سید زبیر
محفلین
ایم ایم عالم سر تا پا محب وطن پاکستانی مجاہد کی داستان شجاعت
تحریر: سید زبیر
محمد محمود عالم پاک فضائیہ کے لڑاکا ہواباز تھے جنکی وجہ شہرت گینز بک آف ریکارڈ کے مطابق ایک منٹ میں سب سے زیادہ لڑاکا ہوائی جہاز گرانے کی ہے ۔ آپ چھے جولائی ۱۹۳۵ کو کلکتہ کے ایک علمی اور مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ثانوی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول ڈھاکہ سے مکمل کرنے کے بعد دو اکتوبر ۱۹۵۳ کو پاکستان ائر فورس میں بطور لڑاکا ہواباز کمیشن حاصل کیا ۔ آپ تین بھائی تھے ، ایک بھائی اکنامکس اور دوسرے بھائی فزکس میں ڈاکٹر تھے ۔محمد محمود عالم جنہوں نے ایم ایم عالم کے نام سے شہرت پائی ، کا جذبہ حب الوطنی سرفروشی کی حد تک پہنچا ہوا تھا ۔ستمبر ۱۹۶۵ کی جنگ کے وقت وہ پاک فضائیہ کے مایہ ناز سکوڈرن نمبر ۱۱ کی کمان کر رہے تھے ۔
6ستمبر 1965کی شام پاک فضائیہ کیلئے ملے جلے احساسات کا پیغام لائی تھی ۔ پاکستان ایئر فورس نے بھارتی فضائیہ کے اگلے فضائی اڈے پٹھانکوٹ ، آدم پور اور ہلواڑہ پر بھر پور انداز میں حملے کئے تھے ۔ آدم پور اور ہلواڑہ میں اگرچہ کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی مگر پٹھانکوٹ میں پاک فضائیہ نے بھارت کے دس طیارے تباہ کیے اور متعدد کو نقصان پہنچایا۔ جبکہ ہلواڑہ پر حملے کے دوران پاکستان ائیر فورس نے اپنے دو مایہ ناز ہوا باز سرفراز رفیقی اور یونس کھودئیے ۔ سرگودہا کے فضائی اڈے میں غم و غصہ اور انتقام کی لہرپھیلی ہوئی تھی۔ سکواڈرن نمبر 11کے نڈر سکواڈرن کمانڈر ، سکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم انتہائی غضبناک انداز میں اگلے دن کے لائحہ عمل تیار کررہے تھے۔ 33ونگ کے ہوا باز وں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے رفیقی اور یونس کے لہو کا بدلہ لینے کا عہد کیا۔ چند گھنٹوں قبل غروب آفتاب کے وقت آدم پور پر حملے کیلئے جاتے ہوئے عالم نے ایک بھارتی ہنٹر کو گرایا تھا۔ انہوں نے عزم ، اعتماد کے لہجے میں یقین دلایا کہ سیبر ہنٹر کا مقابلہ کر سکتا ہے ایک طیارہ گرانے کے بعد انہوں نے یہ ثابت کردیاکہ وہ بھارتی فضائیہ کو مزید نقصان پہنچانا چاہارہے تھے۔ 7ستمبر کو علی الصبح ہونے والے بھارت کے جارحانہ حملوں کو سرگودھا نے ختم کیا۔ پہلے بھارتی مسٹیئر طیارے کے جاتے ہی دو سیبر اور ایک سٹار فائٹر فضائی نگہبانی کیلئے بلند ہوئے ۔ چند ہی لمحوں بعد زمینی کنٹرول نے حملہ آور طیاروں کی آمد سے آگاہ کیا۔ دس پندرہ منٹ مشرق کی جانب پرواز کے بعد پاکستان ائر فورس کے شاہینوں کو بتایا گیا کہ حملہ آور سرگودھا پر ہیں اور واپس پہنچیں ۔ اس وقت پاکستان کے وقت کے مطابق صبح کے پانچ بج کر سینتالیس منٹ ہوئے تھے۔
