محمل ابراہیم
لائبریرین
ایک اور اندلس نہیں
مغرب کی سیاہی آسمان کی سفیدی کو رفتہ رفتہ ڈھکتے جا رہی تھی ۔تلاش رزق میں سر گرداں طیور اپنے اپنے آشیانے کی اور بڑھ رہے تھے۔تھکے ماندے چرواہے بھی اپنے ریوڑ کے ساتھ السائے ہوئے قدموں سے گھروں کی راہ ناپ رہے تھے۔ جبرالٹر کے ساحل پر اپنی ازلی شان سے کھڑی کچھ قدیم عالیشان عمارتوں کی فلک بوس میناریں جو کچھ دیر پہلے سونا بکھیر رہی تھیں اب تاریکی میں ڈوب چکی تھیں۔
جب ہر شئے اندھیرے میں گم ہونے لگی تو بیلا بھی اپنے خوبصورت چہرے پر برسوں کی تھکان لیے مند رفتاری سے اپنی پناہ گاہ کی طرف بڑھی جو اُس پہاڑی سے کوئی دس بیس میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ یہ اُس کا روز مره کا معمول تھا کہ وہ اس چھوٹی سی پہاڑی سے اطراف و جوانب میں پھیلے وسیع میدانوں ،کچے پکّے راستوں پر چلتی ہوئی بگھیوں اور بیل گاڑیوں غرض مصروف زندگی کی گہما گہمی کو طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک حسرت و یاس کی نگاہوں سے دیکھا کرتی تھی۔اس بیچ کبھی کبھی اُس کی آنکھوں کے کٹورے چھلکنے لگتے تو کبھی پنکھڑی جیسے نازک ہونٹوں پر مسکان در آتی ۔
بیلا کی حسرت بھری نگاہوں میں جو درد ،جو کسک تھی وہ کسی بھی راہ گیر کے قدم کو زنجیر کرنے کے لئے کافی تھی۔
دس سال کی ایک معصوم اور پر جمال لڑکی کے حزن و ملال اور اس قدر رنجیدہ ہونے کی آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟جو عمر صرف پڑھنے اور کھیلنے کی ہوتی ہے اُس عمر میں اس بےبسی اور پژمردگی کا سبب کیا ہو سکتا ہے؟ہر قریب سے گزرنے والے کے ذہن میں یہ سوال بلا دریغ در آتا۔کچھ اُسے یتیم اور مسکین سمجھ کر اُس سے ہمدردی جتاتے جسے وہ قدرے ناگواری سے برداشت کرتی۔اُس کا حلیہ ایسا بھی نہیں تھا کہ اُسے فقیر خیال کیا جائے مگر باوجود اس کے کچھ ضرورت سے زیادہ سخی اشخاص اُس کی طرف پیسے اور روٹی کے چند ایک نوالے بڑھاتے جنہیں وہ حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیتی اور ایک تلخ نظر اُن پر اس طرح ڈالتی کہ وہ شخص سر سے پاؤں تک ہل جاتا۔ روزانہ بیلا کو ایک ہی جگہ پر صبح سے شام تک بیٹھا ہوا دیکھتے دیکھتے کافی لوگ اسے جاننے لگے تھے۔وہ جس مخصوص جگہ پر بیٹھا کرتی تھی وہاں بے شمار رنگ برنگے پھول اپنا جوبن بکھیرتے تھے۔ وہ خود بھی تو ایک پھول تھی مگر کسی قدر مرجھایا ہوا۔ بہت سی تتلیاں اُن پھولوں پر منڈلاتی ہوئی بیلا کے رخسار کو بھی اپنی نازک پروں سے چھو جاتیں مگر اس خوبصورت لمس کا اُس پر کچھ اثر نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔بستی کے لوگ اسے چائلڈ آف نیچر کہتے تھے کیوں کہ وہ بدلتی ہوئی رتوں، تیزی سے گزرتے ہوئے بادلوں اور اکثر و بیشتر سورج کی چمکتی ہوئی کرنوں سے باتیں کیا کرتی تھی۔جب ڈوبتا ہوا سورج اپنے دکھ پر بین کرتا ہوا خون کا دریا بہاتا تو وہ بھی اُس کے غم میں برابر کی شریک ہوتی اور اس کی آنکھوں سے انگارے برسنے لگتے۔
