شکیب
محفلین
ایطاء جلی کیا ہے؟
(از - شکیب احمد)
مرزا یاسؔ کے لفظوں میں ”ایطا کہتے ہیں قافیوں میں کلمۂ آخر (متحد المعنی) کی تکرار کو۔ یعنی اگر اس کلمۂ متحد المعنی کو اگر قافیوں سے الگ کر ڈالیں تو جو کچھ باقی رہے وہ الفاظ با معنی ہوں مگر ان میں حرفِ روی قائم نہ ہو سکے۔“(از - شکیب احمد)
نہیں سمجھے؟ جی کوئی بات نہیں۔ ابھی سمجھ میں آ جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر آپ یہ دو قافیے دیکھیں: ”دردمند “اور ”حاجتمند“۔ ان میں آخری کلمہ ”مند“ دونوں جگہ ہے، اور دونوں جگہ اس کے معنی بھی ایک ہیں۔ اس کلمہ ”مند“ کو اگر دونوں قوافی میں سے نکال دیا جائے تو ”درد“ اور ”حاجت“ باقی رہتے ہیں، جو (۱)با معنی الفاظ ہیں اور(۲) ہم قافیہ نہیں ہیں( ان میں روی مشترک نہیں ہے۔) چنانچہ دردمند اور حاجتمند میں ”ایطا“ کا عیب ہے۔
یہاں ”درد“ کا روی ”د“ اور حاجت کا روی ”ت“ ہے۔ روی کا فوری تعین کرنے کے لیے آسان طریقہ یہ ہے کہ قافیے میں سے زوائد کو نکال دیں، یہاں تک کہ قافیہ کا اصل باقی بچ جائے۔ اگر قافیہ فعل ہو، تو اسے امر (حکمOrder)بنا دیں۔ مثلاً چلنا سے چل۔ اب آخری حرف روی ہوگا۔ یعنی چلنا میں حرفِ روی ”ل“ ہے۔ یہ قافیے کی بحث ہے، لیکن ایطا کے پہچاننے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
ایطا پر واپس آتے ہیں۔ آپ جان چکے ہیں کہ قافیوں کا کلمۂ آخر جو معنی میں بھی ایک ہو، نکال دینے پر جو اصلی الفاظ باقی بچیں، وہ اور قافیوں کے خلاف ہو جائیں تو یہ ایطا کہلاتا ہے۔ مثلاً ایک غزل میں یوں مطلع کہا گیا:
یہ تو نہیں انسان جفا گر نہیں ہوتا
تم سا بھی مگر کوئی ستم گر نہیں ہوتا
اس میں ”گر“ دونوں جگہ فاعل(کرنے والا) کے معنی میں ہے۔(جفا گر=جفا کرنے والا، ستم گر = ستم کرنے والا)اب ”گر“ جو زائد حصہ ہے، دونوں قافیوں سے نکال دیا جائے تو ”ستم“ اور ”جفا“ باقی رہتا ہے جو با معنی الفاظ ہیں اور ہم قافیہ نہیں ہیں۔ اس لیے مطلع کے اس شعر میں ایطا ہو گیا۔
غور کریں کہ بھلا ایطا میں کلمۂ زائد کے ”متحد المعنی“ ہونے کی قید کیوں لگائی گئی ہے؟ جی کیا کہا؟ بالکل درست! یہ در اصل یہ جانچنے کے لیے پیمانہ ہے کہ آیا مستعمل ترکیب میں ”روی“ اصلی ہے یا نہیں۔ یہاں جفا گر اور ستمگر میں روی ”ر“ ہے، اور دونوں جگہ اصلی نہیں ہے(کیونکہ دو علیحدہ لفظوں سے مرکب ہے)۔ اگر قافیہ ہوتا ”جگر“ یا ”قمر“ وغیرہ، تو ان میں حرف روی ”ر“ اصلی ہے۔
آپ کی آسانی کے لیے ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں۔ سیماب اکبر آبادی نے ایطا کی پہچان آسان کرنے کے لیے یوں لکھا ہے۔
”ایطا کی ایک پہچان یہ ہے کہ روی حذف کرنے کے بعد اگر لفظ با معنی رہے تو ایطا ہے ورنہ نہیں۔“
لیجیے جناب! آسان سا فارمولا ہے۔ ویسے یاد رہے کہ حرفِ روی جب اصلی ہوگا، تبھی روی حذف کر کے جانچیے گا۔ اگر روی اصلی نہیں ہے تو پورے کلمۂ زائد کو حذف کیجیے، اور دیکھیے کہ بقیہ بچے الفاظ با معنی ہیں تو ایطا ہے۔ ایک لفظ بھی اگر بے معنی ہے، تو ایطا نہیں ہے۔ جفا گر اور ستم گر میں چونکہ روی (ر)اصلی نہیں تھا، اس لیے پورے کلمۂ زائد یعنی ”گر“ کو حذف کر کے ”جفا“ اور ”ستم“ کو پرکھا گیا، جو با معنی تھے۔ چنانچہ ایطا واقع ہوا۔
یہ تو ظاہر ہی ہے کہ زائد کلمہ کو حذف کرنے کے بعد اگر بچے ہوئے الفاظ (بھلے ہی ہم معنی ہوں)ہم قافیہ رہ جائیں، تو ایطا نہیں ہوگا۔ مثلاً ”کہنا“ اور ”رہنا“ میں سے زوائد(یعنی ”نا“ جو علامتِ مصدر ہے) نکال دیں تو ”کہہ“ اور ”رہ“ بچتے ہیں جو با معنی تو ہیں، لیکن ”ہم قافیہ“ بھی ہیں۔ یا بالفاظ یاسؔ، ان میں روی کا تعین بھی ہو رہا ہے، تو ایطا نہیں ہوگا۔
اب تک کی بحث ہو سکتا ہے آپ کو ٹھیک ٹھاک خشک محسوس ہوئی ہو، لیکن انہی میں اصل بات چھپی ہے۔ ہو سکتا ہے اب بھی آپ ایطا کے متعلق شش و پنچ میں ہوں، یا کوئی بات سمجھ نہیں پائے ہوں۔ اس میں بھی پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ بے فکر رہیں! آگے دی گئی مثالوں سے ان شاء اللہ آپ بات پوری طرح سمجھ جائیں گے۔ ہر مثال کے ساتھ اس کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایطائے خفی کے لیے محمد ریحان قریشی بھائی کی یہ لڑی دیکھیں۔
یہ لڑی ایطا کے لیے مخصوص ہے۔ احباب ایسے اشعار شامل کریں جن میں ایطا کا نقص ہو۔
تمام عیوب کے لیے یہاں دیکھیں۔
آخری تدوین: