ایلف اور سیپ

نور وجدان

لائبریرین
حصہ اول
پسِ تحریر

ماؤنٹ حینا میں اک غار میں نو سو سال کی بڑھیا رہتی تھی، اسکا اک مشغلہ تھا! اس کی ماں جو تین سو پینسٹھ سال کی تھی روز اس کا مشغلہ دیکھا کرتی تھی ... غار سے باہر جاکے آسمان کو دیکھنا اور کہنا


"ابھی صبح نہیں ہُوئی "

یہ کہتے وہ بُڑھیا واپس دم سادھ کے بیٹھ جایا کرتی تھی .... اک دن وہ اسی سکتے میں تھی، اس کی ماں نے اسکو جھنجھوڑ کے اُٹھایا ... اس نے آنکھ کھولی تو حیرانی سی حیرانی تھی ... وہاں اسکی ماں نہیں کھڑی تھی، وہ کھڑی تھی .... اس نے ماں کی شکل میں خود کو دیکھا تھا .. وہ اک بڑھیا کی شکل میں خود کو دیکھ رہی تھی ..اس نے خود پر نظر ڈالی، بڑھیا کا نام سیپ تھا اور اسکی ماں کا نام ایلف تھا .

.. ایلف اور سیپ میں کوئی فرق نہ رہا تھا، نو سو سال گزر چکے تھے ....

"آج میں تمہیں برسوں کا راز بتاؤں گی " ایلف بولی
"کیا؟ " سیپ نے کہا

ایلف اٹھی اور گول بیضوی کرسی سے چھری اٹھا کے دیوار پر دے ماری، وہاں پر سوراخ ہوگیا ....! نیلا پانی نکل شُروع ہوا اور غار کی ساری دیواریں سبز ہوگئیں ... ایلف اور سیپ اک انجانے جہاں میں داخل ہوگئیں ... وہ جہاں دُنیا تھی .... گویا وہ دنیا میں نہیں رہتی تھیں.
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

اسکی اور ماں کی ہمیشہ سے لڑائی رہی ہے، ماں کہتی تھی کہ روٹی گول ہے اور وہ کہتی تھی " نہیں، یہ چوکور ہے! ماں کہتی کہ انڈا نیلا ہوتا ہے مگر وہ کہتی سبز ہوتا ہے! ماں کہتی درخت سیاہ ہوتے اور وہ کہتی درخت نیلے ہوتے ہیں .....

جب اس نے جنم نہیں لیا تھا، تب بھی وہ اپنی ماں کے ساتھ رہا کرتی تھی. اک دن ماں نیلے آکاش تلے بیٹھی تھی اور کچھ کاغذ پکڑ کے بنا رہی تھی

اس نے پوچھا "کیا بنا رہی ہو؟ "
ماں بولی " سیپ "
اس نے کہا سیپ کیا ہوتا؟

وہ بولی "سیب اک پنجرہ ہے، جس کے اندر درد قید ہوتا ہے "

اسے تب سے لگنے لگا کہ وہ اپنی ماں کے اندر قید ہے،وہ اسکی وہ روح ہے، جو اس سے پہلے پیدا ہوگئی تھی تاکہ اس کے اندر وجود رہتے اپنی شناخت کے دھن کو کالے سے سفید کرسکے ....

اس نے اپنی ماں کو بولا "ماں، تم کو مصوری سے کیا ملتا ہے؟ "

ماں بولی " وہ کاشی ہے نا، وہ مسکراتا ہے جب میں رنگ کینوس پہ اتارتی ہوں "

اس نے پھر کینوس پر اک سیپ ابھرتا پایا جو کہ زرد رنگ کا تھا، جس کے ارد گرد سفید ہالہ تھا، جس کے اک حصہ کھلا ہوا تھا اس میں سے سرمئی سی روشنی نکل رہی تھی....!

ماں نے قربانی دے دی! اس نے وہ سیپ اسے دے دیا اور کہا اس کی حفاظت کرنا ورنہ کاشی ناراض ہوگا! سیپ اور ایلف دونوں میں تب سے دوستی ہوگئی! وہ کہتی کہ انڈا گول ہے توسیپ کہتی ، "ہاں، ماں تو ٹھیک کہتی ہے! وہ کہتی کہ درخت سبز ہے تو جوابا وہ بھی کہتی کہ ہاں ماں سب اچھا ہے!

