ایطا کا عیب ۔۔۔ کیا میں درست سوچ رہا ہوں؟

شاہد شاہنواز

لائبریرین

میرا خیال ہے میرے مندرجہ ذیل دونوں ہی اشعار میں ایطا کا عیب موجود ہے، مشورہ یہ درکار ہے کہ میں درست سوچ رہا ہوں یا غلط ۔۔۔

میری ایک غزل کا مطع ہے:

یہ مت سمجھنا جلا رہے ہیں چراغ اپنے
مثالِ گل ہم کھلا رہے ہیں چراغ اپنے

جناب الف عین نے نشاندہی کی کہ مندرجہ بالا شعر میں ایطا کا عیب ہے۔۔۔

اگر ایطا کا عیب اوپر موجود شعر میں ہے تو مندرجہ ذیل شعر میں بھی ہوگا:

خدایا گھر عطا کر آسماں سا
کہ دل سینے میں ہے کچھ بے اماں سا

ایطا سے مراد میری نظر میں قافیے کا عیب ہے، یعنی جلا اور کھلا کے قافیے جو پہلے شعر میں استعمال کیے گئے، ان میں لا کا لفظ مشترک ہے جو اگر دور کردیا جائے تو بچ رہنے والے الفاظ قافیے کی شرائط پوری نہیں کرتے۔

اسی طرح آسماں اور بے اماں میں ماں مشترک ہے، جو دور کردیا جائے تو آس اور بے ا ۔۔۔ میں کوئی قدرِ مشترک دکھائی نہیں دیتی۔۔۔ کیا دوسرے شعر میں بھی ایطا ہے؟؟

برائے توجہ محترم۔۔
الف عین
محمد ریحان قریشی
صاحبان ۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ایطا کے حوالے سے ایک مضمون اسی محفل پر موجود ہے، جس میں یہ حوالہ ہے:

سیماب اکبر آبادی نے ایطا کی پہچان آسان کرنے کے لیے یوں لکھا ہے۔
”ایطا کی ایک پہچان یہ ہے کہ روی حذف کرنے کے بعد اگر لفظ با معنی رہے تو ایطا ہے ورنہ نہیں۔“

اگر اس بات کو درست مانیں تو ایطا تو پہلے شعر میں بھی نہیں ۔۔۔ کیا یہ سوچ درست ہے؟
 

ابن رضا

لائبریرین
اس ضمن میں اصول یہ ہے کہ لفظ کی اصل اور مفرد حالت میں دیکھ لیا جائے کہ روی کا تعین ہو سکے اور ماقبل حرف کی حرکت نہ بدلے. جیسا کہ مذکور صورت جلنا سے جَل اور کِھلنا سے کِھل بدل رہی ہے. سو جَلنا کے ساتھ کَھلنا درست ہے اور کِھلنا کے ساتھ مِلنا
 
