ایک آزاد نظم - وقت

ارشد رشید

محفلین
دوستو - آپ میں سے اکثر نے ہندوستان کے جناب جاوید اختر کی مشہور نظم :وقت: ضرور سُنی یا پڑھی ہوگی - یوٹیوب پر بھی موجود ہے - مجھے بھی بہت پسند ہے - اس آزاد نظم کا ایک جواب میں نے اپنی اس آزاد نظم میں دیا ہے - آپ احباب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں -

وقت
ٌٌٌٌٌٌ
کبھی کبھی میں بھی سوچتا ہوں
یہ وقت کیا ہے
جو ہو چکا ہے کہ ہو رہا ہے
جو ہونے والا ہے
یا جو ہو گا
سب اک ا کائی سے ہی جڑا ہے
یہ وقت ہی کا تو سلسلہ ہے
اگر میں گزرے زمانے دیکھوں
یا زندگی کی کتاب پلٹوں
ہو کو ئی لمحہ
کوئی زمانہ
میں اس میں موجود ہی ملا ہوں
ہو جنگلوں کا کو ئی ٹھکانا
کہ پتھروں کا کوئی زمانہ
نہیں یہ ممکن کہ میں پھر اس میں
کہیں پہ موجود ہی نہیں تھا
دکھا ئ بھی جو نہ دوں میں گرچہ
مگر وہیں تھا
وہیں کہیں تھا
کو ئ نہ ایسا زمانہ گزرا
کہ میرا پرتو نہیں ہو جس میں
اگر میں اس شکل میں نہیں تھا
تو اپنے اجداد میں چُھپا تھا
میں تب بھی تھا اور
میں آج بھی ہوں
میں روزِ آخر تلک رہوں گا
تو پھر یہ میں ہی تو ہوں کہ لوگو
جو وقت بن کے گزر رہا ہے
کہ میں ہوں صدیاں
ہوں میں زمانہ
کہ گر نہیں میں
تو کچھ نہیں ہے
سو وقت میں ہوں

= ارشد رشید
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اچھی نظم ہے ارشد صاحب، لیکن کچھ جگہوں پر میرے خیال میں نظرِ ثانی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
سب سے پہلے تو آپ (ئ) کو (ئی) کر لیں۔

کبھی کبھی میں بھی سوچتا ہوں
یہ وقت کیا ہے
"بھی" عجیب لگ رہا ہے۔ شاید آپ کا مافی الضمیر ہے کہ جاوید اختر نے سوچا اور اب میں بھی سوچ رہا ہوں۔ پھر بھی "بھی" اچھا نہیں لگ رہا ہے۔
"کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
کہ وقت کیا ہے"
ایسے ہی کر دیں
دکھا ئ بھی جو نہ دوں میں لیکن
میں پر وہیں تھا
ایک ساتھ دو دو بار "لیکن"
کو ئ نہ ایسا زمانہ گزرا
کہ میرا پرتو نہیں ہو جس میں
گزرے ہوے لوگوں کا آپ تو "پرتو" ہو سکتے ہیں لیکن وہ آپ کا کس طرح؟؟
 

ارشد رشید

محفلین
بھی" عجیب لگ رہا ہے۔ شاید آپ کا مافی الضمیر ہے کہ جاوید اختر نے سوچا اور اب میں بھی سوچ رہا ہوں۔ پھر بھی "بھی" اچھا نہیں لگ رہا ہے۔
بھی کا ہونا ضروری ہے - شاعر ایک عام خیال کہ وقت کیا ہے کی بات کر رہا ہے تو بھی کا مطلب ہوا یہ بات تو اوروں نے تو سوچی ہے میں بھی سوچتا ہوں - جاوید اختر کا پس منظر ہو نہ ہو بھی کی یہاں ضرورت ہے - میں اسطرح سوچتا ہوں آپ کا خیال الگ ہو سکتا ہے
 

ارشد رشید

محفلین
ایک ساتھ دو دو بار "لیکن"
سر اگر آپ کی مراد :پر: سے ہے تو اس سے اوپر والے: لیکن: کے بعد آپ وقفہ لیتے ہیں کیونکہ لائن ختم ہوتی ہے
پر کا مطب : مگر :بھی ہوتا تو یہ اس طرح ہے دکھائی بھی جو نہ دوں میں لیکن مگر میں وہیں تھا -
 

ارشد رشید

محفلین
گزرے ہوے لوگوں کا آپ تو "پرتو" ہو سکتے ہیں لیکن وہ آپ کا کس طرح؟؟
اور جناب یہی بات اس پوری نظم کا حاصل ہے - یہ گزرے ہوئے لوگ کوئ اور نہیں تھے آپ خود ہی تھے
انسان دراصل ایک ہی ذات ہے جو ازل سے چلا آ رہا ہے - اسکے آباواجداد بھی وہ خود ہی تھا - یعنی آج کا :آپ: کسی کا پرتو ہیں تو کل کا :آپ: بھی اسی طرح :آپ: کا پرتو تھا
یہ میرا فلسفہ ہے آپ اس سے چاہیئں اتفاق نہ کریں مگر میرا جملہ غلط نہیں ہے -
 

ارشد رشید

محفلین
اب آپ اسی جملے کو لیجیے۔ "لیکن" اور "مگر" ایک ساتھ کہیں مناسب لگ رہے ہیں؟
جناب اگرچہ میں اپنے پہلے مصرعوں کو صحیح سمجھتا ہوں مگر آپ اہلِ نظر ہیں تو آپ کی بات بھی سننا چاہتا ہوں
لہٰذا میں نے انہیں تبدیل کر کے اس طرح کر دیا

دکھا ئ بھی جو نہ دوں میں گرچہ
مگر
وہیں تھا
وہیں کہیں تھا
 

ارشد رشید

محفلین
مزید یہ کہ یہ مصرعے بھی گوارا نہیں، "مَہی" تقطیع کی وجہ سے بھی، اور "ہی ہوں "کےتنافر کی وجہ سے بھی
اعجاز صاحب - گو میں ذاتی طور پر اس طرح کے تنافر کو عیب نہیں سمجھتا کیونکہ میرے نزدیک یہ پڑھنے میں برا نہیں لگ رہا مگر آپ استاد شاعر ہیں اس لیے اس کو میں نے بدل دیا ہے -

تو پھر یہ میں ہی تو ہوں کہ لوگو
جو وقت بن کے گزر رہا ہے
کہ میں ہوں صدیاں
ہوں میں زمانہ

کہ گر نہیں میں
تو کچھ نہیں ہے
 

ارشد رشید

محفلین
جناب کہ گر کا مطلب ہوا اس جملے کا تعلق اپنے پچھلے جملوں سے ہے - یعنی پچھلی کہی ہوئ باتوں کی وجہ سے :کہ: گر نہیں میں
اگر میں اسے لکھوں اگر نہیں میں - تو یہ ایک آزاد جملہ ہوجائے گا جسکا پیچھے کی باتوں سے تعلق ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
لہٰذا میرے نزدیک : کہ گر نہیں میں: میرے مفہوم کو ادا کر رہا ہے -
 

یاسر شاہ

محفلین
مکرمی ارشد رشید صاحب ،السلام علیکم

آپ کی نظم پڑھی ،سچی بات تو یہ ہے کہ نظم نے متاثر نہیں کیا -آزاد نظم میں پابند نظم کے مقابلے میں بہت کچھ کہنے کی آزادی ہوتی ہے ،نہ قافیہ و ردیف کی تنگی نہ بحر کی قید،بس دو ایک ارکانِ اوزان مقرّر کر کے ،کسی خاص آہنگ پر کوئی بھی موضوع چھیڑ کر قاری کے دلوں کے تار چھیڑے جا سکتے ہیں -اگر جاوید اختر کی نظم ،کہ جس کے جواب میں آپ نے یہ نظم لکھی ہے ،سے آپ کی نظم کا موازنہ کیا جائے تو خاصی مایوسی ہوتی ہے -

ادب برائے ادب نہیں بلکہ ادب برائے زندگی کے خوبصورت عنوان کی آڑ میں ادب کو بھی پروپیگنڈا ٹول کے طور پہ استعمال کرنا ترقی پسند شعرا کاشعار رہا ہے اور اس دعوے کی دلیل فیض کی دو ایک نظمیں ہیں -مثلا :رقیب سے: کی ابتدا کرتے ہوئے کہتے ہیں :

آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
---------

اور آخر میں آکر اس خوبصورت نظم کے مخمل میں ٹاٹ کا پیوندلگاتے ہیں :

جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے


اسی طرح :مجھ سے پہلی سی محبّت مری محبوب نہ مانگ: نظم کی ابتدا یوں کرتے ہیں :

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا


آخر میں آکر اس مخمل میں بھی ٹاٹ کا پیوند لگاتے ہیں :

جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
-------------
آخر تحریکی کامریڈوں کو بھی خوش تو کرنا تھا -

لیکن کہنے کی بات یہ ہے کہ بڑے شاعر کا پروپیگنڈا بھی پروپیگنڈا نہیں لگتا -وجہ وہ جادوبیانی کا ہنر ہے جو ایسے شعرا کے پاس وافر ہوتا ہے -لہٰذا اگر ان دونوں نظموں کو ایک ہی نشست میں پڑھا جائے تو ایسا تسلسل اور سماں باندھا گیا ہے کہ ٹاٹ بھی مخمل لگنے لگ جاتا ہے اور جن کو ٹاٹ ٹاٹ لگتا بھی ہے تو وہ اسی کو فیشن قرار دیتے ہیں-نیز عوام کے بارے میں تو کہا ہی جاتا ہے کہ :عوام کالانعام: سو فیض کی یہ دونوں نظمیں :ہٹ:ہو گئیں -ان ٹاٹ کے پیوندوں کی نشاندہی تو :اخص الخواص: نقادوں نے کی ہے -

اسی طرح چھوٹا شاعر جب کوئی پروپیگنڈا کرتا ہے تو جادو بیانی کا ہنر نہ ہونے کی وجہ سے ، اپنے پھکڑ پنے پر فورا پکڑا جاتا ہے ،جیسے آجکل کے ایک شاعر کا شعر ہے :

کس نے جینز کری ممنوع
پہنو اچھی لگتی ہو
لا حول ولا قوہ -میں تو کہتا ہوں شاعر اگر یہ شعر میرے پاس لاتا مشورے کے لیے تو میں کہتا :پہنو: سے دو نقطے حذف کر دو اصلاح ہو جائے گی -

کس نے جینز کری ممنوع
بہنو! اچھی لگتی ہو
ظاہر سی بات ہے یہ کہنے کی ہمت نہ ہوتی کہ ان لوگوں کا نظریہ ہوتا ہے :مال مفت دل بے رحم: سو یہ شعر بھی دریا برد ہو جاتا -

آمدم بر سر مطلب جاوید اختر بھی ترقی پسند شعرا کی ڈگر پر شاعری کو اکثر جگہ پروپیگنڈا ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہیں ،ان کی یہ نظم بھی اسی ذوق کی آئینہ دار ہے ،دراصل وہ خدا کے منکر ہیں اور یہی چاہتے ہیں کہ سب منکر ہوجائیں -نظم میں بھی انھوں نے :وقت کیا ہے: :کہاں سے آیا ہے: اور :کہاں جاتا ہے: وغیرہ جیسے سوال اٹھا کر کچھ مفروضے قائم کیے ہیں لیکن وہی بات کہ مذکورہ نظم میں بہر حال انھوں نے تشبیہات ،مثالوں اور دلیلوں(چاہے باطل ہی کیوں نہ ہوں ) ایک فضا اور ماحول بنایا ہے ،پھر نظم کو اپنی دانست میں ایک منطقی انجام تک پہنچایا ہے کہ وقت جنم بھی لیتا ہے اور ختم بھی ہوتا ہے دراصل یہ ثابت کرتے وقت وہ خوب جانتے ہیں کہ اسلام میں وقت اور زمانے کو خدا سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن آپ نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ،آپ کی نظم میں تو دعوے ہی دعوے ہیں ،دعوے بھی سارے خام ،نہ دلائل نہ تشبیہات نہ فضا نہ ماحول بس شروع سے آخر تک یہی تکرار ہے کہ وقت میں ہوں -

یہ تو ایسا ہی ہے کہ کوئی کہے :

یہ ہمارے پرکھوں کی حویلی ہے
پہلے ہمارے پردادا تشریف لائے تھے ،میں بھی وہیں تھا
پھر دادا آئے میں بھی وہی کہیں چھپا ہوا تھا
پھر ابّا جی آئے
اب میں ہوں اور میری اولاد
پھر میرے پوتے پڑ پوتے لکڑ پوتےآئیں گے ،ان سب کے آس پاس میں بھی ہوں گا کہیں چھپا ہوا
لہٰذا یہ پرکھوں کی حویلی میں ہوں ،یہ حویلی میں ہوں ،یہ حویلی میں ہوں

محترم !جس طرح مکان کے اندر مکین کی موجودگی سے مکین مکان نہیں ہوجاتا ،زماں کے اندر موجود ہونے سے کوئی خود زماں کیونکر ہوسکتا ہے -پھر نظم میں سحر بیانی تو کیا ہوتی کچھ مقامات پرزبان و بیان کے نقائص بہت کھل رہے ہیں، نشاندہی احباب کر چکے ہیں-ایک مقام میں بھی بتا دوں -
یا زندگی کی کتاب پلٹوں
ورق اور صفحات پلٹے جاتے ہیں نہ کہ کتاب -

میرا تو خیال ہے آپ اس سے کہیں بہتر کہہ سکتے ہیں ،اصلاح سخن میں آپ کی تجاویز مجھے بہت متاثر کرتی ہیں جو اس بات کی غمّاز ہیں کہ آپ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں -لہٰذا ایسے تجربوں سے گریز ہی بہتر ہے -

یاسر
 

ارشد رشید

محفلین
یاسر صاحب بڑی نوازش - آپ کے تجزیئے کی گو میں اس سے متفق نہیں ہوں -
میں اس نظم کا دفاع یہاں نہیں کروں گا کیونکہ یہ اچھا نہیں لگتا - آپ کو پسند نہیں آئی - کوئی بات نہیں - یہ لازم بھی نہ تھا
بس اتنا کہوں گا کہ یہاں : میں: صرف میں شاعر نہیں ہے پوری انسانیت کی بات ہے - یہ نظم جاوید اختر صاحب جیسے دہریئے کی نظم کے جواب میں ایک متوازی دلیل دینے کے لیئے ہی تھی - میں یہی سمجھوں گا کہ آپ تک اس کی ترسیل نہیں ہوئی - کوئ بات نہیں -
بہت شکریہ -
 
Top