جب وہ اپنی ماں کی وجود میں ہلکورے لے رہی تھی، وہ تب بھی اس سے بات کیا کرتی تھی!
اک دن ماں نے اس سے کہا "ظلم کا زمانہ ہے، ستم کی آندھیاں ہیں، تم اس دنیا میں آکے کیا کرو گی؟ "

اس نے اسکے وجود کو جھٹکا دے دیا، ماں نے ہنستے ہوئے اسے دیکھا اور کہا کہ ماں برداشت کرلیتی ہے، دنیا بُہت ظالم ہے!


مائیں سچ کہتی ہیں کہ دنیا بُہت ظالم ہے!

لوگ اس کے گرد بیٹھے تھے جیسے وہ کوئی دیوی ہو ...مگر لوگ اسکو سراہ نہیں رہے تھے بلکہ پتھر مار رہے تھے! سیپ تب اک سال کی تھی! اس نے آنکھوں سے اس کو اشارہ کیا مگر وہ تو پتھر بنی ہوئی تھی! اک پتھر اسکی پیشانی پہ لگا اور خون نیچے بہنے لگا ..جب وہ نیچے بہا، جو اس نے دیکھا وہ لوگوں نے نہ دیکھا ...خون میں اللہ کا نقش تھا! اسے یقین ہوگیا کہ اسکی ماں اللہ والی ہے! ظلم ہو رہا تھا .. شیطان کا حج تھا وہ، لوگ پتھر اک مقدس دیوی پر پھینک رہے تھے! جب وہ مدہوش سی ہونی لگی تو یہ حج مکمل سا ہوگیا .... ہجوم ختم ہوا تو اس نے ماں سے پوچھا

"تم نے کیا کیا؟ "
وہ بولی "چوری پکڑی تھی "
اس نے کہا کہ کیسی چوری؟
جوابا اس نے کہا " دو کھلاڑی جوا بازی میں جیتنے لگے، میں نے ان کی بازی پلٹ دی "

وہ بولی "پھر کیا ہوا؟

ماں نے کہا کہ شیطان نے مرے ہاتھ باندھ دیے اور کہا ہمارے رسوم کے خلاف چلنے والے پر "کرو " کی رسم واجب ہوجاتی "

میں نے پوچھا "کرو کیا ہوتی؟

وہ بولی "شیطان کہتا ہے کہ چوری اک مقدس کام ہے اور جو ولی اسکو روکے گا، اس پہ پتھر پڑیں گے ... "

تب مجھے احساس ہوا "کرو " کی رسم کیا ہوتی ہے! یہ شاید ابن آدم سے چلی رسم ہے جو روحوں کے ساتھ جنم لیتی ہے

....!
 
آخری تدوین:

ایس ایس ساگر

لائبریرین
بہت خوبصورت تحریر ہے نوربہنا! آپکی ہر تحریر گہری سوچ کی عکاس اور خوبصورت لفظوں سے مزین ہوتی ہے۔ آپ بہت خوب لکھتی ہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت خوبصورت تحریر ہے نوربہنا! آپکی ہر تحریر گہری سوچ کی عکاس اور خوبصورت لفظوں سے مزین ہوتی ہے۔ آپ بہت خوب لکھتی ہیں۔
بعض لوگ گہرائی پسند نہیں کرتے اور آپ؟ یہ ناول کا ابتدائیہ، اکثر ناول شروع کرکے ادھورے چھوڑ دیتی، شاید وقت پورا کرے گا
پسندیدگی پر شکریہ آپکا
 

شمشاد

لائبریرین
اصل میں کہاںی کی ابتدا یہاں سے ہے اور پھر لفظ ہیرا پھیری کرتے پہاڑ سے زمین پر آگئے. یہ علم نہ ہونے پایا کہ اپ نے جو دیکھا، وہ میں نے دکھایا؟ :)
جب میں ماؤنٹ جینا کی بلندی پر پہنچ گیا تو پھر نیچے سب کچھ نظر آ گیا۔
 

