ایطا(جلی/خفی) : مثالوں کا ذخیرہ

شکیب

محفلین
ایطاء جلی کیا ہے؟
(از - شکیب احمد)
مرزا یاسؔ کے لفظوں میں ”ایطا کہتے ہیں قافیوں میں کلمۂ آخر (متحد المعنی) کی تکرار کو۔ یعنی اگر اس کلمۂ متحد المعنی کو اگر قافیوں سے الگ کر ڈالیں تو جو کچھ باقی رہے وہ الفاظ با معنی ہوں مگر ان میں حرفِ روی قائم نہ ہو سکے۔“
نہیں سمجھے؟ جی کوئی بات نہیں۔ ابھی سمجھ میں آ جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر آپ یہ دو قافیے دیکھیں: ”دردمند “اور ”حاجتمند“۔ ان میں آخری کلمہ ”مند“ دونوں جگہ ہے، اور دونوں جگہ اس کے معنی بھی ایک ہیں۔ اس کلمہ ”مند“ کو اگر دونوں قوافی میں سے نکال دیا جائے تو ”درد“ اور ”حاجت“ باقی رہتے ہیں، جو (۱)با معنی الفاظ ہیں اور(۲) ہم قافیہ نہیں ہیں( ان میں روی مشترک نہیں ہے۔) چنانچہ دردمند اور حاجتمند میں ”ایطا“ کا عیب ہے۔
یہاں ”درد“ کا روی ”د“ اور حاجت کا روی ”ت“ ہے۔ روی کا فوری تعین کرنے کے لیے آسان طریقہ یہ ہے کہ قافیے میں سے زوائد کو نکال دیں، یہاں تک کہ قافیہ کا اصل باقی بچ جائے۔ اگر قافیہ فعل ہو، تو اسے امر (حکمOrder)بنا دیں۔ مثلاً چلنا سے چل۔ اب آخری حرف روی ہوگا۔ یعنی چلنا میں حرفِ روی ”ل“ ہے۔ یہ قافیے کی بحث ہے، لیکن ایطا کے پہچاننے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
ایطا پر واپس آتے ہیں۔ آپ جان چکے ہیں کہ قافیوں کا کلمۂ آخر جو معنی میں بھی ایک ہو، نکال دینے پر جو اصلی الفاظ باقی بچیں، وہ اور قافیوں کے خلاف ہو جائیں تو یہ ایطا کہلاتا ہے۔ مثلاً ایک غزل میں یوں مطلع کہا گیا:
یہ تو نہیں انسان جفا گر نہیں ہوتا
تم سا بھی مگر کوئی ستم گر نہیں ہوتا
اس میں ”گر“ دونوں جگہ فاعل(کرنے والا) کے معنی میں ہے۔(جفا گر=جفا کرنے والا، ستم گر = ستم کرنے والا)اب ”گر“ جو زائد حصہ ہے، دونوں قافیوں سے نکال دیا جائے تو ”ستم“ اور ”جفا“ باقی رہتا ہے جو با معنی الفاظ ہیں اور ہم قافیہ نہیں ہیں۔ اس لیے مطلع کے اس شعر میں ایطا ہو گیا۔
غور کریں کہ بھلا ایطا میں کلمۂ زائد کے ”متحد المعنی“ ہونے کی قید کیوں لگائی گئی ہے؟ جی کیا کہا؟ بالکل درست! یہ در اصل یہ جانچنے کے لیے پیمانہ ہے کہ آیا مستعمل ترکیب میں ”روی“ اصلی ہے یا نہیں۔ یہاں جفا گر اور ستمگر میں روی ”ر“ ہے، اور دونوں جگہ اصلی نہیں ہے(کیونکہ دو علیحدہ لفظوں سے مرکب ہے)۔ اگر قافیہ ہوتا ”جگر“ یا ”قمر“ وغیرہ، تو ان میں حرف روی ”ر“ اصلی ہے۔
آپ کی آسانی کے لیے ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں۔ سیماب اکبر آبادی نے ایطا کی پہچان آسان کرنے کے لیے یوں لکھا ہے۔
”ایطا کی ایک پہچان یہ ہے کہ روی حذف کرنے کے بعد اگر لفظ با معنی رہے تو ایطا ہے ورنہ نہیں۔“
لیجیے جناب! آسان سا فارمولا ہے۔ ویسے یاد رہے کہ حرفِ روی جب اصلی ہوگا، تبھی روی حذف کر کے جانچیے گا۔ اگر روی اصلی نہیں ہے تو پورے کلمۂ زائد کو حذف کیجیے، اور دیکھیے کہ بقیہ بچے الفاظ با معنی ہیں تو ایطا ہے۔ ایک لفظ بھی اگر بے معنی ہے، تو ایطا نہیں ہے۔ جفا گر اور ستم گر میں چونکہ روی (ر)اصلی نہیں تھا، اس لیے پورے کلمۂ زائد یعنی ”گر“ کو حذف کر کے ”جفا“ اور ”ستم“ کو پرکھا گیا، جو با معنی تھے۔ چنانچہ ایطا واقع ہوا۔
یہ تو ظاہر ہی ہے کہ زائد کلمہ کو حذف کرنے کے بعد اگر بچے ہوئے الفاظ (بھلے ہی ہم معنی ہوں)ہم قافیہ رہ جائیں، تو ایطا نہیں ہوگا۔ مثلاً ”کہنا“ اور ”رہنا“ میں سے زوائد(یعنی ”نا“ جو علامتِ مصدر ہے) نکال دیں تو ”کہہ“ اور ”رہ“ بچتے ہیں جو با معنی تو ہیں، لیکن ”ہم قافیہ“ بھی ہیں۔ یا بالفاظ یاسؔ، ان میں روی کا تعین بھی ہو رہا ہے، تو ایطا نہیں ہوگا۔
اب تک کی بحث ہو سکتا ہے آپ کو ٹھیک ٹھاک خشک محسوس ہوئی ہو، لیکن انہی میں اصل بات چھپی ہے۔ ہو سکتا ہے اب بھی آپ ایطا کے متعلق شش و پنچ میں ہوں، یا کوئی بات سمجھ نہیں پائے ہوں۔ اس میں بھی پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ بے فکر رہیں! آگے دی گئی مثالوں سے ان شاء اللہ آپ بات پوری طرح سمجھ جائیں گے۔ ہر مثال کے ساتھ اس کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایطائے خفی کے لیے محمد ریحان قریشی بھائی کی یہ لڑی دیکھیں۔

یہ لڑی ایطا کے لیے مخصوص ہے۔ احباب ایسے اشعار شامل کریں جن میں ایطا کا نقص ہو۔
تمام عیوب کے لیے یہاں دیکھیں۔
 
آخری تدوین:

شکیب

محفلین
غزل
پروین شاکر
عکسِ خوشبو ہوں،بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بِکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
کانپ اُٹھتی ہوں مَیں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی
جس طرح خواب مرے ہوگئے ریزہ ریزہ
اِس طرح سے نہ کبھی ٹُوٹ کے بکھرے کوئی
میں تو اُس دِن سے ہراساں ہوں کہ جب حُکم ملے
خشک پُھولوں کی کتابوں میں نہ رکھے کوئی
اب تو اس راہ سے شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس اُمید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
کوئی آہٹ ،کوئی آواز ،کوئی چاپ نہیں
دل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں آئے کوئی
-بحوالہ ریختہ ڈاٹ آرگ-
وضاحت:
قوافی: روکے، سمیٹے، لے، بکھرے، رکھے، جھانکے، آئے
ردیف: کوئی
قوافی میں 'ے' بطور روی غیر اصلی استعمال کیا گیا ہے۔ قافیے اگر فعل ہوں تو ان کا مصدر روی کا تعین کرتا ہے۔ مصدر کے لیے فعل کا صیغہء امر بنا دیا جائے تو روی با آسانی معلوم ہو سکتا ہے۔ چنانچہ زوائد حذف کرنے پر قوافی یوں ہوں گے
روک، سمیٹ، لے، بکھر، رکھ، جھانک، آ
جن میں روی کا اتحاد نہیں، چنانچہ یہ قافیے درست نہیں ہیں۔​
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ صرف مثالیں دینے کی بجائے پہلے آپ ہر ایک عیب کی وضاحت کریں کہ وہ کیا ہے، کیوں ہے اور کیسے ہے۔ اساتذہ کی اس بارے میں کیا رائے ہے اور انہوں نے کیسے وضاحت کی ہے اور اس کے بعد دوسرے شعرا کے کلام میں سے مثالیں جمع کی جائیں۔
 

