مشرف صاحب کے جانے کے بعد مجھے سیاست میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی ہے۔
مگر میں چاہتی ہوں کہ انصاف کے تقاضے پھر بھی پورے کیے جاتے رہیں تو بہتر ہو گا۔
اگر متحدہ قصوروار ہے تو اسکی بھی مذمت ہو۔ مگر اگر کوئی اور قصور وار ہے تو صرف اپنی دشمنی میں آنکھیں بند کر کے صرف متحدہ کے پیچھے ہی پڑ جانا اور برے ناموں سے پکارنا انسانی اچھے اخلاق کی توہین ہے۔ [لیکن یہ اعلی انسانی اقدار صرف اُس وقت لوگوں کو یاد آتی ہیں جب انہیں مثال کے طور پر "پاکی" کے نام پر گالی دی جاتی ہے اور برے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ اور پھر مجھ سے ان برادران کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمیں اپنا گریبان نہ دکھاؤ۔ سبحان اللہ۔ میں کسی پر خاموخواہ ہی تنقید نہیں کرنا چاہتی، مگر کوئی بھی مکمل نہیں، آپ نہ میں، اور ہمیں اپنی اصلاح کرنے میں شرم نہیں کرنی چاہیے۔]
اے آر وائی پر شہباز شریف کا انٹرویو عاصمہ شیرازی لے رہی تھی، مگر یہ شہباز شریف نے انٹرویو کو تقریر میں تبدیل کر لیا اور عاصمہ کو کوئی سوال نہیں پوچھنے دیا۔ اس تقریر میں شہباز شریف پنجاب حکومت کے متعلق ایسے بول رہا تھا جسیے کہ پنجاب اسکے باپ کا ہے اور اہل پنجاب کو بھڑکا رہا تھا کہ یہ پنجاب کے خلاف سازش ہو رہی ہے [یعنی نواز لیگ کی حکومت توڑنا پنجاب کے خلاف سازش ہے اور اس کا مطلب صاف یہ تھا کہ مرکزی سندھی حکومت پنجابیوں کے خلاف سازشیں کر رہی ہے] اور اسکی تقریر کے بعد ."جاگ پنجابی جاگ" اور دیگر نعرے [جن کی مجھے سمجھ نہیں آ سکی مگر ایم کیو ایم کے مطابق صوبائی تعصب پر مبنی سندھ اور سندھی حکومت کے خلاف نعرے تھے] لگنے شروع ہو گئے۔
کاش کہ کسی نے شہباز شریف کی یہ تقریر ریکارڈ کر کے نیٹ پر چڑھائی ہو۔
اسکے بعد اے ار وائی پر پے جی میر نے رحمان ملک کا انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو میں رحمان ملک نے چھوٹتے ہیں شہباز شریف کی مذمت کی [بلکہ اُس نے لیگی رہنماوؤں کی تقریروں کا لفظ استعمال کیا تھا جو کہ وہ مختلف جگہوں پر جمع اجتماعات سے کر رہے تھے] اور کہا کہ ہمارے تین صوبوں میں تو پہلے ہی پرابلمز چل رہی ہیں ۔۔۔ اور اب نواز لیگ جس طرح اپنے مفادات کے لیے پنجاب کارڈ کھیلتے ہوئے تعصب کو ہوا دے رہی ہے تو کچھ بعید نہیں اسکا ردعمل دوسرے صوبوں میں برا ہو۔
افسوس کہ رحمان ملک کو جس چیز کا ڈر تھا، وہی کچھ ہمیں دیکھنے کو ملا جب لیگی رہمناؤوں کی تقریروں کے بعد تعصب پر مبنی نعرے لگنا شروع ہوئے۔
اسکے بعد مولانا فضل الرحمان ٹی وی پر آئے اور انہوں نے تقریبا 5 مرتبہ نواز لیگ سے درخواست کی کہ وہ محتاط رہیں اور پنجاب کارڈ نہ کھیلیں اس سے تعصب کو ہو ملتی ہے۔ اگرچہ کہ فضل الرحمان صاحب کا لہجہ مذمت والا ہونے سے زیادہ درخواست خواہانہ تھا، مگر عقلمندوں کے لیے اشارہ کافی کہ نہ صرف سندھ، اور سندھی لیڈر، بلکہ دیگر لیڈران نے بھی اس چیز کو محسوس کرتے ہوئے نوٹس لیا۔
ایک صحافی نے بھی مختصر اس کی مذمت کی، مگر انہیں زیادہ موقع نہیں ملا اور ٹی وی اینکرز لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کے لیے ایکسائیٹڈ تھے اور انہوں نے بہرحال یہ چیز روشنی میں نہیں لائے اور اس کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے رہے اور توجہات لانگ مارچ پر مرکوز رکھیں۔
[میری ناقص رائے اور مشاہدے کے مطابق ایم کیو ایم چونکہ اپنے آپ کو مہاجر سے ہٹ کر نئی آئیڈینٹیڈٹی دینا چاہتی ہے "نئے سندھی" اور اُسکا خیال ہے کہ اس طرح اندرون سندھ میں مہاجر اور سندھی ایک دوسرے کے قریب آ سکیں گے، اس لیے وہ اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہے۔
میری ذاتی رائے میں سندھی برادران سے محبتیں بڑھانے کا یہ طریقہ اتنا مناسب نہیں۔ اس موقع پر سافٹ تنقید بہتر رزلٹ لا سکتی تھی اور ایکشن کی باتیں وغیرہ کرنے کی بجائے صرف لیگی لیڈران پر سافٹ تنقید کی جاتی کہ انہوں نے پنجاب کارڈ یوں استعمال کر کے غلطی کی ہے اور اس سے دوسرے صوبوں میں بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ اتنے سخت ایکشن کا اعلان کرنے سے یہ بات لیگی لیڈران سے آگے نکل گئی ہے اور اب لیگی لیڈران اس بات کو ان لوگوں کو بھڑکانے کے لیے استعمال کریں گے جو کہ پہلے ہی متحدہ سے نفرت کرتے ہیں۔
اسی طرح متحدہ نے جو بلوچستان میں بگٹی کے خلاف آپریشن کے خلاف آواز اٹھائی تھی تاکہ وہاں کے قوم پرستوں کی بھی ہمدردیاں حاصل کر سکے، یہ بھی پاکستان کے مجموعی طور پر حق میں ہرگز نہیں تھا۔
اور اسی طرح متحدہ نے جو سندھی برادران کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے کالاباغ ڈیم کی حمایت کرنے سے انکار کیا تھا، یہ بھی ہرگز ایک پاکستانی کی سوچ نہیں ہونی چاہیے۔
خوب ترجمانی کی ہے !
-
ایم کیو ایم کی ڈرامہ بازیوں کی بات ہی کیا ہے ۔الطاف سے لیکر فاروق ستار تک سب کے سب بڑے زبردست "ادا کار" ہیں۔
محترمہ کی یادگار کی بے حرمتی کے خلاف ہمدردی میں تو جلوس نکالتے ہیں لیکن جب لال مسجد ، قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں آپریشن ہوتا ہے، امریکی ڈرونز حملے ہوتے ہیں، نبی پاک حضرت محمد (ص) کی توہین کی جاتی ہے تو اس کے خلاف احتجاج کرنا تو دور کی بات مذمتی بیان تک نہیں آتا۔
یہ بھی یاد رہے کہ اسی بے نظیر کی پارٹی کے کارکنوں پر جس کے حق میں وہ ریلیاں نکال رہے ہیں اور بیانات دے رہے تھے ، 12 مئی 2007ء کو جب وہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے استقبال کے لیے سڑکوںپر نکل آئے تھے ان پر گولیاں برسائیں اور پی پی پی ، اے این پی سمیت سیاسی جماعتوں کے 50 کے قریب کارکن قتل کئے گئے۔
نواب بگٹی کے قتل اور بلوچستان میںآپریشن کے خلاف ان کا "احتجاج" کتنا موثر تھا یہ بھی سب کو معلوم ہے ۔