و مذہب کو تم پوچھتے کیا ہو، اُن نے تو
قشقہ کھینچا، دَیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
اسی کتاب کے صفحہ 361 پر ایک شعر اس تمہید کے ساتھ رقم کیا گیا ہے کہ:”چودھری اعتزاز احسن نے ایم ایم اے کا نام لے کر یہ شعر پڑھا
آدھی ریت سے باہر ہوں، آدھی اندر گڑی ہوں
آدھی مان گئی ہوں اُس کی آدھی بات پہ اڑی ہوں
جبکہ یہ ایک شعر نہیں دو شعر ہیں اور چھوٹی بحر میں شبنم شکیل (مرحومہ) نے اس طرح کہہ رکھے ہیں
آدھی ریت سے باہر ہوں مَیں
آدھی اندر گڑی ہوئی ہوں
آدھی مان چکی ہوں اُس کی
آدھی بات پہ اَڑی ہوئی ہوں
اسی کتاب کے صفحہ 548 پر لکھا گیا ہے کہ
”سینیٹر ظہیر الدین بابر اعوان نے اپنی تقریر کا اختتام اس شعر پر نامعلوم کس مقصد کے لئے کیا؟
یہ راز اب راز نہیں، سب اہلِ گلستان جان گئے
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجامِ گُلستاں کیا ہوگا
اس شعر کے دوسرے مصرعے کے ضرب المثل حیثیت اختیار کرجانے کی ایک کہانی ہے۔ ہُوا یوں تھا کہ صدر ایوب خاں کے دور آخر میں مغربی پاکستان اسمبلی میں صدر ایوب خان کے چھوٹے بھائی سردار بہادر خان نے بطور قائد حزبِ اختلاف صرف یہ مصرع اپنی تقریر کے آخر میں ٹانکا تھا کہ:
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے، انجامِ گلستان کیا ہوگا؟
یہ مصرع جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ مدتوں سے مشہور چلا آ رہا ہے، مگر پہلا یا دوسرا مصرع اور شاعر کا نام کسی کو معلوم نہ ہو کے دیا، بالآخر جُز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار.... اس خاکسار ناصر زیدی نے شعر کا پہلا مصرع اور شاعر تحقیق سے دریافت کیا اور پھر اپنے کالم میں لکھا۔ پہلا مصرع صحیح یوں ہے
یہ راز تو کوئی راز نہیں سب اہلِ گلستاںجان گئے
اور شاعر ہیں حضرت نوح ناروی، مکمل شعر اس طرح ہے
یہ راز تو کوئی راز نہیں، سب اہل گلستاں جان گئے
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے، انجامِ گلستاں کیا ہوگا
کتاب مذکورہ کے صفحہ 650 کے حاشیے میں ایک شعر اس تمہید کے ساتھ درج ہے
احسان دانش نے اس کیفیت کو یوں بیان کیا ہے
کچھ ایسے مناظر گزرتے ہیں نظر سے
جب سوچنا پڑتا ہے خدا ہے کہ نہیں ہے
جبکہ استادِ گرامی قدر حضرت احسان دانش نے پہلا مصرع ہرگز بے وزن نہیں کہا تھا۔”مناظر“ کے بعد ”بھی“ نہ لگا کر بے وزن کر دیا گیا ہے۔ احسان دانش مرحوم کا صحیح شعر یوں ہے
کچھ ایسے مناظر بھی گزرتے ہیں نظر سے
جب سوچنا پڑتا ہے خدا ہے کہ نہیں ہے
احسان دانش صاحب کا ایسا ہی ایک اور مشہور شعر ہے:
آجاو گے جس روز بھی حالات کی زد پر
ہو جائے گا معلوم، خدا ہے کہ نہیں ہے
کتاب زیر نظر”سینیٹر ایس ایم ظفر کی کہانی، اُن کی اپنی زبانی“ میں صفحہ 823 پر ”پاکستان اور تبدیلی“ کے عنوان کے تحت باب میں ایک مشہور شعر اس طرح ملتا ہے
جو تھا، نہیں ہے، جو ہے، نہ ہوگا، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی مشتاق ہے اس کا زمانہ