شکیب

محفلین
غزل
وصی شاہ
ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﺍُﺗﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻬﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺗﺮﯼ ﺁﻧﮑﻬﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮍﻫﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻬﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﻟﮑﻬﻨﮯ ﮐﯽ ﺍِﺟﺎﺯﺕ ﭼِﻬﻦ ﮔﺌﯽ ﺟﺐ ﺳﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻬﯽ ﻟﻔﻆ ﻟﮑﻬﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﺗﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺧُﻮﺷﺒﻮ ﮐﮭﮍﮐﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻗﺺ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺗﺮﮮ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ ﺳُﻠﮕﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺲ ﮐﮯ ﺟﻬﯿﻞ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺟُﺪﺍﺋﯽ کیﺳﺒﻬﯽ ﺭﺳﻤﯿﮟ
ﮔﻠﮯ ﺟﺐ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﺍِﺱ ﻗﺪﺭ ﺣﺴﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﺐ ﺳﮯ
ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﻭﻩ ﺳﺐ ﮔُﺰﺭﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﺁتے ﮨﯿﮟ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺧﻂ ﺟﻮ ﭘﮍﻫﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽﮨﯿﮟ

ﻣَﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺩِﻥ ﺑﮩﺖ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ ﺟﻮﻧﮩﯽ
ﻗﺪﻡ ﭼﻮﮐﻬﭧ ﭘﮧ ﺭﮐﻬﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﮨﺮ ﺍِﮎ ﻣُﻔﻠﺲ ﮐﮯ ﻣﺎﺗﻬﮯ ﭘﺮ ﺍَﻟﻢ ﮐﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻧﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﭼﮩﺮﻩ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﻫﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽﮨﯿﮟ

ﺑﮍﮮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺍُﻭﻧﭽﮯ ﺑَﺪﻧﻤﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﺩ ﻣﺤﻠﻮﮞ ﮐﻮ
ﻏﺮﯾﺐ ﺁﻧﮑﻬﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽﮨﯿﮟ

ﺗﺮﮮ ﮐﻮﭼﮯ ﺳﮯ ﺍَﺏ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﻌﻠﻖ ﻭَﺍﺟﺒﯽ ﺳَﺎ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﺟﺐ ﺑﻬﯽ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﻮﺳﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﮑﻤﺮاﻧﯽ ﮨﮯ میرﮮ ﺩِﻝ ﭘﺮ
ﻭﺻﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﻬﯽ ﮨﻨﺴﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎتی ہیں
(بحوالہ ریختہ ڈاٹ آرگ)
وضاحت:
قوافی: اترتا، پڑھتا، لکھتا، سلگتا، لگتا، کرتا، پڑھتا، رکھتا، تکتا، گزرتا، ہنستا
ردیف: ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ان تمام میں کلمۂ آخر متحد المعنی ”تا“ ہے۔ چنانچہ بقیہ بچنے والے الفاظ ہیں:
لکھ، سلگ، لگ، کر، پڑھ، رکھ، تک، گزر، ہنس
مطلع سے دیکھیں، تو ”اتر، کر، گزر“ اور ”سلگ، لگ“ درست قوافی ہو سکتے تھے۔ چنانچہ اس غزل میں اگر ”اترتا، کرتا، گزرتا“ وغیرہ قوافی استعمال کیے جاتے تو غزل سے ایطا کا نقص دور ہوتا، اس صورت میں بقیہ تمام قوافی بے کار ٹھہرتے ہیں اور ان تمام اشعار کو دوسری کسی غزل میں جگہ دی جا سکتی ہے جن کے قوافی ان سے match ہوتے ہوں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ وصیؔ کے اس شعری مجموعے کا نام اسی غزل کی ردیف ”آنکھیں بھیگ جاتی ہیں“ ہے۔ یعنی یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ یہ اپنے کلام میں سے وصی شاہ کا ”انتخاب“ ہے۔
 