حال ہی میں ایک مسلمان ٹورسٹ فیملی اندلس میں خاص شہر غرناطہ کے اُسی علاقے میں سیر و سیاحت کی غرض سے آئی ہوئی تھی جہاں بیلا کا پورا دن قلق و افسوس میں گزرتا تھا۔ یہ فیملی کل تین افراد پر مشتمل تھی۔جن میں تیس پینتیس سالہ ایک خوش شکل اور تعلیم یافتہ عورت اور اسی لحاظ کا ایک مرد تھا اُن کی تقریباً آٹھ یا نو سال کی ایک بیٹی تھی جس کا نام مریم تھا۔
مریم بہت شوخ اور چنچل تھی ہر وقت گھومنا پھرنا اور کھیلنا کودنا اُسے بھاتا تھا۔اپنے قیام کے اگلے روز سے ہی اُس نے غرناطہ کی سیر شروع کر دی ۔وہ بہت کھوجی طبیعت کی مالک تھی۔لوگوں سے ملنا باتیں کرنا ،نئے نئے مقامات دیکھنا اور نت نئی چیزوں کے بارے میں جاننے کا اُسے بہت اشتیاق تھا۔ وہ اپنی اسی طبیعت کی وجہ سے اکثر بستی سے کافی دور نکل جاتی تھی ۔ایسے ہی ایک روز وہ گھومتے پھرتے اپنے ٹورسٹ ہاؤس سے کئی میل کے فاصلے پر عین پہاڑی کے اُس خوبصورت حصے پر پہنچ گئی جہاں بیلا دنیا و مافیہا سے الگ تھلگ رنجیدہ سی بیٹھی تھی۔اُس کی بلا کی خوبصورتی نے مریم کو مبہوت کر دیا اور وہ اسے یک ٹک دیکھے گئی۔ایک پل کے لئے اُسے لگا کہ وہ کوئی موم کی نازک سی مورت ہو جو نہایت سلیقے سے اُس جگہ پر تراش دی گئی ہو۔اُس کی معصومیت اور مغمومیت نے مریم کے دل میں ایک ہیجان برپا کر دیا اور وہ کسی مقناطیسی کشش کے زیرِ اثر بیلا کے پاس پہنچی اور اپنی خوش الحاں آواز میں اسے سلام کیا۔
بیلا جو اب تک گرد و پیش سے کٹ کر بیٹھی تھی ذرا چونکی اور متحیر کن نگاہوں سے مریم کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ وہ اجنبی چہرہ جو بہت بشاش تھا بیلا کو بہت بھلا محسوس ہوا ۔۔۔۔۔مریم نے بیلا کی حیرت دیکھ کر خود کو من ہی من کوسا نادان امی نے بتایا تھا نہ کی اندلس مسیحوں کا دیس ہے یوں سلام کرنے کی کیا ضرورت تھی اور اُس نے نہایت عقلمندی سے بات کا رخ موڑتے ہوئے مسکرا کر کہا میرا نام مریم ہے میں اپنے والدین کے ساتھ غرناطہ سیر و سیاحت کے لئے آئی ہوں ۔
مگر بیلا کا کوئی خاص تاثر نہ پا کر مریم تھوڑی دیر رکی لیکن کُچھ ہی توقف کے بعد اپنی باتونی طبیعت کے سبب اُس سے پوچھ بیٹھی ۔۔۔۔تمہارا نام کیا ہے؟بیلا کا ازلی سکوت دم بھر کو ٹوٹا اور مریم نے اس موم کی گڑیا کے پنکھڑی جیسے ہونٹوں میں ذرا سی جنبش کے ساتھ ایک چار حرفی لفظ سنا ۔۔۔۔بیلا
مریم نے ستائشی انداز میں اُس کے نام کو دہرایا۔۔۔۔بیلا اور بہت متانت سے بولی ۔۔۔۔
بہت پیارا نام ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اُسے معلوم ہی نہیں تھا کہ بیلا کے معنی کیا ہوتے ہیں۔مگر اس باتوں کے پٹارے کو چپ کب ہونا تھا۔البتہ اس بے معنی تعریف کو سن کے بیلا نے اسے دکھ بھری نگاہوں سے دیکھا۔جو صاف بتا رہی تھیں کہ وہ اس تعریف کے کھوکھلے پن سے بہ خوبی واقف ہے۔اُن آنکھوں میں کچھ عجیب تشنگی تھی ایک ایسا دکھ جو مریم کے دل میں اٹھتا ہوا محسوس ہوا اپنی پوری زندگی میں اس نے کسی کے درد کو کبھی اس طرح محسوس نہیں کیا تھا جیسے اُس نے اس پری وش کے دکھ کو محسوس کیا اور وہ انسانیت کے جذبے سے سرشار ہو کر قدرے بے چینی سے بول پڑی بیلا تم اتنی غمگین کیوں ہو؟؟
