الف نظامی
لائبریرین
ناگاساکی: عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ تباہ کن اسلحے کی تیاری اور ان کی فروخت سے دولت کمانا خدا کے قہر کو دعوت دینا ہے، عالمی قوتوں کو اپنے جوہری ہتھیار تلف کردینا چاہیئں۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق جاپان کے شہر ناگاسا میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پوپ فرانسس نے کہا کہ ایٹمی اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار امن کی خواہش پوری نہیں کر سکتے، ہتھیاروں کی دوڑ کے خلاف ہم چاہے جتنا بھی بولیں وہ کم ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں کروڑوں بچے اور خاندان غیر انسانی حالات میں رہتے ہیں، وہاں تباہ کن اسلحے کی تیاری پر پیسے خرچ کرنا اور ان کی فروخت سے نفع حاصل کرنا خدا کے قہر کو دعوت دینا ہے۔
پوپ فرانسس نے جوہری ہتھياروں کی تلفی کی اپيل کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں خوف اور عدم اعتماد کے ذریعے تحفظ کے جھوٹے احساس کو فروغ دے کر استحکام اور امن یقینی بنانے کا دفاع کیا جاتا ہے۔ انسانیت کے مکمل خاتمے کا خوف اور امن و بین الاقوامی استحکام کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ پوپ فرانسس جاپان کے 4 روزہ دورے پر ہیں اور آج ہيروشيما بھی جائيں گے۔
واضح رہے کہ پاپائے روم نے 2017 ميں سامنے آنے والے جوہری ہتھياروں پر پابندی کے معاہدے کی بھی حمايت کی تھی، اس معاہدے کو اقوام متحدہ کے دو تہائی رکن ممالک کی حمایت بھی حاصل تھی تاہم بڑی ايٹمی طاقتوں کی مخالفت کے سبب اسے حتمی شکل نہیں دی جا سکی تھی۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق جاپان کے شہر ناگاسا میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پوپ فرانسس نے کہا کہ ایٹمی اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار امن کی خواہش پوری نہیں کر سکتے، ہتھیاروں کی دوڑ کے خلاف ہم چاہے جتنا بھی بولیں وہ کم ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں کروڑوں بچے اور خاندان غیر انسانی حالات میں رہتے ہیں، وہاں تباہ کن اسلحے کی تیاری پر پیسے خرچ کرنا اور ان کی فروخت سے نفع حاصل کرنا خدا کے قہر کو دعوت دینا ہے۔
پوپ فرانسس نے جوہری ہتھياروں کی تلفی کی اپيل کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں خوف اور عدم اعتماد کے ذریعے تحفظ کے جھوٹے احساس کو فروغ دے کر استحکام اور امن یقینی بنانے کا دفاع کیا جاتا ہے۔ انسانیت کے مکمل خاتمے کا خوف اور امن و بین الاقوامی استحکام کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ پوپ فرانسس جاپان کے 4 روزہ دورے پر ہیں اور آج ہيروشيما بھی جائيں گے۔
واضح رہے کہ پاپائے روم نے 2017 ميں سامنے آنے والے جوہری ہتھياروں پر پابندی کے معاہدے کی بھی حمايت کی تھی، اس معاہدے کو اقوام متحدہ کے دو تہائی رکن ممالک کی حمایت بھی حاصل تھی تاہم بڑی ايٹمی طاقتوں کی مخالفت کے سبب اسے حتمی شکل نہیں دی جا سکی تھی۔