ایک ادنی سی غزل: جامِ نگاہِ یار میں رازِ جہاں ملا

۔۔۔غزل۔۔۔

جامِ نگاہِ یار میں رازِ جہاں ملا
حسرت وصالِ یار کی سازِ نہاں ملا

راہِ سفر کے شوق میں حیرت بھی مٹ گئی
عریاں طوافِ عشق میں شوقِ بتاں ملا

الہامِ حق ہوا مجھے عرفانِ ذات سے
اک کوزہ گر کے بھیس میں جامِ گراں ملا

چارہ گری کے ذوق میں رسوا ہوئے کہ یوں
ہر باب میں یقین کے نقشِ گماں ملا

سوزن فریبِ ہست کی جاں میں اتر گئی
سچ بولنے کے جرم میں چاکِ زباں ملا

پہلو میں خاک ڈھونڈتے اپنے جگر کو ہم
جب بھی ملا یہ دیکھیے نوکِ سناں ملا

عاصمؔ کے دل کو چیر کے خنجر کو دیکھیے
اک مشت خاکِ شوق کی دودِ زیاں ملا

عاصمؔ شمس
3-12-15
 

رہ وفا

محفلین
واہ واہ عاصم صاحب بہت خوب، یوں تو ساری غزل ہی کمال ہے، لیکن درج ذیل اشعار سیدھے دل میں اتر گئے
جامِ نگاہِ یار میں رازِ جہاں ملا
حسرت وصالِ یار کی سازِ نہاں ملا

الہامِ حق ہوا مجھے عرفانِ ذات سے
اک کوزہ گر کے بھیس میں جامِ گراں ملا
 
واہ واہ عاصم صاحب بہت خوب، یوں تو ساری غزل ہی کمال ہے، لیکن درج ذیل اشعار سیدھے دل میں اتر گئے
جامِ نگاہِ یار میں رازِ جہاں ملا
حسرت وصالِ یار کی سازِ نہاں ملا

الہامِ حق ہوا مجھے عرفانِ ذات سے
اک کوزہ گر کے بھیس میں جامِ گراں ملا

بہت بہت شکریہ میرے دوست مجھ خاک سار کی ادنی سی کاوش کو پسند کرنے کا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عاصم شمس بھائی ۔ اچھی تخلیقی کاوش ہے ! لیکن کئی اشعار میری سمجھ میں نہیں آئے ۔ معنی فی بطن شاعر والی بات ہے ۔ ابلاغ نہیں ہوسکا۔
پہلو میں خاک ڈھونڈتے اپنے جگر کو ہم
جب بھی ملا یہ دیکھیے نوکِ سناں ملا
نوک مونث ہے ۔یہاں نوکِ سناں ملی کا محل ہے جو ردیف کی مجبوری سے ممکن نہیں ۔
چارہ گری کے ذوق میں رسوا ہوئے کہ یوں
ہر باب میں یقین کے نقشِ گماں ملا
چارہ گری اور گمان و یقین کا باہمی تعلق ؟!
حسرت وصالِ یار کی سازِ نہاں ملا ۔ اس مصرع کا کیا مطلب ہے؟
عاصمؔ کے دل کو چیر کے خنجر کو دیکھیے
اک مشت خاکِ شوق کی دودِ زیاں ملا
پہلا مصرع حکمیہ ہے چنانچہ زمانہ مستقبل کا متقاضی ہے ۔ لیکن دوسرے مصرع میں زمانہ ماضی آگیا ۔ نیز دوسرے مصرع کا مطلب کیا ہے ۔ عاصم شمس صاحب کسی بھی مصرع کی گرامر اور زبان و بیان پرکھنے کے لئے اس مصرع کو نثر میں تبدیل کر کے دیکھ لیا کیجیے ۔ ایسا کرنے سے تمام عیوب و نقائص ازخود آپ پر واضح ہوجائین گے ۔جن مصرعوں کی مین نے نشاندہی کی ہے آپ ان کی نثر بناکر دیکھ لیجیے ۔ میرا مدعا واضح ہوجائے گا ۔ اگر کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معاف فرمادیجیے گا ۔ میں خلوصِ دل سے آپ کی مدد کیلئے کوشاں ہوں ۔ دوسری بات یہ کہ آپ اپنے نام کو اردو میں کروالیجیے ۔ ٹیگ کرنے مین آسانی ہوتی ہے۔ مجھے انگریزی میں ٹیگ کرنا نہین آتا۔
 
