ایک انتہائی سنگین مسئلہ: الحاد اور لادینیت کے سیل رواں کو کیسے روکا جائے؟:قسط۲

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
مو لا نا حذیفہ مولا نا غلا م محمدصاحب وستا نوی ؔ

U.N.O کے زیر نگر ا نی مند ر جہ ذیل ادارو ں کو وجود دیا گیا ۔
(۱)۔۔۔ سیکور ٹی کونسل: جو مملکتو ں کے معا ملا ت نبھائے گی ؛ مگر ویٹو طا قتوں کے مفا د میں ۔
(۲ )۔۔۔ ورلڈ بنک اور آئی، ایم، ایف :جو عا لمی معیشت پر کنٹر و ل کر تے ہیں ۔
(۳)۔۔۔ W.T.O :جو عالمی تجا رت پر قا بو کر تا ہے ۔
(۴)۔۔۔ W.H.O :جو عا لمی صحت پر اجارہ قا ئم کیے ہوئے ہے ۔
(۵)۔۔۔ F.A.O :جو عا لمی ذرا عت پر کنٹر و ل جما ئے ہوئے ہے ۔
(۶)۔۔۔ E.L.O : جو عالمی صنعتوں کو لیبر کے ذریعہ کنٹر ول کر تا ہے ۔
(۷)۔۔۔ یو نی سیف : جو تعلیم کو اپنے نہج پر لا نے کے لیے دبا ؤ ڈا لتا ہے ۔
(۸)۔۔۔ رو ٹر ی اور ڈ ینرز کلب ملک کے اعلیٰ تعلیم یا فتہ طبقے پر کنٹر و ل کے لیے
دنیا پر اس وقت مغربی فکر و تہذیب کا غلبہ ہے اور مغرب اپنی تہذیب کی عالمگیریت کے لیے ہر ممکن طریقے سے کو شاں ہے ، مغر ب نے اپنی تہذیب و فکر ، ڈانڈے یو نا ن و رو ما سے جوڑے ہیں ؛ جبکہ یو نا نی تہذیب بت پر ستی ، ما دّیت پر ستی اور عقلیت پر ستی سے متا ثر ہے ، اور رو می تہذیب دنیا پر ستی ، ظاہر پرستی ، فنو نِ لطیفہ ، شاعری ، موسیقی ، مذہب سے بے رغبتی اور شہو ا نیت پر ستی سے ؛ متأ ثر ہے ؛ اس طر ح مغر بی فکر و تہذیب گو ’’جما ع الا ثم ‘‘ یا مجمع الآ ثا م ہے ۔
اس کے علا وہ ملٹی نیشنل کمپنیا ں اور این ، جی ، اوز وغیرہ کا بد تر ین کردار ؛ سب اقو ا م متحدہ کے آ ڑ میں ہو تا ہے ۔
اس کا فا ئدہ اٹھاکر پوری دنیا کو مذہب ،خدا اور آخر ت کے تصورا ت سے پا ک کر نے کا منظم پلا ن بنا یا اور تعلیمی میدا ن میں ایسی اصلاحات کی جس کی رو سے نئی نسل مذہب اورخدا بیز ا ری کے سا تھ سا تھ اخلاقِ حسن سے بھی محرو م ہو جا ئے۔ اور انسا ن کو حیو ا نِ کا مل بنا دیا اور اس کے لیے Morallessاور Valueless سوسائیٹی کا منصوبہ بنا یا اور اس کے ما تحت تعلیمی نصاب تشکیل دے کر پور ی دنیا کے تعلیمی ادار وں میں نا فذ کر دیا، جس سے خالص سیکو لر تعلیم کا آ غا ز ہو ؛ا جس کا منشا ء یہ کہ انسا ن کے اندر سے مذہب کی گر فت ختم کر دی جائے اور اباحیت کا نظریہ یعنی ہر چیز جائز ہے ، مذہبی اصطلاحا ت جا ئز ، نا جا ئز ،حلا ل، حرا م بے معنی ہیں؛ کو عا م کر دیا گیا ۔
اسی خو فنا ک سا زش کا نتیجہ ہے کہ آ ج دنیا میں تقریباً ۱۶؍ فیصد لوگ اوروہ بھی جدید تعلیم یا فتہ اپنے آپ کو بر ملا ملحد کہنے پر فخر محسو س کر تے ہیں۔ اللہ ہمار ی حفاظت فر ما ئے اور جو لو گ صر ف بر ائے نام مذہب سے منسلک ہیں؛و ہ ملحدین تو اس سے مستثنیٰ ہے۔ وان کا ن مکرہم لتزول منہ الجبال
مغر ب میں رومیوں نے دینِ مبین کا حلیہ بگاڑ ا، جس کے نتیجہ میں غالی اور دنیا دار عیسا ئی راہبو ں نے مذہب کو چیستا ں بنا دیا ؛ رہبا نیت کے نام پرمذہبِ مسیح کو غلا ظتوں اورریا ضتو ں سے تعبیر کر دیا ؛جس سے لو گ مذہب سے ڈرنے لگے۔ اس کے بعد عقل دشمن کلیسا نے پہلے کتبِ مقد سہ میں تحر یف کی اور سائنس دانو ں کو وحشیانہ سزائیں دیں؛ جس کی وجہ سے عقل اور مذہبِ مسیح میں دشمنی ٹھن گئی، اور سا ئنسی علو م نے مذہبی تعلیما ت کی تغلیط شروع کر دی ۔
عیسا ئیت چو نکہ انحر اف کا شکار ہو چکا تھا ،اور اس کی صحیح تعلیما ت بالکل مسخ ہو چکی تھی؛ بلکہ کلی نہیں تو اکثر ی طور پر وثنیت کی صور ت اختیار کر چکا تھا؛ لہٰذا وہ سائنس کے سا منے نہیں ٹک سکا ؛کیو ں کہ اس کے عقا ئد چیستاں سے زیا دہ پیچیدہ ہو گئے تھے ،اور آ ج بھی ہے؛ جو عقلی بیدا ری کی تحر یک کا مقابلہ نہ کر سکا ،اور اس طر ح عقلیت کے بعد دوسرے مر حلہ میں مغر ب، مذہب بے زاری کی تحر یک سے دو چار ہوگیا ؛بس پھر کیا تھا !کلا سکی افکا ر کا سیلا ب اٹھتا ہے؛ جو رہے سہے مذہبی اقدار اور اخلا قیا ت کو بھی اپنے رو میں بہا لیجا تا ہے ۔
عقلیت کی زیر اثر مدرسیت کی تحر یک بر پا ہوئی جس کا مقصد ارسطو ئی منطق ،اور جدید فلسفہ کی بنیا د، آ ر تھو ڈو کس عیسا ئی افکا ر کی حقا نیت ؛کو ثا بت کر نا تھا ۔اسی تحر یک کے نتیجہ میں ہیبرس بو لو گنا آ کسفو رڈ اور کیمبرج کی یونیورسٹیوں کا آ غا ز ہوا ۔
اس کے بعد ہیومنز م کی تحریک بر پا ہوئی۔ یہ چند بے دین اور مذہب بے زا ر فلا سفہ کی تحر یک تھی؛ جس کا مقصد انسا ن کی عظمت کا ثبو ت ،اور انسا نی عقل و شعور کو (اللہ کے دیے مقا م سے زیاد ہ اونچے مقام) پر فا ئز کر نا تھا؛ اسی تحر یک نے مذہبی مسیحی نظریا ت کی زنجیر وں کو تو ڑ نے میں اہم کر دا ر ادا کیا ۔
رومن کیتھو لک پادریوں کی دولت پرستی، رو من اور کلیسا کے مذہبی جبر کے خلاف ما رٹن لو تھر نے تحریک اصلاحِ دین شروع کی؛ جس کا مقصدا لہامی متو ن کی تشریح کا حق ہر شخص کو ہے ،نہ کہ محض کلیسا کو ؛یعنی ہر شخص کو اجتہاد کے مر تبے پر بٹھادیا گیا ؛اور لو تھر نے یہ دعو یٰ کیا کہ دینی معاملا ت میں پو پ کا مکمل اقتد ا ر غلط ہے، اور ہر انسان انجیل سے برا ہِ راست ہدایت حاصل کر سکتا ہے۔ اصل میں اس کے پیچھے بھی عقلیت اور ہیو منز م کے اثر ا ت کا ر فر ما تھے ۔ اٹھا رویں صد ی کے آخر میں انقلا بِ فرانس میں بظا ہر تو با دشا ہت کا خا تمہ کر کے جمہو ری حکو مت قائم کی گئی؛ مگر اس انقلا ب کے پیچھے جمہو ریت ، آ زا دی اور مسا وا ت کے اصو ل کا ر فر ما تھے ۔
انیسو یں صدی میں ز و ر وشو ر سے بر پا ہو نے و الی تحر یک ، جد ید یت ہے ۔ جدید یت کے آ غا ز میں یہ جذبہ کار فر ما تھا ؛ کہ مسیحی عقا ئد کو سا ئنس اور عقل سے ہم آ ہنگ کیا جائے: یعنی ابھی مذہب سے محبت کی چنگا ری خاکستر میں دبی ہوئی تھی ؛ لیکن بعد میں سا ئنس کی اجا رہ داری قا ئم ہو گئی، اور یہ نظریہ تسلیم کر لیا گیا کہ حقا ئق کی دریافت کے لیے کسی اور سر چشمہ کی نہ کوئی ضرورت ہے، اور نہ کہیں اس کا وجو د ہے ۔ صر ف وہی حقا ئق قا بلِ اعتبار ہیں؛ جو عقل ، تجربے اورمشا ہد ے کی کسوٹی پر پو ر ے اتر یں ۔ جد یدیت کے حامی فلسفیو ں نے ما بعد الطبیعیا ت اورمذ ہبی مز عو ما ت کو اسی لیے رد کر دیا کہ وہ ان کسو ٹیو ں پر پور ے نہیں اتر تے ۔
جدید یت کی تحریک نے قو م پرستی ، افا دیت پر ستی ، نسا ئیت ، انسا ن کی کا مل آ زا دی ، مذہب کا ر د وغیر ہ کے نظریا ت کو عا م کیا ۔
چنا نچہ بیسویں صدی کے نصفِ آ خر میں مغر ب نے آ زا دی ، جمہو ریت ،مسا و ا تِ مر دو ز ن ، سا ئنسی طرزِ فکر؛ اور سیکو لرز م وغیرہ جیسی قدرو ں کو دنیا میں عا م کر نے کے لیے بے دریغ وسا ئل استعمال کیے ۔(ما بعد جدید یت اور اسلا م ص ۷۴)
الحا د کو سیکو لر تعلیم کے ذریعہ عا م کیا گیا : سیکو لر تعلیم کے ذریعہ الحا د کو خو ب فر و غ دیا گیا ؛لہٰذا سب سے پہلے سیکو لرزم کی حقیقت سے واقفیت حاصل کر تے ہیں ۔
سیکو لراز م کا لفظ ڈکشنر ی میں