شکیب

محفلین
غزل
وصی شاہ
ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﺍُﺗﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻬﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺗﺮﯼ ﺁﻧﮑﻬﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮍﻫﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻬﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﻟﮑﻬﻨﮯ ﮐﯽ ﺍِﺟﺎﺯﺕ ﭼِﻬﻦ ﮔﺌﯽ ﺟﺐ ﺳﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻬﯽ ﻟﻔﻆ ﻟﮑﻬﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﺗﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺧُﻮﺷﺒﻮ ﮐﮭﮍﮐﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻗﺺ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺗﺮﮮ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ ﺳُﻠﮕﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺲ ﮐﮯ ﺟﻬﯿﻞ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺟُﺪﺍﺋﯽ کیﺳﺒﻬﯽ ﺭﺳﻤﯿﮟ
ﮔﻠﮯ ﺟﺐ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﺍِﺱ ﻗﺪﺭ ﺣﺴﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﺐ ﺳﮯ
ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﻭﻩ ﺳﺐ ﮔُﺰﺭﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﺁتے ﮨﯿﮟ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺧﻂ ﺟﻮ ﭘﮍﻫﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽﮨﯿﮟ

ﻣَﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺩِﻥ ﺑﮩﺖ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ ﺟﻮﻧﮩﯽ
ﻗﺪﻡ ﭼﻮﮐﻬﭧ ﭘﮧ ﺭﮐﻬﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﮨﺮ ﺍِﮎ ﻣُﻔﻠﺲ ﮐﮯ ﻣﺎﺗﻬﮯ ﭘﺮ ﺍَﻟﻢ ﮐﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻧﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﭼﮩﺮﻩ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﻫﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽﮨﯿﮟ

ﺑﮍﮮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺍُﻭﻧﭽﮯ ﺑَﺪﻧﻤﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﺩ ﻣﺤﻠﻮﮞ ﮐﻮ
ﻏﺮﯾﺐ ﺁﻧﮑﻬﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽﮨﯿﮟ

ﺗﺮﮮ ﮐﻮﭼﮯ ﺳﮯ ﺍَﺏ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﻌﻠﻖ ﻭَﺍﺟﺒﯽ ﺳَﺎ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﺟﺐ ﺑﻬﯽ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﻮﺳﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﮑﻤﺮاﻧﯽ ﮨﮯ میرﮮ ﺩِﻝ ﭘﺮ
ﻭﺻﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﻬﯽ ﮨﻨﺴﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎتی ہیں
(بحوالہ ریختہ ڈاٹ آرگ)
وضاحت:
قوافی: اترتا، پڑھتا، لکھتا، سلگتا، لگتا، کرتا، پڑھتا، رکھتا، تکتا، گزرتا، ہنستا
ردیف: ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ان تمام میں کلمۂ آخر متحد المعنی ”تا“ ہے۔ چنانچہ بقیہ بچنے والے الفاظ ہیں:
لکھ، سلگ، لگ، کر، پڑھ، رکھ، تک، گزر، ہنس
مطلع سے دیکھیں، تو ”اتر، کر، گزر“ اور ”سلگ، لگ“ درست قوافی ہو سکتے تھے۔ چنانچہ اس غزل میں اگر ”اترتا، کرتا، گزرتا“ وغیرہ قوافی استعمال کیے جاتے تو غزل سے ایطا کا نقص دور ہوتا، اس صورت میں بقیہ تمام قوافی بے کار ٹھہرتے ہیں اور ان تمام اشعار کو دوسری کسی غزل میں جگہ دی جا سکتی ہے جن کے قوافی ان سے match ہوتے ہوں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ وصیؔ کے اس شعری مجموعے کا نام اسی غزل کی ردیف ”آنکھیں بھیگ جاتی ہیں“ ہے۔ یعنی یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ یہ اپنے کلام میں سے وصی شاہ کا ”انتخاب“ ہے۔
 

