محمود احمد غزنوی
محفلین
ایک زمانے میں تہمینہ درانی کی خود نوشت ’’مائی فیودل لارڈ‘‘ کا بہت چرچا ہوا۔۔۔ تو میں نے بھی اسے پڑھنا یا پرکھنا ضروری سمجھا۔۔۔ اس کتاب کی خوبیاں اگرچہ کم تھیں لیکن اسے پڑھنے کے بعد ملک غلام مصطفی کھر کے بارے میں میری رائے پہلے سے بہت بہتر ہو گئی۔۔۔ بلکہ میں کسی حد تک ان کے کردار کے ایک پہلو کا معترف ہو گیا جس کی تفصیل اس مختصر تحریر میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ کچھ اس طور پر میں نے جب جرمن نو مسلم خاتون کر سٹین بیکر کی ضخیم کتاب ’’فرام ایم ٹی وی ٹو مکہ‘‘ کا مطالعہ کیا تو میری نظروں میں اس کے سابقہ محبوب عمران خان کا وقار بڑھ گیا۔ اگر کراچی لٹریری فیسٹول میں اس کتاب کی ترویج کرنے والے ایک صاحب مجھے اس کے تحفے سے نہ نوازتے تو میں یقیناًایک نہایت دلچسپ اور اسلام کی ہمہ گیر سچائی کی تلاش میں سر گرداں ایک خاتون سے بے خبر رہ جاتا۔
کرسٹین یورپ کے سب سے پسندیدہ میوزک چینل ایم ٹی وی میں ایک کھلنڈری، اپنے بدن کی نمائش کرنے والی ایسی چلبلی میزبان تھی جس کی ایک دنیا مداح تھی۔۔۔ مغرب کے ایسے گلوکار اور موسیقار جن کی پوجا کی جاتی ہے اس کے شوز میں مہمان ہوتے تھے اور وہ شب و روز اس شہرت اور چکا چوند میں رقصاں تھی۔۔۔ اس دوران کسی پارٹی میں اس کی ملاقات ہمارے عمران خان سے ہو جاتی ہے اور وہ یورپ کی دیگر حسیناؤں کی مانند اس پر مر مٹتی ہے۔ بقول کرسٹین، عمران خان ایک ماڈل، ایک سپورٹس مین اتنا ہینڈ سم تھا کہ لڑکیاں مکھیوں کی مانند اس پر گرتی تھیں کہ کاش یہ میری ایک شب سنوار دے۔ چنانچہ شدید محبت کی ایک کہانی شروع ہو جاتی ہے۔ کرسٹین کا کہنا ہے کہ ہم دونوں اتنے سنجیدہ تھے کہ ہمارے درمیان طے پا چکا تھا کہ ہمارے بچے مسلمان ہوں گے۔
کرسٹین متعدد بار عمران خان کے ہمراہ پاکستان آئی، اُس کے ہاں زمان پارک کی رہائش گاہ میں قیام کیا۔ اُس کی ہمشیرگان سے ملاقات کی اور پھر خان صاحب کے ہمراہ پاکستانی شمال میں کوہ نوروی کے لیے گئی اور اکثر مرتے مرتے بچی۔۔۔ مجھے یاد ہے ایک بار جب میں اپنی کوہ نورد ٹیم کے ہمراہ شمال کے راستے میں اپنے محبوب دریائے سندھ کے کنارے بشام کے پی ٹی ڈی سی موتل میں شب بسری کے لیے رُکا تو وہاں کے منیجر اور میرے دوست شیرستان نے مجھے بتایا کہ ابھی چند روز پیشتر عمران خان بھی آئے تھے اور حسب معمول نہایت دل کش مغربی خواتین کے ہمراہ آئے تھے۔ میں نے پوچھا، سندھ کے کنارے شام ہو تو اُس شام میں خان صاحب کچھ شغل وغیرہ بھی تو کرتے ہوں گے تو شیرستان کہنے لگے ’’نہیں وہ کم از کم شراب نہیں پیتے تھے‘‘۔ مجھے یقین نہ آیا کہ ہمارا یہ کاسا نووا مئے لالہ فام کا ایک گھونٹ بھی نہ بھرتا ہو یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔ میرے مرحوم کوہ نوروساتھی میاں فرزند علی اکثر کہتے ’تارڑ صاحب۔۔۔ بشام میں جو آپ کا دوست موٹل انچارج ہے، اُس کا نام یاد نہیں آ رہا لیکن اس کا مطلب بہت سارے شیر ہیں‘‘ یہ شیرستان تھا۔
کرسٹین کا کہنا ہے کہ عمران نے کہا تم میرے ساتھ پاکستان کے شمال کی بلندیوں میں چلو میں گارنٹی کرتا ہوں کہ تم وہاں پہنچ کر میری محبت میں مبتلا ہو جاؤ گی اور ایسا ہی ہوا کوئی ایک شام تھی بلند پہاڑوں میں جب وہ برفیلی بلندیوں کے سائے میں خیمہ زن تھے اور سورج ڈوب رہا تھا اور تب کرسٹین نے اقرار کیا کہ میں عمران خان کے عشق میں فنا ہو گئی۔ کرسٹین اس دوران خان صاحب کے پر تعیش فلیٹ میں منتقل ہو چکی تھی اور وہ شادی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور پھر جانے کیوں خان صاحب یکدم بدگمان ہو گئے، اُن کی محبت سرد پڑنے لگی اور پھر یورپ کے تمام اخباروں اور ٹی وی پر ایک ہی شہ سرخی تھی کہ پلے بوائے عمران خان نے کھرب پتی خاندان کی خوش شکل جمائما سے شادی کر لی۔۔۔ کرسٹین یہ صدمہ برداشت نہ کر سکی۔ علیل ہو گئی، شدید ڈیپریشن کا شکار ہو گیا اور اس نے ہارلے سٹریٹ لندن کی ایک نہایت معروف نفسیات دان ڈاکٹر سے رجوع کیاجو ایک محل نما رہائش گاہ میں رہتی تھیں اور ملکہ الزبتھ سے ملاقات کا وقت آسانی سے مل سکتا تھا لیکن اُن سے اپائنٹ سینٹ حاصل کرنا زیادہ دشوار تھا۔ جب کرسٹین نے اُن سے اپنی داستان محبت کی ناکامی بیان کی تو اُس انگریز خاتون ڈاکٹر نے اقرار کیا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میں بھی اسلام قبول کر چکی ہوں اور میرا اسلامی نام ڈاکٹر امنیہ ہے۔۔۔ ڈاکٹر امنیہ، کرسٹین کے لیے ایک معجزہ ثابت ہوئیں اور بعد ازاں ان دونوں نے اکٹھے حج کیا اور روضۂ رسول پر حاضری دی۔
آپ یہ جاننے کے لیے شاید کچھ بے قرار ہوں کہ آخر اس سارے قصے میں وہ کونسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے عمران خان کا وقار میری نظروں میں بلند ہوا۔۔۔ کرسٹین کا کہنا ہے کہ عمران خان ان دنوں میں نہایت باقاعدگی سے۔۔۔ ہم سب سے الگ ہو کر پانچوں وقت نماز پڑھتا تھا۔ اسلام کے ساتھ اُس کی وابستگی مکمل تھی۔ ماہ رمضان میں پورے روزے رکھتا تھا۔۔۔ اور وہ مکمل طور پر شراب سے پرہیز کرتا تھا۔ جن شبینہ محفلوں میں بہت ہلا گلا ہوتا تھا، شراب اور شباب کا خمار ہوتا تھا ان سے گریز کرتا تھا۔ وہ ہمہ وقت مجھے اسلام کی جانب مائل کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔۔۔ ایک بار وہ مارٹن لنگز کی تحریر کردہ سیرت رسول اللہؐ مجھے پڑھ کر سنا رہا تھا تو وہ رونے لگا۔۔۔ میرے لیے یہ ایک دھچکا تھا۔۔۔ عمران جس کے جذبات کبھی اُس کے چہرے پر عیاں نہ ہوتے تھے، ہمیشہ وہ لکڑی کے چہرے کے ساتھ نہایت سنجیدگی سے دوستوں میں حرکت کرتا تھا۔۔۔ وہ عمران کیسے بے خود ہو کر آنسو بہا سکتا ہے۔ میں نے سبب پوچھا تو اُس نے کہا ’’کرسٹین مجھے اپنے پیغمبر سے اتنی محبت ہے کہ اُن کے تذکرے سے میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں‘‘۔۔۔ کیا آپ اب بھی مجھے مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں کہ میری نظروں میں عمران خان کا وقار اس کتاب کے پڑھنے سے مزید بلند ہو گیا۔ ایک بار کرسٹین کچھ ’مدت بعد عمران کے لنڈن کے فلیٹ میں داخل ہوتی ہے۔۔۔ شدید سردی ہے اور سنٹرل ہٹینگ کام نہیں کر رہی اور وہ سیگ ہیٹر جلانے کے لیے دیا سلائی روشن کرتی ہے۔ ایک شعلہ بھڑکتا ہے جو پورے فلیٹ کو اپنی لپیٹ میں لے کر جلا ڈالتا ہے۔ کر سٹین بمشکل اپنی جان بچاتی ہے لیکن فکر مند ہے کہ جب میں عمران کو بتاؤں گی کہ میری کوتاہی کے باعث تمہارا شاہانہ فلیٹ راکھ ہو چکا ہے تو وہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔۔۔ کچھ عرصہ بعد وہ ہمت کر کے اُسے فون کرتی ہے اور فلیٹ کی آتش زدگی کے بارے میں ڈرتے ڈرتے خبر کرتی ہے تو عمران کا ردعمل اُسے حیران کر دیتا ہے۔ وہ نہایت متانت سے لکھتا ہے ’’کرسٹین، شکر ہے کہ میرے گناہوں کی آماجگاہ آگ کے سپرد ہو گئی۔۔۔ شکر ہے‘‘۔
عمران سے علیحدگی کے باوجود کرسٹین کے رگ و پے میں وہ شعلہ بھڑکتا رہتا ہے جسے عمران نے ہوا دی تھی، وہ اپنے آپ کو قرآن پاک کی قربت میں لے جا کر اسلام کے راستے پر چلنے کے لیے وقف کر دیتی ہے۔ (جاری ہے)
کرسٹین یورپ کے سب سے پسندیدہ میوزک چینل ایم ٹی وی میں ایک کھلنڈری، اپنے بدن کی نمائش کرنے والی ایسی چلبلی میزبان تھی جس کی ایک دنیا مداح تھی۔۔۔ مغرب کے ایسے گلوکار اور موسیقار جن کی پوجا کی جاتی ہے اس کے شوز میں مہمان ہوتے تھے اور وہ شب و روز اس شہرت اور چکا چوند میں رقصاں تھی۔۔۔ اس دوران کسی پارٹی میں اس کی ملاقات ہمارے عمران خان سے ہو جاتی ہے اور وہ یورپ کی دیگر حسیناؤں کی مانند اس پر مر مٹتی ہے۔ بقول کرسٹین، عمران خان ایک ماڈل، ایک سپورٹس مین اتنا ہینڈ سم تھا کہ لڑکیاں مکھیوں کی مانند اس پر گرتی تھیں کہ کاش یہ میری ایک شب سنوار دے۔ چنانچہ شدید محبت کی ایک کہانی شروع ہو جاتی ہے۔ کرسٹین کا کہنا ہے کہ ہم دونوں اتنے سنجیدہ تھے کہ ہمارے درمیان طے پا چکا تھا کہ ہمارے بچے مسلمان ہوں گے۔
کرسٹین متعدد بار عمران خان کے ہمراہ پاکستان آئی، اُس کے ہاں زمان پارک کی رہائش گاہ میں قیام کیا۔ اُس کی ہمشیرگان سے ملاقات کی اور پھر خان صاحب کے ہمراہ پاکستانی شمال میں کوہ نوروی کے لیے گئی اور اکثر مرتے مرتے بچی۔۔۔ مجھے یاد ہے ایک بار جب میں اپنی کوہ نورد ٹیم کے ہمراہ شمال کے راستے میں اپنے محبوب دریائے سندھ کے کنارے بشام کے پی ٹی ڈی سی موتل میں شب بسری کے لیے رُکا تو وہاں کے منیجر اور میرے دوست شیرستان نے مجھے بتایا کہ ابھی چند روز پیشتر عمران خان بھی آئے تھے اور حسب معمول نہایت دل کش مغربی خواتین کے ہمراہ آئے تھے۔ میں نے پوچھا، سندھ کے کنارے شام ہو تو اُس شام میں خان صاحب کچھ شغل وغیرہ بھی تو کرتے ہوں گے تو شیرستان کہنے لگے ’’نہیں وہ کم از کم شراب نہیں پیتے تھے‘‘۔ مجھے یقین نہ آیا کہ ہمارا یہ کاسا نووا مئے لالہ فام کا ایک گھونٹ بھی نہ بھرتا ہو یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔ میرے مرحوم کوہ نوروساتھی میاں فرزند علی اکثر کہتے ’تارڑ صاحب۔۔۔ بشام میں جو آپ کا دوست موٹل انچارج ہے، اُس کا نام یاد نہیں آ رہا لیکن اس کا مطلب بہت سارے شیر ہیں‘‘ یہ شیرستان تھا۔
کرسٹین کا کہنا ہے کہ عمران نے کہا تم میرے ساتھ پاکستان کے شمال کی بلندیوں میں چلو میں گارنٹی کرتا ہوں کہ تم وہاں پہنچ کر میری محبت میں مبتلا ہو جاؤ گی اور ایسا ہی ہوا کوئی ایک شام تھی بلند پہاڑوں میں جب وہ برفیلی بلندیوں کے سائے میں خیمہ زن تھے اور سورج ڈوب رہا تھا اور تب کرسٹین نے اقرار کیا کہ میں عمران خان کے عشق میں فنا ہو گئی۔ کرسٹین اس دوران خان صاحب کے پر تعیش فلیٹ میں منتقل ہو چکی تھی اور وہ شادی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور پھر جانے کیوں خان صاحب یکدم بدگمان ہو گئے، اُن کی محبت سرد پڑنے لگی اور پھر یورپ کے تمام اخباروں اور ٹی وی پر ایک ہی شہ سرخی تھی کہ پلے بوائے عمران خان نے کھرب پتی خاندان کی خوش شکل جمائما سے شادی کر لی۔۔۔ کرسٹین یہ صدمہ برداشت نہ کر سکی۔ علیل ہو گئی، شدید ڈیپریشن کا شکار ہو گیا اور اس نے ہارلے سٹریٹ لندن کی ایک نہایت معروف نفسیات دان ڈاکٹر سے رجوع کیاجو ایک محل نما رہائش گاہ میں رہتی تھیں اور ملکہ الزبتھ سے ملاقات کا وقت آسانی سے مل سکتا تھا لیکن اُن سے اپائنٹ سینٹ حاصل کرنا زیادہ دشوار تھا۔ جب کرسٹین نے اُن سے اپنی داستان محبت کی ناکامی بیان کی تو اُس انگریز خاتون ڈاکٹر نے اقرار کیا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میں بھی اسلام قبول کر چکی ہوں اور میرا اسلامی نام ڈاکٹر امنیہ ہے۔۔۔ ڈاکٹر امنیہ، کرسٹین کے لیے ایک معجزہ ثابت ہوئیں اور بعد ازاں ان دونوں نے اکٹھے حج کیا اور روضۂ رسول پر حاضری دی۔
آپ یہ جاننے کے لیے شاید کچھ بے قرار ہوں کہ آخر اس سارے قصے میں وہ کونسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے عمران خان کا وقار میری نظروں میں بلند ہوا۔۔۔ کرسٹین کا کہنا ہے کہ عمران خان ان دنوں میں نہایت باقاعدگی سے۔۔۔ ہم سب سے الگ ہو کر پانچوں وقت نماز پڑھتا تھا۔ اسلام کے ساتھ اُس کی وابستگی مکمل تھی۔ ماہ رمضان میں پورے روزے رکھتا تھا۔۔۔ اور وہ مکمل طور پر شراب سے پرہیز کرتا تھا۔ جن شبینہ محفلوں میں بہت ہلا گلا ہوتا تھا، شراب اور شباب کا خمار ہوتا تھا ان سے گریز کرتا تھا۔ وہ ہمہ وقت مجھے اسلام کی جانب مائل کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔۔۔ ایک بار وہ مارٹن لنگز کی تحریر کردہ سیرت رسول اللہؐ مجھے پڑھ کر سنا رہا تھا تو وہ رونے لگا۔۔۔ میرے لیے یہ ایک دھچکا تھا۔۔۔ عمران جس کے جذبات کبھی اُس کے چہرے پر عیاں نہ ہوتے تھے، ہمیشہ وہ لکڑی کے چہرے کے ساتھ نہایت سنجیدگی سے دوستوں میں حرکت کرتا تھا۔۔۔ وہ عمران کیسے بے خود ہو کر آنسو بہا سکتا ہے۔ میں نے سبب پوچھا تو اُس نے کہا ’’کرسٹین مجھے اپنے پیغمبر سے اتنی محبت ہے کہ اُن کے تذکرے سے میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں‘‘۔۔۔ کیا آپ اب بھی مجھے مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں کہ میری نظروں میں عمران خان کا وقار اس کتاب کے پڑھنے سے مزید بلند ہو گیا۔ ایک بار کرسٹین کچھ ’مدت بعد عمران کے لنڈن کے فلیٹ میں داخل ہوتی ہے۔۔۔ شدید سردی ہے اور سنٹرل ہٹینگ کام نہیں کر رہی اور وہ سیگ ہیٹر جلانے کے لیے دیا سلائی روشن کرتی ہے۔ ایک شعلہ بھڑکتا ہے جو پورے فلیٹ کو اپنی لپیٹ میں لے کر جلا ڈالتا ہے۔ کر سٹین بمشکل اپنی جان بچاتی ہے لیکن فکر مند ہے کہ جب میں عمران کو بتاؤں گی کہ میری کوتاہی کے باعث تمہارا شاہانہ فلیٹ راکھ ہو چکا ہے تو وہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔۔۔ کچھ عرصہ بعد وہ ہمت کر کے اُسے فون کرتی ہے اور فلیٹ کی آتش زدگی کے بارے میں ڈرتے ڈرتے خبر کرتی ہے تو عمران کا ردعمل اُسے حیران کر دیتا ہے۔ وہ نہایت متانت سے لکھتا ہے ’’کرسٹین، شکر ہے کہ میرے گناہوں کی آماجگاہ آگ کے سپرد ہو گئی۔۔۔ شکر ہے‘‘۔
عمران سے علیحدگی کے باوجود کرسٹین کے رگ و پے میں وہ شعلہ بھڑکتا رہتا ہے جسے عمران نے ہوا دی تھی، وہ اپنے آپ کو قرآن پاک کی قربت میں لے جا کر اسلام کے راستے پر چلنے کے لیے وقف کر دیتی ہے۔ (جاری ہے)