ایک ادیبہ (نظم پارہ نظمی)

ایک ادیبہ
نظم پارہ نظمی
ملک کی سب سے نامور ادیبہ کو ایوارڈ مل رہا تھا۔ میں سوچ رہی تھی کاش کہ میں بھی اتنی بڑی ہوتی اور مجھے بھی اسی طرح ایوارڈ ملتا۔ مگر ایسا نہیں ہوسکتا تھا، کبھی نہیں۔ نہ میری اتنی معلومات تھی اور نہ مجھ میں اتنی صلاحیتیں تھیں۔
میں تصوّر میں اس ادیبہ کی جگہ اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی اور ابھی مجھے ایوارڈ ملنے ہی والا تھا کہ کسی نے میرا شانہ پکڑ کر جھنجھوڑا۔ مڑ کر دیکھا تو میری دوست سیما تھی۔ کہنے لگی، "کن سوچوں میں گم ہو؟"
میں نے اسے بتایا کہ میں ملک کی نامور ادیبہ بننا چاہتی ہوں مگر مجھ میں اتنی صلاحیتیں نہیں ہیں اور نہ میں اتنی ذہین ہوں، لیکن میری دلی خواھش ہے کہ مجھے اسی طرح شہرت ملے اور داد ملے۔
سیما نے مجھے سمجھایا کہ ادیبہ بننے کے خواب چھوڑ دو۔ اس میں بڑی محنت کی ضرورت ہوتی ہے، گھر چلو۔ پھر اس موضوع پر بات کریں گے۔
گھر آ کر میں یہی سوچتی رہی کہ سیما نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہے اور اسی لیے میں بالکل افسردہ ہوگئی تھی۔ اتنے میں باجی آئیں اور انہوں نے پوچھا، "محفل کیسی رہی؟"
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ باجی نے پھر پوچھا تو میں نے بد دلی سے دو تین باتیں بتا دیں۔ میرے اس رویّے کو دیکھ کر باجی حیران ہوئیں پھر بولیں، "کیا تمھاری وہاں پٹائی ہوئی ہے یا کسی سے لڑائی ہوگئی ہے جو تم پھولی مرغی بنی ہوئی ہو؟"
میں نے کہا، "باجی! میں بھی ادیبہ بننا چاہتی ہوں۔"
اس کے بعد اپنی دلی خواہش تفصیل سے انہیں بتا دی۔
باجی نے کہا، "افسردہ کیوں ہوتی ہو؟ تم نے اپنے دل میں کیسے سوچ لیا کہ تم لکھ نہیں سکتیں؟ کوشش کرو۔ میں تمھارے ساتھ ہوں۔"
باجی کے سمجھانے پر میں نے لکھنے کی کوشش کی، لیکن کامیابی نصیب نہ ہوئی اور غصّے میں آ کر کاپی اور پینسل پھینک دی۔
باجی نے پوچھا، "اب کیا ہوا۔"
میں نے کوئی جواب نہ دیا تو کہنے لگیں، "اچھی گڑیا! مجھ سے کیوں ناراض ہوتی ہو؟"
میں نے کہا، "باجی! میں کہانی لکھ ہی نہیں سکتی۔"
باجی نے کہا، "اچھا اگر کہانی نہیں لکھ سکتیں، مگر تم شہرت بھی حاصل کرنا چاہتی ہو تو ضروری تو نہیں کہ تم ادیبہ ہی بنو۔ تم ڈاکٹر بھی بن سکتی ہو یا کچھ اور بن سکتی ہو۔"
"مگر میں تو ادیبہ بننا چاہتی ہوں۔" میں نے ضد کی۔
باجی نے کچھ سوچ کر کہا، "اچھا یہ بتاؤ جب کہانی لکھنے بیٹھیں تو تمہیں یقین تھا کہ تم کہانی لکھ لو گی؟"
میں نے کہا، " نہیں، مجھے بالکل یقین نہ تھا کہ میں کہانی لکھ لوں گی۔"
باجی نے کہا، " جب تمہیں اپنے آپ پر اعتماد نہیں، یقین نہیں تو تم کوئی بھی کام کیسے کر لوگی؟ اچھا اب غصّہ ٹھنڈا کرو اور یہ ٹافیاں کھاؤ۔"
مجھے ان کی بات پر ہنسی آگئی۔ میں نے کہا، "میں بچّی تو نہیں کہ ٹافیوں سے بہل جاؤں۔"
"اچھا بچّی نہیں ہو تو کہانی لکھو اور پورے یقین کے ساتھ۔"
اب میں بھی کہانی لکھنے بیٹھ گئی۔ اب تو میری عزّت کا سوال تھا اور یقین کا کرشمہ بھی دیکھنا تھا اور پھر واقعی میں نے کہانی لکھ لی۔ یقین کے عنوان سے جو کہانی میں نے لکھی تھی وہ باجی کو دکھائی، انھیں بہت پسند آئی اور انہوں نے مجھے خوب شاباش دی۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ تم کسی دن بڑی ادیبہ بن جاؤ گی۔ اس کے بعد میں نے ایک ایک کر کے کئی کہانیاں لکھ ڈالیں۔ پھر افسانے بھی لکھے اور آج میں اس ادیبہ کی طرح خود بھی ایوارڈ حاصل کر رہی ہوں جس نے مجھے ادیبہ بننے پر اکسایا تھا۔ میں سوچ رہی ہوں کہ مجھے میری منزل تک پہنچانے میں اس ادیبہ، یقین اور باجی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ان تینوں کی وجہ سے ہی میں نے گوہر مقصود حاصل کر لیا ہے۔
٭٭٭
 
Top