سیما علی

لائبریرین
حصہ اول
پسِ تحریر

ماؤنٹ حینا میں اک غار میں نو سو سال کی بڑھیا رہتی تھی، اسکا اک مشغلہ تھا! اس کی ماں جو تین سو پینسٹھ سال کی تھی روز اس کا مشغلہ دیکھا کرتی تھی ... غار سے باہر جاکے آسمان کو دیکھنا اور کہنا


"ابھی صبح نہیں ہُوئی "

یہ کہتے وہ بُڑھیا واپس دم سادھ کے بیٹھ جایا کرتی تھی .... اک دن وہ اسی سکتے میں تھی، اس کی ماں نے اسکو جھنجھوڑ کے اُٹھایا ... اس نے آنکھ کھولی تو حیرانی سی حیرانی تھی ... وہاں اسکی ماں نہیں کھڑی تھی، وہ کھڑی تھی .... اس نے ماں کی شکل میں خود کو دیکھا تھا .. وہ اک بڑھیا کی شکل میں خود کو دیکھ رہی تھی ..اس نے خود پر نظر ڈالی، بڑھیا کا نام سیپ تھا اور اسکی ماں کا نام ایلف تھا .

.. ایلف اور سیپ میں کوئی فرق نہ رہا تھا، نو سو سال گزر چکے تھے ....

"آج میں تمہیں برسوں کا راز بتاؤں گی " ایلف بولی
"کیا؟ " سیپ نے کہا

ایلف اٹھی اور گول بیضوی کرسی سے چھری اٹھا کے دیوار پر دے ماری، وہاں پر سوراخ ہوگیا ....! نیلا پانی نکل شُروع ہوا اور غار کی ساری دیواریں سبز ہوگئیں ... ایلف اور سیپ اک انجانے جہاں میں داخل ہوگئیں ... وہ جہاں دُنیا تھی .... گویا وہ دنیا میں نہیں رہتی تھیں.
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

اسکی اور ماں کی ہمیشہ سے لڑائی رہی ہے، ماں کہتی تھی کہ روٹی گول ہے اور وہ کہتی تھی " نہیں، یہ چوکور ہے! ماں کہتی کہ انڈا نیلا ہوتا ہے مگر وہ کہتی سبز ہوتا ہے! ماں کہتی درخت سیاہ ہوتے اور وہ کہتی درخت نیلے ہوتے ہیں .....

جب اس نے جنم نہیں لیا تھا، تب بھی وہ اپنی ماں کے ساتھ رہا کرتی تھی. اک دن ماں نیلے آکاش تلے بیٹھی تھی اور کچھ کاغذ پکڑ کے بنا رہی تھی

اس نے پوچھا "کیا بنا رہی ہو؟ "
ماں بولی " سیپ "
اس نے کہا سیپ کیا ہوتا؟

وہ بولی "سیب اک پنجرہ ہے، جس کے اندر درد قید ہوتا ہے "

اسے تب سے لگنے لگا کہ وہ اپنی ماں کے اندر قید ہے،وہ اسکی وہ روح ہے، جو اس سے پہلے پیدا ہوگئی تھی تاکہ اس کے اندر وجود رہتے اپنی شناخت کے دھن کو کالے سے سفید کرسکے ....

اس نے اپنی ماں کو بولا "ماں، تم کو مصوری سے کیا ملتا ہے؟ "

ماں بولی " وہ کاشی ہے نا، وہ مسکراتا ہے جب میں رنگ کینوس پہ اتارتی ہوں "

اس نے پھر کینوس پر اک سیپ ابھرتا پایا جو کہ زرد رنگ کا تھا، جس کے ارد گرد سفید ہالہ تھا، جس کے اک حصہ کھلا ہوا تھا اس میں سے سرمئی سی روشنی نکل رہی تھی....!

ماں نے قربانی دے دی! اس نے وہ سیپ اسے دے دیا اور کہا اس کی حفاظت کرنا ورنہ کاشی ناراض ہوگا! سیپ اور ایلف دونوں میں تب سے دوستی ہوگئی! وہ کہتی کہ انڈا گول ہے توسیپ کہتی ، "ہاں، ماں تو ٹھیک کہتی ہے! وہ کہتی کہ درخت سبز ہے تو جوابا وہ بھی کہتی کہ ہاں ماں سب اچھا ہے!

