ایك غزل

شاكر اللہ قاسمی كی یاد میں ......ایك تازہ غزل .......
بڑے گلے تھے ہم نوا جو رو كے سب سنا دئیے
یہ حسرتوں كے حرف تھے جو شعر بن كے گا دئیے
ضرورتوں كے جھوٹ میں ہی بے بسی كا راز تھا
عیاں عیاں سے مسئلے تھے ہم نے كیوں چھپا دئیے
جو دشت تھا تو ہم تھے واں تو تیغ تھی تو تیر تھے
جو شہر تھا تو ناز جاں علم تمہیں تھما دئیے
مصیبتیں میرا الم سمجھ كے یوں ہی ہنس پڑی
جو زخم تھے وہ ناخنوں نے نوچ كر بڑھا دئیے
اے دل تیری اداسیوں كی خیر ہو كہ یوں ہوا
ذرا سی مے نے عشق كی یہ میكدے بنا دئیے
(أسامة جمشيد)
 

الف عین

لائبریرین
یہ حسرتوں كے حرف تھے جو شعر بن كے گا دئیے
کون شعر بن گیا؟ اور جس نے گایا؟ کچھ واضح نہیں۔ حروف کو شاعر شعر ’بنا‘ کر گا سکتا ہے۔
بہر حال یہ اصلاح سخن میں نہیں ہے، اس لئے اتنا ہی۔
 
Top