متذکرہ شکل میں حضرت علامہ اقبالؒ کے اس شعر کے دوسرے مصرعے کا ”دھڑن تختہ“ کر دیا گیا ہے۔ دوسرا مصرعہ صحیح یوں ہے
قریب تر ہے نمود جس کی اُسی کا مشتاق ہے زمانہ
ایس ایم ظفر صاحب کی اس معرکہ آراءکتاب میں درج غلطی ہائے اشعار کی نشاندہی سے خود کو ”علامہ فہامہ“ ثابت کرنا مقصود نہیں ہے۔ مقصد نیک نیتی سے یہ ہے کہ مبلغ1600 روپے خرچ کر کے جن قارئین نے کتاب خرید کر پڑھنی ہے وہ پاکستان کے صحیح حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ اشعار بھی صحیح شکل و صورت میں پڑھیں اور فاضل مصنف آئندہ ایڈیشن میں درستی فرما سکیں.... بِلا طلب میرا مشورہ یہ بھی ہے کہ آئندہ اگر حواشی کم سے کم کر کے کتاب کی ثقالت گھٹائی جا سکے تو بُہتوں کا بھلا ہوگا.... انگریزی کا استعمال بھی نظر ثانی کرنے والوں مقبول شریف مرحوم اور میجر ابراہیم صاحب نے کچھ زیادہ ہی کرا دیا ہے۔ ویسے انگریزی میں خود ایس ایم ظفر صاحب کچھ کم رواں نہیں....کتاب کا انگریزی ایڈیشن الگ سے تیار کر لیں....!
مانیں نہ مانیں جانِ جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
روزنامہ پاکستان
12 مئی 2013
ایس ایم ظفر کی اپنی کہانی اور اشعار!
بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے حوالے سے شاید قارئین کے علم میں یہ بات نہ ہو کہ انہیں اپنی قائم کردہ انجمن ترقی اردو، اردو کالج اور اس میں قائم کردہ لائبریری سے کس قدر شغف تھا، کیسی والہانہ محبت تھی؟.... اگر اُن کی کوئی کھانے کی دعوت کرتا تو وہ دعوت کرنے والے سے معلوم کرتے کہ تخمیناً اس دعوت پر کتنا خرچہ آئے گا؟.... وہ شخص جب رقم بتاتا تو مولوی صاحب کہتے: اتنی رقم میری انجمن کے لئے عطیہ دے دو، آپ کی طرف سے دعوت قبول ہوگئی“....! مَیں مولوی عبدالحق کی خاکِ پا بھی نہیں، البتہ کتابوں کا رَسیا شخص ہوں۔ اول تو کوئی مولوی عبدالحق کی طرح تواتر سے میری دعوت نہیں کرتا اور اگر کوئی بڑے ہوٹل میں یا جمخانہ کلب میں لنچ یا ڈنر کرا ہی دے تو مَیں حساب لگاتا ہوں کہ یہ کھانا مَیں اپنے پیسوں سے کھاتا تو کتنے کا ہوتا، اور اُتنی ہی رقم کی اُسی روز کوئی نہ کوئی کتاب ضرور خریدتا ہوں...!
یہ الگ بات کہ اس حکمتِ عملی سے نصف صدی تک کی جمع کردہ ہزاروں کُتب راولپنڈی کے ایک گھر میں رکھئی ہوئی، حادثاتی طورپر ردّی کے بھاو¿ بیچ دی گئیں، تاہم میری یہ للک یہ چسکا ختم ہونے والا نہیں
اب زندگی کے ساتھ یہ آزار جائے گا
گزشتہ روز ایک کرم فرما نے، ایک بڑے ہوٹل میں لنچ کرا دیا، حالانکہ عموماً مَیں اپنے اُستادِ گرامی قدر مرحوم احسان دانش کی طرح اور حکیم محمد سعید شہید کی طرح دوپہر کا کھانا نہیں کھاتا مگر”دل بدست آور کہ حجِ اکبراست“....کسی کی دلجوئی مقصود تھی، کھانا کھا لیا اور حساب لگایا کہ خود بل ادا کرتا تو میرا اکیلے کا کتنا ہوتا؟.... چنانچہ اس رقم کو بچت پر محمول کرتے ہوئے ایس ایم ظفر صاحب کی نئی کتاب خرید لی۔ وہ ضخیم کتاب ان دنوں پڑھ رہا ہوں۔ سوچا قارئین کو بھی اپنے مطالعے میں کیوں نہ شامل کر لوں؟....
