ایطائے جلی

فقیر شکیب احمد بھائی سے کچھ دیر قبل فیسبک پر دلچسب گفتگو ہوئی اور موضوع بھی عوام و خواص کا پسندیدہ تھا یعنی ایطائے جلی۔ تو گفتگو کچھ یوں تھی

شکیب بھائی:
السلام علیکم!
بھئی ریحان. ذرا پروین شاکر کی غزل پر رائے دو تو کہ اس میں قافیوں کی کچھ غلطی ہے کیا. دراصل بادی النظر میں تو معلوم نہیں ہورہا. لیکن ایطاء جلی کی پہچان ضرور پائی جا رہی ہے. ذرا تفصیلی مختصر روشنی ڈالیے تو. پہلے دو قافیے مطلع کے ہیں.
عکس خوشبو ہوں, بکھرنے سے نہ روکے کوئی
روکے, سمیٹے, لے, بکھرے. رکھے, جھانکے, آئے

میں:میرا تو نہیں خیال کے پروین شاکر کی غزل میں ایطائے جلی موجود ہے.
روکے اور سمیٹے اگر مطلع میں استعمال کیے جائیں تو حرف روی "ے" ہے.تمام قوافی میں اب حرف روی اور توجیہہ یعنی روی سے پچھلے حرف کی حرکت کا اختلاف جائز نہیں ہے.اور کوئی قید نہیں.

ایطائے جلی سےمراد ایک ہی قافیے کی دونوں مصرعوں میں تکرار ہے. اقبال کا شعر ہے

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

اس شعر میں ایطائے جلی موجود ہے. دونوں مصرعوں میں ایک ہی قافیہ ستاں استعمال ہوا ہے.

اسی طرح
خواجہ حافظ کا شعر ہے

امروز شاہ انجمنے دلبراں یکیست
دلبر اگر ہزار بود دلبرآں یکیست

دلبراں دلبر کی جمع اور دلبر آں بمعنی وہ دلبر ہے.
لیکن اس کے باوجود ایک ہی قافیہ صوتی اعتبار سے دونوں مصرعوں میں استعمال ہوا ہے کیونکہ دلبرآں تقطیع میں دلبراں ہی آ رہا ہے.
اس لیے اس شعر میں بھی ایطائے جلی موجود ہے.

شکیب بھائی:
بھئی اقبال والے شعر میں ایطاء جلی تب ہوگا جب ہندوستاں کو مرکب خیال کیا جائے. جبکہ ہندوستان ایک مفرد لفظ ہے. میں نے شاید محفل پر بھی کہا تھا... خیر یہ تو اپنا پنا خیال ہے کہ آپ مفرد مانیں یا مرکب۔

قافیہ اگر فعل ہو تو روی کا تعین. اس فعل کا صیغہ امر بنا کر کیا جاتا ہے. اس لیے روک اور سمیٹ ہم قافیہ نہیں. سو ایطاء جلی ہے۔

میں:
محفل پر لڑی بنا لیتے ہیں. ہم پر بھی بات واضح ہو جائے گی اور دوسروں کا بھی فائدہ ہو جائے گا.