ایک معروف شاعر آتش نے زمیں اور آتشیں کو ایک ساتھ قافیہ میں استعمال کیا ہے۔۔۔
ایک نئے شاعر کو قریب اور عنقریب کو مطلع میں بطور قافیہ استعمال کرتے دیکھا ہے۔۔۔
جلا اور کھلا اس لئے ہمقافیہ نہیں کیونکہ جلا میں ج پر زبر اور کھلا میں کھ پر زیر ہے۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
میری اپنی ہی منطق ہے۔ مجھے یہ شرط ضروری نہیں لگتی کہ حرف روی کے بعد اصل با معنی لفظ ہو۔ کھلنا اور جلنا میں حرکت یا اعراب کا فرق بھی ہے، جیسے بھائی سید عاطف علی نے کہا ہے کہ کھَلنا، جلنا درست قوافی ہوں گے، لیکن صرف اس صورت میں جب بقیہ قوافی پگھلنا، بدلنا ہوں یعنی مشترک حروف 'لنا' پر ختم ہونے والے ہوں
اسی طرح اماں اور آسماں میں بھی دوسرے قوافی جہاں، رواں وغیرہ ہوں تو قوافی درست نہیں۔ ہاں، آسماں میں م پر زبر فرض کیا جائے تو کماں وغیرہ کے ساتھ قوافی درست ہوں گے مگر گُماں اس صورت میں بھی غلط ہو گا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایطائے جلی اور ایطائے خفی میں ہمیشہ فرق کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور یہ بات بہت اہم ہے ۔ اس لئےکہ ایطائے جلی بڑا عیب ہے اور اس میں سرے سے قافیہ ہی قائم نہیں ہوتا ۔ جبکہ ایطائے خفی معمولی عیب ہے اور اساتذہ کے ہاں بھی اکثر ملتا ہے۔ مطلع میں ایطائے خفی کے باوجود قافیہ قائم ہوجاتا ہے اور اس کے ہونے سے غزل کے بقیہ قوافی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ اس لئے کہ مطلع میں روی کا تعین ہوجاتا ہے ۔اس کے برعکس ایطائے جلی میں روی کا تعین ہی نہیں ہوپاتا ۔ ایطائے جلی تب واقع ہوتا ہے کہ جب قافیہ مرکب الفاظ پر مشتمل ہو جیسے جہاں ساز ، کارساز ، گل چیں ، نکتہ چیں وغیرہ۔ ان قوافی میں میں روی کا اختلاف ہے ۔

شاہد شاہنواز ، آپ کی اولین مراسلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ایطا کے علاوہ قافیہ کے بنیادی اصول سے متعلق بھی الجھن اور گڑبڑ کا شکار ہیں ۔ کہیں سے اچھی طرح دیکھ لیجئے۔ قافیے اور ایطا پر میں نے پہلے بھی کئی جگہ تفصیلاً لکھا ہے ۔ آپ چاہیں تو تلاش کرکے دیکھ لیں۔

یہ مت سمجھنا جلا رہے ہیں چراغ اپنے
مثالِ گل ہم کھلا رہے ہیں چراغ اپنے

اس مطلع میں ایطائے خفی ہے ۔ جلا اور کھلا دونوں درست قوافی ہیں ۔ ان کے مزید قوافی دکھا ، اٹھا ، کما ، جگا ، آ ، جا ، لا وغیرہ ہوں گے ۔ ان قوافی کا حرف روی الف ہے اور اس کا تعین مطلع میں ہورہا ہے ۔ ( اصل الفاظ جلانا، کھلانا، دکھانا ، کمانا ، آنا ، جانا وغیرہ ہیں ۔ لیکن قافیے کے لئے فعل کے صیغۂ امر کو مصدر مانا جاتا ہے )۔ اس مطلع میں ایطائے خفی اس لئے ہے کہ حرفِ روی یعنی الف سے پہلے لام مشترک آگیا ہے ۔ سو بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ حرفِ روی الف نہیں بلکہ لام ہے اور اب اس لام کی پابندی ہر قافیہ میں کرنی پڑے گی ۔ جبکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔یہاں حرفِ روی الف ہی ہے اور بقیہ اشعار میں دکھا ، کما ، اٹھا ، سنا وغیرہ کے قوافی درست ہوں گے۔

ایطائے خفی کے لئے غالب کا یہ مطلع دیکھئے اور سمجھنے کے لئے ان کی غزلوں کے بقیہ اشعار بھی دیکھ لیجے۔
بسکہ مشکل ہے ہر اک کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اس غزل کے دیگر قوافی گریباں ، پریشاں وغیرہ ہیں ۔ مطلع میں حرفِ روی سین نہیں بلکہ الف ہے ۔