جناب ایس ایم ظفر کی نئی کتاب بعنوان ”سینیٹر ایس ایم ظفر کی کہانی، اُن کی اپنی زبانی“ پڑھتے ہوئے یوں لگا کہ اس میں نفسِ مضمون سے زیادہ حواشی درج ہیں۔ 24 صفحات پر محیط اشاریہ اس پر مستزاد ہے....!
کتاب کے صفحہ182 پر ایک مشہور زمانہ شعر، اس تمہید کے ساتھ بغیر شاعر کے نام کے درج ہے:
فرمانِ الٰہی ہے کہ
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
اکثر اوقات مولانا حالی، مولانا محمد علی جوہر اور علامہ اقبال سے منسوب ہو جانے والا یہ شعر دراصل مولانا ظفر علی خان کا ہے، اُنہوں نے قرآن مجید کی ایک آیت کو خوبصورتی سے شعر کے قالب میں ڈھالا، مگر دوسرے مصرعے میں ”خود اپنی حالت“ نہیں کہا کہ مصرع ہی خارج از وزن ہو جاتا۔ انہوں نے ”آپ اپنی حالت“ کہہ رکھا ہے۔ مولانا ظفر علی خان کا صحیح شعر اس طرح ہے
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اضافی معلومات دیتا چلوں کہ ”نوائے وقت“ کی اشاعت جمعرات9 مئی2013ءمیں قیوم نظامی صاحب نے اپنے کالم ”منظر نامہ“ میں اسی شعر کو حضرت علامہ اقبالؒ کو بخش دیا ہے
زیرِ نظر کتاب کے صفحہ 188 پر میر کا ایک بہت مشہور شعر اس طرح درج ہے:
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا
شعر کی متذکرہ شکل میں دوسرے مصرعے میں خاص گڑ بڑ ہوگئی ہے جبکہ دوسرے مصرعے کی درستی کے ساتھ۔ خدائے سخن میر تقی میر کا صحیح شعر اس طرح ہے
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
اسی غزل کا مشہور مقطع ہے
میر کے دین و مذہب کو تم پوچھتے کیا ہو، اُن نے تو
قشقہ کھینچا، دَیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
اسی کتاب کے صفحہ 361 پر ایک شعر اس تمہید کے ساتھ رقم کیا گیا ہے کہ:”چودھری اعتزاز احسن نے ایم ایم اے کا نام لے کر یہ شعر پڑھا
آدھی ریت سے باہر ہوں، آدھی اندر گڑی ہوں
آدھی مان گئی ہوں اُس کی آدھی بات پہ اڑی ہوں
جبکہ یہ ایک شعر نہیں دو شعر ہیں اور چھوٹی بحر میں شبنم شکیل (مرحومہ) نے اس طرح کہہ رکھے ہیں
آدھی ریت سے باہر ہوں مَیں
آدھی اندر گڑی ہوئی ہوں
آدھی مان چکی ہوں اُس کی
آدھی بات پہ اَڑی ہوئی ہوں
اسی کتاب کے صفحہ 548 پر لکھا گیا ہے کہ
”سینیٹر ظہیر الدین بابر اعوان نے اپنی تقریر کا اختتام اس شعر پر نامعلوم کس مقصد کے لئے کیا؟
یہ راز اب راز نہیں، سب اہلِ گلستان جان گئے
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجامِ گُلستاں کیا ہوگا
اس شعر کے دوسرے مصرعے کے ضرب المثل حیثیت اختیار کرجانے کی ایک کہانی ہے۔ ہُوا یوں تھا کہ صدر ایوب خاں کے دور آخر میں مغربی پاکستان اسمبلی میں صدر ایوب خان کے چھوٹے بھائی سردار بہادر خان نے بطور قائد حزبِ اختلاف صرف یہ مصرع اپنی تقریر کے آخر میں ٹانکا تھا کہ:
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے، انجامِ گلستان کیا ہوگا؟