سیکو لرا ز م ایک لحا ظ سے ایک جد ید لفظ ہے ،اور صحیح طور پر لفظ RELIGION (مذہب ) کی ضد (ANTONYM) ہے ،ایک ڈکشنری میں سیکو لر از م کا مطلب عو ا م کے ذہن سے مذہب کی گر فت کو کم کرنا ہے ؛ گویا ایسے طور طریقے اختیار کر نا جس سے عو ا م النا س کے دلو ں سے مذہب کی اہمیت اور گرفت ختم ہو تی چلی جا ئے ۔
سیکو لر از م انگر یز ی زبا ن کا لفظ ہے ؛جو دو الفا ظ کا مر کب ہے ،ایک SECULAR (سیکو لر ) اور دوسر ا ISM (ازم ) آ کسفو رڈ ڈکشنر ی میں SECULAR کے معنی ہیں "WORLDLY NOT SPIRITUAL" ( دینا وی یعنی رو حا نی نہ ہو نا )"NOT RELATED TO RELIGION" (مذہب سے متعلق نہ ہو نا )اس کے بر عکس SECULARISM کی تعریف آ کسفو رڈ ڈکشنری 1995 کے ایڈیشن میں کچھ یوں ہے : " BELIEF THAT LAW & EDUCATION SHOULD BE BASED ON FACTS & SCIENCE ETC, RATHER THAN RELIGION" ’’ یہ ما ننا کہ قو ا نین اور تعلیم کی بنیاد مذہب کے بجائے حقا ئق اور سائنس پر ہونی چا ہئے ‘‘ یہی وجہ ہے کہ مغرب نے 1960ء کی دہا ئی سے بالارادہ کوشش کر کے اپنے نظا مِ تعلیم سے فا ر غ ہو نے والے طلباء کے ذہنوں میں کوئی اخلاقی قدر یں (MORAL VALUES) یاضمیر (CONSCIENCE) نا م کی کوئی چیز نہ ہو؛ بلکہ وہ بے ضمیر ہو ں ،اور ا ن کے اندر کا انسا ن مر چکا ہو ؛ ایسے ہی انسا نو ں کو قرآ ن ’’حیو ا نِ محض‘ ‘کہتاہے اور مغر بی نظا م ہا ئے تعلیم سے دو نسلیں تیا ر ہو کر عملی زندگی میں اپنے عہدے سنبھا ل چکی ہے اور اب تیسری نسل بھی عملی زندگی میں قد م رکھ رہی ہے ۔
یہ ہے صیہونیت ۔۔۔۔۔۔جس کا ما ٹو (MOTTO) اورCATCH WORD اخلا قی، معاشرتی اورعقلی بندھنو ں سے آ ز اد ذہن کے حا مل افر ا د کا مجمو عہ، ایک معا شرہ جس میں مذہب ، اخلا ق ، وحی ، روح ، آخر ت ، نبو ت ور سا لت وغیرہ جیسے الفا ظ کا کو ئی گز رنہ ہو ؛بلکہ انسا ن ایسے الفا ظ اور اصطلا حا ت سے وحشت زدہ ہو؛ یقیناًجوشخص آزا د خیا ل یعنی روشن خیال یا ابلیس کاشاگر د ہے،اسے ہر اس شخص سے نفر ت ہوگئی؛ جو بھی اللہ ، رسو ل ، قرآن ، وحی اخلاق کی با ت کرتا ہے، اوراگر کوئی شخص اللہ اور اس کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے نظا م کے غلبے کی بات کر تا ہے ؛تو یقیناًسیکو لر از م کے نز دیک وہ شخص دہشت گر د (TERRORIST) ہی ہے اور صیہو نیت کے پرستا روں کی اس سے جنگ ہے ۔ یہ جنگ ہر ایسے فر د ، ادار ے ، فکر ، نظا م اور افر اد کے مجمو عے کے خلا ف ہے ؛جو سیکو لر از م کے مخا لف ذہن رکھتا ہے ۔اعا ذنا اللہ من ذالک
غیر پختہ (IMMATURE) ذہنو ں کو فکر ی آ زا د ی دے دینے کے ہی یہ خوفناک نتا ئج ہیں ،جس کے خلاف آج مغربی معاشر ے آ وا ز بلند کر رہے ہیں ،اورتبا ہی کا رو نارو رہے ہیں ۔سچ کہا علامہ اقبال نے ؂
ہو فکر اگرخام تو آزادئ افکار
انسان کو حیوان بنا نے کا طریقہ
آج کے مغر ب کا انسا ن واقعی حیو ا ن بن چکا ہے ۔
(حکمت با لغہ جو لا ئی 2011 ص ۲۲ تا ۲۴)
سیکو لرز م کی اس حقیقت کو جا ننے کے بعد اب سیکو لر تعلیم کو فر و غ دیے جا نے کی تاریخ پر ایک سر سر ی نظر ڈالتے ہیں ۔شیخ الا سلا م فقیہ العصر حضرت مو لا نا مفتی محمد تقی عثما نی صاحب کے سفر نا مے ؛جہاں سفر نا مہ ہے وہیں اس کی سب سے بڑی خصو صیت یہ ہے کہ آپ جس ملک میں گئے وہا ں کی تا ریخ کو مختصر اور اسلا می رنگ میں قلمبند کر دیا ۔ ہمارے صدیق محتر م حکیم فخر الا سلا م صا حب نے ’’جہاں دیدہ ‘‘اور ’’دنیا میر ے آ گے‘‘ سے سیکو لر تعلیم کی تاریخ پر بڑی عمدہ معلومات یکجہ کر دی ہے ۔
کالج کا وہ لادینی ماحول اور اس کے متعدی اثرات جس میں ہماری نئی نسل پلتی اور ڈھلتی ہے: (مفتی محمد تقی عثمانی)
سیکولر تعلیم کا الحادی رنگ مسلمانوں کے اندر دیکھنے کے لیے کسی خوردبین کی ضرورت نہیں؛ہر کالج، ہر سیمینار، ہر کانفرنس، بل کہ تمام پروگراموں اور کنونشنوں میں دیکھا جا سکتا ہے ؛اس کا مشاہدہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی آنکھوں سے کر لیجئے، فرماتے ہیں: امریکہ میں مسلمانوں کی ایک تنظیم ’’ فیڈریشن آف اسلامک ایسوسی ایشنز ( ایف، آئی، اے) نے اپنا سالانہ کنو نشن امریکی ریا ست ویسٹ ور جینیاکے مرکز ی شہر چار لسٹن میں منعقد کیا۔۔۔ اس کنونشن کے دور ان پکنک، کشتی رانی اور ڈِنر کے جوپر و گرام ترتیب دیئے گیے، ان میں خو ردبین لگاکر بھی اسلام کی نہ صرف کوئی جھلک نظر آسکی؛ بل کہ بعض ایسی چیز یں بھی ان پروگراموں کے دوران سامنے آئیں؛ جنہیں دیکھ کر پیشانی عرق عرق ہوگئی۔۔۔( مفتی محمد تقی عثمانی۔جہان دیدہ: ص۴۸۳)
یہ چیزکا لج کے لا دینی ماحول ہی کے متعدی اثر کے نتیجہ میں سیمنا روں اور پروگراموں میں داخل ہوئی کہ ’’ جس میں ہماری نئی نسل پلتی اور ڈھلتی ہے‘‘۔(فخرالاسلام)۔
مسلما نوں میں تعلیمی سیکولرائزیشن
مسلما نوں میں سیکولرا ئز یشن کا آغاز تعلیم کے باب میں۱۶۹۹ء کے بعد ہوا۔ پہلے خلا فتِ عثما نیہ میں پھر مصر میں اور اس کے بعد ہند وستان میں۔
کمال اتا ترک کا خیال تھا کہ تر ک اپنے ماضی سے کلی طور پر کٹ کر اپنا رشتہ مغر بی تہذیب سے جو ڑ لے؛ تو ترکی، معا شی اور سیا سی ترقی کی منزلیں تیز ی سے طے کر سکے گا۔(مگر اسّی سا ل میں بھی ایسا نہ ہو سکا ، آخر کا ر تر کی ایک بار پھراسلا م کی طر ف لو ٹ رہا ہے اور آج ایک اسلا م پسند پار ٹی وہا ں حکو مت کی دا غ بیل بیٹھائے ہوئے ہے ۔حذیفہ ) ۔(مفتی محمد تقی عثمانی)،(شاہرا ہ علم محر م الحرا م ۱۴۲۸ھ ص ۹۸)
مصر میں یہودی جو کام ۹۷ ۱۷ ء میں نپو لین سے نہ کرو اسکے وہ محمد علی سے زیادہ بڑے پیمانے پر کروالیا۔ ۱۸۱۴ء میں اس (محمد علی) سے یہودیوں نے وہی کام لیا جو ۱۷۹۳ء میں انگر یزوں سے ہندوستان میں دوامی بندوبست کرو اکر اور ۱۷۴۰ء۔۱۷۲۷ء میں اسٹالن سے روس میں Collectivizationکروا کر لیاگیا ۔۔۔ ملک کوعلمی اور فکری اعتبار سے سیکو لرائز کرنے کی کو شش ۱۸۲۵ء سے شروع ہو چکی تھی۔۔۔ اور سعید پاشا (۱۸۷۶ء تا ۱۸۸۲ء) کے دور سے سیکولرائزیشن کے عمل کو سرکاری ہی نہیں بل کہ عوام کی نچلی سطحوں تک لاکر راسخ کرنے کی کوشش پوری ہوئی اور اس کے بعد تو یہ بھی ہوا کہ ۱۹۹۴ء میں قاہرہ نے عورتوں کی عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ (عالم اسلام کی اخلاقی صورت حال ص/۲۵۳ تا۲۵۵)
مسلمانوں کے اندر پیدا شدہ یہ سیکولر طبقہ مغرب پرستوں اور مستشرقین کے لیے نہایت درجہ کارآمد ؛کیوں کہ ’’مغربی افکار کے استیلاء‘‘ کے بعد اسی ملک کے بعض ’’دانشوروں‘‘ (سیکولر دماغوں۔ ف) نے مغربیت کی نشر و اشا عت میں بھی بھر پو ر حصہ لیا، ’’ مفتی محمد عبدہ‘‘، ’’سید رشید رضا‘‘ان کے بعد ’’طٰہ حسین‘‘ اور’’ احمد امین‘‘ جیسے متجددین اسی ملک میں پیدا ہوئے؛ جن کے افکا ر اور تحریروں نے پو رے عا لمِ اسلا م کے تجد د پسند حلقے کو (علمی۔ ف)اسلحے فراہم کیے‘‘۔ (جہا ن دیدہ۔ از مفتی محمد تقی عثما نی: ص۱۶۲)
جمال عبد النا صر کے عہد میں دین کو عملًا جا ری کر نے کی فکر کا گلا گھو نٹ دیا گیا، اور ملک میں عربی قو م پرستی، بے دینی، عر یا نی؛ اور فحا شی کا ایک سیلا ب امڈ آیا۔۔۔ ذرا ئع ابلا غ کسی اد نیٰ رو رعا یت کے بغیر علی الا علا ن عریا نی و فحا شی کی تبلیغ کرنے لگے۔ (ایضا:ص۱۶۳)
الجزائر پر فرانس کا استعمار (جس کی ابتدا ۱۸۳۰ء سے ہوئی۔ف) عالم اسلام کا بدترین استعمار ثابت ہوا جس پر مسلمانوں کے لیے شخصی زندگی میں بھی دین پر عمل کرنا دوبھر بنا دیا گیا۔۔۔ اسلامی علوم تو کجا،عربی زبان پر بھی پابندی لگائی گئی۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپ کی تمام اخلاقی بیماریاں در آمد کر کے یہاں پھیلائی گئیں۔ یہاں تک کہ بڑے شہروں میں مسلمان خواتین کے غیر مسلموں کے ساتھ نکاح کے بھی بہت سے واقعات ہوئے۔ جب زبردست جانی ومالی قربانیوں کے بعدملک فرانسیسی سامراج کے تسلط سے آزاد ہوا؛ تو عالمِ اسلام کے دوسرے حصوں کی طرح یہاں بھی استعمار کے طویل زمانے میں فرانسیسی سامراج ملک میں ایسے لوگوں کی پوری ایک نسل تیار کر چکا تھا ؛جو سیاسی طور پر سامراج کے خواہ کتنے خلاف ہوں؛ لیکن نظری اور عملی لحاظ سے پوری طرح یورپ کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے ،اور اسی کے ذہن سے سوچنے کے عادی تھے۔ (جہان دیدہ ص /۱۱۸)
حسین بے، شاکر اور احمد بے کی کوششوں کے پسِ پردہ الجزائر کو بھی اسی راہ پر لے جایا گیا، جس پر مصر میں محمد علی، عباس، سعید، اسمعیل اور توفیق پاشاگئے تھے۔ محمد بے (۱۸۵۵ء تا ۱۸۵۹ء) محمد الصادق (۱۸۵۹ء تا ۱۸۸۲ء) اور خیرالدین پاشا کی سرپرستی میں سیکو لر ائزیشن کا عمل سختی کے ساتھ شروع کیا گیا۔۔۔ تعلیم کی راہ سے سیکولرائزیشن کو آگے بڑھانے کی متعدد اور مختلف النوع کو ششیں ہوئیں۔ (اخلاقی صورت حال: ص/۲۵۷ )
’’انڈو نیشیا کی تقریباً نوے فیصد آبادی مسلمان ہے اور باقی دس فیصد آبادی میں عیسائی، ہندو، بدھ،جین وغیرہ ہیں ‘‘۔۔۔حکومت کے زیرِ انتظام چلنے والی دو اسلامی یونیورسٹیو ں میں’’یہ دیکھ کر حیرت کے ساتھ افسوس ہوا کہ دونوں جگہ نظام تعلیم مخلوط ہے۔ اس صورتِ حال سے خو د یونیورسٹی کے بعض اساتذہ بھی ناخوش معلوم ہوتے تھے؛ لیکن اپنی اس رنجیدگی کا علاج فی الحال ان کے بس میں نہیں ‘‘۔۔۔’’ جب احقر نے ایک یو نیو رسٹی کے ذمہ دار ترین فرد سے پوچھا کہ ’’ اسلامی یونیورسٹی ‘‘ میں مخلوط تعلیم کا کیا جواز ہے ؟ تو انہوں نے ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ حیرت بھر ے لہجے میں کہا کہ ’’ یہ انڈونیشی اسلام ہے ‘‘ البتہ یہاں طالبات کا لباس کا فی ستر پوش ہے جبکہ عام تعلیمی اداروں میں طالبات کا عام لباس اسکرٹ ہے ‘‘۔ (جہانِ دیدہ :ص/۳۸۰ تا، ۳۸۱) ، (شاہرا ہ علم محر م الحرا م ۱۴۲۸ھ ص ۱۰۰،۱۰۲)
لیکن اس کا کیا کیجئے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ سیکو لر تعلیم اور سیکو لر زم کے شوق میں اسلا می علوم کو ہی بے فائدہ سمجھتا ہے :
چندمسلم ممالک کا جائزہ پیش کرتے ہوئے یمن کے سفر کے حالات میں حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ تحریر فرما تے ہیں :
۔۔۔برصغیر کے دینی مدارس کی طرح کے پرائیوٹ تعلیمی اداروں کا تصور اب عرب ملکو ں میں مفقودساہوچکا ہے۔ سرکا ری یو نیور سٹیوں اور تعلیمی ادارو ں سے ہٹ کر دینی تعلیم کا کوئی قابل ذکر ادارہ ان ملکوں میں نہیں پایاجاتا ؛لیکن جامعۃا لایمان، میری معلومات کی حدتک عرب ممالک میں یونیورسیٹی کی سطح کاواحدتعلیمی ادارہ ہے ؛جوسرکا ری یونیورسٹی نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑ ے پیمانے پر دینی تعلیم کے لیے قائم ہے۔۔۔شیخ یوسف القرضاوی نے جامعۃ الایمان کے پہلے تقسیم اسناد (اجا زت ) کے موقعہ پر تقر یر کرتے ہوے ان لوگوں کی پر زور تردید کی جو سیکولرزم کے شوق میں اسلامی علوم کی تعلیم کوبے فائدہ سمجھتے اورایسے اداروں کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔(دنیا میرے آگے:ص۲۵۲)
یمن میں جب سے جمہوری حکومت قائم ہوئی ہے،اس کا میلان مغرب کی طرف رہتا ہے، عالمِ اسلام کے دوسروں ملکوں کی طرح یہاں بھی عوام اور حکام کے درمیان مفاہمت کے بجائے بُعد کی ایک خلیج حائل ہے جس کا تمام تر فائدہ دشمنانِ اسلام کو پہنچ رہاہے؛اور ملک کے بہترین وسائل امت کی فلاح و بہبود کے بجائے دوسرے مقاصد پورے کرنے کے لیے کام آرہے ہیں۔اللہ تعالی ہمارے نامۂ اعمال کو اپنے فضل وکرم سے دور فرماکر اس مہلک صورتِ حال سے ہمیں نجات عطا فرمائیں؛ تو عالم اسلام آج دنیا بھر کی قیادت کے مقام پر ہو۔ (دنیا میرے آگے ص ۲۶۹جولائی۲۰۰۱)ص نمبر۱۴)،(شاہرا ہ علم محر م الحرا م ۱۴۲۸ھ ص۱۰۴، ۱۰۵)
ہم مسلما ن ہیں لہٰذا ہما رے لیے سیکو لر تعلیم کا شر عی حکم جا ننا بھی ضروری ہے ؛ حکیم الا مت مجددِ ملت حضرت تھانو ی ؒ فر ما تے ہیں :
انگریزی اور سیکولر تعلیم کا حکم : عقائد اگر خلاف شریعت ہوگئے تو کفر والحاد۔ (کفر و الحاد : یعنی اگر کسی مسلما ن کے عقا ئد خلا ف شریعت ہو ں؛’’ تو وہ کافر اور ملحد‘‘ ہے)
بد دینوں کی صحبت کے اثر سے اعمال خراب ہو جائیں؛ توفسقِ ظاہری۔(فسق ظاہری : بد دینو ں کی صحبت سے اگر اعما ل خراب ہو جا ئیں تو’’ وہ آ دمی فا سق ظاہر ی ہے‘‘ ) اور اگر دل میں یہ ارادہ اور عزم جما ہوا ہے کہ ذریعۂ معاش خواہ حلال ملے یا حرام، اسے اختیار کریں گے؛ توفسق باطنی۔(فسق با طنی : حلا ل و حر ا م کی تمیز کے بغیر اس علم سے کمانے کا ار ادہ ہو ’’تو فاسق با طنی ‘‘ ہے ) اور اگر کوئی ان عوارض سے مبراء ہو، اور عزم بھی یہ کرے کہ اس سے وہی معاش حاصل کریں گے جو شرعاً جائز ہوگی؛ تو اس کے لیے انگریزی تعلیم مباح اور درست ہوگی۔ (مبا ح : اور مذکو رہ خر ابیو ں سے پا ک ہو کر تعلیم حاصل کر ے تو مباح ہے )اور اگر اس سے بڑھ کر یہ قصد ہو کہ اس کو ذریعۂ خد متِ دین بناویں گے؛ تو اس کے لیے عبادت ہوگی۔ (فتوی حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ ملخصاً)، (شاہرا ہ علم محر م الحرا م ۱۴۲۸ھ ص ۷۷)
اس شر عی حکم کے بعد حضرت تھانوی قد س سر ہ نے سیکو لر تعلیم سے پیدا ہو نے والے الحادی اثر ا ت سے بچنے کے لیے چند تجا وز پیش کی ہے :
بچوں کے دین کی فکر اورعلم دین سے وابستگی کا خیال اگر نہ رکھا گیا ؛تو حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ارشاد فرماتے ہیں : کہ ’’بیس سال بعد تمہاری اولاد کچھ یہودی ہوگی اور کچھ نصرانی ہوگی ۔‘‘ (انفاسِ عیسی حصہ دوم )لہٰذا تعلیم جدید اگر حاصل کرنا ہو تو وہ اس کی شرائط ذکر کرتے ہیں:
تعلیم جدید کی تحصیل کی شرائط:
(۱) اپنے مذہب کی تعلیم حاصل کرے۔
(۲) کسی عالم کے مشورے سے کورس مقرر کرکے مطالعہ کرے ۔
(۳) علماء حقانی کی کتابیں مطالعہ میں رکھے۔
(۴) علماء حقانی کی صحبت میں آمدو رفت رکھے ۔
(۵) غیر جنس کتابوں ( مختلف رسالے، اخبارات، ناول، ملحدوں بددینوں کی مضامین میں، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اورموبائل کے ذریعہ فحش خیالات اور مغرب اخلاق پروگرام۔ ف) سے اعراض رکھے ۔ اس کے بعد تعلیم جدید حاصل کرنے کا مضائقہ نہیں‘‘۔(شاہرا ہ علم محر م الحرا م ۱۴۲۸ھ ص ۸۱)
یہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی وہ تجا ویز تھیں ؛جو انفر ا دی طور پر ہر شخص اپنی اولاد کے لیے ضر و ر اختیار کر ے؛ جو عصر ی اداروں میں تعلیم حاصل کر تے ہیں۔ مگر اب تقریباً ستر اسّی سا ل کے بعد حا لا ت مزید ابتر ی اختیار کر گئے ہیں۔ جیسا: کہ مذکو رہ رپور ٹ سے ظاہر ہے کہ دنیا میں عیسا ئیت اور اسلام کے بعد سب سے زیا دہ دہر یہ اور ملحدین ہیں ؛ تو اب اجتماعی طور پر بھی اس جا نب قد م اٹھا نے کی ضرورت ہے تا کہ الحاد کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جاسکے۔ اور دنیا کو جہنم ہو نے سے بچا یا جا ئے ؛کیو ں کہ ملحدہی دنیا کے ذہنی و جسما نی امن کو غا رت کر نے میں اہم رول اد ا کر تا ہے؛ کیو ں کہ وہ کسی بھی طرح کی غیرانسا نی حر کت کر نے سے کترا تا نہیں۔قتل و غار ت گری ہو ،چاہے بداخلا قی ہو،چا ہے بے حیا ئی ؛ اس کے لیے سب برابر ہے ۔ اگر آپ کو یقین نہ آر ہا ہو تو تار یخ اٹھاکر دیکھ لیں ، اس وقت دنیا میں جو قتل و غا رت گری ،بے حیا ئی اور بد اخلاقی ، حرا م خو ر ی اور خیا نت جیسی گھنا ؤ نی کیفیا ت ہیں؛ تا ریخ میں کبھی اس حد تک بر ائی نہیں ہوئی ؛کیو ں کہ تا ریخ میں کبھی اس حد تک الحاد بھی نہیں پایا گیا ؛اور جب جب دنیا میں الحا د جس جس خطہ میں پا یا گیا ؛ صور ت حا ل ایسی ہی رہی ؛ آپ قد یم یو نا ن اور رو م کی تاریخ اٹھا کر دیکھنا چا ہو تو دیکھ لو !لہٰذا پور ی سنجید گی کے ساتھ ہمیں اس مسئلہ کو اٹھا نا چا ہئے ۔ سیاسی، تعلیمی ، تر بیتی ، میڈیا ئی ہر سطح پر اس کے لیے کوشش کر نی چاہیے ؂
اجنبی سارے جہاں میں بن گیا تیرے لیے
اے خدا تیرے لیے بس اے خدا تیرے لیے
آ ج بھی عالمی سطح پر الحا د کو فر و غ دینے کی سا زش جاری ہے؛ جس کا اندا ز ہ مند رجہ ذیل ایک انکشاف سے کیا جا سکتا ہے ۔ امریکی مجلہ ’’سائنٹی فک امریکن ‘‘ میں ایک مضمو ن امریکہ کے سائنس داں اورمذہب کے عنوان سے شائع ہو ا ہے ۔ سا ئنس سے متعلق افر اد کی ما رکٹنگ کا سلسلہ 200سا ل سے جاری ہے ، سا ئنس دا ں کہلا نے کے لیے ہمیں اپنا منہ بند رکھنا ہو گا، اورمذہب کی جکڑ بند یو ں سے خو د کو آ زا د رکھنا ہو گا ،ریسر چ یو نیوسیٹیوں میں مذہبی لو گ اپنے منہ بند رکھتے ہیں؛ اور غیر مذہبی (دہریے اور ملحد )الگ تھلگ رہتے ہیں؛ انہیں خصو صی سلو ک کا مستحق گردا نا جا تا ہے ؛ اور انہیں اعلیٰ مناصب پر پہنچنے کے مواقع دیے جا تے ہیں (SCIENTIFIC AMERICAN SEP 1999 P.81 ) بلکہ ایک تحقیق کے مطابق سائنس دا ں کو اپنے شعبے میں تر قی پانے یا PHD کی ڈگری کے لیے یا عالمی سائنسی مجلہ میں اپنے مضمو ن کی اشا عت کے لیے چند شر ا ئط پوری کر نی پڑتی ہیں؛ ان میں سے اہم شرط نظریہ ارتقاء کو غیر مشر وط طور پر تسلیم کر لینا ہے جبکہ یہی شر ط الحا د کی جڑ ہے ۔ اللہ ہماری حفا ظت فر مائے ۔
آئیے اب الحا د کے زور کو مقا می بلکہ عالمی سطح پر توڑ نے کے لیے چند مؤثر طر یقے اختیار کر تے ہیں ۔
مقا می سطح پر
(۱)۔۔۔ علما ء کو چا ہئے کہ وہ مسلما ن اسکو ل کے اسا تذہ کو کہیں: کہ وہ طلبہ کو جب ڈارون کے نظر یہ کا سبق پڑھائیں؛ تو انہیں مطلع کردیں کہ یہ غیرا سلا می نظریہ ہے ، صحیح یہ ہے کہ اللہ نے ہم کو پیدا کیا ۔
(۲)۔۔۔ علماء اورطلبہ جا معا ت اسلا میہ ، تعطیلات میں اسکو ل کے ذمہ داروں سے ملا قا ت کرکے انہیں نصاب میں شا مل غیر شرعی امور سے واقف کریں۔
(۳) ۔۔۔مکتب پڑھا نے والے استا ذ کے لیے ضرور ی ہے کہ وہ اسکو لی نصاب کی کتا بو ں کا جا ئزہ لے اور غیرشرعی اور تاریخی غلط بیا نی سے طلبہ کو آگاہ کرے۔
(۴)۔۔۔ مکتب کے نظا م کو مستحکم کریں، اگر نہ ہو تو فوراً شروع کریں، اس لیے کہ ہمارے دوربین اسلاف نے اسی الحاد اور جاہلیت کو رو کنے کے لیے مدارس و مکا تب کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔
(۵) ۔۔۔والدین ضروراپنے بچو ں کو ان مکاتب میں بھیجنے کا اہتمام کر یں، اور گھر میں ان کی تربیت کرتے رہیں ،گھر کے ما حول کو اسلا می بنائیں۔
(۶) ۔۔۔جو لو گ بڑی عمر کے ہوں اوردینی تعلیم سے نا واقف ہوں، انہیں بھی اپنے دینی تعلیم کے لیے فکر کرنی چاہئے ۔
(۷)۔۔۔ مکتب کے استا ذ کے لیے ضروری ہے کہ وہ پور ی ذمہ داری سے پڑھائے اورخاص طور پر عقائد کو خوب اچھی طر ح ذہن نشیں کروائے ؛تا کہ بچپن سے ہی بچے کا ذہن اسلا م کے ساتھ مضبو طی سے جڑارہے ۔
(۸) ۔۔۔مسلما نوں کو چاہئے کہ ان کے بچے جب شا دی کی عمر کو پہنچیں؛ تو دیند ار رشتہ کو ترجیح دیں ، صرف ما ل و دولت اور حسن و جمال ،اسی طرح صرف دنیو ی تعلیمی ڈگریوں پر نظر نہ رکھیں ؛بلکہ ایسے نو جو ان لڑکے لڑکیوں سے بیا ہ نہ کر یں؛ جو دین سے بالکل نا بلدہو ں؛بلکہ الحادی فکر کے حامل ہوں یا کسی شرعی اعتبار سے نا جائز پیشہ سے منسلک ہوں مثلاً انشورنس ، بینک، جو ا، شراب، وغیرہ کسی ادارہ میں کا م کر تے ہوں؛ ورنہ آپ کی نسل ایمان سے محرو م رہیگی؛ جو انسا ن کے لیے سب سے بڑا خسارہ ہے ۔
ریاستی اور ملکی سطح پر الحاد کو روکنے کے لیے تجاویز:
(۱)۔۔۔ کسی بھی مذہب کے مذہبی پیشوا، اورخا ص طورپر علما ء کے لیے ضرور ی ہے کہ وہ تعلیمی محکمہ کو متنبہ کریں ،کہ وہ نصابی کتا بو ں سے ڈارون کی تھیوری کو نکال دیں ؛کیوں کہ مذہبی اعتبار سے تو وہ غلط ہے ہی ، سا ئنس نے بھی اسے غلط قر ار دیا ہے ؛پھر ہمار ے بچوں کو کیوں پڑھائی جارہی ہے ؟ اس لیے کہ اسی سے ما دّی ذہن بنتا ہے اور بچہ جو عنقریب جو ا ن ہوگا ؛وہ مذہب سے بیزا ر ہو جا تا ہے جس کی وجہ سے بے حیا ئی اور بد اخلاقی کا شکار ہو تا ہے اور پھر کسی بھی طرح کی غیر انسا نی حرکت کر نے سے کتر ا تا نہیں جیسا کہ آ ج کل ہو رہا ہے ۔
(۲) ۔۔۔وزیراعظم، وزیر تعلیم ، ریا ستی و ملکی سطح پر بھی اس با ت کی حتی المقدو ر کوشش کی جا ئے کہ ’’ نصابی کتابوں‘‘ سے غیر مذہبی ،غیرمحقق تاریخی نظریات وواقعا ت کو نکالا جائے ’’ دین سے وابستگی ‘‘ اخلاقیا ت پر مبنی مو ا د نصاب میں شا مل کیا جائے ؛ نصا ب کی تیار ی کے لیے مذہب سے وابستہ اسکا لر ز سے مدد حاصل کی جائے؛ خاص طور پر علماء سے ۔
(۳) ۔۔۔اسکو ل ، کالجز اورتعلیمی ادارہ کے ذمہ دار اپنے تد ریسی اسٹا ف کو ورک شاپ کے ذریعہ اس بات پر تنبیہ کر یں؛ بلکہ ا س کی ز ور دار تر دید ان کے سا منے مؤ ثراندا ز میں پیش کر یں ۔اس سلسلہ میں مولا نا علی میاں ندو ی ؒ کی کتا بو ں سے مدد مل سکتی ہے ، ہمارے احمد غریب یو نا نی کالج کے پر وفیسر حکیم فخر الا سلا م سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے ، ماشا ء اللہ اس موضو ع پر ان کی اچھی پکڑ ہے ۔
(۴) ۔۔۔اخبار ا ت، رسائل ،جرائد وغیرہ میں بھی تحقیقی انداز میں الحا دی نظر یا ت کی تر دید ضروری ہے ، خاص طور پر راسخ العقیدہ صائب الفکراور سائنسی نظریات سے واقفیت رکھنے والے علماء اپنے قلم اٹھائیں ۔
عالمی سطح پر الحا د کو رو کنے کی کوشش کے لیے تجا ویز
(۱)۔۔۔ جیسا کہ اوپر U.N.O کے بارے میں بتلا یا جا چکا کہ وہ محض دنیا پر مغر بی اجا رہ داری کے لیے قائم کیا گیا ہے ؛لہٰذا یا تو اس سے نا طہ توڑ دیا جا ئے یا اسے اس با ت پر آ ما دہ کیا جا ئے کہ وہ ’’انسا نی حقو ق کی عا لمگیر اعلا میہ ‘‘(Universal Declarution of Human Rights) سے ایسی نظا مِ دفعا ت کو ختم کرے ؛ جو الحا د کے فر و غ میں معا و ن ہو یا کم از کم ا س میں ایسی تبدیلی کرے جو مذہبی عقائد کا لحا ظ رکھے ؛ مثلاً آزا دی کے حدو دو قیو د متعین کی جا ئے اور وہ بھی مذہبی اور خا ص طور پر علما ء کو شا مل کرکے ۔
(۲) ۔۔۔اقوا م متحدہ کے انسا نی حقو ق کاچا رٹر اور جینو ا کنونشن کے فیصلے اور قر ا ردا د یں ،در اصل مغر بی فلسفۂ حیات اور ویسٹرن سو لا ئز یشن کا ترجما ن ہیں، جس کے پیچھے یہ سو چ کا ر فر ما ہے کہ مذہب کا تعلق صر ف عقائد، عبا دا ت اور اخلا قیا ت سے ہے ۔اور اس میں بھی ہر انسا ن آ زا د ہو ؛ا س لیے کہ مذہب اس کا ذاتی مسئلہ ہے ،جس سے ریا ست کو کوئی اتھا رٹی نہیں ؛البتہ انسا نی زندگی کے اجتما عی معاملا ت۔ مثلاً :سیا ست ، قا نو ن ، ، تجارت ، زراعت اورمعیشت کے ساتھ مذہب کا قا نو نی واسطہ نہیں؛ لہٰذا اجتماعی معاملا ت مذہب کی قید وبند سے آزا د رہیں گے ۔
مسلما نو ں کو خاص طورپر اور عا م طور پرتمام مذاہب کے پیرو کا ر وں کو U.N.O کے اس طریقۂ فکر سے اختلاف کر نا چا ہئے؛ اور اس کے لیے عالمی سطح پر حتی المقد و ر کوشش کرنی چاہئے ،کہ زندگی کا یہ اجتما عی وانفر ا دی معاملہ مذہب کے تا بع ہو کوئی اور مذہب کے متبعین کریں یا نہ کریں، مسلما نو ں کو تو ضرور U.N.O کواس پریا تو مجبو ر کر نا چا ہیے یا U.N.O سے علیحد گی اختیار کر لینی چا ہیے ۔
(۳)۔۔۔ تعلیم کے با ب میں U.N.O کو اس با ت پر آ ما دہ کر نا چا ہیے کہ وہ ایسا قا نو ن بنا ئے، جس میں تعلیمی نصا ب سے الحا دی افکا ر ونظر یا ت کو نکال دیا جا ئے۔ اور اخلا قِ حسنہ کو شا مل کیا جائے، اسی طر ح اخلاق سوز کلچر پرو گرا م کو بھی اور اسپور ٹس کو بھی تعلیمی سر گر میوں سے دور کر دیا جائے ۔
یہ تھیں الحا د کے بڑھتے ہوئے رجحا ن کو رو کنے کی چندتجا ویز ۔امید ہیکہ مذہب کے متبعین اور خاص طور پر مسلما ن اسی جا نب پیش رفت کریں گے ۔
اللہ ہماری ہر طر ح کی گمر ا ہی سے حفا ظت فر ما ئے اورایما ن پر خا تمہ فر ما ئے اور ہمیں خیر کے لیے جدو جہد و محنت کی توفیق عطا فر مائے اور قد م قد م پر ہماری مدد فر مائے ۔ آمین
نوٹ : مغرب کے سروے کے طریقہ کارسے اگرچہ ہمیں اتفاق نہیں مگر اس بات سے بھی انکارکی گنجائش نہیں کہ الحادی نظریات کے حاملین کی معاشرے میں کمی نہیں اس بات کے امکانات ہے کہ وہ بڑھا چڑھا کر بیان کررہے ہواورمسلمان کا تناسب گھٹا کر بیان کررہے ہو اوراگرہم ان کے ۱۶فیصد کو ۱۰ ؍فیصد تسلیم کرلیں تب بھی ۸۰ کڑور ہوتے ہیں تو کیایہ بھی کم ہے؟؟؟
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
ایک انتہائی سنگین مسئلہ: الحاد اور لادینیت کے سیل رواں کو کیسے روکا جائے؟قسط :۱
اس وقت دنیا میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے بعد سب سے بڑی تعداد ملحدوں کی !!!
مو لا نا حذیفہ مولا نا غلا م محمدصاحب وستا نوی ؔ

اللہ نے کا رخا نہ دنیا کو بے سو د پید ا نہیں کیا ، اور نہ ہی بے اصولی کے سا تھ اللہ اسے چلا رہے ہیں اگر چہ اللہ کی ذا ت کسی دنیا میں لگے بندھے اصو ل کی پا بند نہیں جتنی بھی چیزیں ان میں سے کوئی بھی چیز کسی فا ئدہ سے خالی نہیں ۔
اگر یہ اصو لی با ت سمجھ میں آ گئی تو اب جا ننا چا ہئے کہ انسا ن کو اللہ نے اس دنیا میں مر کز ی حیثیت دی ہے ، انسا ن مقصودِ کا ئنات اور اس کے ماسوا سب اس کی ضرو رت، حاجت کی تکمیل کے لیے اور اسی میں انسا ن کا امتحان بھی ہیکہ حضرتِ انسا ن اس کے لیے بنا ئی گئی اشیا ء کو صحیح طور پر استعمال کر تا ہے یا نہیں ؟ ؟ اگر وہ صحیح استعمال کرتا ہے؛ تو اس کو دار ین یعنی دنیا اور آ خر ت میں اس کا فا ئدہ پہنچنا ہے؛ اور اگر بلا ضرورت اور غلط استعما ل کر تا ہے تو دنیا وآخرت میں سز ا کا مستحق ہو نا ہے ۔
ہر ادار ہ ،فیکٹر ی ، مدرسہ ، یو نیور سٹی اور ملک و حکو مت کے اصو ل و قو انین ہو تے ہیں اگر اس کی پا بند ی کی جائے تو اس کے لیے بہتر ہو تا ہے اور اگر اس قا نو ن کو تو ڑ دیا جائے تو سز ا ہو تی ہے ؛ اور خلفشار بھی پیدا ہو تا ہے ۔
اللہ نے اتنا عظیم کا ر خا نہ ،دنیا بنا یا؛ تو یہ کیسے چل رہا ہے؟ ضر ور اس نے اس کے قو انین بنائے ہونگیں ؟ جس پر دنیا کے حا لا ت کا مدارہے۔ (اگرچہ اللہ کسی لگے بندھے اصول وقوانین کے پابند نہیں)انسا ن کو قر آ ن و حدیث کے ذریعہ اللہ نے اپنے اصو ل و قو انین سے مطلع کر دیا ہے ۔
دنیا کے حالات کب پر سکون اور سازگار رہیں گے؟ اور کب بد امنی اور ابتری کا شکار ہوں گے؟
آج جو دنیا کے بد تر ین حالا ت ہیں، ا س کا ذمہ دارخو د انسا ن ہے کیو ں کہ: اللہ کے قا نو ن کے مطابق دنیا کی حالا ت کا بگا ڑ انسا ن کے اعمال پر موقو ف ہے ۔ ارشا دِ الہٰی ہے (ظہر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی النا س )(الروم:۴۱) ’’خشکی اورتری میں فسا د برپا ہو گیا لو گو ں کے اعمال کی وجہ سے ۔‘‘ ایک اور جگہ ارشا د ہے : (وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفو عن کثیر )(الشوری:۳۰) ’’ جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہار ے کیے ہوئے اعمال کی پا داش میں ہوئی جبکہ اللہ بہت سے (گنا ہو ں کی سز ا ) سے درگز ر کر تا ہے ۔ ‘‘ایک اور جگہ ارشاد ہے (ولو یؤاخذاللہ النا س بما کسبوا ما تر ک علی ظہرہا من دابۃ ) ’’اگر اللہ تعالیٰ انسا ن کے اعمالِ سیۂ پر دنیا میں مو اخذہ لینے پر آ جا ئے تو زمین پر ایک رینگتا ہو ا جا نو ر بھی با قی نہ چھوڑے۔ ‘‘
معلو م ہو ا یہ تو ہمارے اعمال سیۂ میں سے بعض کی سزاہے، سب کی نہیں ورنہ تو بہت پہلے ہی یہ دنیا نیست و نا بو د ہو چکی ہو تی اور یہ جو حالا ت دنیا میں آئے ہیں وہ بطور سزا کے نہیں ہیں، بلکہ لو گو ں کو مقصدِ حیا ت یعنی اللہ کی بندگی اور اس کی رضا کی طرف راغب کر نے کے لیے ، لعلہم یر جعو ن ۔
بعضے اعمال کی یہ سز ا وہ بھی بطور سز اکے نہیں؛ تو آخر ت کی سز ا کا کیا عالم ہو گا ؟!!! اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرما ئے اور دنیا و آخر ت کے عذاب سے ہمار ی حفا ظت فر ما ئے ۔
روحا نی ،جسما نی، معاشی اور سیا سی حالا ت کے بگاڑ کے تین اہم اسبا ب
آج دنیا میں ہر شخص اور ہر علا قہ عجیب وغر یب بے اطمینا نی اور بد امنی کا شکار ہے، ہر شخص حالا ت کا رو نا روتا ہے؛ اور اصل اسباب کی تشخیص نہ کر نے کی وجہ سے حالا ت بد سے بد تر ہوتے جار ہے ہیں ؛ جب صحیح اسبا ب ہی نہیں معلوم تو علاج کیاہو گا اور جب علا ج نہیں ہوگا تو حالا ت کیسے درست ہو ں گے ؟ آئیے ،قرآ ن و حدیث کی روشنی میں اس کے اسبا ب و علا ج کو جا ننے کی کوشش کر تے ہیں ۔
حلاتِ دنیا کے مطالعہ سے معلو م ہو تا ہے، کہ دنیا کی ابتر ی کا سب سے اہم سبب تو’’ مقصدِ حیا ت سے غفلت اور اللہ سے دور ی ‘‘ہے؛ مگر اس کے ذیلی مو ٹے مو ٹے اسبا ب تین ہو سکتے ہیں :
(۱) ۔۔۔ الحاد اور دین سے دور ی
(۲) ۔۔۔ بے حیا ئی اور بد اخلا قی
(۳) ۔۔۔ رشو ت خوری اور سو د ی نظا م
مذکو رہ تین چیز یں اس وقت دنیا میں انسا ن کی تبا ہی میں اہم رو ل ادا کر رہی ہیں ، تینو ں کے اثرا ت کیا ہیں :
الحا د اور دینی علم سے جہا لت ،اور عمل صا لح سے فر ار ،سکو نِ قلبی اور اطمینا نِ روحا نی کے فقدا ن کا سبب ہے۔
بد اخلاقی و بے حیا ئی، ملکی اور عالمی امن و اما ن کے غار ت کا سبب ہے۔
اور رشو ت وسو د خو ری ، مالی بحران اور فقر و فا قہ میں اضافہ کا سبب ہے ۔
اگر عالمی منظر نا مہ اور ملکی و عالمی اخبار، رسائل و جرا ئد کا مطالعہ کریں ؛تو آپ دیکھیں گے کہ کہیں تو وہ لو گ جوصاحبِ ثر و ت و ما ل ہیںیا صاحب عز ت و شہرت ہیں؛ وہ چین، سکو ن اور اطمینا ن کی تلا ش میں سر گر دا ں ہیں؛ تو کہیں پور ی پوری حکومتیں یا بڑے بڑے تا جر، مالی بحرا ن کا شکا ر ہیں؛ تو کہیں زنا بالجبر ،قتل و غا ر ت گر ی ، فتنہ و فسا د برپاہے کو ئی دن ایسی بری خبر سے خالی نہیں گز ر تا ۔
علم کے نا م پر ’’الحاد ‘‘ کی گر م با زا ری
دین ،انسا ن کی ایک فطر ی ضرور ت ہے اور صر ف دین ہی نہیں بلکہ’’ دین اسلا م‘‘ انسا ن کے لیے ضروری ہے ؛کیو نکہ وہ اس دنیا میں کیو ں آیا ؟ دنیا میں کیسے آ یا؟ دنیا میں کیا کر تا ہے ؟ اس کو کس نے پید ا کیا ؟ کیسے پیدا کیا؟ اس کا دنیا میں مقا م کیا ہے؟ دنیو ی زندگی کیسے گز ا رے ؟ صر ف دنیا ہی سب کچھ ہے یا اس دنیا کے بعد بھی کچھ ہو گا ؟ مو ت کے بعد کیا ہو گا ؟ اچھائی کا انجا م کیا ہو گا؟ اور بر ا ئی کی سز ا کیا ہو گی ؟ یہ ایسے سوالا ت ہیں جس کے جوابات نہ عقل سے ممکن ہیں،نہ حو اس سے ممکن ؛نہ تجر بہ سے ممکن ہیں، نہ مشا ہد ہ سے ممکن؛ ان کے تشفی بخش جو ا با ت صرف اور صر ف ’’وحیِ الٰہی ‘‘ کی روشنی میں ممکن ہے اوراخیر ی ’’وحیِ الٰہی ‘‘ خا تم الا نبیاء والمر سلین ،احمد مصطفی ،محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نا ز ل ہوئی؛ اور اللہ نے اس کی مکمل حفاظت کی ۔ لہٰذا’’ اسلا م ‘‘ صر ف مسلما ن کی ضرو رت نہیں ہے؛ بلکہ ساری دنیا کے انسا نو ں کی ضرو ر ت ہے ۔
تا ریخ اس با ت پر شا ہد ہے؛ کہ دنیا کا کو ئی قا نو ن اور کوئی حکمت و فلسفہ انسا ن کو بر ا ئی سے نہیں روک سکا، انسا ن کو اگر ہر طر ح کی برا ئی سے کوئی چیز رو ک سکتی ہے؛ تو وہ ہے اللہ کے رو بر و جو ا ب دہی کی کلی فکر اور اپنی اس دنیوی زندگی کے بعدقیامت کے دن حساب ،اور اس پر جز او سزا کے تر تب کا عقیدہ ،اور تصور ؛جیسا کہ آپ حضرات صحابہ کی سیرتوں کے مطالعہ سے معلوم کر سکتے ہیں؛ یہ ہی نہیں ،بلکہ آج بھی دنیا میں جو جرائم پیشہ لوگ دامنِ اسلام سے وابستہ ہوتے ہیں ؛یکایک ان میں تبدیلی آجاتی ہے ۔کیوں ؟ اس لیے کہ ایمان کے بعد آخر ت کی فکر دامن گیر ہو تی ہے ۔ در اصل یہ سب مغر ب کے بے خدا افکا ر کا نتیجہ ہے ۔
جنا ب مختار فا روقی صاحب نے بالکل درست کہا ہے :
’’آج ضرورت اسی با ت کی ہے: کہ مغرب کے بے خدا علم (جو علم نہیں فن اور ہنر ہے ) اور خدا بیزا ر فلسفہ کے اپنی چکا چو ند تہذیب کے ذریعہ؛ جو تبا ہی انسا نی اور اخلا قی سطح پر مچا رکھی ہے؛ اسکو جتنا ممکن ہو ،جس سے ممکن ہو ،جہاں جہا ں ممکن ہو، اور جس جس ذریعہ سے ممکن ہو، اس کو عا م کر دیا جائے؛ تا کہ اس علم کی تبا ہ کاریو ں کے احسا س کے نتیجہ میں، اپنے خسار ہ اور اخلاقی بحرا ن کا احسا س ہو تا چلا جائے ۔ یہی آ ج کی ضرورت ہے ۔ ‘‘ (حکمت با لغہ ص: ۴ حقیقت علم نمبر )
ابھی چند دنوں پہلے کی با ت ہے؛ عر بی کی ایک مشہو ر و مقبو ل اسلا می ویب سا ئٹ ’’الا لوکہ ‘‘ www.alukah.com سے ایک مضمو ن مو صو ل ہو ا؛ جس میں کسی امریکی ادار ہ کی جا نب سے، دنیا بھر میں کیے گئے ایک ایسے سر وے کی رپور ٹ تھی، جس میں یہ تنا سب نکا لا گیا تھا کہ دنیا میں کس مذہب کے ما ننے والو ں کا کتنا تناسب ہے ؟ اور الحاد دہریت اور لا دینیت کا نظر یہ رکھنے والے کتنے ہیں ؟تو اس میں بتا یا گیا کہ اس وقت دنیا میں ملحدین اور دہر یہ لو گو ں کا تناسب 16فیصد ،اور جن کی تعدا د ایک سوبیس کرو ڑ ہو تی ہے ؛ عیسا ئیت کے ماننے والے 31.5 فیصد یعنی220کروڑ؛ اور اسلا م کے ما ننے والے 23فیصد 160کروڑ؛ یہو دیوں کا تنا سب 0.2تعدا د 14؍ملین اس کے بعد ہندو ،بو دھ ، اور دیگر مذاہب کے ما ننے والے ، تقریباً 30فیصدہیں۔ مز ید تفصیل میں لکھا ہے کہ سب سے زیا دہ ملحد’’ چین‘‘ میں ہیں، اس کے بعد فر انس میں ،اس کے بعد امر یکہ میں اس کے بعد جا پا ن میں ۔(اللا دینیین ثالث اکبرفءۃ فی العالم بعد المسیحیۃ والا سلا م )
اس رپور ٹ کے پڑھنے کے بعد اس شعر کی تصدیق کر نی پڑ یگی جس میں غالباً علا مہ اقبا ل نے کہاتھا ؂
یو ں قتل کر کے بچو ں سے وہ بدنا م نہ ہو تا
افسو س کہ فر عو ن کو کالج کی نہ سو جھی
مذکورہ رپورٹ پر پور ی دنیا میں واویلا مچنا چا ہئے تھا ، میڈیا کو اسے خو ب کوریج کر نا چا ہئے تھا؛ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا کیو ں ؟ اس لیے کہ جو لو گ مذہب سے منسلک ،انکی پکڑ بھی اپنے مذہب پر کمز و ر ہے ؛ اکثریت اپنے مذہب کی بنیا د ی مو ٹی مو ٹی با تو ں سے بھی نا واقف ہے ۔اور میڈیا ؟!!! وہ تو پور اانہیں ملحدو ں کے زیرِ تسلط ہے وہ بھی نہیں چا ہے گی کہ ایسی خبر کو اہمیت دے ۔
اب یہ چاہے کسی کے لیے ہو یا نہ ہو؛ ہم مسلما نو ں کے تو ضرور سو چنے کا مقا م ہے کہ ایسا کیو ں ہو رہا ہے ؟ معاشر ے میں ملحدو ں اور دہر یوں میں کیو ں اضافہ ہو رہا ہے ؟ ؟ کیو نکہ ہمارا فریضہ صرف اتنے پر ختم نہیں ہو تا ہے کہ ایما ن لا کر خو د عملِ صالح کر لیں ؛بلکہ قرآ ن نے ہماری تخلیق کے مقا صد میں سے ایک مقصد بیا ن کیا (کنتم خیر امۃ اخر جت للنا س )تم بہتر ین امت ہو جو لو گو ں کی نفع رسا نی کے لیے پیدا کی گئی ہو؛ اورنفع سے مراداگر چہ عا م ہے ؛مگر اصل مصدا ق نفعِ اخر و ی ہے؛ یعنی امر بالمعر و ف، نہی عن المنکر اور دعو ۃ الی الا یما ن؛ مگر افسوس ہے ہمیں خو د اپنے آ پ پر ،کہ نہ ہمیں اپنی اولا د کے ایما ن کو بچا نے کی فکر ہے، نہ اپنے خا ندا ن کے ایما ن کو بچا نے کی فکر ہے؛ اورنہ خو د اپنے ایما ن کی کمزوری کا احسا س ہے ؛اسی بد تر ین غفلت کا نتیجہ ہے کہ الحا د ز و ر پکڑ رہا ہے اور دین سے دوری میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔
الحا د اور دہریت میں اضافہ کیو ں ؟؟ یہ ایک اہم سو ال ہے کہ آخر یہ دہر یت نے اتنا سر کیوں اٹھا یا ہے ؟؟ تو اس کا سیدھا جو ا ب ہے تعلیمی نصا ب ،اور میڈیا میں مغربی فکر و فلسفہ کا فر وغ ، مغر بی فکر و فلسفہ کو ماسو نیت کے مافیا اور شیطا نی گروہ نے یرغمال بنا رکھا ہے، اور صدیو ں سے اپنے نا پا ک مقاصد کے لیے استعمال کرتا چلا آ رہا ہے؛ جس پر سنجیدگی کے ساتھ صرف سو چنے کی نہیں،بلکہ کوئی مضبو ط قد م اٹھا نے کی بھی ضرور ت ہے ۔
انسان کو اپنے رب سے کاٹنے کی منصوبہ سا زی
’’یہ ایک تحقیقی با ت ہے ،کہ مغرب کے ایک سو چے سمجھے منصو بے کے تحت، ایک گرو ہ نے انسا نو ں اور ان کی آئند ہ نسلوں کے لیے تبا ہی کا فیصلہ کیا، اور وہ فیصلہ یہ تھا: کہ مذہب (آ سما نی ہدایت ،خدا کا تصو ر ، آخر ت کا تصور ، انبیا ء اور وحی کا تصو ر وغیرہ وغیر ہ غیبیات کا تصو ر ) اور سا ئنس کا رشتہ کا ٹ دیا جا ئے؛ اور سا ئنس کے آ گے بڑھنے اور پھیلا ؤ کا عمل ،خدا اور آ سما نی وحی کے اصو ل و ضو ابط سے نہیں؛ بلکہ ما حو ل اور ضرورت کے تحت ہوگا، اسی طرح آئند ہ کے تجرباتی علو م ،و سوشل سائنس پر عقل کے تعامل کی مر احل میں کیا کر نا ہے اورکیا نہیں کر نا ؟ یہ فیصلہ ایک ایسے گرو ہ کے ہا تھو ں میں چلا گیا جو استحصا ل کا عادی تھا ‘‘(ایضاً ۴۱)
مذکو رہ گرو ہ نے علم کا احیا ء یا RENAISSANLE کے نا م ایک تحریک شرو ع کی جس کی بنیاد’’مذہب کی عدم مداخلت ‘‘پر رکھی؛ اولاً عیسا ئیت سے بے زا ر یور وپ میں اس کو حما یت حاصل ہوئی اور پھر یوروپی اقو ا م کے دنیاپر تسلط کے ساتھ یہ تحریک عالمگیر بن گئی؛پس پھر کیا تھا پور ی دنیاگمر ا ہی کے لپیٹ میں آ گئی ۔
تجدیدِ علو م کے حا میا ن کو جب سیکو لر بنیا د و ں پر علو م کو آگے بڑ ھا نے کے لیے فکری بنیاد و ں اور تاریخی اعتبار سے فکر ی تسلسل کی تلا ش در پیش ہوئی؛ تو انہوں نے مذہب دشمنی اور خدابیزا ری کے جذبہ کے تحت اپنے فکر ی رشتہ کو تین ہز ا ر سال پر انے یو نا نی فلا سفہ’’ ارسطو‘‘ اور’’ افلا طو ن‘‘ سے جوڑ دیا اور انہیں زندہ کر کے اسکو لو ں اور یونیور سٹیوں میں پڑھا نے لگے ؛اور انہیں کے استدلا ل اور تصو را ت کو بنیا د بنا کر جد ید فلسفہ کی بنیاد رکھ دی؛ اس طرح کریلا وہ بھی نیم چڑھا جیسا مسئلہ بن گیا ۔
اسی اصو لی فکر اور انحرا ف سے جو فلسفیا نہ سطح پر تبدیلی آئی و ہ یہ تھی :
* اب آ سما نی بات ، خدا ،اللہ ، GOD کا نا م سا ئنس اور فلسفہ میں ہر گز استعمال نہیں ہو گا ۔
* وحی ،ہدایت ، آ سما نی رہنما ئی ، خدا کی مر ضی ، آ سما نی حکو مت ، نبی پیغمبر علیہ السلا م کے الفا ظ بھی اپنی جگہ کتنے ہی مقد س صحیح؛ سا ئنس اور فلسفہ کے میدا ن میں متر و ک متصور ہوں گے ۔
* حیا ت بعد الممات یا مو ت کے بعد زندگی ، جنت ، دو زخ ، فرشتے اور قبر کی اصطلا حا ت کا استعمال ممنوع ہو گا ۔
* رو ح ، روحانی زندگی ، بز رگی ، ولا یت وغیرہ کے الفا ظ بھی نو کِ قلم پر نہیں آئیں گے ۔
اس ساری کوشش کا حاصل یہ ہوا کہ؛ اس ساری محنت کے نتیجے میں اب فلسفہ سا منے آ نے لگا، اور آج تک مغر ب کے فکر ی خزا نے سے بر آ مد ہو رہا ہے ۔۔۔ اس کے اہم نکا ت یہ ہیں کہ:
* خدا کے مقا بلے میں کا ئنا ت پر بحث کرتا ہے ؛خدا ہے یا نہیں اس سے بحث نہیں ۔
* آخر ت کے مقا بلے میں دنیا وی زندگی کی بہتر ی، فلا ح و بہبو د پر زیاد ہ تو جہ دی جا تی ہے ۔
*رو ح کے مقابلے میں جسما نی اور ما دی زندگی اور ا س کی لذا ت اور ا ن کا حصو ل اصل مطمع نظر قر ار دیا ہے ۔ *انبیائے کر ا م علیہم السلا م ، وحی ، فر شتے ، آ سما نی ہد ایا ت کے الفا ظ اب سائنس وفلسفہ کا موضو ع نہیں ؛بلکہ زندگی میں حلا ل و حرا م اوراختیار و رد کر نے کی بنیاد، سائنسی تحقیق اورسائنسدانو ں کے خیالا ت قر ار پاگئے ۔
(حکمت بالغہ حقیقت علم نمبر ص ۴۲ ؍۴۳ )
تجدیدِ علو م اورنشأۃِ ثا نیہ کی یہ تحر یک ،بے پنا ہ ما دّی تر قی کے جلوے میں اپنے اختیار کر دہ اصولوں کے مطابق رواں دواں ہو ئی؛ تو ایک بگٹٹ گھوڑے کی طرح آ گے ہی بڑھتی چلی گئی چنا نچہ ۔۔۔تصو ر کائنا ت ، انسا ن کی حقیقت اورآئیڈیل ،انسا نی زندگی کے لیے رہنما ئی کے میدا ن میں ایسے ایسے فلسفے اور تازہ بہ تا زہ نت نئے افکا ر سامنے آئے؛ کہ خدا کی پنا ہ! فکر ی سطح پر انسا ن پر ضمیر کی گر فت کا خا تمہ ، اخلاقی اصو لوں کے بندھنوں کا کھل جا نا؛ اورمادّی تر تری نے مغر ب کے انسا ن کو ما در پدر آ زا د بنا کر رکھ دیا ۔
صنعتی انقلا ب کے نتیجہ میں انسا نی استعمال کی چیز وں کی بھر ما ر نے مغرب کے عو ا م و خو اص کو حیرا ن کر دیا ؛ اور نت نئی ایجا دا ت کے احسا س نے مغرب کے اوپر کے طبقا ت میں ایک ایسا ثقافتی انقلا ب پیدا کر دیا، جس سے سارے یوروپ کی سابقہ اخلاقی اقدار کی عمارت زمین بو س ہوگئی ۔ (اور فلسفہ کی سطح پر لا دینیت اور لامذہبیت کی طرح انسا نی اور سما جی سطح پر لا اخلا قیت نے لے لی !)(حکمت بالغہ حقیقت علم نمبر ص۴۷)
اگر چہ علمی سطح پر سا ئنسی تجر بہ ایک VERIFIABLE FACT شمار ہو تا ہے؛ جو کہ دنیا کے کسی علاقے میں بھی مخصوص حالا ت کے تحت آز ما یا جا سکتا ہے اور ایک جیسے نتا ئج حاصل کئے جا سکتے ہیں؛ تا ہم فلسفہ و فکر کے میدان میں ا ن ٹھوس حقا ئق کے ساتھ جو تصو ر کا ئنا ت کی عمار ت فلا سفۂ مغرب نے بنا ئی اور اس میں انسا ن کا مقام متعین کیا؛ تو وہ ان کا اپنا فکر تھا ۔ ہو سکتا ہے یہ فکر خالصۃً ان کے قلب و ذہن کی پیدا وا ر ہو ؛ تا ہم اس کا بھی امکان ہے کہ یوروپی فکر کے پیچھے جو ما سٹر ما ئنڈ (MASTERMIND) تھا اور وہ آج بھی ہے ، اس نے مطلوبہ نتا ئج حاصل کر نے کے لیے ان فلا سفہ کو HIRE کیاہو؛جنہوں نے مطلو بہ نتا ئج نکال کر دکھا دیئے ۔ قرآئن دو نوں طرف کے مو جو د ہیں، تا ہم فلسفہ کے میدا ن میں یہ نتا ئج کبھی حقا ئق (FACTS ) کا درجہ حاصل نہ کر سکے؛ بلکہ نظریات (THEORIES) ہی کا در جہ آ ج تک ان کو دیا جا تا ہے ۔(مگر بڑ ھا چڑھا کر ضرور پیش کیا جا تا ہے ، جس کے نظر یہ سے وہ عقید ہ کی حدو د میں داخل ہو جا تا ہے ۔نا م اگر چہ نظر یہ دیا جا تا ہے مگر اس کے ساتھ سلو ک عقید ہ جیسا کیا جا تا ہے )(حکمت بالغہ حقیقت علم نمبر ص۴۷)
مغر ب کے ملحدا نہ نظریا ت
فکر مغر ب کے اجز اء وہ مشہو ر نظریا ت ہیں جو بیسو یں صدی کے چو تھے عشر ے تک سا منے آ کر مغربی معاشر ے میں سرایت کر چکے تھے، بلکہ معاشرہ ،زندگی کے ہرمیدا ن میں اپنے آپ کو ان کے حو الے کر چکا تھا؛ کہیں کوئی مخالفت بیسویں صدی کے آ غا ز میں مو جو د تھی بھی ؛تو وہ بیسو یں صدی کا نصف حصہ گز رتے گز ر تے دم توڑ چکی تھی ۔
*۔۔۔ڈارون کا نظریہ، ارتقا ء
* ۔۔۔میکڈو گل کا نظریہ ،جبلت
* ۔۔۔سگمنڈ فر ائڈ کا نظریہ، جنس
*۔۔۔کار ل مارکس کا نظریہ، دولت
*۔۔۔ایڈ لر کا نظریہ ،حب تفوق
مغربی فکر وفلسفہ کے بڑ ے بڑے امام ڈارون ، میڈو گل ، فر ائڈ ، ایڈ لر ، کار ل ما رکس اور میکا وی ہیں ۔ ڈارون کی طرف ارتقا ء کا نظریہ منسو ب ہے ؛ میکڈو گل نے جبلت کا نظریہ پیش کیا ہے ؛ فر ائڈ اور ایڈ لر نے لا شعو ر کے نظریا ت پیش کیے ہیں ؛ کار ل ما رکس کی طرف سو شلز م کا نظریہ منسو ب ہے ، اورمیکا ولی نیشنلز م کی مو جو د ہ شکل کا مبلغ سمجھا جا تا ہے ۔
یہ پا نچ تو وہ جو زیا دہ زور پکڑ سکے ہیں اور جنہوں نے مو جو د ہ الحا د کے فروغ میں اہم کردار ادا کیاہے ، ورنہ صرف یہ پا نچ نظریات نہیں ظا ہر ہو ئے ،بلکہ جنا ب سید محمد سلیم نے ’’مغربی فلسفہ تعلیم ایک تنقیدی مطالعہ ‘‘میں تقریباً ایسے سو ملحدانہ افکار کا ذکر کیا ہے؛(مغر بی فلسفہ کی وجہ سے دین کے بار ے میں ایک سو پچا س سے زا ئد گمراہیوں کو پر و فیسر حسن عسکر ی صاحب نے مر تب کیا ہے ) اس سے بھی اندا ز ہ لگا یا جا سکتا ہے کہ مغرب میں الحاد نے کیسا سر اٹھا یا ہو گا !!!