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
اس غزل کے دیگر قوافی دعا ، ماجرا ، مدعا ، خدا وغیرہ ہیں ۔ مطلع میں حرفِ روی واؤ نہیں بلکہ الف ہے ۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اللہ کا کرم ہے کہ قافیہ تو اچھی طرح سمجھ میں آچکا۔
قافیوں کے معاملے میں خود کو بے حد محتاط اور سمجھدار خیال کرنے کے باوجود حیرت ہے کہ یہ غلطی کیسے ہوئی ۔۔۔ مسئلہ یہ آن پڑا کہ میں یہ دونوں اشعار جوں کے توں رکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔ اور اب مجھے وہ دلیل چاہئے کہ یہ درست ہے تو کیسے۔۔۔
یہاں میرا آدھا مسئلہ حل ہو گیا کہ جلا اور کھلا ایطائے خفی ہے۔ لیکن کیا آسماں اور اماں بھی خفی میں آتے ہیں؟
میری کوشش ہوتی ہے کہ غلطی نہ کی جائے۔ ہو تو دہرائی نہ جائے لیکن یہاں پتہ نہیں کیسے اور کیوں دو بار ایک ہی مسئلہ سامنے آرہا ہے۔۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اللہ کا کرم ہے کہ قافیہ تو اچھی طرح سمجھ میں آچکا۔
قافیوں کے معاملے میں خود کو بے حد محتاط اور سمجھدار خیال کرنے کے باوجود حیرت ہے کہ یہ غلطی کیسے ہوئی ۔۔۔ مسئلہ یہ آن پڑا کہ میں یہ دونوں اشعار جوں کے توں رکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔ اور اب مجھے وہ دلیل چاہئے کہ یہ درست ہے تو کیسے۔۔۔
یہاں میرا آدھا مسئلہ حل ہو گیا کہ جلا اور کھلا ایطائے خفی ہے۔ لیکن کیا آسماں اور اماں بھی خفی میں آتے ہیں؟

اجمالی جواب تو یہ ہے کہ : زلیخا عورت تھی
تفصیلی جواب یہ کہ میاں خاک سمجھ میں آیا آپ کو قافیہ ۔ میرے مراسلے کو غور سے پڑھئے ۔ اس میں آپ کے مندرجہ بالا تمام سوالات کے جوابات موجود ہیں ۔ دو دو مثالیں غالؔب کے مطلعوں کی دی ہیں ۔ اگر حرفِ روی سمجھ میں آگیا ہے تو پھر آپ خود ہی بتائیے کہ آسماں اور اماں میں ایطائے خفی ہے یا جلی؟ اگر نہیں آیا تو پوچھ لیجئے ۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلے اپنی ایک غلطی مان لوں
اسمان اور کماں کے سلسلے میں غلطی سے م پر زبر لکھ گیا، لکھنا تھا س پر زبر
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اجمالی جواب تو یہ ہے کہ : زلیخا عورت تھی
تفصیلی جواب یہ کہ میاں خاک سمجھ میں آیا آپ کو قافیہ ۔ میرے مراسلے کو غور سے پڑھئے ۔ اس میں آپ کے مندرجہ بالا تمام سوالات کے جوابات موجود ہیں ۔ دو دو مثالیں غالؔب کے مطلعوں کی دی ہیں ۔ اگر حرفِ روی سمجھ میں آگیا ہے تو پھر آپ خود ہی بتائیے کہ آسماں اور اماں میں ایطائے خفی ہے یا جلی؟ اگر نہیں آیا تو پوچھ لیجئے ۔
آسماں اور اماں کے دو قافیے جو میں نے استعمال کیے ہیں، ان میں بھی خفی ہی محسوس ہوتا ہے، جلی نہیں کیونکہ آساں اور انساں میں بھی وہی مسئلہ ہے اور ہُوا اور دوا میں بھی۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آسماں اور اماں کے دو قافیے جو میں نے استعمال کیے ہیں، ان میں بھی خفی ہی محسوس ہوتا ہے، جلی نہیں کیونکہ آساں اور انساں میں بھی وہی مسئلہ ہے اور ہُوا اور دوا میں بھی۔
یہاں بھی ایطائے خفی ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ آپ غالب کے قوافی پر قیاس کرکے ایسا کہہ رہے ہیں ۔ حرفِ روی کو اچھی طرح سمجھ لیجئے کیونکہ اسی کی مدد سے قافیے اور اس کے عیوب سمجھ میں آئیں گے ۔
 
Top