محمد ریحان قریشی
محفلین
فقیر شکیب احمد بھائی سے کچھ دیر قبل فیسبک پر دلچسب گفتگو ہوئی اور موضوع بھی عوام و خواص کا پسندیدہ تھا یعنی ایطائے جلی۔ تو گفتگو کچھ یوں تھی
شکیب بھائی:
السلام علیکم!
بھئی ریحان. ذرا پروین شاکر کی غزل پر رائے دو تو کہ اس میں قافیوں کی کچھ غلطی ہے کیا. دراصل بادی النظر میں تو معلوم نہیں ہورہا. لیکن ایطاء جلی کی پہچان ضرور پائی جا رہی ہے. ذرا تفصیلی مختصر روشنی ڈالیے تو. پہلے دو قافیے مطلع کے ہیں.
عکس خوشبو ہوں, بکھرنے سے نہ روکے کوئی
روکے, سمیٹے, لے, بکھرے. رکھے, جھانکے, آئے
میں:میرا تو نہیں خیال کے پروین شاکر کی غزل میں ایطائے جلی موجود ہے.
روکے اور سمیٹے اگر مطلع میں استعمال کیے جائیں تو حرف روی "ے" ہے.تمام قوافی میں اب حرف روی اور توجیہہ یعنی روی سے پچھلے حرف کی حرکت کا اختلاف جائز نہیں ہے.اور کوئی قید نہیں.
ایطائے جلی سےمراد ایک ہی قافیے کی دونوں مصرعوں میں تکرار ہے. اقبال کا شعر ہے
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
اس شعر میں ایطائے جلی موجود ہے. دونوں مصرعوں میں ایک ہی قافیہ ستاں استعمال ہوا ہے.
اسی طرح
خواجہ حافظ کا شعر ہے
امروز شاہ انجمنے دلبراں یکیست
دلبر اگر ہزار بود دلبرآں یکیست
دلبراں دلبر کی جمع اور دلبر آں بمعنی وہ دلبر ہے.
لیکن اس کے باوجود ایک ہی قافیہ صوتی اعتبار سے دونوں مصرعوں میں استعمال ہوا ہے کیونکہ دلبرآں تقطیع میں دلبراں ہی آ رہا ہے.
اس لیے اس شعر میں بھی ایطائے جلی موجود ہے.
شکیب بھائی:
بھئی اقبال والے شعر میں ایطاء جلی تب ہوگا جب ہندوستاں کو مرکب خیال کیا جائے. جبکہ ہندوستان ایک مفرد لفظ ہے. میں نے شاید محفل پر بھی کہا تھا... خیر یہ تو اپنا پنا خیال ہے کہ آپ مفرد مانیں یا مرکب۔
قافیہ اگر فعل ہو تو روی کا تعین. اس فعل کا صیغہ امر بنا کر کیا جاتا ہے. اس لیے روک اور سمیٹ ہم قافیہ نہیں. سو ایطاء جلی ہے۔
میں:
محفل پر لڑی بنا لیتے ہیں. ہم پر بھی بات واضح ہو جائے گی اور دوسروں کا بھی فائدہ ہو جائے گا.
اب اس پر اساتذہ اور ماہرین کی رائے درکار ہے۔
ظہیراحمدظہیر صاحب
الف عین سر
محمد وارث صاحب
مزمل شیخ بسمل صاحب
ابن رضا صاحب
شکیب بھائی:
السلام علیکم!
بھئی ریحان. ذرا پروین شاکر کی غزل پر رائے دو تو کہ اس میں قافیوں کی کچھ غلطی ہے کیا. دراصل بادی النظر میں تو معلوم نہیں ہورہا. لیکن ایطاء جلی کی پہچان ضرور پائی جا رہی ہے. ذرا تفصیلی مختصر روشنی ڈالیے تو. پہلے دو قافیے مطلع کے ہیں.
عکس خوشبو ہوں, بکھرنے سے نہ روکے کوئی
روکے, سمیٹے, لے, بکھرے. رکھے, جھانکے, آئے
میں:میرا تو نہیں خیال کے پروین شاکر کی غزل میں ایطائے جلی موجود ہے.
روکے اور سمیٹے اگر مطلع میں استعمال کیے جائیں تو حرف روی "ے" ہے.تمام قوافی میں اب حرف روی اور توجیہہ یعنی روی سے پچھلے حرف کی حرکت کا اختلاف جائز نہیں ہے.اور کوئی قید نہیں.
ایطائے جلی سےمراد ایک ہی قافیے کی دونوں مصرعوں میں تکرار ہے. اقبال کا شعر ہے
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
اس شعر میں ایطائے جلی موجود ہے. دونوں مصرعوں میں ایک ہی قافیہ ستاں استعمال ہوا ہے.
اسی طرح
خواجہ حافظ کا شعر ہے
امروز شاہ انجمنے دلبراں یکیست
دلبر اگر ہزار بود دلبرآں یکیست
دلبراں دلبر کی جمع اور دلبر آں بمعنی وہ دلبر ہے.
لیکن اس کے باوجود ایک ہی قافیہ صوتی اعتبار سے دونوں مصرعوں میں استعمال ہوا ہے کیونکہ دلبرآں تقطیع میں دلبراں ہی آ رہا ہے.
اس لیے اس شعر میں بھی ایطائے جلی موجود ہے.
شکیب بھائی:
بھئی اقبال والے شعر میں ایطاء جلی تب ہوگا جب ہندوستاں کو مرکب خیال کیا جائے. جبکہ ہندوستان ایک مفرد لفظ ہے. میں نے شاید محفل پر بھی کہا تھا... خیر یہ تو اپنا پنا خیال ہے کہ آپ مفرد مانیں یا مرکب۔
قافیہ اگر فعل ہو تو روی کا تعین. اس فعل کا صیغہ امر بنا کر کیا جاتا ہے. اس لیے روک اور سمیٹ ہم قافیہ نہیں. سو ایطاء جلی ہے۔
میں:
محفل پر لڑی بنا لیتے ہیں. ہم پر بھی بات واضح ہو جائے گی اور دوسروں کا بھی فائدہ ہو جائے گا.
اب اس پر اساتذہ اور ماہرین کی رائے درکار ہے۔
ظہیراحمدظہیر صاحب
الف عین سر
محمد وارث صاحب
مزمل شیخ بسمل صاحب
ابن رضا صاحب
محفل