یہ مصرع جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ مدتوں سے مشہور چلا آ رہا ہے، مگر پہلا یا دوسرا مصرع اور شاعر کا نام کسی کو معلوم نہ ہو کے دیا، بالآخر جُز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار.... اس خاکسار ناصر زیدی نے شعر کا پہلا مصرع اور شاعر تحقیق سے دریافت کیا اور پھر اپنے کالم میں لکھا۔ پہلا مصرع صحیح یوں ہے
یہ راز تو کوئی راز نہیں سب اہلِ گلستاںجان گئے
اور شاعر ہیں حضرت نوح ناروی، مکمل شعر اس طرح ہے
یہ راز تو کوئی راز نہیں، سب اہل گلستاں جان گئے
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے، انجامِ گلستاں کیا ہوگا
کتاب مذکورہ کے صفحہ 650 کے حاشیے میں ایک شعر اس تمہید کے ساتھ درج ہے
احسان دانش نے اس کیفیت کو یوں بیان کیا ہے
کچھ ایسے مناظر گزرتے ہیں نظر سے
جب سوچنا پڑتا ہے خدا ہے کہ نہیں ہے
جبکہ استادِ گرامی قدر حضرت احسان دانش نے پہلا مصرع ہرگز بے وزن نہیں کہا تھا۔”مناظر“ کے بعد ”بھی“ نہ لگا کر بے وزن کر دیا گیا ہے۔ احسان دانش مرحوم کا صحیح شعر یوں ہے
کچھ ایسے مناظر بھی گزرتے ہیں نظر سے
جب سوچنا پڑتا ہے خدا ہے کہ نہیں ہے
احسان دانش صاحب کا ایسا ہی ایک اور مشہور شعر ہے:
آجاو گے جس روز بھی حالات کی زد پر
ہو جائے گا معلوم، خدا ہے کہ نہیں ہے
کتاب زیر نظر”سینیٹر ایس ایم ظفر کی کہانی، اُن کی اپنی زبانی“ میں صفحہ 823 پر ”پاکستان اور تبدیلی“ کے عنوان کے تحت باب میں ایک مشہور شعر اس طرح ملتا ہے
جو تھا، نہیں ہے، جو ہے، نہ ہوگا، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی مشتاق ہے اس کا زمانہ
متذکرہ شکل میں حضرت علامہ اقبالؒ کے اس شعر کے دوسرے مصرعے کا ”دھڑن تختہ“ کر دیا گیا ہے۔ دوسرا مصرعہ صحیح یوں ہے
قریب تر ہے نمود جس کی اُسی کا مشتاق ہے زمانہ
ایس ایم ظفر صاحب کی اس معرکہ آراءکتاب میں درج غلطی ہائے اشعار کی نشاندہی سے خود کو ”علامہ فہامہ“ ثابت کرنا مقصود نہیں ہے۔ مقصد نیک نیتی سے یہ ہے کہ مبلغ1600 روپے خرچ کر کے جن قارئین نے کتاب خرید کر پڑھنی ہے وہ پاکستان کے صحیح حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ اشعار بھی صحیح شکل و صورت میں پڑھیں اور فاضل مصنف آئندہ ایڈیشن میں درستی فرما سکیں.... بِلا طلب میرا مشورہ یہ بھی ہے کہ آئندہ اگر حواشی کم سے کم کر کے کتاب کی ثقالت گھٹائی جا سکے تو بُہتوں کا بھلا ہوگا.... انگریزی کا استعمال بھی نظر ثانی کرنے والوں مقبول شریف مرحوم اور میجر ابراہیم صاحب نے کچھ زیادہ ہی کرا دیا ہے۔ ویسے انگریزی میں خود ایس ایم ظفر صاحب کچھ کم رواں نہیں....کتاب کا انگریزی ایڈیشن الگ سے تیار کر لیں....!
مانیں نہ مانیں جانِ جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں