محمد اجمل خان
محفلین
ایٹم بم، وارہیڈ اور میزائل
ایک وقت تھا جب منگول، ہن اور تاتار وسطی ایشیا کے طاقتور قبائل تھے۔ وہ اکثر شمال کی طرف سے چین پر حملہ آور ہوتے، اور چینیوں کا قتل عام اور غارت گری کرکے اپنے ملک واپس چلے جاتے۔ ان قبائل کی بار بار کی غارت گری سے بچنے کے لئے چینیوں نے چین کے شمالی سرحد پر ایک طویل ترین دیوار (دیوارِ چین) تعمیر کی جس کی اونچائی 20 سے 30 فٹ، چوڑائی زمین سے تقریباً 25 فٹ اور اوپر سے 12 فٹ، اور لمبائی تقریباً 13ہزار میل سے زائد (21 ہزار کلو میٹر) تھی۔ اس دیوار کے ہر دو سو گز پر حفاظتی پہریداروں کے لیے مضبوط پناہ گاہیں بنی ہوئی تھیں جہاں مسلح سپاہی ہر وقت چوکس رہتے تھے تاکہ کسی بھی دشمن کو دیوار کے قریب آنے سے روکا جا سکے۔
اس دیوار کی تعمیر میں چین کا ہر تیسرا آدمی نے حصہ لیا اور اسے دو ہزار سال کے عرصے میں تعمیر کیا گیا۔ یہ دیوار انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی دنیا کی طویل ترین دیوار ہے اور دنیا کی سات عجائبات میں سے ایک ہے۔
چینیوں کا خیال تھا کہ اس دیوار کو عبور کرکے یا اس میں نقب لگا کر کوئی دشمن ان پر حملہ نہیں کرسکے گا اور اس طرح وہ شمال کی جانب سے آنے والے دشمنوں سے محفوظ رہ سکیں گے۔
لیکن اس عظیم دیوار کی تعمیر کے پہلے سو سالوں کے اندر ہی وسطی ایشیائی قبائل نے چینیوں پر متعدد بار حملہ کئے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ حملہ آوروں کو کبھی دیوار میں نقب لگانے یا دیوار عبور کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
کیونکہ ہر بار حملہ آور دیوار کی حفاظت پر مامور سپاہوں کو رشوت دے کر دیوار میں بنے دروازوں سے داخل ہوئے۔
چینیوں نے ایک مضبوط دیوار تعمیر کرنے کے لیے بہت محنت کی تھی اور بہت وقت بھی لگایا تھا لیکن انھوں نے اپنے لوگوں کی کردار اخلاق و کردار
چینیوں نے ایک مضبوط اور بلند دیوار تعمیر کرنے کے لیے بہت محنت کی تھی لیکن اپنے لوگوں کا کردار مضبوط نہیں کیا تھا۔ لہذا صرف دیوار کو مضبوط اور بلند کرنے کا نتیجہ صفر نکلا۔
آج ہم بھی کچھ اسی طرح کئے بیٹھے ہیں۔
ہم نے طاقتور اٹم بم اور وارہیڈ تو بنا لیے ہیں،
لیکن اپنے لوگوں کی کردار سازی نہیں کی ہے۔
لہذا ملک میں آج کرپٹ لوگ ہیں اور کرپشن ہے۔
ناجانے کب اٹم بم بھی اس کرپشن کی نذر ہوجائے۔
اور دشمن ہم پر اسی راستے سے حملہ کردے،
جہاں سے روکنے کے لئے ہم نے اٹم بم بنایا ہوا ہے۔
*جس ملک میں کرپٹ لوگ ہوں اور ہر ادارے میں کرپشن کا دور دورہ ہو وہاں دشمن کو آنے کی کیا ضرورت؟*
کسی مغربی دانشور نے کہا تھا کہ اگر تم کسی قوم کو تباہ کرنا چاہتے ہو تو تین کام کرو:
(الف) جس قوم کو تم زیر کرنا چاہتے ہو اس کا خاندانی ڈھانچہ تباہ کردو اور خاندانی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے لئے خاندان میں ماں کا کردار اتنا کم کردو کہ وہ خود کو گھریلو خاتون (ہاؤس وائف) کے طور پر متعارف کرانے میں شرم محسوس کرے۔
(ب) نظام تعلیم کو تباہ کر دو، ایسا کرنے کے لیے اساتذہ کے وقار کو پامال کرو اور معاشرے میں انہیں کم حیثیت دکھاؤ تاکہ ان کے طلباء ان کا مذاق اڑائیں، انہیں بے عزت کریں اور پٹائی کریں۔
(ج) نوجوانوں کو ان کے رول ماڈل سے دور کردو، اس کے لیے ان کے اکابر کی طرح طرح سے توہین کرو، ان کے نام پر بہت سے جھوٹے بہتان پھیلاؤ تاکہ نوجوان اپنے رول ماڈل کے نام لنے اور ان کی پیروی کرنے سے کترائیں۔
آج کل مہنگائی کا سیلاب لاکر مرد عورت ہر کسی کو ملازمت کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ عورت جب ایک بار باہر کی دنیا دیکھ لیتی ہے تو دن بھر گھر کی چار دیوری میں رہنا پسند نہیں کرتی۔ لہذا عورتوں کو ایسی حالت کی طرف دھکیلا جارہا ہے کہ وہ خاتونِ خانہ (ہاؤس وائف) بننے کے علاوہ بازاروں اور دفتروں میں ہر کام کرنے کو تیار ہیں۔ ھالانکہ خاتونِ خانہ بن کر گھریلو امور کو چلانا ایک بہت بڑا منیجمنٹ کا عہدہ ہے۔
ہمارا تعلیمی نظام تباہ کر دیا گیا ہے، اب ہمارا کوئی تعلیم معیار نہیں رہا۔ ہمارا ملک اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ تعلیم اور اساتذہ کے معیار کا موازنہ کسی ترقی یافتہ ملک کی تعلیم اور اساتذہ کے معیار سے کر سکے۔
اب ہمارے نوجوانوں کے رول ماڈل ہمارے اکابر نہیں رہے بلکہ ہمارے نوجوانوں کو تو ان کے ناموں کا بھی پتہ نہیں، عشرہ مبشرہ اور مسلمان ہیروز کا نام کتنے نوجوان جانتے ہیں؟ البتہ انہیں فلم اسٹار اور کھیلوں کے ہیروز کے نام ازبر ضرور ہوں گے۔ ہمارے اکابر اور ا ہیروز پر بہتان تراشی کا سلسلہ جاری ہے تاکہ ان کا وقار ہمارے نوجوانوں کے دل سے نکالا جا سکے۔
ان نوجوانوں کو کل ملک و ملت کی قیادت کرنی ہے۔ کیا ہم ان کے کردار اور اخلاق کو اٹم بم جیسا مضبوط اور طاقتور بنانے کی فکر کر رہے ہیں؟ کیا ہماری عورتیں خاتوںِ خانہ بن کر رہنا اور اپنے بچووں کی کردار سازی کرنے میں فخر محسوس کرتی ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کو اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلانے کی فکر کرتے ہیں؟ کیا ہمارا تعلیم کا کوئی معیار ہے؟ ہمارے اساتذہ بلند کردار کے حامل ہیں اور ان کا وقار ان کے طلبہ کے دلوں میں باقی ہے؟
*جواب ایک زوردار "نہیں" میں ہی ہے نا!*
پھر ہم چاہے سینکڑوں اٹم بم، سینکڑوں وار ہیڈز اور ہزاروں میزائل بنالیں، ہمارے دشمن ہمیں اپنے غارت گری کا نشانہ بنا کر رہیں گے اور ہم تباہ و برباد ہوکر رہیں گے۔ بلکہ تباہی کے دہانے پر ہم پہنچ ہی چکے ہیں!
اللہ تعالٰی ہم پر رحم کرے۔ آمین
*تحریر: #محمد_اجمل_خان*
۔
ایک وقت تھا جب منگول، ہن اور تاتار وسطی ایشیا کے طاقتور قبائل تھے۔ وہ اکثر شمال کی طرف سے چین پر حملہ آور ہوتے، اور چینیوں کا قتل عام اور غارت گری کرکے اپنے ملک واپس چلے جاتے۔ ان قبائل کی بار بار کی غارت گری سے بچنے کے لئے چینیوں نے چین کے شمالی سرحد پر ایک طویل ترین دیوار (دیوارِ چین) تعمیر کی جس کی اونچائی 20 سے 30 فٹ، چوڑائی زمین سے تقریباً 25 فٹ اور اوپر سے 12 فٹ، اور لمبائی تقریباً 13ہزار میل سے زائد (21 ہزار کلو میٹر) تھی۔ اس دیوار کے ہر دو سو گز پر حفاظتی پہریداروں کے لیے مضبوط پناہ گاہیں بنی ہوئی تھیں جہاں مسلح سپاہی ہر وقت چوکس رہتے تھے تاکہ کسی بھی دشمن کو دیوار کے قریب آنے سے روکا جا سکے۔
اس دیوار کی تعمیر میں چین کا ہر تیسرا آدمی نے حصہ لیا اور اسے دو ہزار سال کے عرصے میں تعمیر کیا گیا۔ یہ دیوار انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی دنیا کی طویل ترین دیوار ہے اور دنیا کی سات عجائبات میں سے ایک ہے۔
چینیوں کا خیال تھا کہ اس دیوار کو عبور کرکے یا اس میں نقب لگا کر کوئی دشمن ان پر حملہ نہیں کرسکے گا اور اس طرح وہ شمال کی جانب سے آنے والے دشمنوں سے محفوظ رہ سکیں گے۔
لیکن اس عظیم دیوار کی تعمیر کے پہلے سو سالوں کے اندر ہی وسطی ایشیائی قبائل نے چینیوں پر متعدد بار حملہ کئے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ حملہ آوروں کو کبھی دیوار میں نقب لگانے یا دیوار عبور کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
کیونکہ ہر بار حملہ آور دیوار کی حفاظت پر مامور سپاہوں کو رشوت دے کر دیوار میں بنے دروازوں سے داخل ہوئے۔
چینیوں نے ایک مضبوط دیوار تعمیر کرنے کے لیے بہت محنت کی تھی اور بہت وقت بھی لگایا تھا لیکن انھوں نے اپنے لوگوں کی کردار اخلاق و کردار
چینیوں نے ایک مضبوط اور بلند دیوار تعمیر کرنے کے لیے بہت محنت کی تھی لیکن اپنے لوگوں کا کردار مضبوط نہیں کیا تھا۔ لہذا صرف دیوار کو مضبوط اور بلند کرنے کا نتیجہ صفر نکلا۔
آج ہم بھی کچھ اسی طرح کئے بیٹھے ہیں۔
ہم نے طاقتور اٹم بم اور وارہیڈ تو بنا لیے ہیں،
لیکن اپنے لوگوں کی کردار سازی نہیں کی ہے۔
لہذا ملک میں آج کرپٹ لوگ ہیں اور کرپشن ہے۔
ناجانے کب اٹم بم بھی اس کرپشن کی نذر ہوجائے۔
اور دشمن ہم پر اسی راستے سے حملہ کردے،
جہاں سے روکنے کے لئے ہم نے اٹم بم بنایا ہوا ہے۔
*جس ملک میں کرپٹ لوگ ہوں اور ہر ادارے میں کرپشن کا دور دورہ ہو وہاں دشمن کو آنے کی کیا ضرورت؟*
کسی مغربی دانشور نے کہا تھا کہ اگر تم کسی قوم کو تباہ کرنا چاہتے ہو تو تین کام کرو:
(الف) جس قوم کو تم زیر کرنا چاہتے ہو اس کا خاندانی ڈھانچہ تباہ کردو اور خاندانی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے لئے خاندان میں ماں کا کردار اتنا کم کردو کہ وہ خود کو گھریلو خاتون (ہاؤس وائف) کے طور پر متعارف کرانے میں شرم محسوس کرے۔
(ب) نظام تعلیم کو تباہ کر دو، ایسا کرنے کے لیے اساتذہ کے وقار کو پامال کرو اور معاشرے میں انہیں کم حیثیت دکھاؤ تاکہ ان کے طلباء ان کا مذاق اڑائیں، انہیں بے عزت کریں اور پٹائی کریں۔
(ج) نوجوانوں کو ان کے رول ماڈل سے دور کردو، اس کے لیے ان کے اکابر کی طرح طرح سے توہین کرو، ان کے نام پر بہت سے جھوٹے بہتان پھیلاؤ تاکہ نوجوان اپنے رول ماڈل کے نام لنے اور ان کی پیروی کرنے سے کترائیں۔
آج کل مہنگائی کا سیلاب لاکر مرد عورت ہر کسی کو ملازمت کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ عورت جب ایک بار باہر کی دنیا دیکھ لیتی ہے تو دن بھر گھر کی چار دیوری میں رہنا پسند نہیں کرتی۔ لہذا عورتوں کو ایسی حالت کی طرف دھکیلا جارہا ہے کہ وہ خاتونِ خانہ (ہاؤس وائف) بننے کے علاوہ بازاروں اور دفتروں میں ہر کام کرنے کو تیار ہیں۔ ھالانکہ خاتونِ خانہ بن کر گھریلو امور کو چلانا ایک بہت بڑا منیجمنٹ کا عہدہ ہے۔
ہمارا تعلیمی نظام تباہ کر دیا گیا ہے، اب ہمارا کوئی تعلیم معیار نہیں رہا۔ ہمارا ملک اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ تعلیم اور اساتذہ کے معیار کا موازنہ کسی ترقی یافتہ ملک کی تعلیم اور اساتذہ کے معیار سے کر سکے۔
اب ہمارے نوجوانوں کے رول ماڈل ہمارے اکابر نہیں رہے بلکہ ہمارے نوجوانوں کو تو ان کے ناموں کا بھی پتہ نہیں، عشرہ مبشرہ اور مسلمان ہیروز کا نام کتنے نوجوان جانتے ہیں؟ البتہ انہیں فلم اسٹار اور کھیلوں کے ہیروز کے نام ازبر ضرور ہوں گے۔ ہمارے اکابر اور ا ہیروز پر بہتان تراشی کا سلسلہ جاری ہے تاکہ ان کا وقار ہمارے نوجوانوں کے دل سے نکالا جا سکے۔
ان نوجوانوں کو کل ملک و ملت کی قیادت کرنی ہے۔ کیا ہم ان کے کردار اور اخلاق کو اٹم بم جیسا مضبوط اور طاقتور بنانے کی فکر کر رہے ہیں؟ کیا ہماری عورتیں خاتوںِ خانہ بن کر رہنا اور اپنے بچووں کی کردار سازی کرنے میں فخر محسوس کرتی ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کو اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلانے کی فکر کرتے ہیں؟ کیا ہمارا تعلیم کا کوئی معیار ہے؟ ہمارے اساتذہ بلند کردار کے حامل ہیں اور ان کا وقار ان کے طلبہ کے دلوں میں باقی ہے؟
*جواب ایک زوردار "نہیں" میں ہی ہے نا!*
پھر ہم چاہے سینکڑوں اٹم بم، سینکڑوں وار ہیڈز اور ہزاروں میزائل بنالیں، ہمارے دشمن ہمیں اپنے غارت گری کا نشانہ بنا کر رہیں گے اور ہم تباہ و برباد ہوکر رہیں گے۔ بلکہ تباہی کے دہانے پر ہم پہنچ ہی چکے ہیں!
اللہ تعالٰی ہم پر رحم کرے۔ آمین
*تحریر: #محمد_اجمل_خان*
۔