جب وہ اپنی ماں کی وجود میں ہلکورے لے رہی تھی، وہ تب بھی اس سے بات کیا کرتی تھی!
اک دن ماں نے اس سے کہا "ظلم کا زمانہ ہے، ستم کی آندھیاں ہیں، تم اس دنیا میں آکے کیا کرو گی؟ "

اس نے اسکے وجود کو جھٹکا دے دیا، ماں نے ہنستے ہوئے اسے دیکھا اور کہا کہ ماں برداشت کرلیتی ہے، دنیا بُہت ظالم ہے!


مائیں سچ کہتی ہیں کہ دنیا بُہت ظالم ہے!

لوگ اس کے گرد بیٹھے تھے جیسے وہ کوئی دیوی ہو ...مگر لوگ اسکو سراہ نہیں رہے تھے بلکہ پتھر مار رہے تھے! سیپ تب اک سال کی تھی! اس نے آنکھوں سے اس کو اشارہ کیا مگر وہ تو پتھر بنی ہوئی تھی! اک پتھر اسکی پیشانی پہ لگا اور خون نیچے بہنے لگا ..جب وہ نیچے بہا، جو اس نے دیکھا وہ لوگوں نے نہ دیکھا ...خون میں اللہ کا نقش تھا! اسے یقین ہوگیا کہ اسکی ماں اللہ والی ہے! ظلم ہو رہا تھا .. شیطان کا حج تھا وہ، لوگ پتھر اک مقدس دیوی پر پھینک رہے تھے! جب وہ مدہوش سی ہونی لگی تو یہ حج مکمل سا ہوگیا .... ہجوم ختم ہوا تو اس نے ماں سے پوچھا

"تم نے کیا کیا؟ "
وہ بولی "چوری پکڑی تھی "
اس نے کہا کہ کیسی چوری؟
جوابا اس نے کہا " دو کھلاڑی جوا بازی میں جیتنے لگے، میں نے ان کی بازی پلٹ دی "

وہ بولی "پھر کیا ہوا؟

ماں نے کہا کہ شیطان نے مرے ہاتھ باندھ دیے اور کہا ہمارے رسوم کے خلاف چلنے والے پر "کرو " کی رسم واجب ہوجاتی "

میں نے پوچھا "کرو کیا ہوتی؟

وہ بولی "شیطان کہتا ہے کہ چوری اک مقدس کام ہے اور جو ولی اسکو روکے گا، اس پہ پتھر پڑیں گے ... "

تب مجھے احساس ہوا "کرو " کی رسم کیا ہوتی ہے! یہ شاید ابن آدم سے چلی رسم ہے جو روحوں کے ساتھ جنم لیتی ہے

....!
نور وجدان :redheart::redheart::redheart::redheart::redheart:
ہم آپ روز اوّل سے محفل میں آپکو ایک الگ نظر سے دیکھتے ہیں اور اب آپ کو اس کا اندازہ بہت اچھی طرح ہے،مگر جب ہم آپکی تحریر پڑھتے ہیں تو قعطناً جانبدار نہیں ہوتے،بلکہ ایک غیر جانبدار قاری بن جاتے ہیں۔سب سے زیادہ جو چیز آپکی طرف کھینچتی ہے وہ آپکی باتوں میں ڈیپتھ ،گہرائی ہے ۔جو اس عمر میں کم لوگوں میں نظر آتی ہے
اور آپکی ہر تحریر ایک پیغام دے رہی ہوتی ہے
اس میں پہلے ممتا کے لطیف و گدا ز احساس کو اجاگر کیا جس کو سمجھنے کے لئیے ممتا کو سمجھنا ضروری ہے پھر نفس اور شیطان کی حقیقت کو بھی بے خوب صورتی میں عیاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
نہایت عمدگی سے بندگی و اطاعت اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے سامنے، خواہ اس کی علت سمجھ میں آئے یا نہ آئے، بے چُوں چرا سر جھکا دینے کا پر زور نظر آتا ہے ۔ جیتی رہیے،بہت سارا پیار ڈھیر ساری دعائیں۔۔۔۔۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
بہت کمال جناب ساگر صاحب!!!!!
بہت مصروف اور برق رفتار ماشاء اللّہ۔۔۔۔۔
سیما آپا! آپ کے الفاظ ہمیشہ خلوص بھرے اور شفقت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں جن سے آپ کے اعلیٰ اخلاق جھلکتے ہیں۔ آپکے حسن ظن اور شفقت کے لیے تہہ دل سے مشکور ہوں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
حصہ اول
پسِ تحریر

