جاسم محمد
محفلین
ایکسچینج ریٹ، آخر کہانی کیا ہے
27/10/2020 ارمغان احمد داؤد
کچھ دن گزرے ایک محفل میں اکانومی پر بحث چھڑ گئی۔ ’ہم بھی وہاں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے‘ پر ’ہم ہنس دیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ ترا‘ کے معیار پر پورا نہ اتر سکے اور اکانومی پر اپنا نکتہ نظر شرح صدر سے بیان کر دیا۔ محفل میں موجود ایک کرم فرما نے چبھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں مجھے کہا کہ تو آپ بھی ان میں سے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ڈالر کو مصنوعی طور پر روکا گیا تھا۔ معلوم نہیں میرے چہرے کے تاثرات میرے دلی جذبات کو چھپانے میں کامیاب رہے یا نہیں مگر زبان سے میں نے صرف اتنا ہی کہا کہ کوئی دلیل ہے تو میری بات کا رد کر دیں، میں کن میں سے ہوں اور کن میں سے نہیں ہوں سے کرنسیوں کے فیصلے نہیں ہوتے۔
خیر، بتانے کا مقصد یہ تھا کہ کم پڑھے لکھے تو خیر مجبور ہیں کہ بات سمجھ نہیں سکتے مگر پڑھے لکھے بھی اکثر ان باتوں کو سمجھ نہیں پاتے کہ اکانومی ایک مشکل اور سبجیکٹو مضمون ہے اور تھیوری میں کہانیاں پڑھ لینا اور ہے جبکہ ملک کی اکانومی چلانا شے دیگر ہے۔ کوشش ہو گی کہ سادہ سی زبان میں اپنا نکتہ نظر گوش گزار کر دوں، مضمون تھوڑا مشکل ہے اس لئے توجہ چاہیے ہوگی۔
ایکسچینج ریٹ دو ملکوں کی کرنسیوں کے درمیان تبادلے کا نرخ ہوتا ہے۔ ہم ڈالر کی مثال ہی لیتے ہیں، ایک ڈالر کے آج کل تقریباً ایک سو باسٹھ روپے ملتے ہیں، اسے سپاٹ ایکسچینج ریٹ بولا جاتا ہے اور یہ ہر وقت بدل رہا ہوتا ہے۔ اس ریٹ کا تعین مارکیٹ میں باقی اشیاء کی طرح ڈیمانڈ اور سپلائی (طلب و رسد) پر ہوتا ہے۔ اکنامکس کا ایک بنیادی اصول ہے جو کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ جس چیز کی ڈیمانڈ مارکیٹ میں بڑھے یا سپلائی کم ہو جائے، اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اور جس چیز کی ڈیمانڈ کم ہو جائے یا سپلائی بڑھ جائے تو اس کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ یہی اصول کرنسی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ جس دوسرے ملک کی کرنسی کی ڈیمانڈ زیادہ مگر سپلائی کم ہو تو لوکل کرنسی اس فارن کرنسی کے مقابلے میں اپنی قدر کھوئے گی۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں ڈالر کیوں چاہیے ہوتے ہیں جس سے ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھتی ہے۔ پاکستان میں ڈالر کی ڈیمانڈ کی سب سے بڑی وجہ امپورٹس کی ادائیگیاں ہیں، جس میں تیل، مشینری اور خام مال وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں ڈالر کی ڈیمانڈ کی ایک اور اہم وجہ فارن کرنسی قرضہ جات کی ادائیگی ہے مگر چونکہ فارن کرنسی قرضہ جات کی ادائیگی کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس میں نہیں آتی اس لئے ہم اپنی بحث اس کے بغیر کرتے ہیں مگر آپ اسے ذہن میں ضرور رکھئے کہ ہمیں ڈالر اس مد میں بھی چاہیے ہوتے ہیں۔
ڈالر کی اس ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لئے ڈالر کی سپلائی بنیادی طور پر تین طریقوں سے مہیا ہوتی ہے۔ ایکسپورٹس، ترسیل زر (یعنی بیرون ملک رہنے والے پاکستانی جو واپس پاکستان پیسہ بھیجتے ہیں ) اورپاکستان میں بیرون ملک سے ہونے والی سرمایہ کاری۔ جب ڈالر کی یہ ڈیمانڈ یعنی امپورٹس کی ادائیگیاں ڈالر کی سپلائی یعنی ایکسپورٹس، ترسیل زر اور بیرونی سرمایہ کاری سے بڑھ جاتی ہیں تو پاکستانی روپیہ کی قدر کا ڈالر کے مقابلے میں کم ہو جانا بنیادی اکنامکس ہے۔
یہاں ایک اور بات سمجھانا ضروری محسوس ہوتا ہے جوہے تو بنیادی مگر بہت اہم ہے اور بہت سے لوگ اس کو سمجھتے نہیں اس لئے شاید ان کو ڈالر کی ڈیمانڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی کی اصل وجہ سمجھ نہیں آتی۔ حکومت کے پاس ڈالر کہاں سے آتے ہیں؟ جیسا کہ بتایا کہ اہم تین ذرائع ہیں یعنی ایکسپورٹس، ترسیل زر اور بیرونی سرمایہ کاری۔ ان تینوں ذرائع سے آنے والے ڈالر ایکسپورٹر کو، ترسیل زر کے وصول کنندہ کو اور جس کمپنی میں سرمایہ کاری کی گئی ہو اسے نہیں ملتے، بلکہ انہیں اس کے برابر سپاٹ ایکسچینج ریٹ (یعنی اس دن اس وقت کا ریٹ) پر پاکستانی روپے ٹرانسفر کیے جاتے ہیں اور اس طرح ڈالر حکومت پاکستان کے خرچ کے لئے رہ جاتے ہیں (ان کی کچھ استثنائی صورتیں ہیں مگر ان کے ذکر کا ہمارے مضمون سے تعلق نہیں اس لئے اسے چھوڑتے ہوئے آگے چلتے ہیں ) ۔
بعینہ یہی چیز الٹ طور پر امپورٹس کی صورت میں ہوتی ہے۔ امپورٹر پاکستانی روپے بنک کو دیتا ہے اور بنک سپاٹ ریٹ پر ڈالر تبدیل کر کے امپورٹ کی ادائیگی دوسرے ملک کے بنک کو کرتا ہے، اور یہ وہی ڈالر ہیں جو کہ اوپر بیان کردہ تین طریقوں سے پاکستان آئے تھے۔ یعنی امپورٹ کرنے کی ایک تو وہ لاگت ہے جو کہ امپورٹر کو برداشت کرنی پڑتی ہے جو کہ پاکستانی روپے میں ہے، اور ایک وہ لاگت ہے جو ڈالر کو خرچنے سے اکانومی کو برداشت کرنی پڑتی ہے اور یہ ڈالر کی صورت میں ہے۔
جب کسی ملک کی ایکسپورٹس اس کی امپورٹس سے بڑھ جائیں تو اسے ٹریڈ سرپلس (Trade Surplus) کہتے ہیں اور جب امپورٹس ایکسپورٹس سے بڑھ جائیں تو اسے ٹریڈ ڈیفیسٹ (Trade Deficit) یعنی تجارتی خسارہ کہتے ہیں۔ مجموعی طور پر اسے بیلنس آف ٹریڈ بھی کہتے ہیں۔ جب مکمل ڈیمانڈ اور سپلائی کو یکجا کر کے دیکھا جائے تو اسے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس یا ڈیفیسٹ (Current Account Surplus or Deficit) بولتے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لئے ملکوں کو فارن کرنسی قرضے لینے پڑتے ہیں کیونکہ یہ خسارہ ملک کے فارکس ریزروز (Forex Reserves) کو کھانا شروع کر دیتا ہے اور نتیجہ لوکل کرنسی کی قدر کم ہونے کی صورت نکلتا ہے۔
اب ہم پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا پچھلے پانچ مالی سال کا خلاصہ بتاتے ہیں۔
مالی سال 2015۔ 16 خسارہ 5 ارب ڈالر
مالی سال 2016۔ 17 خسارہ 13 ارب ڈالر
مالی سال 2017۔ 18 خسارہ 20 ارب ڈالر
مالی سال 2018۔ 19 خسارہ 13 ارب ڈالر
مالی سال 2019۔ 20 خسارہ 3 ارب ڈالر
اس ڈیٹا کا صاف صاف مطلب ہے کہ پاکستان میں ڈالر کی ڈیمانڈ اس کی سپلائی سے اربوں ڈالر زیادہ تھی (اس میں فارن کرنسی قرضوں کی ادائیگی کے لئے جو ڈالرز چاہئیں وہ بھی شامل کر دیں تو ڈیمانڈ اور بڑھ جاتی ہے ) اور اکنامکس کے بنیادی اصول کے تحت پاکستانی روپے کی قدر تدریجاً کم ہونی چاہیے تھی، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ سالوں میں نہیں کی گئی۔ اس کے لئے ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ یہ اکنامکس کے بنیادی اصول کے خلاف کام کس طریقے سے کیا گیا۔
جیسا کہ پہلے بتایا کہ ایکسچینج ریٹ مارکیٹ کی ڈیمانڈ اور سپلائی سے تعین ہوتا ہے اور اسے Floating Exchange Rate Method کہتے ہیں مگر اسی میں ایک طریقہ کار Managed Floating Exchange Rate Method ہے جو کہ پاکستان میں پہلے فالو کیا جاتا رہا ہے۔ اس میں سٹیٹ بنک آف پاکستان مارکیٹ کی ڈیمانڈ اور سپلائی میں مداخلت کرتا ہے اور ڈالر کے ریٹ کواوپر نہیں جانے دیتا۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں ڈالرز کی سپلائی بڑھا دی جاتی ہے اور ریٹ کو چیک میں رکھا جاتا ہے۔
اب آپ کے ذہن میں سوال پید اہونا چاہیے کہ پاکستان کے پاس ڈالر تو پہلے ہی کم تھے کہ ڈیمانڈ زیادہ تھی اور سپلائی کم تھی تو سٹیٹ بنک کے پاس مارکیٹ میں ڈالر پھینکنے کے لئے کہاں سے آئے۔ اگر تو یہ سوال آپ کے ذہن میں نہیں آیا تو دو حرف بھیجیں میرے مضمون پر کہ میری اب تک کی ساری محنت اکارت جا چکی ہے اور مرزا پور کا سیزن ٹو دیکھیں کہ آگے بات اور مشکل ہوتی جانی ہے۔ جن کے ذہن میں یہ خیال آ ہی گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ڈالر کے جو قرضہ جات لئے جاتے رہے ہیں انہی میں سے اربوں ڈالرز (جی صحیح لکھا ہم نے، اربوں ڈالرز) کچھ سالوں میں مارکیٹ میں پھینکے گئے اور اکنامکس کے بنیادی اصول کے خلاف ڈالر کو مصنوعی طور پر اوپر نہیں جانے دیا گیا۔
یہ صرف میرے کہنے کی بات نہیں ہے بلکہ سٹیٹ بنک خود اس طرح کے تجزیے کرتا ہے جس سے میری بات کی تائید ہوتی ہے۔ ایکسچینج ریٹ کا ایک انڈیکس ہوتا ہے جسے Real Effective Exchange Rate یا REER کہتے ہیں۔ آپ کو پتا ہی ہوگا اور نہیں پتا تو ہم ہیں نا بتانے کے لئے کہ انڈیکس وہ ریٹ ہوتا ہے جس کا کوئی Base Year ہو۔ یعنی REER ایکسچینج ریٹ نہیں ہے بلکہ اس کا ایک خاص انڈیکس ہے۔ اب یہ REER ہوتا کیا ہے اور ہمیں کیا بتاتا ہے۔
جن ممالک کے ساتھ پاکستان کی ٹریڈ ہوتی ہے اس کی ایک باسکٹ بنا کر ان ممالک کی کرنسی کے پاکستان کی کرنسی کے ساتھ تناسب کو آپسی افراط زر کے تناسب کے ساتھ ضرب دے کر اور نتیجے کو تمام ممالک کے ساتھ ٹریڈ کے شیئر کے حساب سے ضرب دے کر REER بنایا جاتا ہے۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ جس کرنسی میں زیادہ ٹریڈ ہو تو REER میں اس کرنسی کا اثر سب سے زیادہ آتا ہے اور REER سے پتا چل جاتا ہے کہ پاکستانی کرنسی اس کرنسی کے مقابلے میں Overvalued ہے یا Undervalued ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے ڈیٹا کے مطابق REER کا انڈیکس کچھ اس طرح تھا۔
Jun-15 Monthly Average REER 117
Jun-16 Monthly Average REER 117
Jun-17 Monthly Average REER 121
Jun-18 Monthly Average REER 107
Jun-19 Monthly Average REER 91
Jun-20 Monthly Average REER 93
اس ڈیٹا سے صاف ظاہر ہے کہ جن سالوں میں ڈالر کے ریٹ کو بڑھنے سے زبردستی روکا گیا تھا ان سالوں میں REER اپنی Base سے بہت اوپر تھا جس کا مطلب ہے کہ تجارتی خسارے کی وجہ سے کرنسی ایڈجسٹمنٹ مانگ رہی تھی جو کہ نہیں کی جا رہی تھی۔ REER کے اتنا زیادہ اوپر ہونے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امپورٹس کو سستا رکھا جا رہا ہے اور ایکسپورٹس کو مہنگا کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اپنی مسابقتی پوزیشن کھو گیا اوران سالوں میں ایکسپورٹس بڑھ ہی نہیں پائیں اور پاکستان نے ایک لمبے عرصے کے لئے باہر کی مارکیٹ ہی کھو دی۔
میری گزارشات کی تصدیق کے طور پر حالیہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس اور اس کے نتیجے میں ڈالر کے ریٹ کا گر جانا (یعنی روپے کی قدر کا تدریجاً مضبوط ہو جانا) اظہر من الشمس ہے، ڈالر کا ریٹ ایک سو ستر روپے کے بلند ترین سطح سے اب ایک سو باسٹھ سے تھوڑا کم میں مل رہا ہے، اور یہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی مداخلت کے بغیر ہے، یعنی مصنوعی طریقہ کار نہیں ہے بلکہ خالص اور اصلی اکنامکس ہے۔
یہ سب سمجھانے کے بعد یہاں یہ ذکر کرنا بھی انتہائی مناسب ہوگا کہ ڈار صاحب کے جانے کے بعد مفتاح اسماعیل صاحب وزیر خزانہ بنے اور انہوں نے ڈالر کے ریٹ کو ایک جگہ نہیں روکی رکھا بلکہ اسے مارکیٹ کے مطابق بڑھنے دیا اور جب نئی حکومت آئی اور ڈالر اور بڑھا تو انہوں نے جیو میں شاہزیب خانزادہ کے پراگرام میں آ کر کہا کہ یہ بالکل ٹھیک کیا گیا ہے کیونکہ کوئی بھی ملک مارکیٹ کے سامنے نہیں کھڑا ہو سکتا۔ انہوں نے تجارتی خسارے اور فارکس ریزرو کی مثال دے کر سمجھایا کہ ڈالر کا ریٹ کیوں بڑھانا پڑتا ہے۔ ان کا بیان یہاں سنا جا سکتا ہے
مضمون پہلے ہی بہت طویل ہو گیا ہے اس لئے ایک اور طویل بحث کو بعد کے لئے اٹھا رکھتے ہیں کہ ریٹ کو اس طرح فکس کرنے سے اکانومی کو کیا نقصان ہوتا ہے مگر مفتاح اسماعیل صاحب کے ریٹ کو گرانے سے اتفاق سے یہ تو صاف پتا چلتا ہے اور جیسے انہوں نے کہا کہ مارکیٹ سے لڑا نہیں جاسکتالہذا ڈیمانڈ سپلائی کے مطابق ڈالر کا ریٹ اوپر جانے دینا چاہیے۔ جو اس بارے میں کچھ اور تفصیل جاننا چاہیں وہ عاطف میاں صاحب کا وہ تھریڈ پڑھیں جس میں انہوں نے سعودی عرب کا ریال کو ڈالر کے ساتھ Pegged کیے رکھنے کے نقصانات کے بارے میں لکھا تھا۔
یہاں کچھ لوگ بیچارے اور کوئی اعتراض نہ ہونے کی صورت میں کہہ دیتے ہیں کہ پاکستانی روپے کی قدر کو اتنا کم کر دینے کے باوجود ایکسپورٹس تو نہیں بڑھیں۔ ان سے عرض یہ ہے کہ آ پ کو اگر یہ سمجھ آ گیا ہے کہ ڈالر کا ریٹ بڑھنا کیوں ضروری تھا تو فی الحال اسی پر اکتفا کریں اور پوگو دیکھتے رہیں، جب کبھی ہمارا دوبارہ دل کرے گا تو اس کی وجوہات بھی لکھ دیں گے۔
27/10/2020 ارمغان احمد داؤد
کچھ دن گزرے ایک محفل میں اکانومی پر بحث چھڑ گئی۔ ’ہم بھی وہاں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے‘ پر ’ہم ہنس دیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ ترا‘ کے معیار پر پورا نہ اتر سکے اور اکانومی پر اپنا نکتہ نظر شرح صدر سے بیان کر دیا۔ محفل میں موجود ایک کرم فرما نے چبھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں مجھے کہا کہ تو آپ بھی ان میں سے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ڈالر کو مصنوعی طور پر روکا گیا تھا۔ معلوم نہیں میرے چہرے کے تاثرات میرے دلی جذبات کو چھپانے میں کامیاب رہے یا نہیں مگر زبان سے میں نے صرف اتنا ہی کہا کہ کوئی دلیل ہے تو میری بات کا رد کر دیں، میں کن میں سے ہوں اور کن میں سے نہیں ہوں سے کرنسیوں کے فیصلے نہیں ہوتے۔
خیر، بتانے کا مقصد یہ تھا کہ کم پڑھے لکھے تو خیر مجبور ہیں کہ بات سمجھ نہیں سکتے مگر پڑھے لکھے بھی اکثر ان باتوں کو سمجھ نہیں پاتے کہ اکانومی ایک مشکل اور سبجیکٹو مضمون ہے اور تھیوری میں کہانیاں پڑھ لینا اور ہے جبکہ ملک کی اکانومی چلانا شے دیگر ہے۔ کوشش ہو گی کہ سادہ سی زبان میں اپنا نکتہ نظر گوش گزار کر دوں، مضمون تھوڑا مشکل ہے اس لئے توجہ چاہیے ہوگی۔
ایکسچینج ریٹ دو ملکوں کی کرنسیوں کے درمیان تبادلے کا نرخ ہوتا ہے۔ ہم ڈالر کی مثال ہی لیتے ہیں، ایک ڈالر کے آج کل تقریباً ایک سو باسٹھ روپے ملتے ہیں، اسے سپاٹ ایکسچینج ریٹ بولا جاتا ہے اور یہ ہر وقت بدل رہا ہوتا ہے۔ اس ریٹ کا تعین مارکیٹ میں باقی اشیاء کی طرح ڈیمانڈ اور سپلائی (طلب و رسد) پر ہوتا ہے۔ اکنامکس کا ایک بنیادی اصول ہے جو کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ جس چیز کی ڈیمانڈ مارکیٹ میں بڑھے یا سپلائی کم ہو جائے، اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اور جس چیز کی ڈیمانڈ کم ہو جائے یا سپلائی بڑھ جائے تو اس کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ یہی اصول کرنسی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ جس دوسرے ملک کی کرنسی کی ڈیمانڈ زیادہ مگر سپلائی کم ہو تو لوکل کرنسی اس فارن کرنسی کے مقابلے میں اپنی قدر کھوئے گی۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں ڈالر کیوں چاہیے ہوتے ہیں جس سے ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھتی ہے۔ پاکستان میں ڈالر کی ڈیمانڈ کی سب سے بڑی وجہ امپورٹس کی ادائیگیاں ہیں، جس میں تیل، مشینری اور خام مال وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں ڈالر کی ڈیمانڈ کی ایک اور اہم وجہ فارن کرنسی قرضہ جات کی ادائیگی ہے مگر چونکہ فارن کرنسی قرضہ جات کی ادائیگی کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس میں نہیں آتی اس لئے ہم اپنی بحث اس کے بغیر کرتے ہیں مگر آپ اسے ذہن میں ضرور رکھئے کہ ہمیں ڈالر اس مد میں بھی چاہیے ہوتے ہیں۔
ڈالر کی اس ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لئے ڈالر کی سپلائی بنیادی طور پر تین طریقوں سے مہیا ہوتی ہے۔ ایکسپورٹس، ترسیل زر (یعنی بیرون ملک رہنے والے پاکستانی جو واپس پاکستان پیسہ بھیجتے ہیں ) اورپاکستان میں بیرون ملک سے ہونے والی سرمایہ کاری۔ جب ڈالر کی یہ ڈیمانڈ یعنی امپورٹس کی ادائیگیاں ڈالر کی سپلائی یعنی ایکسپورٹس، ترسیل زر اور بیرونی سرمایہ کاری سے بڑھ جاتی ہیں تو پاکستانی روپیہ کی قدر کا ڈالر کے مقابلے میں کم ہو جانا بنیادی اکنامکس ہے۔
یہاں ایک اور بات سمجھانا ضروری محسوس ہوتا ہے جوہے تو بنیادی مگر بہت اہم ہے اور بہت سے لوگ اس کو سمجھتے نہیں اس لئے شاید ان کو ڈالر کی ڈیمانڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی کی اصل وجہ سمجھ نہیں آتی۔ حکومت کے پاس ڈالر کہاں سے آتے ہیں؟ جیسا کہ بتایا کہ اہم تین ذرائع ہیں یعنی ایکسپورٹس، ترسیل زر اور بیرونی سرمایہ کاری۔ ان تینوں ذرائع سے آنے والے ڈالر ایکسپورٹر کو، ترسیل زر کے وصول کنندہ کو اور جس کمپنی میں سرمایہ کاری کی گئی ہو اسے نہیں ملتے، بلکہ انہیں اس کے برابر سپاٹ ایکسچینج ریٹ (یعنی اس دن اس وقت کا ریٹ) پر پاکستانی روپے ٹرانسفر کیے جاتے ہیں اور اس طرح ڈالر حکومت پاکستان کے خرچ کے لئے رہ جاتے ہیں (ان کی کچھ استثنائی صورتیں ہیں مگر ان کے ذکر کا ہمارے مضمون سے تعلق نہیں اس لئے اسے چھوڑتے ہوئے آگے چلتے ہیں ) ۔
بعینہ یہی چیز الٹ طور پر امپورٹس کی صورت میں ہوتی ہے۔ امپورٹر پاکستانی روپے بنک کو دیتا ہے اور بنک سپاٹ ریٹ پر ڈالر تبدیل کر کے امپورٹ کی ادائیگی دوسرے ملک کے بنک کو کرتا ہے، اور یہ وہی ڈالر ہیں جو کہ اوپر بیان کردہ تین طریقوں سے پاکستان آئے تھے۔ یعنی امپورٹ کرنے کی ایک تو وہ لاگت ہے جو کہ امپورٹر کو برداشت کرنی پڑتی ہے جو کہ پاکستانی روپے میں ہے، اور ایک وہ لاگت ہے جو ڈالر کو خرچنے سے اکانومی کو برداشت کرنی پڑتی ہے اور یہ ڈالر کی صورت میں ہے۔
جب کسی ملک کی ایکسپورٹس اس کی امپورٹس سے بڑھ جائیں تو اسے ٹریڈ سرپلس (Trade Surplus) کہتے ہیں اور جب امپورٹس ایکسپورٹس سے بڑھ جائیں تو اسے ٹریڈ ڈیفیسٹ (Trade Deficit) یعنی تجارتی خسارہ کہتے ہیں۔ مجموعی طور پر اسے بیلنس آف ٹریڈ بھی کہتے ہیں۔ جب مکمل ڈیمانڈ اور سپلائی کو یکجا کر کے دیکھا جائے تو اسے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس یا ڈیفیسٹ (Current Account Surplus or Deficit) بولتے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لئے ملکوں کو فارن کرنسی قرضے لینے پڑتے ہیں کیونکہ یہ خسارہ ملک کے فارکس ریزروز (Forex Reserves) کو کھانا شروع کر دیتا ہے اور نتیجہ لوکل کرنسی کی قدر کم ہونے کی صورت نکلتا ہے۔
اب ہم پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا پچھلے پانچ مالی سال کا خلاصہ بتاتے ہیں۔
مالی سال 2015۔ 16 خسارہ 5 ارب ڈالر
مالی سال 2016۔ 17 خسارہ 13 ارب ڈالر
مالی سال 2017۔ 18 خسارہ 20 ارب ڈالر
مالی سال 2018۔ 19 خسارہ 13 ارب ڈالر
مالی سال 2019۔ 20 خسارہ 3 ارب ڈالر
اس ڈیٹا کا صاف صاف مطلب ہے کہ پاکستان میں ڈالر کی ڈیمانڈ اس کی سپلائی سے اربوں ڈالر زیادہ تھی (اس میں فارن کرنسی قرضوں کی ادائیگی کے لئے جو ڈالرز چاہئیں وہ بھی شامل کر دیں تو ڈیمانڈ اور بڑھ جاتی ہے ) اور اکنامکس کے بنیادی اصول کے تحت پاکستانی روپے کی قدر تدریجاً کم ہونی چاہیے تھی، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ سالوں میں نہیں کی گئی۔ اس کے لئے ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ یہ اکنامکس کے بنیادی اصول کے خلاف کام کس طریقے سے کیا گیا۔
جیسا کہ پہلے بتایا کہ ایکسچینج ریٹ مارکیٹ کی ڈیمانڈ اور سپلائی سے تعین ہوتا ہے اور اسے Floating Exchange Rate Method کہتے ہیں مگر اسی میں ایک طریقہ کار Managed Floating Exchange Rate Method ہے جو کہ پاکستان میں پہلے فالو کیا جاتا رہا ہے۔ اس میں سٹیٹ بنک آف پاکستان مارکیٹ کی ڈیمانڈ اور سپلائی میں مداخلت کرتا ہے اور ڈالر کے ریٹ کواوپر نہیں جانے دیتا۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں ڈالرز کی سپلائی بڑھا دی جاتی ہے اور ریٹ کو چیک میں رکھا جاتا ہے۔
اب آپ کے ذہن میں سوال پید اہونا چاہیے کہ پاکستان کے پاس ڈالر تو پہلے ہی کم تھے کہ ڈیمانڈ زیادہ تھی اور سپلائی کم تھی تو سٹیٹ بنک کے پاس مارکیٹ میں ڈالر پھینکنے کے لئے کہاں سے آئے۔ اگر تو یہ سوال آپ کے ذہن میں نہیں آیا تو دو حرف بھیجیں میرے مضمون پر کہ میری اب تک کی ساری محنت اکارت جا چکی ہے اور مرزا پور کا سیزن ٹو دیکھیں کہ آگے بات اور مشکل ہوتی جانی ہے۔ جن کے ذہن میں یہ خیال آ ہی گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ڈالر کے جو قرضہ جات لئے جاتے رہے ہیں انہی میں سے اربوں ڈالرز (جی صحیح لکھا ہم نے، اربوں ڈالرز) کچھ سالوں میں مارکیٹ میں پھینکے گئے اور اکنامکس کے بنیادی اصول کے خلاف ڈالر کو مصنوعی طور پر اوپر نہیں جانے دیا گیا۔
یہ صرف میرے کہنے کی بات نہیں ہے بلکہ سٹیٹ بنک خود اس طرح کے تجزیے کرتا ہے جس سے میری بات کی تائید ہوتی ہے۔ ایکسچینج ریٹ کا ایک انڈیکس ہوتا ہے جسے Real Effective Exchange Rate یا REER کہتے ہیں۔ آپ کو پتا ہی ہوگا اور نہیں پتا تو ہم ہیں نا بتانے کے لئے کہ انڈیکس وہ ریٹ ہوتا ہے جس کا کوئی Base Year ہو۔ یعنی REER ایکسچینج ریٹ نہیں ہے بلکہ اس کا ایک خاص انڈیکس ہے۔ اب یہ REER ہوتا کیا ہے اور ہمیں کیا بتاتا ہے۔
جن ممالک کے ساتھ پاکستان کی ٹریڈ ہوتی ہے اس کی ایک باسکٹ بنا کر ان ممالک کی کرنسی کے پاکستان کی کرنسی کے ساتھ تناسب کو آپسی افراط زر کے تناسب کے ساتھ ضرب دے کر اور نتیجے کو تمام ممالک کے ساتھ ٹریڈ کے شیئر کے حساب سے ضرب دے کر REER بنایا جاتا ہے۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ جس کرنسی میں زیادہ ٹریڈ ہو تو REER میں اس کرنسی کا اثر سب سے زیادہ آتا ہے اور REER سے پتا چل جاتا ہے کہ پاکستانی کرنسی اس کرنسی کے مقابلے میں Overvalued ہے یا Undervalued ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے ڈیٹا کے مطابق REER کا انڈیکس کچھ اس طرح تھا۔
Jun-15 Monthly Average REER 117
Jun-16 Monthly Average REER 117
Jun-17 Monthly Average REER 121
Jun-18 Monthly Average REER 107
Jun-19 Monthly Average REER 91
Jun-20 Monthly Average REER 93
اس ڈیٹا سے صاف ظاہر ہے کہ جن سالوں میں ڈالر کے ریٹ کو بڑھنے سے زبردستی روکا گیا تھا ان سالوں میں REER اپنی Base سے بہت اوپر تھا جس کا مطلب ہے کہ تجارتی خسارے کی وجہ سے کرنسی ایڈجسٹمنٹ مانگ رہی تھی جو کہ نہیں کی جا رہی تھی۔ REER کے اتنا زیادہ اوپر ہونے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امپورٹس کو سستا رکھا جا رہا ہے اور ایکسپورٹس کو مہنگا کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اپنی مسابقتی پوزیشن کھو گیا اوران سالوں میں ایکسپورٹس بڑھ ہی نہیں پائیں اور پاکستان نے ایک لمبے عرصے کے لئے باہر کی مارکیٹ ہی کھو دی۔
میری گزارشات کی تصدیق کے طور پر حالیہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس اور اس کے نتیجے میں ڈالر کے ریٹ کا گر جانا (یعنی روپے کی قدر کا تدریجاً مضبوط ہو جانا) اظہر من الشمس ہے، ڈالر کا ریٹ ایک سو ستر روپے کے بلند ترین سطح سے اب ایک سو باسٹھ سے تھوڑا کم میں مل رہا ہے، اور یہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی مداخلت کے بغیر ہے، یعنی مصنوعی طریقہ کار نہیں ہے بلکہ خالص اور اصلی اکنامکس ہے۔
یہ سب سمجھانے کے بعد یہاں یہ ذکر کرنا بھی انتہائی مناسب ہوگا کہ ڈار صاحب کے جانے کے بعد مفتاح اسماعیل صاحب وزیر خزانہ بنے اور انہوں نے ڈالر کے ریٹ کو ایک جگہ نہیں روکی رکھا بلکہ اسے مارکیٹ کے مطابق بڑھنے دیا اور جب نئی حکومت آئی اور ڈالر اور بڑھا تو انہوں نے جیو میں شاہزیب خانزادہ کے پراگرام میں آ کر کہا کہ یہ بالکل ٹھیک کیا گیا ہے کیونکہ کوئی بھی ملک مارکیٹ کے سامنے نہیں کھڑا ہو سکتا۔ انہوں نے تجارتی خسارے اور فارکس ریزرو کی مثال دے کر سمجھایا کہ ڈالر کا ریٹ کیوں بڑھانا پڑتا ہے۔ ان کا بیان یہاں سنا جا سکتا ہے
مضمون پہلے ہی بہت طویل ہو گیا ہے اس لئے ایک اور طویل بحث کو بعد کے لئے اٹھا رکھتے ہیں کہ ریٹ کو اس طرح فکس کرنے سے اکانومی کو کیا نقصان ہوتا ہے مگر مفتاح اسماعیل صاحب کے ریٹ کو گرانے سے اتفاق سے یہ تو صاف پتا چلتا ہے اور جیسے انہوں نے کہا کہ مارکیٹ سے لڑا نہیں جاسکتالہذا ڈیمانڈ سپلائی کے مطابق ڈالر کا ریٹ اوپر جانے دینا چاہیے۔ جو اس بارے میں کچھ اور تفصیل جاننا چاہیں وہ عاطف میاں صاحب کا وہ تھریڈ پڑھیں جس میں انہوں نے سعودی عرب کا ریال کو ڈالر کے ساتھ Pegged کیے رکھنے کے نقصانات کے بارے میں لکھا تھا۔
یہاں کچھ لوگ بیچارے اور کوئی اعتراض نہ ہونے کی صورت میں کہہ دیتے ہیں کہ پاکستانی روپے کی قدر کو اتنا کم کر دینے کے باوجود ایکسپورٹس تو نہیں بڑھیں۔ ان سے عرض یہ ہے کہ آ پ کو اگر یہ سمجھ آ گیا ہے کہ ڈالر کا ریٹ بڑھنا کیوں ضروری تھا تو فی الحال اسی پر اکتفا کریں اور پوگو دیکھتے رہیں، جب کبھی ہمارا دوبارہ دل کرے گا تو اس کی وجوہات بھی لکھ دیں گے۔