شکیب

محفلین
کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ صرف مثالیں دینے کی بجائے پہلے آپ ہر ایک عیب کی وضاحت کریں کہ وہ کیا ہے، کیوں ہے اور کیسے ہے۔ اساتذہ کی اس بارے میں کیا رائے ہے اور انہوں نے کیسے وضاحت کی ہے اور اس کے بعد دوسرے شعرا کے کلام میں سے مثالیں جمع کی جائیں۔
بہت اچھا خیال ہے۔ سوچا تو یہی تھا، لیکن چونکہ ان پر بات بہت سی جگہ ہو چکی ہے اس لیے یہ شامل نہیں کیا۔ میرے خیال میں ان دوسری لڑیوں کے روابط شامل کر دیے جائیں تو بھی کافی ہو جائے گا۔ آپ کیا فرماتے ہیں۔
 

شکیب

محفلین
میرا ایک مضمون معائب سخن کا عرصے سے زیرِ تحریر ہے، اس میں ایطا کا حصہ مکمل ہو چکا ہے، اسے ہی شامل کردیا ہے بطور تعارف۔ محمد وارث
 
آخری تدوین:
السلام علیکم
ایک سوال پوچھنا ہے
دولت مندوں اور حاجت مندوں اور تھانہ داروں اور خاصہ داروں میں حرف روی کونسا ہے
اگر ت اور ہ حرف روی ہوں تو روی کے بعد والے حروف کو کیا کیا نام دیں گے قافیہ میں روی کے بعد جو حروف آتے ہیں وہ وصل خروج مزید اور نائرہ کل چار حروف ہیں چار کے علاوہ حروف کو ردیف میں بھی شامل نہیں کیا جا سکتا
خاصہ داروں نے لُوٹا
تھانہ داروں نے لُوٹا
دولتمندوں کو دیکھ
حاجتمندوں کو دیکھ
ان میں بالترتیب (نے لُوٹا) اور (کو دیکھ) ردیف ہیں.
رہنمائی فرمائیں
 

شکیب

محفلین
خاصہ داروں نے لُوٹا
تھانہ داروں نے لُوٹا
دولتمندوں کو دیکھ
حاجتمندوں کو دیکھ
اصطلاحات کا چکر بڑے لوگوں پر چھوڑ دیں۔ آپ بس اتنا سمجھیں کہ جہاں سے فقرے دہرائے جانے لگیں وہ ردیف کا حصہ ہو گیا، اس سے قبل قوافی آئیں گے۔
چنانچہ:
سرخ: قافیہ، بقیہ: ردیف
خاصہ داروں نے لُوٹا
تھانہ داروں نے لُوٹا
دولتمندوں کو دیکھ
حاجتمندوں کو دیکھ

اب آپ خاصہ دار کو قافیہ سمجھیں یا صرف خاصہ کو، فرق نہیں پڑتا۔ اصل قافیے کا تعین دوسرے مصرع میں ہوگا۔
یونہی رہنے دیں تو حرف ہ روی بن جاتا ہے۔ اگر پہلے تھانہ دار اور دوسرے میں نابکار لے آئیں تو حرف ر روی بن جاتا ہے، وعلی ھذا القیاس۔

پھر مشورہ دوں گا کہ اصطلاحات کے چکر میں نہ پڑھیں۔ کانسیپٹ سمجھیں اور کنی کاٹ لیں۔

تدوین: میرے بلاگ پر متعلقہ ربط
 
السلام علیکم
حضرات گرامی ایک سوال اور ہے اور وہ یہ ہے کہ کتابوں میں لکھا ہے کہ قافیہ کے نو حروف ہوتے ہیں اگر زائد ردف بھی شامل کریں تو پھر دس حروف بنتے ہیں اگر کوئی کہے کہ ردف زائد ردف کا ایک قسم ہے پھر بھی ایک حرف بڑھے گا یا اگر ردف زائد کو روی مضاعف کا نام دیں تب بھی کل حروف دس ہوجاتے ہیں تو اس بات کہنے میں کیا حرج ہے کہ یہ کہا جائے کہ قافیہ کے کل حروف دس ہیں.
رہنمائی فرمائیں ممنون رہوں گا
 
شکیب صاحب میں قافیہ کے متعلق جاننا چاہتا ہوں. از راہ کرم جواب دیں. اصطلاحات بھی سیکھنی ہیں اگر ہو سکے تو رہنمائی فرمائیں.
 
Top