عاصم شمس بھائی ۔ اچھی تخلیقی کاوش ہے ! لیکن کئی اشعار میری سمجھ میں نہیں آئے ۔ معنی فی بطن شاعر والی بات ہے ۔ ابلاغ نہیں ہوسکا۔
پہلو میں خاک ڈھونڈتے اپنے جگر کو ہم
جب بھی ملا یہ دیکھیے نوکِ سناں ملا

نوک مونث ہے ۔یہاں نوکِ سناں ملی کا محل ہے جو ردیف کی مجبوری سے ممکن نہیں ۔

چارہ گری کے ذوق میں رسوا ہوئے کہ یوں
ہر باب میں یقین کے نقشِ گماں ملا

چارہ گری اور گمان و یقین کا باہمی تعلق ؟!
حسرت وصالِ یار کی سازِ نہاں ملا ۔ اس مصرع کا کیا مطلب ہے؟

عاصمؔ کے دل کو چیر کے خنجر کو دیکھیے
اک مشت خاکِ شوق کی دودِ زیاں ملا
پہلا مصرع حکمیہ ہے چنانچہ زمانہ مستقبل کا متقاضی ہے ۔ لیکن دوسرے مصرع میں زمانہ ماضی آگیا ۔ نیز دوسرے مصرع کا مطلب کیا ہے ۔ عاصم شمس صاحب کسی بھی مصرع کی گرامر اور زبان و بیان پرکھنے کے لئے اس مصرع کو نثر میں تبدیل کر کے دیکھ لیا کیجیے ۔ ایسا کرنے سے تمام عیوب و نقائص ازخود آپ پر واضح ہوجائین گے ۔جن مصرعوں کی مین نے نشاندہی کی ہے آپ ان کی نثر بناکر دیکھ لیجیے ۔ میرا مدعا واضح ہوجائے گا ۔ اگر کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معاف فرمادیجیے گا ۔ میں خلوصِ دل سے آپ کی مدد کیلئے کوشاں ہوں ۔ دوسری بات یہ کہ آپ اپنے نام کو اردو میں کروالیجیے ۔ ٹیگ کرنے مین آسانی ہوتی ہے۔ مجھے انگریزی میں ٹیگ کرنا نہین آتا۔

عاصم شمس بھائی ۔ اچھی تخلیقی کاوش ہے ! لیکن کئی اشعار میری سمجھ میں نہیں آئے ۔ معنی فی بطن شاعر والی بات ہے ۔ ابلاغ نہیں ہوسکا۔
میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ یہ عام فہم غزل نہیں ہے۔ بہرحال یہ شاعر کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ عام اندازمیں لکھے یا مشکل پسندی کا راستہ اختیار کرے۔ اوپر متعدد اصحاب سخن نے اس غزل کو پسند کیا ہے اور بعض نے تو بعض مخصوص شعروں پر الگ سے داد سے بھی نوازا ہے۔
آپ کی دیگر باتوں کی وضاحت ذیل میں کرتا ہوں:

پہلو میں خاک ڈھونڈتے اپنے جگر کو ہم
جب بھی ملا یہ دیکھیے نوکِ سناں ملا
نوک مونث ہے ۔یہاں نوکِ سناں ملی کا محل ہے جو ردیف کی مجبوری سے ممکن نہیں ۔​
  • شاعر کو نوکِ سناں نہیں ’ملی‘ بلکہ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی شاعر نے اپنے جگر کو اپنے پہلو میں ڈھونڈھنا چاہا یہ اسے وہاں نہیں بلکہ ہمیشہ نیزے کی نوک پر لٹکا ہوا ملا۔اپنی جرات فکر، صاف گوئی اور بہادری کی وجہ سے اس نے سچ کی خاطر موت سے کبھی مفاہمت قبول نہیں کی۔
  • چناں چہ جب بھی یہ (یعنی جگر) ملا آپ دیکھیے یہ ہمیشہ نوکِ سناں پر یعنی نیزے کی نوک پر ملا۔ ایک بات اور واضح کر دوں کہ نوکِ سناں سے قبل ’پر‘ یا ’بر‘ استعمال نہیں کیا جاتا۔ اساتذہ نے ہمیشہ اسی طرح لکھا ہے۔

چارہ گری کے ذوق میں رسوا ہوئے کہ یوں
ہر باب میں یقین کے نقشِ گماں ملا
چارہ گری اور گمان و یقین کا باہمی تعلق ؟!​
  • ایک بار شاعر نے یقین (ایمان) سے محروم ایک شخص کی چارہ گری یا علاج کرنا چاہا۔ مگر شاعر کی رسوائی اس وقت انتہا پر پہنچ گئی جب اسے خود یقین کا دفاع کرتے وقت ہر باب میں (مثلا کتاب یا حجت کے) ہر چیپٹر اور مکتبہ فکر میں سوائے گمان یعنی شک کے سوا کچھ اور نہیں ملا۔ جب شاعر خود ہی اپنے دلائل میں یقین سے محروم ہو گیا اور ہر جگہ اس نے شک و گمان پایا تو وہ دوسرے کا علاج بھلا کیسے کرتا سو اس کے حصے میں نا صرف جہاں بھر کی رسوائیاں آئیں بلکہ وہ خود بھی یقین (ایقان و ایمان) سے محروم ہو گیا۔

حسرت وصالِ یار کی سازِ نہاں ملا ۔ اس مصرع کا کیا مطلب ہے؟​
  • پورا شعر اس طرح ہے: جامِ نگاہِ یار میں رازِ جہاں ملا، حسرت وصالِ یار کی سوزِ نہاں ملا۔ اس کا مطلب تو بالکل صاف ہے کہ مجھے اپنے محبوب کی نظر کے جام میں اس بات کا جواب ملا کہ اس جہاں کو تخلیق کرنے کا راز کیا تھا۔ صنعتِ مبالغہ ہے کہ میرے محبوب کی آنکھیں اس قدر خوب صورت ہیں کہ صرف ان کی نمائش کے لیے اس جہاں کو تخلیق کیا گیا ہے۔ یہاں محبوب کو عشق حقیقی کی ذیل میں رکھیے اور پھر اس شعر کا مزا دیکھیے۔ خالق نے دنیا اسی لیے بنائی کہ اسے پہچانا جائے ورنہ اس سے قبل وہ نور کے پردے میں ایک چھپا ہوا حسن تھا۔
  • اس کے بعد دو اور چیزیں جو شاعر کو اپنے محبوب کی نگاہ کے جام میں دکھائی دیں وہ اول، یار (یعنی شاعر) سے وصال کی خواہش تھی اور دوم، تیسری چیز سوز نہاں تھی یعنی محبوب کے سینے میں بھی اپنے یار (یعنی شاعر) سے ملنے کا درد پوشیدہ تھا اور اس طرح شاعر کو پہلی بار علم ہوا کہ اس کا محبوب بھی نا صرف اسے چاہتا ہے بلکہ وہ اس سے ملن یا وصال کا بھی خواہش مند ہے۔ اگر بندہ خدا کی طرف ایک قدم بڑھاتا ہے تو خدا اس کی طرف 70 یعنی بے شمار قدم اٹھاتا ہے۔ اسے بھی اپنے بندے سے اتنی ہی محبت ہے جتنی بندے کو اس سے ہے بلکہ بندے سے کئی گنا زیادہ۔
  • ٹائپو کی غلطی سے ’سوز‘ ’ساز‘ لکھا گیا مگر ’ساز‘ میں بھی مفہوم کم و بیش یہ ہی ہے۔ سوزِ نہاں معنی سینے میں چھپا ہوا درد، تپش، جلن یا خواہش اور ’سازِ نہاں‘ معنی سینے میں چھپی ہوئی ساز کی طرح دھیرے دھیرے مچلتی ہوئی خواہش۔
عاصمؔ کے دل کو چیر کے خنجر کو دیکھیے
اک مشت خاکِ شوق کی دودِ زیاں ملا​
  • آپ غلط سمجھے۔ پہلا مصرعہ بالکل بھی حکمیہ نہیں ہے۔ ’دیکھیے‘ سے مراد قاری کو حکم دینا نہیں ہے بلکہ یہاں ’دیکھیے‘ سے مراد قاری کی توجہ ماضیِ قریب کے ایک واقعے کی طرف مبذول کرانا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں دیکھیے موجودہ حکومت کو منتخب کر کے ہمیں سوائے مہنگائی اور بد امنی کے کیا ملا اور سامنے والا اقرار میں سر ہلا دیتا ہے۔ چناں یہاں شاعر قاری سے یا دنیا سے کہہ رہا ہے کہ آپ نے دیکھا کہ جب خنجر نے (ماضیِ قریب میں) عاصمؔ کے دل کو چیرا تو اسے دل کے اندر کیا ملا؟ پھر دوسرے مصرعے میں شاعر خود ہی جواب دیتا ہے کہ خنجر نے جب (جسے صرف زورِ بیان کی خاطر ایک با شعور شے تصور کیا گیا ہے ورنہ اس سے اصل مراد محبوب اور محبوب کا ہاتھ ہے جس نے خنجر سے عاصم کے سینے میں موجود دل کو چیر کر دیکھا کہ اس میں کیا ہے)، عاصم کے دل کو چیرا تو وہاں زندگی سے بھر پور خون نہیں بلکہ صرف دو مردہ چیزیں پائیں۔ اول، ایک مٹھی بھر عاصم کے شوق یعنی وصالِ یار کی خواہش جو ٹھکرائے جانے کے بعد مر کر مٹی ہو گئی اور دوم، زیاں یعنی ہستی کے نقصان کا دھواں ملا۔ یعنی شاعر نے بلا وجہ اپنی ہستی کو محبوب کی آرزو میں جلا جلا کر خاک کر دیا اور آخر میں جو چیز اس کا مقدر ہوئی وہ صرف دھوئیں کی سیاہی تھی۔ جیسے آتشؔ نے کہا تھا: بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا، جو چیرا تو اِک قطرہء خوں نہ نکلا۔

پہلا مصرع حکمیہ ہے چنانچہ زمانہ مستقبل کا متقاضی ہے ۔ لیکن دوسرے مصرع میں زمانہ ماضی آگیا ۔ نیز دوسرے مصرع کا مطلب کیا ہے ۔ عاصم شمس صاحب کسی بھی مصرع کی گرامر اور زبان و بیان پرکھنے کے لئے اس مصرع کو نثر میں تبدیل کر کے دیکھ لیا کیجیے ۔ ایسا کرنے سے تمام عیوب و نقائص ازخود آپ پر واضح ہوجائین گے ۔جن مصرعوں کی مین نے نشاندہی کی ہے آپ ان کی نثر بناکر دیکھ لیجیے ۔ میرا مدعا واضح ہوجائے گا ۔ اگر کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معاف فرمادیجیے گا ۔ میں خلوصِ دل سے آپ کی مدد کیلئے کوشاں ہوں ۔ دوسری بات یہ کہ آپ اپنے نام کو اردو میں کروالیجیے ۔ ٹیگ کرنے مین آسانی ہوتی ہے۔ مجھے انگریزی میں ٹیگ کرنا نہیں آتا۔
امید ہے بات واضح ہو گئی ہو گی۔ شکریہ
عاصمؔ شمس
 

ابن رضا

لائبریرین
عاصم صاحب غزل کا کوئی حاشیہ نہیں ہوتا کہ جس میں اشعار کی لمبی چوڑی تشریح لکھی جائے۔ معنی فی البطن شاعر کے نام سے رائج اصطلاح کا یہی مطلب ہے کہ جب ابلاغ میں سقم کی وجہ سے ابیات کی تشریح کر کے بتانا پڑے۔ شعر کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنا مفہوم خود بیان کرے۔ مصرعوں کو نثر کے قریب لائیے اور خود جانچیے۔

کلام پر ہم جیسی عوام سے داد کا ملنا الگ معاملہ ہے اور اہلِ فن کے ساتھ تکنیکی نکتہ آفرینی الگ قصہ ہے اس لیے دونوں کا خلط درست نہیں

تو نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر
نوکِ ہر خار پے اک قطرۂ خوں ہے یوں ہے
فراز
 
آخری تدوین:
’ہم جیسی عوام‘ نہایت غلط گرائمر ہے۔ لفظ عوام مونث نہیں مذکر ہے۔ ہم جیسے بے ادب صحافیوں نے یہ جملہ عوام تک پہنچا دیا ہے جو اب غلط العوام سے غلط العام کے درجے کو پہنچ چکا ہے۔ اہل فن سے اس غلطی کی توقع بعید تھی۔ بے شک میڈیا ٹرینڈ سیٹر ہے اور نہایت غلط ٹرینڈ سیٹ کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں میرا ایک شعر معمولی ترمیم کے ساتھ پیش ہے:
شبِ گریہ دلہن بنی ہے آج
خون اردو کا پھر ہوا ہے کہیں
عاصمؔ
غلط العام: زبان کے قواعد نہایت حیرت انگیز ہیں... اور شاید سب سے حیرت انگیز قاعدہ غلط العام فصیح ہے... جی ہاں غلط العام وہ الفاظ یا تراکیب ہیں جو تلفظ یا املا کے غلط ہونے کے باوجوداہل زبان نے قبول کر لیے ہوں... بڑے ادیبوں اور استاد شعراء نے بھی انھیں ویسا ہی اپنے اشعار میں باندھا ہو ... اس لیے یہ اب فصیح سمجھے جاتے ہیں... جیسے کہ ’’منصَب‘‘ زبر کے ساتھ بولا جاتا ہے جب کہ لغت کے اعتبار سے ’’منصِب‘‘ صحیح ہے یعنی ’’زیر‘‘ کے ساتھ... لیکن چونکہ اہل زبان یونہی بولتے ہیں اس لیے ’’منصَب‘‘ ، ’’غلط العام‘‘ ہوا اور یہی بولا جاتا ہے!
اس کے علاوہ: قالَب کے بجائے قالِب یعنی زیر کے ساتھ... کافَر کے بجائے کافِر بھی زیر کے ساتھ... غلط العام کے زمرے میں آتے ہیں!