ماؤنٹ حینا میں اک غار میں نو سو سال کی بڑھیا رہتی تھی، اسکا اک مشغلہ تھا! اس کی ماں جو تین سو پینسٹھ سال کی تھی روز اس کا مشغلہ دیکھا کرتی تھی ... غار سے باہر جاکے آسمان کو دیکھنا اور کہنا


"ابھی صبح نہیں ہُوئی "

یہ کہتے وہ بُڑھیا واپس دم سادھ کے بیٹھ جایا کرتی تھی .... اک دن وہ اسی سکتے میں تھی، اس کی ماں نے اسکو جھنجھوڑ کے اُٹھایا ... اس نے آنکھ کھولی تو حیرانی سی حیرانی تھی ... وہاں اسکی ماں نہیں کھڑی تھی، وہ کھڑی تھی .... اس نے ماں کی شکل میں خود کو دیکھا تھا .. وہ اک بڑھیا کی شکل میں خود کو دیکھ رہی تھی ..اس نے خود پر نظر ڈالی، بڑھیا کا نام سیپ تھا اور اسکی ماں کا نام ایلف تھا .

.. ایلف اور سیپ میں کوئی فرق نہ رہا تھا، نو سو سال گزر چکے تھے ....

"آج میں تمہیں برسوں کا راز بتاؤں گی " ایلف بولی
"کیا؟ " سیپ نے کہا

ایلف اٹھی اور گول بیضوی کرسی سے چھری اٹھا کے دیوار پر دے ماری، وہاں پر سوراخ ہوگیا ....! نیلا پانی نکل شُروع ہوا اور غار کی ساری دیواریں سبز ہوگئیں ... ایلف اور سیپ اک انجانے جہاں میں داخل ہوگئیں ... وہ جہاں دُنیا تھی .... گویا وہ دنیا میں نہیں رہتی تھیں.
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

اسکی اور ماں کی ہمیشہ سے لڑائی رہی ہے، ماں کہتی تھی کہ روٹی گول ہے اور وہ کہتی تھی " نہیں، یہ چوکور ہے! ماں کہتی کہ انڈا نیلا ہوتا ہے مگر وہ کہتی سبز ہوتا ہے! ماں کہتی درخت سیاہ ہوتے اور وہ کہتی درخت نیلے ہوتے ہیں .....

جب اس نے جنم نہیں لیا تھا، تب بھی وہ اپنی ماں کے ساتھ رہا کرتی تھی. اک دن ماں نیلے آکاش تلے بیٹھی تھی اور کچھ کاغذ پکڑ کے بنا رہی تھی

اس نے پوچھا "کیا بنا رہی ہو؟ "
ماں بولی " سیپ "
اس نے کہا سیپ کیا ہوتا؟

وہ بولی "سیب اک پنجرہ ہے، جس کے اندر درد قید ہوتا ہے "

اسے تب سے لگنے لگا کہ وہ اپنی ماں کے اندر قید ہے،وہ اسکی وہ روح ہے، جو اس سے پہلے پیدا ہوگئی تھی تاکہ اس کے اندر وجود رہتے اپنی شناخت کے دھن کو کالے سے سفید کرسکے ....

اس نے اپنی ماں کو بولا "ماں، تم کو مصوری سے کیا ملتا ہے؟ "

ماں بولی " وہ کاشی ہے نا، وہ مسکراتا ہے جب میں رنگ کینوس پہ اتارتی ہوں "

اس نے پھر کینوس پر اک سیپ ابھرتا پایا جو کہ زرد رنگ کا تھا، جس کے ارد گرد سفید ہالہ تھا، جس کے اک حصہ کھلا ہوا تھا اس میں سے سرمئی سی روشنی نکل رہی تھی....!

ماں نے قربانی دے دی! اس نے وہ سیپ اسے دے دیا اور کہا اس کی حفاظت کرنا ورنہ کاشی ناراض ہوگا! سیپ اور ایلف دونوں میں تب سے دوستی ہوگئی! وہ کہتی کہ انڈا گول ہے توسیپ کہتی ، "ہاں، ماں تو ٹھیک کہتی ہے! وہ کہتی کہ درخت سبز ہے تو جوابا وہ بھی کہتی کہ ہاں ماں سب اچھا ہے!