بیلا مریم کے اس بے ساختہ اور نہایت دکھ کے ساتھ پوچھے ہوئے سوال پر حیران ہوئی مگر یہ حیرانی خوش گوار تھی۔بہت مُدت بعد بیلا اپنے لئے کسی کو یوں دکھی، فکرمند اور پریشان دیکھ رہی تھی۔ اُس کے ذہن کے پردے پر ایک مشفق صورت اُبھر آئی جو دونوں ہاتھوں سے اپنی تین یا چار سال کی بچی کا چہرہ تھامے اُس سے بڑے پیار سے اُس کی ناراضگی کا سبب پوچھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ماں کے لاڈ پر اُس ننھی سی گڑیا کی پلکوں سے آنسوؤں کے دو چار قطرے ٹپ ٹپ کرتے اُس کے بھرے بھرے گلابی رخسار کو بھگونے لگے ۔۔۔۔۔وہ آخری لاڈ تھا اُس کے بعد وہ محبت کی دیوی اپنی پیاری شکل اور میٹھی آواز کے ساتھ غائب ہو گئی رہ گئی تو فقط یادیں ۔۔۔۔اور بے موسم بارشیں جو بادلوں سے نہ ہو کر آنکھوں سے ہوتی تھیں ۔۔۔۔خشک آنکھوں سے۔ بیلا بھلا کیسے بھول سکتی تھی کہ اُس نے کن مشکلوں سے قرطبہ سے غرناطہ تک تن تنہا سفر کیا تھا کتنی اذیتوں سے وہ گزری تھی ۔۔۔۔کتنے دِن اُس نے کوڑے کے ڈھیر سے سڑی گلی روٹی کے ٹکڑے کھا کر صبح و شام کئے، اُس چھوٹی سی بچی نے وقت کی کتنی مار سہہ کر بالآخر وہ مسکن پایا جہاں اُسے رات بسر کرنے کے لئے اچھے اور گرم بستر مہیہ تھے یہ ایک چھوٹا سا مکان تھا جو دو متوسط قسم کے کمرے، ایک چھوٹے سے کچن اور ایک اٹیچڈ لیٹرین باتھ روم پر مشتمل تھا۔ اس مکان کی واحد مکین درمیانہ عمر کی ایک خوش اخلاق اور انسان دوست عورت تھیں جو ایک اولڈ ایج ہوم میں خدمت خلق کیا کرتی تھیں اس لئے معاشرے میں اُن کو کافی رعب اور عزت حاصل تھی۔ لوگ اُنہیں مدر ماروڈ (mother marwood) کہتے تھے۔ انہوں نے بیلا کو سڑک کے کنارے سویا ہوا پا کر اُسے محبت سے جگایا اور اپنے ساتھ اُسے اپنے گھر لے آئیں۔یہاں اُسے ہر قسم کی آزادی تھی اُس کے سپرد کوئی کام نہیں تھا صبح تڑکے وہ ناشتہ پیک کر کے اولڈ ایج ہوم کو روانہ ہو جاتیں اور بیلا بے خا نما برباد سڑکوں اور گلیوں کی خاک اڑاتی پھرتی اور غروب آفتاب کے بعد جب ہر سو اندھیرا چھانے لگتا تو واپس اُسی مسکن پر آ ٹھہرتی جہاں مدر ماروڈ کے پہنچنے میں کچھ ہی دیر باقی رہتی تھی۔روز مرہ کی اس آوارگی نے بیلا کو بالآخر ایک ایسی پہاڑی پر پہنچا دیا جہاں اُس نے ایک وسیع اور سپاٹ سا حصہ دیکھا جس پر قدرت نے نہایت خوبصورتی سے نرم نرم گھاس کی ہری اور مخملیں قالین بچھائی ہوئی تھی اور اس قالین میں جا بہ جا رنگ برنگے پھول ٹانک دیے تھے وہ جگہ بیلا کو اتنی پسند آئی تھی کہ اس نے اُس جگہ کو ہی اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں وہ صبح سے شام تک بیٹھی دور بہت دور افق کے اُس بار دیکھنے کی کوشش کرتی تھی۔ جہاں اُسے ایک خوبصورت دنیا نظر آتی ایک خیالی دنیا جس میں ایک چھوٹی سی بچی اپنے والدین کے ساتھ سرسوں کی لہلہاتی فصلوں کے درمیان اُچھل کود کرتی ہوئی کبھی پگڈنڈی سے اتر کر تنگ سڑک پر پہنچ جاتی تو کبھی کھیت کے عقبی حصے کو پار کر کے تالاب کے کنارے پر۔اسی اثناء میں اُس بچی کی ماں اُسے مدھر اور میٹھی آواز میں پکارتی۔۔۔۔عائشہ!!عائشہ!!