غلط العوام: یہ وہ الفاظ ہیں جنھیں جہلا اور کم علم لوگوں نے غلط تلفظ اور معنی کے ساتھ بولنا شروع کر دیا ہو... لیکن وہ ہر قیمت پر غلط ہی سمجھا جائے گا... جیسے ’’عوام‘‘ مذکر ہے لیکن الیکٹرونک میڈیا اور سیاست دانوں نے اسے مونث کر دیا...’’پتّھر‘‘ کے بجائے ’’پھتر‘‘ کہنا... خُوشبُو کے بجائے ’’خَشبُو‘‘... وفات کے بجائے ’’فوتیدگی‘‘... فطرہ کے بجائے ’’فطرانہ‘‘ کہنا ... اسی طرح ایک فاش غلطی جوآج کل کیا اخبارات کیا رسائل اردو اخبارات میں مسلسل کی جا رہی ہے، وہ یہ کہ’’دل برداشتہ‘‘ جس کا معنی غمگین اور آزردہ ہیں... کو ’’دلبرداشتہ لکھا جا رہا ہے!... ان تمام الفاظ سے اجتناب برتنا چاہیے ... کیوں کہ یہ تمام الفاظ غلط العوام کہلائیں گے...اور یہ غیر فصیح ہیں!​
 

’معنی فی البطن شاعر‘ کے اعتراض پر مجھے چوٹی کے اساتذہ نے بحث سے منع کر دیا ہے۔ تاہم ایک معروف ترین شاعر نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب یا تو سر غالبؔ کو اپنا اردو کلام دوبارہ لکھنا پڑے گا یا پھر نصاب سے ہمیں شاعری کی تشریح کا مضمون ہی نکال پھینکنا چاہیے۔ آخر میں اتنا عرض ہے کہ میری یہ 28 سال قبل لکھی غزل مرحوم سر جمیل الدین عالیؔ کی پسندیدہ غزل تھی۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا اس اعتراض کی اوقات سے بہت زیادہ ہو گا۔ میرؔ نے تانگے میں ایک دیہاتی کے سوال کا جواب نہیں دیا تھا کہ ’میری زبان خراب ہو جائے گی‘۔ سو آج کے بعد ہمیشہ کے لیے خدا حافظ
 
غالباً اس شعر کے خالق ایک عظیم شاعر کو ابہام گوئی کے ’جرم‘ میں شاعروں کی صف سے ہی خارج کر دینا چاہیے کیوں کہ ہم جیسے ’جہلا‘ اس کی معنویت سمجھنے سے قطعی قاصر ہیں۔

مگس کو باغ میں جانے نا دیجیو
کہ نا حق خون پروانے کا ہوگا

جاتے جاتے صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ :

نہ جانے ظرف تھا کم یا انا زیادہ تھی
کلاہ سر سے تو قد سے قبا زیادہ تھی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عاصم شمس بھائی ۔ اچھی تخلیقی کاوش ہے ! لیکن کئی اشعار میری سمجھ میں نہیں آئے ۔ معنی فی بطن شاعر والی بات ہے ۔ ابلاغ نہیں ہوسکا۔
میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ یہ عام فہم غزل نہیں ہے۔ بہرحال یہ شاعر کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ عام اندازمیں لکھے یا مشکل پسندی کا راستہ اختیار کرے۔ اوپر متعدد اصحاب سخن نے اس غزل کو پسند کیا ہے اور بعض نے تو بعض مخصوص شعروں پر الگ سے داد سے بھی نوازا ہے۔
آپ کی دیگر باتوں کی وضاحت ذیل میں کرتا ہوں:

پہلو میں خاک ڈھونڈتے اپنے جگر کو ہم
جب بھی ملا یہ دیکھیے نوکِ سناں ملا
نوک مونث ہے ۔یہاں نوکِ سناں ملی کا محل ہے جو ردیف کی مجبوری سے ممکن نہیں ۔
  • شاعر کو نوکِ سناں نہیں ’ملی‘ بلکہ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی شاعر نے اپنے جگر کو اپنے پہلو میں ڈھونڈھنا چاہا یہ اسے وہاں نہیں بلکہ ہمیشہ نیزے کی نوک پر لٹکا ہوا ملا۔اپنی جرات فکر، صاف گوئی اور بہادری کی وجہ سے اس نے سچ کی خاطر موت سے کبھی مفاہمت قبول نہیں کی۔
  • چناں چہ جب بھی یہ (یعنی جگر) ملا آپ دیکھیے یہ ہمیشہ نوکِ سناں پر یعنی نیزے کی نوک پر ملا۔ ایک بات اور واضح کر دوں کہ نوکِ سناں سے قبل ’پر‘ یا ’بر‘ استعمال نہیں کیا جاتا۔ اساتذہ نے ہمیشہ اسی طرح لکھا ہے۔

چارہ گری کے ذوق میں رسوا ہوئے کہ یوں
ہر باب میں یقین کے نقشِ گماں ملا

چارہ گری اور گمان و یقین کا باہمی تعلق ؟!
  • ایک بار شاعر نے یقین (ایمان) سے محروم ایک شخص کی چارہ گری یا علاج کرنا چاہا۔ مگر شاعر کی رسوائی اس وقت انتہا پر پہنچ گئی جب اسے خود یقین کا دفاع کرتے وقت ہر باب میں (مثلا کتاب یا حجت کے) ہر چیپٹر اور مکتبہ فکر میں سوائے گمان یعنی شک کے سوا کچھ اور نہیں ملا۔ جب شاعر خود ہی اپنے دلائل میں یقین سے محروم ہو گیا اور ہر جگہ اس نے شک و گمان پایا تو وہ دوسرے کا علاج بھلا کیسے کرتا سو اس کے حصے میں نا صرف جہاں بھر کی رسوائیاں آئیں بلکہ وہ خود بھی یقین (ایقان و ایمان) سے محروم ہو گیا۔

حسرت وصالِ یار کی سازِ نہاں ملا ۔ اس مصرع کا کیا مطلب ہے؟
  • پورا شعر اس طرح ہے: جامِ نگاہِ یار میں رازِ جہاں ملا، حسرت وصالِ یار کی سوزِ نہاں ملا۔ اس کا مطلب تو بالکل صاف ہے کہ مجھے اپنے محبوب کی نظر کے جام میں اس بات کا جواب ملا کہ اس جہاں کو تخلیق کرنے کا راز کیا تھا۔ صنعتِ مبالغہ ہے کہ میرے محبوب کی آنکھیں اس قدر خوب صورت ہیں کہ صرف ان کی نمائش کے لیے اس جہاں کو تخلیق کیا گیا ہے۔ یہاں محبوب کو عشق حقیقی کی ذیل میں رکھیے اور پھر اس شعر کا مزا دیکھیے۔ خالق نے دنیا اسی لیے بنائی کہ اسے پہچانا جائے ورنہ اس سے قبل وہ نور کے پردے میں ایک چھپا ہوا حسن تھا۔
  • اس کے بعد دو اور چیزیں جو شاعر کو اپنے محبوب کی نگاہ کے جام میں دکھائی دیں وہ اول، یار (یعنی شاعر) سے وصال کی خواہش تھی اور دوم، تیسری چیز سوز نہاں تھی یعنی محبوب کے سینے میں بھی اپنے یار (یعنی شاعر) سے ملنے کا درد پوشیدہ تھا اور اس طرح شاعر کو پہلی بار علم ہوا کہ اس کا محبوب بھی نا صرف اسے چاہتا ہے بلکہ وہ اس سے ملن یا وصال کا بھی خواہش مند ہے۔ اگر بندہ خدا کی طرف ایک قدم بڑھاتا ہے تو خدا اس کی طرف 70 یعنی بے شمار قدم اٹھاتا ہے۔ اسے بھی اپنے بندے سے اتنی ہی محبت ہے جتنی بندے کو اس سے ہے بلکہ بندے سے کئی گنا زیادہ۔
  • ٹائپو کی غلطی سے ’سوز‘ ’ساز‘ لکھا گیا مگر ’ساز‘ میں بھی مفہوم کم و بیش یہ ہی ہے۔ سوزِ نہاں معنی سینے میں چھپا ہوا درد، تپش، جلن یا خواہش اور ’سازِ نہاں‘ معنی سینے میں چھپی ہوئی ساز کی طرح دھیرے دھیرے مچلتی ہوئی خواہش۔
عاصمؔ کے دل کو چیر کے خنجر کو دیکھیے
اک مشت خاکِ شوق کی دودِ زیاں ملا
  • آپ غلط سمجھے۔ پہلا مصرعہ بالکل بھی حکمیہ نہیں ہے۔ ’دیکھیے‘ سے مراد قاری کو حکم دینا نہیں ہے بلکہ یہاں ’دیکھیے‘ سے مراد قاری کی توجہ ماضیِ قریب کے ایک واقعے کی طرف مبذول کرانا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں دیکھیے موجودہ حکومت کو منتخب کر کے ہمیں سوائے مہنگائی اور بد امنی کے کیا ملا اور سامنے والا اقرار میں سر ہلا دیتا ہے۔ چناں یہاں شاعر قاری سے یا دنیا سے کہہ رہا ہے کہ آپ نے دیکھا کہ جب خنجر نے (ماضیِ قریب میں) عاصمؔ کے دل کو چیرا تو اسے دل کے اندر کیا ملا؟ پھر دوسرے مصرعے میں شاعر خود ہی جواب دیتا ہے کہ خنجر نے جب (جسے صرف زورِ بیان کی خاطر ایک با شعور شے تصور کیا گیا ہے ورنہ اس سے اصل مراد محبوب اور محبوب کا ہاتھ ہے جس نے خنجر سے عاصم کے سینے میں موجود دل کو چیر کر دیکھا کہ اس میں کیا ہے)، عاصم کے دل کو چیرا تو وہاں زندگی سے بھر پور خون نہیں بلکہ صرف دو مردہ چیزیں پائیں۔ اول، ایک مٹھی بھر عاصم کے شوق یعنی وصالِ یار کی خواہش جو ٹھکرائے جانے کے بعد مر کر مٹی ہو گئی اور دوم، زیاں یعنی ہستی کے نقصان کا دھواں ملا۔ یعنی شاعر نے بلا وجہ اپنی ہستی کو محبوب کی آرزو میں جلا جلا کر خاک کر دیا اور آخر میں جو چیز اس کا مقدر ہوئی وہ صرف دھوئیں کی سیاہی تھی۔ جیسے آتشؔ نے کہا تھا: بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا، جو چیرا تو اِک قطرہء خوں نہ نکلا۔