لا دینی تحر یک پر سید محمد سلیم تحر یر فر ما تے ہیں :
لا دینی تحریک
غیر محسو س اورغیر ما دّی حقا ئق کا بر ملا انکا ر کرنے کے بعد مذہب بے زا ری Theophobia جدید نظام فکر کا اہم عنصر پایا ۔ مغرب میں اب صرف وہ علم معتبر ہے ؛جس سے لا دینی فکر کو تقویت ملتی ہو ؛ سا ئنس کا ہر ہم سفر شعور ی یا غیر شعو ری طورپر مذہب بے زا ری کے جذبے سے متا ثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکا ۔ مغر ب کے حکماء اورفلاسفہ کی اس ذہنیت کو ’’لادینیت ‘‘ Secularism کے نا م سے موسو م کر تے ہیں۔ یہ لاادریت Agnosticism سے بالکل مختلف نظر یہ ہے ۔ یو نا ن کے ’’لا ادریہ‘‘ فلسفی لا علمی کے مدعی تھے ؛لیکن جدید دور کے حکما ء اورفلا سفہ مذہب دشمنی کے عَلَم بر دار ہیں ۔ خدا کے تصور کو حذف کر نا اور ما دیت کے ذریعہ کا ئنا ت کی ہرشئی کی تشریح کر نا اب سائنس کا منتہائے مقصو د بن گیاہے ؛ اس کا واضح ثبوت فر انس کے سائنس داں ’’لا پلا س‘‘ Laplace کے جو اب سے ملتا ہے ؛ اس نے اپنی طبیعا تی تصنیف نپو لین (۱۸۰۴ء تا ۱۸۱۴ء ) کو پیش کی ۔ نپو لین نے لا پلا س سے دریافت کیا ؛ میں نے آ ٹھ سو صفحا ت کی کتاب میں خدا کا لفظ کہیں نہیں پڑھا ؛اس کی کیا وجہ ہے؟ لاپلاس نے جو اب دیا : ’’آقا ! اب اس فا رمو لے کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔‘‘(مغربی فلسفۂ تعلیم کا تنقید ی جا ئزہ ص: ۳۲ )
لا دینیت
مغربی معاشرہ انکا رِ مذہب ،اورانکار مابعد الطبیعیات کی بنیاد پر استو ار ہو ا ہے؛ اس لیے مذہب دشمنی اور لا دینیت اس نظامِ حیات کی معروف اور مقبول قدر ہے ؛اس نظا مِ حیا ت کے رگ وریشہ میں لا دینیت سرایت کیے ہوئے ہے ؛ لا دینیت کوا س نظا م میں اصو لِ مو ضو عہ کے طو ر پر تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ ابتد ا میں ہی لا دینی تصو ر حیا ت کو نوخیز طلبہ کے ذہنو ں میں راسخ کر نے کی پیہم کوشش کی جا تی ہے ۔ سرکاری سطح پر احکام نافذ کیے جا تے ہیں ،جن کے ذریعہ سرکا ری درس گا ہوں میں ہرقسم کے مذہب کی تعلیم ممنو ع قر ار دی گئی۔ امر یکہ کی ریا ست’’ میسا چو سیٹس‘‘ Massachusetts نے پہل کی اور ۱۸۲۸ء کے تعلیمی ایکٹ کے ذریعہ سرکاری مدارس میں مذہبی تعلیم کا داخلہ بند کردیا گیا ۔ دوسرے مغربی ملکوں نے کم وبیش انہی خطو ط پر اپنے یہاں احکا م نا فذ کیے اور اپنے شہریو ں کو مذہب کی تعلیم حاصل کر نے سے رو ک دیا ۔(مغربی فلسفۂ تعلیم کا تنقید ی جا ئزہ ص: ۱۲۳)
مغر ب اور مغر ب کے زیرِتسلط دنیا کے مختلف خطوں میں جب لادینی تحریک کو فر و غ حاصل ہوا ؛تو بیسویں صدی میں U.N.O اقو ا مِ متحد ہ تشکیل دی گئی اور دنیا کے تمام ممالک کو اس کا ممبر بننے کی دعو ت دی گئی؛ بلکہ مجبو ر کیا گیا اور پھر مغربی منصو بہ سا ز ذہن نے ایک خو فنا ک منصو بہ بنا یا۔ مغرب کے اس منصوبہ ساز ذہن گرو ہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جب دیکھا کہ اس کا سیاسی تسلط دنیا سے ختم ہورہا ہے؛ تو پور ی دنیا کو اپنی ذہنی غلا می میں کس نے کے لیے 20؍اکتوبر 1945ء کے دن اقو ا م متحدہ کی بنیاد ڈا لی گئی؛ ابتدا ء میں 50ممالک اس کے ممبر تھے مگر اس کے بعد مجبو ر اً یا مفا د کے خاطر اس سے ملحق ہوتے رہے ؛اس وقت تقر یباً ۱۹۰؍( ایک سو نوے ) ممالک اس کے ممبر ہیں۔(www.ur.org)اقو ا م متحدہ نے ۱۰؍ دسمبر ۱۹۴۸ء کے دن Universai Declavation of Human Rights یعنی انسا نی حقو ق کا علمبر داراعلامیہ جاری کیا؛بس پھر کیا تھا! گویا پور ی دنیا سیا سی، معاشرتی، معیشی ، تجا رتی ، تعلیمی ، انتظامی ، رفا ہی ، مذہبی ؛ہر اعتبار سے سے مغر بی ملحدین کے قبضہ میں آ گئی ۔
U.N.O کے زیر نگر ا نی مند ر جہ ذیل ادارو ں کو وجود دیا گیا ۔
 

عبدالحسیب

محفلین
بہت ہی عمدہ تحریر ہے فارقلیط رحمانی بھائی جان۔ شریک محفل کرنے کا بہت شکریہ۔

پوری تحریر پڑھنے پر سب سے پہلے علامہ کے یہ اشعار یاد آگئے۔

دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردئ مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیر امم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ

الحاد کی ہوا گرم کرنے میں جو بھی نظریات سامنے آئے ہیں انکی تردید کے لیے تو بس یہ دو سطریں ہی کافی ہیں۔
تا ریخ اس با ت پر شا ہد ہے؛ کہ دنیا کا کو ئی قا نو ن اور کوئی حکمت و فلسفہ انسا ن کو بر ا ئی سے نہیں روک سکا، انسا ن کو اگر ہر طر ح کی برا ئی سے کوئی چیز رو ک سکتی ہے؛ تو وہ ہے اللہ کے رو بر و جو ا ب دہی کی کلی فکر اور اپنی اس دنیوی زندگی کے بعدقیامت کے دن حساب ،اور اس پر جز او سزا کے تر تب کا عقیدہ ،اور تصور ؛جیسا کہ آپ حضرات صحابہ کی سیرتوں کے مطالعہ سے معلوم کر سکتے ہیں


میں ڈاکٹر رفیع الدین کی تصنیف 'Ideology of The Future' پڑھ رہا ہوں۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے بڑی تفصیلی بحث کی ہے الحاد پر۔ خاص طور پر ، کارل مارکس، فرائڈ،ڈوگلر،ایڈلر کے نظریات کی دلائل کے ساتھ تردید کی گئی ہے۔ بہت اہم کتاب ہے ۔ جدیدت کے گورکھ دھندے کو سمجھنے کے لیے۔


 
Top