اُس نے سر جھٹک کر دیکھا سامنے بیٹھی مریم بہت متجسس سی اپنے جواب کی منتظر مریم کو یک ٹک تکے جا رہی تھی۔بیلا کے ہونٹوں پر ایک خفیف سا تبسم بکھرا جس میں دکھ تھا درد تھا شکستگی تھی ۔۔۔۔مریم نے اسی مسکراہٹ کے درمیان بیلا کو کہتے سنا مریم تم بہت خوش نصیب ہو۔۔۔بہت خوش نصیب۔۔۔مریم کو اس جواب پر حیرت ہوئی۔اُس نے سوچا یہ تو اُس کا جواب نہ تھا۔میں خوش نصیب کیسے ہوئی بیلا؟؟؟؟مریم کے تجسس نے ایک اور سوال اچھالا۔اس سے پہلے کہ بیلا کچھ کہتی کلیسا کے گھنٹے کا ارتعاش فضا میں بلند ہوا،ٹن۔۔۔ ٹن۔۔۔۔ ٹن۔۔۔۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سبھی راہ گیر پہاڑی کے خوبصورت دامن کو خیر آباد کہنے لگے مریم نے بیلا سے پوچھا یہ کیسی صدا ہے؟؟بیلا نے بتایا کہ کلیسا کی گھنٹی صبح کے اختمام پر روزانہ بجتی ہے یہ رات کے آنے کا پُز زور اعلان کرتی ہے۔مریم نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور اُس نے دیکھا کہ سورج مطلع مغرب میں مستغرق ہوتے ہوئے سپیدۂ فلک کو لالے کے پھول مار رہا ہے جس سے اُس کا سفید لبادہ قرمزی رنگ میں رنگ گیا۔۔طیور غول بنائے تیز رفتاری سے اپنے آشیانے کی اور بڑھنے لگے۔۔۔قرمزی رنگ رفتہ رفتہ سرمئی اور پھر سیاہی میں تبدیل ہونے لگا۔اسی اثناء میں بیلا نے مریم کے کاندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اب رات ہونے کو آئی ہے تمہیں بھی اپنے گھر جانا چاہیے۔ مریم نے مسکرا کر اُس کے بات کی تائید کی اور السائے ہوئے قدموں سے پہاڑی سے اترنے لگی ۔۔۔مگر دو چار قدم چلنے کے بعد رکی اور پیچھے پلٹ کر بیلا کو محبت سے دیکھتے ہوئے بولی کیا ہم کل پھر ملیں گے؟؟بیلا نے بھی اسی محبت اور اپنائیت سے جواب دیا ہاں ضرور۔۔۔۔۔دونوں مسکرا دیں۔مریم کا عکس جب لامحدود راستے میں گم ہو گیا تو بیلا نے بھی اپنے گھر کی راہ لی مگر آج وہ قدرے خوش تھی، بشّاش تھی۔آج کی رات بیلا اور مریم دونوں کے لیے بہت طویل رات تھی۔انتظار کے لمحے کاٹنے سے نہیں کٹتے۔۔۔۔دونوں بے چین تھیں مگر دونوں کی بے چینیاں مختلف تھیں۔۔۔مریم کو بیلا کی پُر اسرار شخصیت اور نا آشنا سی شناسائی کو جاننے کا اشتیاق تھا۔۔۔تو بیلا کو اپنی داستانِ غم سنانے کا،برسوں سے پکتے لاوے کو باہر نکالنے کا،اپنے آپ کو آشکار کرنے کا۔ایک کو کہانی سن کر چین ملنا تھا اور دوسرے کو کہانی سنا کر۔۔۔۔۔مگر کیا دونوں کو حقیقتاً سکون مل جانے والا تھا؟کیا سکون حاصل کرنا اتنا آسان ہوتا ہے؟؟کیا واقعی غم سنانے سے غم ہلکے ہو جاتے ہیں؟اس طرح کے بہت سے سوال ہیں۔