پہلا مصرع حکمیہ ہے چنانچہ زمانہ مستقبل کا متقاضی ہے ۔ لیکن دوسرے مصرع میں زمانہ ماضی آگیا ۔ نیز دوسرے مصرع کا مطلب کیا ہے ۔ عاصم شمس صاحب کسی بھی مصرع کی گرامر اور زبان و بیان پرکھنے کے لئے اس مصرع کو نثر میں تبدیل کر کے دیکھ لیا کیجیے ۔ ایسا کرنے سے تمام عیوب و نقائص ازخود آپ پر واضح ہوجائین گے ۔جن مصرعوں کی مین نے نشاندہی کی ہے آپ ان کی نثر بناکر دیکھ لیجیے ۔ میرا مدعا واضح ہوجائے گا ۔ اگر کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معاف فرمادیجیے گا ۔ میں خلوصِ دل سے آپ کی مدد کیلئے کوشاں ہوں ۔ دوسری بات یہ کہ آپ اپنے نام کو اردو میں کروالیجیے ۔ ٹیگ کرنے مین آسانی ہوتی ہے۔ مجھے انگریزی میں ٹیگ کرنا نہیں آتا۔

امید ہے بات واضح ہو گئی ہو گی۔ شکریہ
عاصمؔ شمس

بھائی عاصم شمس صاحب! یہ تو کمال ہوگیا ۔ یعنی اس قدر مفاہیم و مطالب ان اشعار کے پیچھے چھپے ہوئے تھے اور آپ کا اعجازِ ہنر دیکھئے کہ الفاظ کا دروبست ایسا رکھا کہ مجال ہے جو قارئین کو ان مفاہیم و مطالب کی ذرا ہوا بھی لگ جائے !! :D
تفنن برطرف، اب چونکہ آپ نے واضح کردیا ہے کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں تو ایک دو باتیں ہماری بھی سن لیجیے ۔ کچھ اشعار میں تعقید ہے اور کچھ میں اعراب کی کمی ۔

عاصمؔ کے دل کو چیر کے خنجر کو دیکھیے
اک مشت خاکِ شوق کی دودِ زیاں ملا
بھائی ،میں لاکھ کم فہم اور سخن ناشناس سہی لیکن حقیقت یہ ہےکہ مندرجہ بالا شعر کا پہلا مصرع پڑھ کر ہر شخص یہی سمجھے گا کہ عاصم کے دل کو چیرنے کے بعد خنجر کو دیکھنے کی بات کی جارہی ہے۔ آپ خود ہی بتائیے کہ ’’خنجر کو دیکھئے‘‘ کا اور کیا مطلب نکالا جاسکتا ہے؟! اگر آپ خنجر کے بعد کوما لگا بھی دیں تو شاید بہت غور و فکر کے بعد قاری وہ معنی نکال بھی لے کہ جو آپ نے اپنی تشریح میں لکھے ہیں لیکن سننے والے کے لئے تو یہ تعقید پھر بھی برقرار رہے گی ۔ میری رائے میں دیکھیے کے بجائے کوئی اور بھرتی کا لفظ رکھ لیجیے ۔مثلًا دوستو یا کوئی اور لفظ۔ تعقید دور ہوجائے گی۔ دوسرے مصرع میں خاک شوق کی کے بعد کوما لگادیجیے ۔

پہلو میں خاک ڈھونڈتے اپنے جگر کو ہم
جب بھی ملا یہ دیکھیے نوکِ سناں ملا

اس شعر میں نوکِ سناں کے بجائے سرِ نوکِ سناں یا برسرِ نوکِ سناں کا محل ہے ۔ دوسرا مصرع یوں کرلیجیے: جب بھی ملا یہ برسرِ نوکِ سناں ملا ۔ مصرع بھی بامعنی ہوجائے گا اور بھرتی کے لفظ ’’دیکھئے‘‘ سے بھی نجات مل جائے گی ۔ اس شعر کی تشریح میں آپ نے لکھا ہے کہ ’’ اساتذہ نے ہمیشہ اسی طرح لکھا ہے ‘‘۔ بھائی اس کی کچھ مثالیں دے کر میرے علم میں اضافہ فرمایئے ۔ بہت ممنون رہوں گا ۔ افتخار عارف کہ ثقہ شاعر اور زبان دان ہیں اُن کا ایک مصرع اس وقت یاد آتا ہے : نوکِ سناں پہ سر نہیں دیکھا بہت دنوں سے۔ اگر اس مصرع کو یوں کہا جائے کہ ’’نوکِ سناں سر نہیں دیکھا بہت دنوں سے‘‘ تو یہ زبان کے لحاظ سے غلط ہوجائےگا ۔ لیکن آپ کے بقول ایسا کہنا بالکل درست ہوگا!!! کیا فرماتے ہیں آپ؟


جامِ نگاہِ یار میں رازِ جہاں ملا
حسرت وصالِ یار کی سازِ نہاں ملا

یہاں دوسرے مصرع میں وصالِ یار کی کے بعد کوما لگادیجیے ۔ نیز مطلع میں ایطائے خفی ہے ۔ آپ نے جہاں اور نہاں کے قوافی استعمال کئے ہیں جن میں ’’اں‘‘ سے پہلے ’’ہ‘‘ مشترک ہوگیا ہے ۔ یہ ایک عیب گردانا جاتا ہے ۔ آپ نے جو تشریح اس مطلع کی فرمائی ہے وہ ان مصرعوں سے تو قطعی ظاہر نہیں ہوتی۔ آپ کہتے ہیں کہ پہلے مصرع میں یار سے مراد محبوب اور دوسرے مصرع میں یار سے مراد آپ خود ہیں؟؟؟!!! اب قاری کس بنیاد پر یہ تفریق کرے۔ شعر میں تو اس طرف کوئی اشارہ موجود نہیں ہے ۔ اسی لئے میں نے عرض کیا تھا کہ ابلاغ کی کمی ہے۔
عاصم شمس بھائی ! خیال توہر شعر کے پیچھے موجود ہوتا ہے۔ اگر نہ ہو تو شعر کہا ہی کیوں جائے۔ اب ہنر تو یہ ہے کہ شاعر اس خیال کا ابلاغ موثر طریقے سے قاری تک کرپاتا ہے یا نہیں ۔ یہیں آکر ایک کامیاب شعر اور ناکام کاوش میں امتیاز ہوتا ہے ۔ اور اب آخری بات یہ کہ ہم اور آپ کون سے میر و غالب ہیں کہ ہمارا لکھا حرفِ آخر ہو۔ بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ ہوتی ہے ۔ تنقید و تبصرہ سے کیا گھبرانا ۔
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے

@

Aasim Shams Aasim
 
G34-Jam-e-nigah-e-yar-men-r_zpstnojvuqb.jpg
 
Top