بھارتی فضائیہ کے نمبر 27سکواڈرن ، ہلواڑہ کے سکواڈرن لیڈر ڈی ایس جوگ پانچ ہنٹر طیاروں سمیت سکواڈرن لیڈر اواین تکر۔فلائیٹ لیفٹینٹ ڈی این راٹھور، فلائیٹ لیفٹنٹ ٹی کے چودھری اور فلائنگ آفیسر کی قیادت کرتے ہوئے سرگودھا پر حملہ آور ہوئے۔ پہلے چھوٹا سرگودھا میں دوسری جنگ عظیم کے وقت کی ناکارہ ایئر سٹرپ کو تباہ کرنے کیلئے نیچے آئے ۔ جو کہ بھارتی فضائیہ کے جنگی منصوبے میں نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ جب وہاں کوئی طیارہ نہ ملا تو حملہ آور فضائی دستہ مشرق کی جانب آٹھ میل کے فاصلے پر سرگودھا کے فضائی اڈے کی طرف بڑھا تاہم زمینی طیارہ شکن توپوں کے باعث عسکری تنصیب نما فیکٹری سلطان ٹیکسٹائل مل کو نشانہ بنا کر اپنا مشن مکمل کرنے لگے ۔ طیارہ شکن توپوں کے بنائے ہوئے جال سے بچنے کیلئے بھارتی ہنٹر طیاروں نے بنا ء مشن مکمل کئے واپسی کی راہ اختیار کی۔ سیبرز کی ایک جوڑی جسکی قیادت فلائیٹ لیفٹنٹ امتیاز بھٹی کر رہے تھے نے دو ہنٹر طیاروں کو دیکھا مگر غور کے بعد پتہ چلا کہ ۔ ایک دوسری سیبر کی جوڑی نے ہنٹروں کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ عقابی بصیرت کے حامل کنٹرول نے جیسے ہی حملہ آور کو دیکھا اس نے عالم اور انکے ساتھی فلائیٹ لیفٹنٹ مسعود اختر کو پیچھا کرنے کو کہا ۔ بھٹی جو فضائی جھڑپ کے انتہائی خواہاں تھے بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو پا کر اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ فضا میں موجود سٹار فائٹر میں فلائیٹ لیفٹنٹ عارف اقبال مسلسل بلندی سے دشمن کے طیاروں کی حرکات پر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ پیچھے رہنے والی ہنٹر طیاروں کی جوڑی نے دفاعی انداز میں لڑتے ہوئے سیبر کی طرف رخ کیا عالم تیزی سے بلند ہو کر دوبارہ اپنی پوزیشن پر آگئے۔ ہنٹر ابھی تک طیارہ کی گنوں کی زد میں نہیں تھے عالم نے آخری طیارے کی طرف میزائل داغ دیا۔ کیونکہ میزائل غوطہ لگاتے ہوئے انتہائی کم بلندی سے داغا گیا لہٰذا عالم اس کو زمین پر جاتے ہوئے حیران نہ ہوئے۔ میزائل کیلئے نشانے کے عقب پر کھلا آسمان ہونا نہایت موزوں رہتا ہے۔ ہنٹر طیارے درختوں کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے بچنے کی کوشش کررہے تھے۔ عالم کی بے چینی اس وقت ختم ہو گئی جب اچانک ایک طیارہ بجلی کی تاروں سے بچنے کیلئے بلند ہوا۔ اور عالم کے میزائل کی زد میں آگیا۔ نشانے سے آگاہ کرنے والے آلے نے ہنٹر سے خارج ہونے والی تپش کے سگنل سے آگاہ کیا۔ یہ بہترین موقع تھا عالم نے بغیر لمحہ ضائع کیے دوسرا میزائل داغ دیا۔ میزائل نے ہنٹر کے ایندھن والے حصے کو تباہ کیا۔ سکواڈرن لیڈر جوگ کے فضائی دستے کے ارکان نے بدنصیب طیارے کے پائلٹ کی ریڈیوکالز کو سنا۔
نقصان زدہ طیارے کو اوپر سے گزرتے ہوئے عالم نے دیکھا کہ ہنٹر طیارے کی کنوپی نہیں ہے۔ اور طیارے میں ہوا باز نہ تھا۔ اپنے ساتھی کے ہمراہ دوسرے طیاروں سے الجھتے ہوئے عالم نے طیارے کو ہوا باز کو چھلانگ مارتے ہوئے نہ دیکھا ۔ مگر تھوڑی ہی دیر میں اردگرد نظر دوڑانے پر عالم نے ہنٹر کے ہوا باز کو پیرا شوٹ کے ذریعے اترتا ہوا دیکھ لیا۔ بھٹی جو تھوڑے فاصلے سے یہ منظر دیکھ رہے تھے بتاتے ہیں ’’جب عالم دشمن کا پیچھا کر رہے تھے میں مستقل اس تاک میں تھا کہ شاید مجھے بھی طیارہ گرانے کا موقع مل جائے ۔ ہم دریا کے نزدیک ہی تھے کہ میں نے آسمان سے جلتا ہو شعلہ نیچے آتا دیکھا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ طیارے کے زمین تک پہنچنے سے ذرا قبل ہوا باز چھلانگ مار چکا ہے۔
ادھر فضا میں دیگر ہنٹر طیارے سکواڈرن لیڈر عالم کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔ مگر عالم کے پاس اُنکاتعا قب کرنے کیلئے کچھ ایندھن تھا۔ جیسے ہی انہوں نے دریائے چناب عبور کیا اُنکے ساتھی طیارے کے ہواباز اختر نے سو دو سو فٹ کی بلند ی پر تقریباً 480ناٹ کی رفتار سے پرواز کرتے ہوئے طیاروں کی نشاندھی کی۔ ایم ایم عالم جیسے ہی انکو نشانے پر لینے کیلئے قریب گئے بھارتی ہنٹر طیارے مایوسی کے عالم میں دفاعی انداز میں مڑے ۔ مگر عالم سے بچنے کی یہ کوشش ناکام گئی بلکہ اس طرح وہ ایک ہی قطار میں نشانے کی زد میں آگئے ۔ طلوع آفتاب کی چمک میں عالم نے آخری طیارے پر سیبر سے فائٹر کیا۔ جو اسکے ایندھن کی فاضل ٹینکوں سے لگا عالم نے نشانہ لگتے ہوئے دیکھا اور نہایت سرعت سے اگلے طیارے کو نشانے پر لیکر گولیوں کی بوچھاڑ کردی ۔ ہنٹرز بھاگتے ہوئے نظر آئے۔
نمبر 7سکواڈرن نے پانچ ہنٹر طیاروں پر مشتمل تیسرا فضائی دستہ ہلواڑہ سے ونگ کمانڈر تورک ذچاریہ کی قیادت میں حملہ کیلئے بھیجا۔ اس فضائی دستہ میں سکواڈرن لیڈر اے ایس لامبا ، سکواڈرن لیڈر ایم ایم سنہہ، سکواڈرن لیڈر ایس بی بھگوت اور فلائنگ آفیسر ایس برار شامل تھے۔ موخر الذکر دونوں مسلح محافظ کے طو پر تھے نیچی پرواز کرتے ہوئے وہ نمبر 27سکوڈرن کی واپسی کی توقع کر رہے تھے۔ تاہم جیسے ہی انہوں نے سانگلہ ہل عبور کیا۔ بھارت فضائیہ کے لامبا نے دو سیبر طیاروں کو چار ہزار فٹ کی بلندی سے غوطہ لگاتے ہوئے دیکھا ۔ اس نے فوراً اپنے طیاروں کو بائیں مڑنے کو کہا ۔ ذچاریہ نے عمل کرتے ہوئے مشن بناء مکمل کئے بھاگنے کے احکامات دیئے ۔بھگوت اور برار نے فالتو بوجھ کم کیے بغیر سیبر سے الجھنے کی غلطی کر ڈالی۔ گولہ بارود کے بوجھ کے باعث ان کے بچنے کی قطعی اُمید نہ تھی اور وہ بہت جلد نشانہ بن گئے۔ ہو بازوں کے جسم کے ٹکڑے اور جہازوں کا ملبہ سسراں والی کے قریب بلہر ار چھہور مغلیاں جو کہ سانگلہ ہل قصبہ کے قریب تھے پائے گئے۔
اس دوران جوگ کے فضائی دستے نے عالم سے معجزانہ طور پر بچ کر جان بچائی البتہ جوگ اور اسکے ساتھی طیارے کے ہواباز چوہدری نے اترنے کے بعد اپنے اپنے جہازوں میں سوراخ دیکھے۔ راٹھور اور پریہار بغیر خراش کے بچ نکلے ۔ چاروں ہنٹرز جو نشانہ بنے وہ مختلف فضائی دستوں کے تھے۔ بچ کر جانے والے نمبر 27سکواڈرن کے طیارے حملے کیلئے آنے والے نمبر 7سکواڈرن کے طیاروں کے پاس سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر سانگلہ ہل کے اوپر سے گذرے جیسے ہی عالم نے جوگ کے ہنٹر طیارے کے عقبی حصہ پر غوطہ لگایا ۔ لامبا نے بھٹی اور انکے ساتھی سیبر طیارے کو سامنے سے آتے ہوئے دیکھا وہ سمجھا کہ ان پر حملہ ہونے اس نے فوراً بائیں طرف مڑنے کیلئے کہا۔ سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم اس لمحے جوگ اور چوہدری سے نصف دائرے کی شکل میں فائرنگ کے تبادلے میں مصروف تھے جبکہ بھگوت اور برار دوسرے نصف دائرے میں فائرنگ سے علیحدہ تھے۔ اگر لامبا کو معمولی سا بھی اندازہ ہوتا کہ بھٹی چند لمحوں قبل فالتو ٹنکیوں کے جھولنے کے باعث لڑائی سے کنارہ کش ہو چکے ہیں تو نمبر 7سکواڈرن باآسانی حملہ کرنے کے اہل ہوتا۔ تاہم عارف جواپنے سٹار فائٹر سے حالات پر مکمل نظر رکھے ہوئے تھے جوگ کی وارننگ کال دی جو شاید مددگار ثابت ہوتی اگر مہارت سے وہ اپنے ریڈیو کی فریکوینسی ذچاریہ کے ریڈیو سے ہم آہنگ کر لیتا۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ چند لمحوں کیلئے عالم بھی حیران ہو گئے۔
ذچاریہ یا غالباً جوگ کے ساتھی ہوا باز اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھ رہے تھے۔ کہ عالم کو خبر نہ ہوئی کہ اس وقت کئی طیارے بچ کر بھاگ نکلے ہیں اگرچہ عالم اپنے ساتھی کو تکلیف دیئے بغیر بھاگنے والے طیاروں میں سے کئی طیاروں کو نشانہ بنا سکتے تھے۔ عالم اور انکے ساتھی طیارے کے ہوا باز نو طیاروں سے نبرد آزما تھے۔ تاہم چند منٹوں میں تین طیاروں کو تباہ اور دو کو شدید نقصان پہنچایا۔
انتہائی مسرت سے عالم نے پانچ ہنٹر طیاروں کی تباہی کا مژدہ کنٹرولر کو سنایا ۔ ایک ہی مشن میں یہ اعلیٰ ترین کامیابی جنگل کی آگ کی طرح ہر سو پھیل گئی ۔ جس وقت عالم واپس اپنے سکواڈرن پہنچے ریڈیو پاکستان اس غیر مساویانہ جھڑپ کی کامیابی کی روداد نشر کر رہا تھا۔ اس موقعہ پر جب صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ اس کامیابی پر آپ کے کیا احساسات ہیں تو اس مرد مجاہد نے کہا کاش جو طیارہ میں اُڑا رہا تھا وہ پاکستان کا بنا ہوا ہوتا ۔ آج اُن کا یہ خواب پاکستان ائر فورس کی بصیرت انگیز قیادت نے پورا کر دکھایا ۔
اس مشن میں غیر معمولی کامیابی کا اعتراف کرتے ہوئے سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کو ستارۂ جرات بار سے نوازا گیاجبکہ ستارۂ جرات ایک روز قبل ہنٹرز کے ساتھ پہلی کامیاب جھڑپ کی وجہ سے عطا کیا گیا تھا۔ انہوں نے برصغیر میں سب سے زیادہ دشمن کے طیارے گرانے کا ریکارڈ قائم رکھا
پاکستان کے اس مایہ ناز مجاہد نے ۱۹۷۱ کے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اگرچہ انہیں دوران جنگ انہیں عملی طور پر پاک فضائیہ سے علیحدہ کردیا گیا تھا مگر اُنہوں نے پاکستان میں ہی جینے مرنے کو ترجیح دی ۔ اور جب بنگلہ دیش نے اُنہیں فضائیہ میں اعلیٰ قیادت کا عہدہ پیش کیا تو اُنہیں بہت دُکھ ہوا اور انہوں نے اِسے ٹھُکرا دیا ۔ وہ ائر کموڈور (ون سٹار جنرل )کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اپنی تمام مراعات پنشن کی رقم سے دستبردار ہوئے افغانستان میں روسی جارحیت کے دوران جہادی کاموں میں مصروف رہے پاک فضائیہ کے آفیسرز میس دو کمروں کی رہائش گاہ میں کتابوں کے ساتھ درویشانہ عمر گزاری ۔ اسلامی فلاحی کاموں میں مصروف رہے ۔ ہر وقت مطالعہ میں مستغرق اس شخص نے جس کے خاندان کا کوئی فرد پاکستان میں نہ تھا اُس نے کبھی اپنے آپ کو تنہا نہیں سمجھا پاکستان اور پاک فضائیہ کا بے لوث بے خوف ، نڈر ، مجاہد ایک بیماری سے لڑتا ہوا ۱۸ مارچ ۲۰۱۳ کو خالق حقیقی سے جا ملا مرحوم نے اپنے تین بھائیوں اور ایک بہن کے علاوہ کروڑوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئے
آئیے آج اس موقعہ پر اُنہیں دعاؤں کا نذرانہ پیش کریں ، رب العزت اُن کے درجات بلند فرمائے (آمین )
تحریر: سید زبیر
محمد محمود عالم پاک فضائیہ کے لڑاکا ہواباز تھے جنکی وجہ شہرت گینز بک آف ریکارڈ کے مطابق ایک منٹ میں سب سے زیادہ لڑاکا ہوائی جہاز گرانے کی ہے ۔ آپ چھے جولائی ۱۹۳۵ کو کلکتہ کے ایک علمی اور مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ثانوی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول ڈھاکہ سے مکمل کرنے کے بعد دو اکتوبر ۱۹۵۳ کو پاکستان ائر فورس میں بطور لڑاکا ہواباز کمیشن حاصل کیا ۔ آپ تین بھائی تھے ، ایک بھائی اکنامکس اور دوسرے بھائی فزکس میں ڈاکٹر تھے ۔محمد محمود عالم جنہوں نے ایم ایم عالم کے نام سے شہرت پائی ، کا جذبہ حب الوطنی سرفروشی کی حد تک پہنچا ہوا تھا ۔ستمبر ۱۹۶۵ کی جنگ کے وقت وہ پاک فضائیہ کے مایہ ناز سکوڈرن نمبر ۱۱ کی کمان کر رہے تھے ۔
6ستمبر 1965کی شام پاک فضائیہ کیلئے ملے جلے احساسات کا پیغام لائی تھی ۔ پاکستان ایئر فورس نے بھارتی فضائیہ کے اگلے فضائی اڈے پٹھانکوٹ ، آدم پور اور ہلواڑہ پر بھر پور انداز میں حملے کئے تھے ۔ آدم پور اور ہلواڑہ میں اگرچہ کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی مگر پٹھانکوٹ میں پاک فضائیہ نے بھارت کے دس طیارے تباہ کیے اور متعدد کو نقصان پہنچایا۔ جبکہ ہلواڑہ پر حملے کے دوران پاکستان ائیر فورس نے اپنے دو مایہ ناز ہوا باز سرفراز رفیقی اور یونس کھودئیے ۔ سرگودہا کے فضائی اڈے میں غم و غصہ اور انتقام کی لہرپھیلی ہوئی تھی۔ سکواڈرن نمبر 11کے نڈر سکواڈرن کمانڈر ، سکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم انتہائی غضبناک انداز میں اگلے دن کے لائحہ عمل تیار کررہے تھے۔ 33ونگ کے ہوا باز وں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے رفیقی اور یونس کے لہو کا بدلہ لینے کا عہد کیا۔ چند گھنٹوں قبل غروب آفتاب کے وقت آدم پور پر حملے کیلئے جاتے ہوئے عالم نے ایک بھارتی ہنٹر کو گرایا تھا۔ انہوں نے عزم ، اعتماد کے لہجے میں یقین دلایا کہ سیبر ہنٹر کا مقابلہ کر سکتا ہے ایک طیارہ گرانے کے بعد انہوں نے یہ ثابت کردیاکہ وہ بھارتی فضائیہ کو مزید نقصان پہنچانا چاہارہے تھے۔ 7ستمبر کو علی الصبح ہونے والے بھارت کے جارحانہ حملوں کو سرگودھا نے ختم کیا۔ پہلے بھارتی مسٹیئر طیارے کے جاتے ہی دو سیبر اور ایک سٹار فائٹر فضائی نگہبانی کیلئے بلند ہوئے ۔ چند ہی لمحوں بعد زمینی کنٹرول نے حملہ آور طیاروں کی آمد سے آگاہ کیا۔ دس پندرہ منٹ مشرق کی جانب پرواز کے بعد پاکستان ائر فورس کے شاہینوں کو بتایا گیا کہ حملہ آور سرگودھا پر ہیں اور واپس پہنچیں ۔ اس وقت پاکستان کے وقت کے مطابق صبح کے پانچ بج کر سینتالیس منٹ ہوئے تھے۔
بھارتی فضائیہ کے نمبر 27سکواڈرن ، ہلواڑہ کے سکواڈرن لیڈر ڈی ایس جوگ پانچ ہنٹر طیاروں سمیت سکواڈرن لیڈر اواین تکر۔فلائیٹ لیفٹینٹ ڈی این راٹھور، فلائیٹ لیفٹنٹ ٹی کے چودھری اور فلائنگ آفیسر کی قیادت کرتے ہوئے سرگودھا پر حملہ آور ہوئے۔ پہلے چھوٹا سرگودھا میں دوسری جنگ عظیم کے وقت کی ناکارہ ایئر سٹرپ کو تباہ کرنے کیلئے نیچے آئے ۔ جو کہ بھارتی فضائیہ کے جنگی منصوبے میں نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ جب وہاں کوئی طیارہ نہ ملا تو حملہ آور فضائی دستہ مشرق کی جانب آٹھ میل کے فاصلے پر سرگودھا کے فضائی اڈے کی طرف بڑھا تاہم زمینی طیارہ شکن توپوں کے باعث عسکری تنصیب نما فیکٹری سلطان ٹیکسٹائل مل کو نشانہ بنا کر اپنا مشن مکمل کرنے لگے ۔ طیارہ شکن توپوں کے بنائے ہوئے جال سے بچنے کیلئے بھارتی ہنٹر طیاروں نے بنا ء مشن مکمل کئے واپسی کی راہ اختیار کی۔ سیبرز کی ایک جوڑی جسکی قیادت فلائیٹ لیفٹنٹ امتیاز بھٹی کر رہے تھے نے دو ہنٹر طیاروں کو دیکھا مگر غور کے بعد پتہ چلا کہ ۔ ایک دوسری سیبر کی جوڑی نے ہنٹروں کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ عقابی بصیرت کے حامل کنٹرول نے جیسے ہی حملہ آور کو دیکھا اس نے عالم اور انکے ساتھی فلائیٹ لیفٹنٹ مسعود اختر کو پیچھا کرنے کو کہا ۔ بھٹی جو فضائی جھڑپ کے انتہائی خواہاں تھے بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو پا کر اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ فضا میں موجود سٹار فائٹر میں فلائیٹ لیفٹنٹ عارف اقبال مسلسل بلندی سے دشمن کے طیاروں کی حرکات پر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ پیچھے رہنے والی ہنٹر طیاروں کی جوڑی نے دفاعی انداز میں لڑتے ہوئے سیبر کی طرف رخ کیا عالم تیزی سے بلند ہو کر دوبارہ اپنی پوزیشن پر آگئے۔ ہنٹر ابھی تک طیارہ کی گنوں کی زد میں نہیں تھے عالم نے آخری طیارے کی طرف میزائل داغ دیا۔ کیونکہ میزائل غوطہ لگاتے ہوئے انتہائی کم بلندی سے داغا گیا لہٰذا عالم اس کو زمین پر جاتے ہوئے حیران نہ ہوئے۔ میزائل کیلئے نشانے کے عقب پر کھلا آسمان ہونا نہایت موزوں رہتا ہے۔ ہنٹر طیارے درختوں کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے بچنے کی کوشش کررہے تھے۔ عالم کی بے چینی اس وقت ختم ہو گئی جب اچانک ایک طیارہ بجلی کی تاروں سے بچنے کیلئے بلند ہوا۔ اور عالم کے میزائل کی زد میں آگیا۔ نشانے سے آگاہ کرنے والے آلے نے ہنٹر سے خارج ہونے والی تپش کے سگنل سے آگاہ کیا۔ یہ بہترین موقع تھا عالم نے بغیر لمحہ ضائع کیے دوسرا میزائل داغ دیا۔ میزائل نے ہنٹر کے ایندھن والے حصے کو تباہ کیا۔ سکواڈرن لیڈر جوگ کے فضائی دستے کے ارکان نے بدنصیب طیارے کے پائلٹ کی ریڈیوکالز کو سنا۔
نقصان زدہ طیارے کو اوپر سے گزرتے ہوئے عالم نے دیکھا کہ ہنٹر طیارے کی کنوپی نہیں ہے۔ اور طیارے میں ہوا باز نہ تھا۔ اپنے ساتھی کے ہمراہ دوسرے طیاروں سے الجھتے ہوئے عالم نے طیارے کو ہوا باز کو چھلانگ مارتے ہوئے نہ دیکھا ۔ مگر تھوڑی ہی دیر میں اردگرد نظر دوڑانے پر عالم نے ہنٹر کے ہوا باز کو پیرا شوٹ کے ذریعے اترتا ہوا دیکھ لیا۔ بھٹی جو تھوڑے فاصلے سے یہ منظر دیکھ رہے تھے بتاتے ہیں ’’جب عالم دشمن کا پیچھا کر رہے تھے میں مستقل اس تاک میں تھا کہ شاید مجھے بھی طیارہ گرانے کا موقع مل جائے ۔ ہم دریا کے نزدیک ہی تھے کہ میں نے آسمان سے جلتا ہو شعلہ نیچے آتا دیکھا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ طیارے کے زمین تک پہنچنے سے ذرا قبل ہوا باز چھلانگ مار چکا ہے۔
ادھر فضا میں دیگر ہنٹر طیارے سکواڈرن لیڈر عالم کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔ مگر عالم کے پاس اُنکاتعا قب کرنے کیلئے کچھ ایندھن تھا۔ جیسے ہی انہوں نے دریائے چناب عبور کیا اُنکے ساتھی طیارے کے ہواباز اختر نے سو دو سو فٹ کی بلند ی پر تقریباً 480ناٹ کی رفتار سے پرواز کرتے ہوئے طیاروں کی نشاندھی کی۔ ایم ایم عالم جیسے ہی انکو نشانے پر لینے کیلئے قریب گئے بھارتی ہنٹر طیارے مایوسی کے عالم میں دفاعی انداز میں مڑے ۔ مگر عالم سے بچنے کی یہ کوشش ناکام گئی بلکہ اس طرح وہ ایک ہی قطار میں نشانے کی زد میں آگئے ۔ طلوع آفتاب کی چمک میں عالم نے آخری طیارے پر سیبر سے فائٹر کیا۔ جو اسکے ایندھن کی فاضل ٹینکوں سے لگا عالم نے نشانہ لگتے ہوئے دیکھا اور نہایت سرعت سے اگلے طیارے کو نشانے پر لیکر گولیوں کی بوچھاڑ کردی ۔ ہنٹرز بھاگتے ہوئے نظر آئے۔
نمبر 7سکواڈرن نے پانچ ہنٹر طیاروں پر مشتمل تیسرا فضائی دستہ ہلواڑہ سے ونگ کمانڈر تورک ذچاریہ کی قیادت میں حملہ کیلئے بھیجا۔ اس فضائی دستہ میں سکواڈرن لیڈر اے ایس لامبا ، سکواڈرن لیڈر ایم ایم سنہہ، سکواڈرن لیڈر ایس بی بھگوت اور فلائنگ آفیسر ایس برار شامل تھے۔ موخر الذکر دونوں مسلح محافظ کے طو پر تھے نیچی پرواز کرتے ہوئے وہ نمبر 27سکوڈرن کی واپسی کی توقع کر رہے تھے۔ تاہم جیسے ہی انہوں نے سانگلہ ہل عبور کیا۔ بھارت فضائیہ کے لامبا نے دو سیبر طیاروں کو چار ہزار فٹ کی بلندی سے غوطہ لگاتے ہوئے دیکھا ۔ اس نے فوراً اپنے طیاروں کو بائیں مڑنے کو کہا ۔ ذچاریہ نے عمل کرتے ہوئے مشن بناء مکمل کئے بھاگنے کے احکامات دیئے ۔بھگوت اور برار نے فالتو بوجھ کم کیے بغیر سیبر سے الجھنے کی غلطی کر ڈالی۔ گولہ بارود کے بوجھ کے باعث ان کے بچنے کی قطعی اُمید نہ تھی اور وہ بہت جلد نشانہ بن گئے۔ ہو بازوں کے جسم کے ٹکڑے اور جہازوں کا ملبہ سسراں والی کے قریب بلہر ار چھہور مغلیاں جو کہ سانگلہ ہل قصبہ کے قریب تھے پائے گئے۔
اس دوران جوگ کے فضائی دستے نے عالم سے معجزانہ طور پر بچ کر جان بچائی البتہ جوگ اور اسکے ساتھی طیارے کے ہواباز چوہدری نے اترنے کے بعد اپنے اپنے جہازوں میں سوراخ دیکھے۔ راٹھور اور پریہار بغیر خراش کے بچ نکلے ۔ چاروں ہنٹرز جو نشانہ بنے وہ مختلف فضائی دستوں کے تھے۔ بچ کر جانے والے نمبر 27سکواڈرن کے طیارے حملے کیلئے آنے والے نمبر 7سکواڈرن کے طیاروں کے پاس سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر سانگلہ ہل کے اوپر سے گذرے جیسے ہی عالم نے جوگ کے ہنٹر طیارے کے عقبی حصہ پر غوطہ لگایا ۔ لامبا نے بھٹی اور انکے ساتھی سیبر طیارے کو سامنے سے آتے ہوئے دیکھا وہ سمجھا کہ ان پر حملہ ہونے اس نے فوراً بائیں طرف مڑنے کیلئے کہا۔ سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم اس لمحے جوگ اور چوہدری سے نصف دائرے کی شکل میں فائرنگ کے تبادلے میں مصروف تھے جبکہ بھگوت اور برار دوسرے نصف دائرے میں فائرنگ سے علیحدہ تھے۔ اگر لامبا کو معمولی سا بھی اندازہ ہوتا کہ بھٹی چند لمحوں قبل فالتو ٹنکیوں کے جھولنے کے باعث لڑائی سے کنارہ کش ہو چکے ہیں تو نمبر 7سکواڈرن باآسانی حملہ کرنے کے اہل ہوتا۔ تاہم عارف جواپنے سٹار فائٹر سے حالات پر مکمل نظر رکھے ہوئے تھے جوگ کی وارننگ کال دی جو شاید مددگار ثابت ہوتی اگر مہارت سے وہ اپنے ریڈیو کی فریکوینسی ذچاریہ کے ریڈیو سے ہم آہنگ کر لیتا۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ چند لمحوں کیلئے عالم بھی حیران ہو گئے۔
