محمد اظہر نذیر
محفلین
مچلتی آرزوؤں کو ابھی اک نام دینا ہے
اُسے بدنام کرنا ہے، اُسے الزام دینا ہے
بہت پی کر ہے بے قابو، کروں تو کیا میں ساقی ہوں
مرا بس کام ہے اتنا جو مانگے جام دینا ہے
یہ باتیں منحصر ہیں کھیتیوں کی ہی طبیعت پر
اُنہیں دینا ہے پانی صبح کو یا شام دینا ہے
اُنہی کے دل میں جو آئے، عطا کر دیں ہمیں اُجرت
ہماری مانگ پر کب آجروں نے کام دینا ہے
میں اُس کی دھمکیوں سے ڈر کے بھاگوں تو مجھے کہنا
نہ بن پایا اگر کچھ بھی، مچا کہرام دینا ہے
مرے کُچھ خواب ہیں جن کی مجھے تعبیر پانی ہے
اُسی ہی سلسلے میں کُچھ امر انجام دینا ہے
بچا رکھا ہے مُشکل وقت کی خاطر تُجھے اظہر
ابھی موقع نہیں آیا تُجھے آرام دینا ہے