جب وہ اپنی ماں کی وجود میں ہلکورے لے رہی تھی، وہ تب بھی اس سے بات کیا کرتی تھی!
اک دن ماں نے اس سے کہا "ظلم کا زمانہ ہے، ستم کی آندھیاں ہیں، تم اس دنیا میں آکے کیا کرو گی؟ "

اس نے اسکے وجود کو جھٹکا دے دیا، ماں نے ہنستے ہوئے اسے دیکھا اور کہا کہ ماں برداشت کرلیتی ہے، دنیا بُہت ظالم ہے!


مائیں سچ کہتی ہیں کہ دنیا بُہت ظالم ہے!

لوگ اس کے گرد بیٹھے تھے جیسے وہ کوئی دیوی ہو ...مگر لوگ اسکو سراہ نہیں رہے تھے بلکہ پتھر مار رہے تھے! سیپ تب اک سال کی تھی! اس نے آنکھوں سے اس کو اشارہ کیا مگر وہ تو پتھر بنی ہوئی تھی! اک پتھر اسکی پیشانی پہ لگا اور خون نیچے بہنے لگا ..جب وہ نیچے بہا، جو اس نے دیکھا وہ لوگوں نے نہ دیکھا ...خون میں اللہ کا نقش تھا! اسے یقین ہوگیا کہ اسکی ماں اللہ والی ہے! ظلم ہو رہا تھا .. شیطان کا حج تھا وہ، لوگ پتھر اک مقدس دیوی پر پھینک رہے تھے! جب وہ مدہوش سی ہونی لگی تو یہ حج مکمل سا ہوگیا .... ہجوم ختم ہوا تو اس نے ماں سے پوچھا

"تم نے کیا کیا؟ "
وہ بولی "چوری پکڑی تھی "
اس نے کہا کہ کیسی چوری؟
جوابا اس نے کہا " دو کھلاڑی جوا بازی میں جیتنے لگے، میں نے ان کی بازی پلٹ دی "

وہ بولی "پھر کیا ہوا؟

ماں نے کہا کہ شیطان نے مرے ہاتھ باندھ دیے اور کہا ہمارے رسوم کے خلاف چلنے والے پر "کرو " کی رسم واجب ہوجاتی "

میں نے پوچھا "کرو کیا ہوتی؟

وہ بولی "شیطان کہتا ہے کہ چوری اک مقدس کام ہے اور جو ولی اسکو روکے گا، اس پہ پتھر پڑیں گے ... "

تب مجھے احساس ہوا "کرو " کی رسم کیا ہوتی ہے! یہ شاید ابن آدم سے چلی رسم ہے جو روحوں کے ساتھ جنم لیتی ہے

....!
خوبصورت تحریر ۔ ۔ بات کا الگ ہی ڈھنگ ۔ ۔ نرالا انداز ۔ ۔ گہری سوچ۔ ۔ ایک بات ہزار مطلب ۔ ۔ اللہ ناول پورا کرنے کی توفیق دے ۔ ۔ سوچنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں اور لکھنا تو قطعی نہیں ۔ ۔ آپ دونوں کام آسانی سے کر لیتی ہیں ۔ ۔ ما شا اللہ:):)
 

