مکرمی ارشد رشید صاحب ،السلام علیکم
آپ کی نظم پڑھی ،سچی بات تو یہ ہے کہ نظم نے متاثر نہیں کیا -آزاد نظم میں پابند نظم کے مقابلے میں بہت کچھ کہنے کی آزادی ہوتی ہے ،نہ قافیہ و ردیف کی تنگی نہ بحر کی قید،بس دو ایک ارکانِ اوزان مقرّر کر کے ،کسی خاص آہنگ پر کوئی بھی موضوع چھیڑ کر قاری کے دلوں کے تار چھیڑے جا سکتے ہیں -اگر جاوید اختر کی نظم ،کہ جس کے جواب میں آپ نے یہ نظم لکھی ہے ،سے آپ کی نظم کا موازنہ کیا جائے تو خاصی مایوسی ہوتی ہے -
ادب برائے ادب نہیں بلکہ ادب برائے زندگی کے خوبصورت عنوان کی آڑ میں ادب کو بھی پروپیگنڈا ٹول کے طور پہ استعمال کرنا ترقی پسند شعرا کاشعار رہا ہے اور اس دعوے کی دلیل فیض کی دو ایک نظمیں ہیں -مثلا :رقیب سے: کی ابتدا کرتے ہوئے کہتے ہیں :
آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
---------
اور آخر میں آکر اس خوبصورت نظم کے مخمل میں ٹاٹ کا پیوندلگاتے ہیں :
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
اسی طرح :مجھ سے پہلی سی محبّت مری محبوب نہ مانگ: نظم کی ابتدا یوں کرتے ہیں :
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
آخر میں آکر اس مخمل میں بھی ٹاٹ کا پیوند لگاتے ہیں :
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
-------------
آخر تحریکی کامریڈوں کو بھی خوش تو کرنا تھا -
لیکن کہنے کی بات یہ ہے کہ بڑے شاعر کا پروپیگنڈا بھی پروپیگنڈا نہیں لگتا -وجہ وہ جادوبیانی کا ہنر ہے جو ایسے شعرا کے پاس وافر ہوتا ہے -لہٰذا اگر ان دونوں نظموں کو ایک ہی نشست میں پڑھا جائے تو ایسا تسلسل اور سماں باندھا گیا ہے کہ ٹاٹ بھی مخمل لگنے لگ جاتا ہے اور جن کو ٹاٹ ٹاٹ لگتا بھی ہے تو وہ اسی کو فیشن قرار دیتے ہیں-نیز عوام کے بارے میں تو کہا ہی جاتا ہے کہ :عوام کالانعام: سو فیض کی یہ دونوں نظمیں :ہٹ:ہو گئیں -ان ٹاٹ کے پیوندوں کی نشاندہی تو :اخص الخواص: نقادوں نے کی ہے -
اسی طرح چھوٹا شاعر جب کوئی پروپیگنڈا کرتا ہے تو جادو بیانی کا ہنر نہ ہونے کی وجہ سے ، اپنے پھکڑ پنے پر فورا پکڑا جاتا ہے ،جیسے آجکل کے ایک شاعر کا شعر ہے :
کس نے جینز کری ممنوع
پہنو اچھی لگتی ہو
لا حول ولا قوہ -میں تو کہتا ہوں شاعر اگر یہ شعر میرے پاس لاتا مشورے کے لیے تو میں کہتا :پہنو: سے دو نقطے حذف کر دو اصلاح ہو جائے گی -
کس نے جینز کری ممنوع
بہنو! اچھی لگتی ہو
ظاہر سی بات ہے یہ کہنے کی ہمت نہ ہوتی کہ ان لوگوں کا نظریہ ہوتا ہے :مال مفت دل بے رحم: سو یہ شعر بھی دریا برد ہو جاتا -
آمدم بر سر مطلب جاوید اختر بھی ترقی پسند شعرا کی ڈگر پر شاعری کو اکثر جگہ پروپیگنڈا ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہیں ،ان کی یہ نظم بھی اسی ذوق کی آئینہ دار ہے ،دراصل وہ خدا کے منکر ہیں اور یہی چاہتے ہیں کہ سب منکر ہوجائیں -نظم میں بھی انھوں نے :وقت کیا ہے: :کہاں سے آیا ہے: اور :کہاں جاتا ہے: وغیرہ جیسے سوال اٹھا کر کچھ مفروضے قائم کیے ہیں لیکن وہی بات کہ مذکورہ نظم میں بہر حال انھوں نے تشبیہات ،مثالوں اور دلیلوں(چاہے باطل ہی کیوں نہ ہوں ) ایک فضا اور ماحول بنایا ہے ،پھر نظم کو اپنی دانست میں ایک منطقی انجام تک پہنچایا ہے کہ وقت جنم بھی لیتا ہے اور ختم بھی ہوتا ہے دراصل یہ ثابت کرتے وقت وہ خوب جانتے ہیں کہ اسلام میں وقت اور زمانے کو خدا سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن آپ نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ،آپ کی نظم میں تو دعوے ہی دعوے ہیں ،دعوے بھی سارے خام ،نہ دلائل نہ تشبیہات نہ فضا نہ ماحول بس شروع سے آخر تک یہی تکرار ہے کہ وقت میں ہوں -
یہ تو ایسا ہی ہے کہ کوئی کہے :
یہ ہمارے پرکھوں کی حویلی ہے
پہلے ہمارے پردادا تشریف لائے تھے ،میں بھی وہیں تھا
پھر دادا آئے میں بھی وہی کہیں چھپا ہوا تھا
پھر ابّا جی آئے
اب میں ہوں اور میری اولاد
پھر میرے پوتے پڑ پوتے لکڑ پوتےآئیں گے ،ان سب کے آس پاس میں بھی ہوں گا کہیں چھپا ہوا
لہٰذا یہ پرکھوں کی حویلی میں ہوں ،یہ حویلی میں ہوں ،یہ حویلی میں ہوں
محترم !جس طرح مکان کے اندر مکین کی موجودگی سے مکین مکان نہیں ہوجاتا ،زماں کے اندر موجود ہونے سے کوئی خود زماں کیونکر ہوسکتا ہے -پھر نظم میں سحر بیانی تو کیا ہوتی کچھ مقامات پرزبان و بیان کے نقائص بہت کھل رہے ہیں، نشاندہی احباب کر چکے ہیں-ایک مقام میں بھی بتا دوں -
ورق اور صفحات پلٹے جاتے ہیں نہ کہ کتاب -
میرا تو خیال ہے آپ اس سے کہیں بہتر کہہ سکتے ہیں ،اصلاح سخن میں آپ کی تجاویز مجھے بہت متاثر کرتی ہیں جو اس بات کی غمّاز ہیں کہ آپ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں -لہٰذا ایسے تجربوں سے گریز ہی بہتر ہے -
یاسر