اب اس پر اساتذہ اور ماہرین کی رائے درکار ہے۔
ظہیراحمدظہیر صاحب
الف عین سر
محمد وارث صاحب
مزمل شیخ بسمل صاحب
ابن رضا صاحب
محفل
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کل ہی شکیب صاحب سے اس پر بات ہوئی ہے ذاتی مکالمے میں ۔ جب فعل کو قافیہ بنایا جائے تو اس کا صیغہء امر ہی اصل قافیہ ہوتا ہےیعنی مصدرِ قافیہ۔ چنانچہ نکلتا ، سنبھلتا ، مچلتا ، بدلتا ہم قافیہ ہیں ۔ ان میں مصدرِ قافیہ نکل ، سنبھل ، مچل اور بدل ہیں ۔ حرفِ روی لام ہے ۔ ت اور الف زائد حروف ہیں جنہیں اصطلاح میں بالترتیب حرفِ وصل اور حرفِ خروج کہا جاتا ہے ۔ روی کے بعد آنے والے حروف کو دراصل ردیف کا حصہ ہی سمجھنا چاہیئے کہ ان کی تکرار ہر قافیے میں بعینہ لازمی ہے ۔
روکے, سمیٹے, لے, بکھرے. رکھے, جھانکے, آئے ہم قافیہ نہیں ہیں ۔ ان میں روک، سمیٹ ،لے، بکھر، رکھ ، جھانک اور آ اصل الفاظ ہیں اور ان سب کا حرفِ روی الگ الگ ہے ۔ چنانچہ ان کا قافیہ قائم نہیں ہوسکتا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
چونکہ روی کا تعین مطلع میں ہوتا ہے اس لئے مشتقات ِ فعل کو قافیہ بنانے کی ایک ہی صورت ہے کہ ایک مصرع میں اصلی حرفِ روی اور دوسرے میں وصلی حرف کو روی کا قائم مقام بنا کر گنجائش پیدا کر لی جائے ۔ مثلاً
دوست ہو کر بھی نہین ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
ا س میں زمانے کے اصلی حرفِ روی نون اور نبھانے کے وصلی نون کو ایک ساتھ باندھ کر نون کو روی متعین کردیا گیا ۔ اب اس حیلے کی وجہ سے جلانا ، اٹھانا ، آنا ، جانا تمام قوافی استعمال کئے جاسکتے ہیں ۔
اسی ضمن میں خاکسار کی ایک غزل کا مطلع دیکھئے:

عاشقی کارِ جنوں اور بھی دے گی آگے
بات اب دار و رسن سے بھی بڑھے گی آگے

اس میں دے کے اصلی روی ے کو بڑھے کے وصلی حرف ے کے مقابل لاکر ے کو روی طے کردیا گیا ہے ۔ چنانچہ بقیہ غزل میں چلے ، رہے اور اٹھے وغیرہ کے قوافی بالکل درست ہوں گے جو کہ بصورتِ دیگر ممکن نہ تھے ۔
 
یعنی کہ ان قوافی میں جو اصلی روی ہے اس کا اختلاف ہے. روی کا اختلاف ویسے تو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے. بہرحال یہ قوافی ایک عام قاری کی حیثیت سے اتنے برے معلوم نہیں ہو رہے کہ جتنے دانا اور بینا محسوس ہوتے ہیں. حالانکہ ان میں ایطائے خفی موجود ہے جو کہ جائز ہے .
 

شکیب

محفلین
میں:
محفل پر لڑی بنا لیتے ہیں. ہم پر بھی بات واضح ہو جائے گی اور دوسروں کا بھی فائدہ ہو جائے گا.
اس کے بعد میں نے کہا تھا کہ
I am sure by the way:)
در اصل ظہیر بھائی نے اور پیارے چچا جان کی 'صحبت' نے اس معاملے میں پکا کر دیا ہے۔ کنفیوژن محض یہ تھا کہ آخر ایطا کا احساس کیوں نہیں ہو رہا، علامات تو پائی جا رہی ہیں۔
:)
 

شکیب

محفلین
چونکہ روی کا تعین مطلع میں ہوتا ہے اس لئے مشتقات ِ فعل کو قافیہ بنانے کی ایک ہی صورت ہے کہ ایک مصرع میں اصلی حرفِ روی اور دوسرے میں وصلی حرف کو روی کا قائم مقام بنا کر گنجائش پیدا کر لی جائے ۔
بالکل یہی سوچا تھا میں نے بھی، یعنی اگر پروین شاکر نے مطلع میں سمیٹے کے ساتھ 'لے' وغیرہ کو استعمال کر لیا ہوتا تو سب قافیے درست ہو جاتے۔ :)
آپ کا "یہاں ملاحظہ فرمائیں" بھی لنک کا حصہ بن گیا ہے جس کی وجہ سے لنک کھل نہیں رہی۔۔۔ یہ رہی اصل لنک۔ روی کے تعین کے لیے صیغہ امر بنانے والی بات شاید سب سے پہلے میں نے یہیں پڑھی تھی۔ :)
 