نور وجدان

لائبریرین
نور وجدان :redheart::redheart::redheart::redheart::redheart:
ہم آپ روز اوّل سے محفل میں آپکو ایک الگ نظر سے دیکھتے ہیں اور اب آپ کو اس کا اندازہ بہت اچھی طرح ہے،مگر جب ہم آپکی تحریر پڑھتے ہیں تو قعطناً جانبدار نہیں ہوتے،بلکہ ایک غیر جانبدار قاری بن جاتے ہیں۔سب سے زیادہ جو چیز آپکی طرف کھینچتی ہے وہ آپکی باتوں میں ڈیپتھ ،گہرائی ہے ۔جو اس عمر میں کم لوگوں میں نظر آتی ہے
اور آپکی ہر تحریر ایک پیغام دے رہی ہوتی ہے
اس میں پہلے ممتا کے لطیف و گدا ز احساس کو اجاگر کیا جس کو سمجھنے کے لئیے ممتا کو سمجھنا ضروری ہے پھر نفس اور شیطان کی حقیقت کو بھی بے خوب صورتی میں عیاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
نہایت عمدگی سے بندگی و اطاعت اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے سامنے، خواہ اس کی علت سمجھ میں آئے یا نہ آئے، بے چُوں چرا سر جھکا دینے کا پر زور نظر آتا ہے ۔ جیتی رہیے،بہت سارا پیار ڈھیر ساری دعائیں۔۔۔۔۔
آپ کی محبت کے لیے سراپا ممنون ہوں ... تحریر کو پڑھنا، سمجھنا اور اس پر سیر حاصل تبصرہ کرنا، اس میں محبت کے ساتھ ادبی مہک ساتھ ساتھ ہے. آپکی حوصلہ افزائی کا اک بار پھر سے شکریہ

نیاز مند
نور
 

نور وجدان

لائبریرین
خوبصورت تحریر ۔ ۔ بات کا الگ ہی ڈھنگ ۔ ۔ نرالا انداز ۔ ۔ گہری سوچ۔ ۔ ایک بات ہزار مطلب ۔ ۔ اللہ ناول پورا کرنے کی توفیق دے ۔ ۔ سوچنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں اور لکھنا تو قطعی نہیں ۔ ۔ آپ دونوں کام آسانی سے کر لیتی ہیں ۔ ۔ ما شا اللہ:):)
صابرہ امین بس یہ لکھنا، اگر اردو کی خدمت کے کام آسکا تو خوشی ہوگی. ابھی تساہل پسندی آڑے آتی ہے کہ کہانی لکھنے کے لیے کہانی کو جینا پڑتا ہے، کیفیات بتانے کے لیے خون و جگر میں غم کو سمونا پڑتا ہے اسی وجہ سے سب ادھوار رہ جاتا ہے. ویسے خاکسار کی جانب سے شکریہ محبت کے اظہار پر
 

سیما علی

لائبریرین
آپ کی محبت کے لیے سراپا ممنون ہوں ... تحریر کو پڑھنا، سمجھنا اور اس پر سیر حاصل تبصرہ کرنا، اس میں محبت کے ساتھ ادبی مہک ساتھ ساتھ ہے. آپکی حوصلہ افزائی کا اک بار پھر سے شکریہ

نیاز مند
نور
نور تو ہیں ہی نور!!!!لیکن آپ پر وجدان کاغلبہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہے اور وہ کیفیت باقاعدہ طاری رہیتی ہے جو حساس قاری کو سمجھ میں آتی ہیں۔۔۔۔بہت سارا پیار اور دعایئں،،،،،پہت مٹھاس ہے جو آپ کے ہر لفظ میں اپنائیت کے ساتھ نظر آتی ہے
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
صابرہ امین بس یہ لکھنا، اگر اردو کی خدمت کے کام آسکا تو خوشی ہوگی. ابھی تساہل پسندی آڑے آتی ہے کہ کہانی لکھنے کے لیے کہانی کو جینا پڑتا ہے، کیفیات بتانے کے لیے خون و جگر میں غم کو سمونا پڑتا ہے اسی وجہ سے سب ادھوار رہ جاتا ہے. ویسے خاکسار کی جانب سے شکریہ محبت کے اظہار پر
وللہ پوری لکھاری ہیں ۔ صحیح والی ۔ ۔ اللہ ہمت اور حصلہ دے ڈھیروں ڈھیر اور ہماری محبتیں قائم رکھے ۔ ۔ آمین:in-love:
 

شمشاد

لائبریرین
نور تو ہیں ہی نور!!!!لیکن آپ پر وجدان کاغلبہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہے اور وہ کیفیت باقاعدہ طاری رہیتی ہے جو حساس قاری کو سمجھ میاں آجاتی ہے ۔۔۔۔بہت سارا پیار اور دعایئں،،،،،پہت مٹھاس ہے آپ کے ہر لفظ میں اپنائیت ہے
واہ کیا شاندار تجزیہ کیا ہے نور اور وجدان کا۔ اور دعائیں دینا تو آپ کا خاصا ہے۔
 
Top