ذچاریہ یا غالباً جوگ کے ساتھی ہوا باز اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھ رہے تھے۔ کہ عالم کو خبر نہ ہوئی کہ اس وقت کئی طیارے بچ کر بھاگ نکلے ہیں اگرچہ عالم اپنے ساتھی کو تکلیف دیئے بغیر بھاگنے والے طیاروں میں سے کئی طیاروں کو نشانہ بنا سکتے تھے۔ عالم اور انکے ساتھی طیارے کے ہوا باز نو طیاروں سے نبرد آزما تھے۔ تاہم چند منٹوں میں تین طیاروں کو تباہ اور دو کو شدید نقصان پہنچایا۔
انتہائی مسرت سے عالم نے پانچ ہنٹر طیاروں کی تباہی کا مژدہ کنٹرولر کو سنایا ۔ ایک ہی مشن میں یہ اعلیٰ ترین کامیابی جنگل کی آگ کی طرح ہر سو پھیل گئی ۔ جس وقت عالم واپس اپنے سکواڈرن پہنچے ریڈیو پاکستان اس غیر مساویانہ جھڑپ کی کامیابی کی روداد نشر کر رہا تھا۔ اس موقعہ پر جب صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ اس کامیابی پر آپ کے کیا احساسات ہیں تو اس مرد مجاہد نے کہا کاش جو طیارہ میں اُڑا رہا تھا وہ پاکستان کا بنا ہوا ہوتا ۔ آج اُن کا یہ خواب پاکستان ائر فورس کی بصیرت انگیز قیادت نے پورا کر دکھایا ۔
اس مشن میں غیر معمولی کامیابی کا اعتراف کرتے ہوئے سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کو ستارۂ جرات بار سے نوازا گیاجبکہ ستارۂ جرات ایک روز قبل ہنٹرز کے ساتھ پہلی کامیاب جھڑپ کی وجہ سے عطا کیا گیا تھا۔ انہوں نے برصغیر میں سب سے زیادہ دشمن کے طیارے گرانے کا ریکارڈ قائم رکھا
پاکستان کے اس مایہ ناز مجاہد نے ۱۹۷۱ کے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اگرچہ انہیں دوران جنگ انہیں عملی طور پر پاک فضائیہ سے علیحدہ کردیا گیا تھا مگر اُنہوں نے پاکستان میں ہی جینے مرنے کو ترجیح دی ۔ اور جب بنگلہ دیش نے اُنہیں فضائیہ میں اعلیٰ قیادت کا عہدہ پیش کیا تو اُنہیں بہت دُکھ ہوا اور انہوں نے اِسے ٹھُکرا دیا ۔ وہ ائر کموڈور (ون سٹار جنرل )کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اپنی تمام مراعات پنشن کی رقم سے دستبردار ہوئے افغانستان میں روسی جارحیت کے دوران جہادی کاموں میں مصروف رہے پاک فضائیہ کے آفیسرز میس دو کمروں کی رہائش گاہ میں کتابوں کے ساتھ درویشانہ عمر گزاری ۔ اسلامی فلاحی کاموں میں مصروف رہے ۔ ہر وقت مطالعہ میں مستغرق اس شخص نے جس کے خاندان کا کوئی فرد پاکستان میں نہ تھا اُس نے کبھی اپنے آپ کو تنہا نہیں سمجھا پاکستان اور پاک فضائیہ کا بے لوث بے خوف ، نڈر ، مجاہد ایک بیماری سے لڑتا ہوا ۱۸ مارچ ۲۰۱۳ کو خالق حقیقی سے جا ملا مرحوم نے اپنے تین بھائیوں اور ایک بہن کے علاوہ کروڑوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئے
آئیے آج اس موقعہ پر اُنہیں دعاؤں کا نذرانہ پیش کریں ، رب العزت اُن کے درجات بلند فرمائے (آمین )