شکیب

محفلین
محمد ریحان قریشی ، بہت دنوں سے ایک تجویز ذہن میں ہے کہ معائب سخن کی مثالوں کا ذخیرہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں اگر آپ تیار ہوں تو شروع کروں؟ ان شاء اللہ بڑی مفید لڑی رہے گی۔۔۔
 
بالکل یہی سوچا تھا میں نے بھی، یعنی اگر پروین شاکر نے مطلع میں سمیٹے کے ساتھ 'لے' وغیرہ کو استعمال کر لیا ہوتا تو سب قافیے درست ہو جاتے۔ :)

آپ کا "یہاں ملاحظہ فرمائیں" بھی لنک کا حصہ بن گیا ہے جس کی وجہ سے لنک کھل نہیں رہی۔۔۔ یہ رہی اصل لنک۔ روی کے تعین کے لیے صیغہ امر بنانے والی بات شاید سب سے پہلے میں نے یہیں پڑھی تھی۔ :)
بحر الفصاحت میں ایطائے خفی کی مثال میں ہے
؎
دال روٹی اگر جو گھر میں پکے
چمچہ بھر گھی کبھی نہ اس میں رلے
(سودا)

یعنی اسے بھی ایطائے خفی ہی قرار دینا چاہیے۔ وہ الگ بات ہے کہ سمیٹے کی جگہ لے آ جانا سے بھی کوئی کمال نہیں ہونے والا۔

میں اپنے اصول پر قائم ہوں۔ اگر قوافی میں صرف ایک حرف مشترک ہے اور وہ آخری ساکن حرف ہے تو وہی روی ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
عکس خوشبو ہوں ، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
یہاں پروین شاکر ایک اور مصرع لگا دیتی تو مسئلہ ہی نہ ہوتا کہ
لے گیا میرے سنبھالے ہوئے پیسے کوئی :laughing:
 

شکیب

محفلین
میں اپنے اصول پر قائم ہوں۔ اگر قوافی میں صرف ایک حرف مشترک ہے اور وہ آخری ساکن حرف ہے تو وہی روی ہے۔
اردو میں تو ہر لفظ کا آخری حرف ساکن ہی ہوتا ہے۔ متحرک الآخر عربی، ہندی وغیرہ میں مستعمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، جن کا نام در اصل ”رگھو پتِ(ت مکسور)“ تھا، اردو میں اپنے نام کو ی کے ساتھ یعنی رگھوپتی لکھتے تھے، اور ہم بھی لکھتے ہیں۔
ویسے آپ کے بیان کردہ اس اصول پر کوئی حوالہ ضرور دیجیے، کیونکہ میں نے ہر جگہ روی کے تعین کے لیے وہی اصول پڑھا ہے جو میں نے بیان کیا تھا۔ :)
 
اردو میں تو ہر لفظ کا آخری حرف ساکن ہی ہوتا ہے۔ متحرک الآخر عربی، ہندی وغیرہ میں مستعمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، جن کا نام در اصل ”رگھو پتِ(ت مکسور)“ تھا، اردو میں اپنے نام کو ی کے ساتھ یعنی رگھوپتی لکھتے تھے، اور ہم بھی لکھتے ہیں۔
ویسے آپ کے بیان کردہ اس اصول پر کوئی حوالہ ضرور دیجیے، کیونکہ میں نے ہر جگہ روی کے تعین کے لیے وہی اصول پڑھا ہے جو میں نے بیان کیا تھا۔ :)
سرِ تسلیم خم جناب۔
اصول بنانے والوں کے خلاف بغاوت کر رہا تھا۔
ویسے اگر یہ اصول طوسی کا وضع کردہ ہے تو رد کیا جا سکتا ہے۔
 
Top