مگر ہر سوال کا من چاہا جواب نہیں ہوتا یا پھر سرے سے کوئی جواب ہی نہیں ہوتا۔غرض رات خدا خدا کر کے گزر گئی۔مدر ماروڈ صبح تڑکے بیلا کو ناشتہ وقت پر کر لینے کی نصیحت کرتی ہوئی اولڈ ایج ہوم کو روانہ ہو گئیں۔اور بیلا آدھ یا پون گھنٹہ گزرنے کے بعد ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر اپنے اُسی معین مقام کی طرف چل دی جدھر وہ روزانہ جایا کرتی تھی۔ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ جب اپنے سفر کو روانہ ہوئی تو راستے میں وہی سارے مناظر اُس کی آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے نظر آنے لگے جو کچھ اُس نے اُس کتاب میں پڑھے تھے جو اُسے ایک ہندی نژاد خاتون نے اُس کے تجسس کو مٹانے کے لیے دی تھی۔ ہر روز انہی مناظر میں کھوئی ہوئی نہ جانے کب وہ پہاڑی کے وسط میں بچھی مخملیں قالین تک پہنچ جاتی اُسے اندازہ ہی نہیں ہو پاتا تھا۔صاف نیلے آسمان پر بادلوں کے سفید، شفاف ٹکڑے اس طرح پھر رہے تھے جیسے بھٹکا ہوا مسافر راستہ ڈھونڈھتا ہو۔ایک چھوٹے ننھے بادل کے ٹکڑے کو سفاک ہوا تیزی سے بہا لے جا رہی تھی اور کئی دوسرے بادل کے ٹکڑے تیزی سے اس کا تعاقب کر رہے تھے جیسے وہ اُس ننھے ٹکڑے کو پکڑنا چاہتے ہوں مگر دیکھتے ہی دیکھتے ننھا ٹکڑا کہیں گم ہو گیا اور اُس کے تعاقب میں سر گرداں چند ایک ٹکڑے بیکراں آسمان میں بھٹک گئے۔اُس نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لیں گرم گرم آنسو کے دو قطرے رخسار پر لڑھک گئے۔قدرت اُسی سانحے کو دہرا رہی تھی جو آج کے چھ سال پہلے واقع ہوا تھا جب وہ صرف چار سال کی تھی۔بہت خوش باش وہ اپنے والدین کے ساتھ میلے کی سیر کو نکلی تھی۔خوب گھوم پھر لینے کے بعد جب وہ گھر لوٹنے لگے۔اچانک فضا میں شور و غوغا بلند ہوا بہت ساری چیخیں سنائی دینے لگیں افرا تفری کا عالم ہو گیا اور پھر ایک بھاری تن و توش والا آدمی اُس چار سال کی بچی کو کاندھے پر اٹھائے تیزی سے بھیڑ کو چیرتا ہوا بھاگنے لگا اُس کے ماں باپ اور دیگر لوگوں نے اُس شخص کا تعاقب کیا جتنا وہ کر سکتے تھے۔۔۔۔اُس کی ماں دوڑتی جاتی تھی اور حلق پھاڑ پھاڑ کر لوگوں سے مدد کی بھیک مانگتی جاتی تھی۔اری کوئی تو بچا لو میری بچّی کو۔۔۔۔ کوئی تو بچا لو میری بچی کو۔۔۔۔عائشہ۔۔ عائشہ۔۔۔میری بچی۔۔۔۔میری بچی
اُدھر عائشہ پر خوف کی شدت سے غشی طاری ہو گئی۔ننھا ذہن کتنی دیر ماں باپ کو روتا چیختا اور اپنے پیچھے پیچھے دوڑتے دیکھتا۔اور پھر جب اُس کی آنکھ کھلی وہ ایک اندھیرے کمرے میں تھی۔صرف کھڑکی کا ایک پٹ ہی کھلا تھا جس سے کچھ روشنی چھن کر فرش پر گر رہی تھی۔عائشہ بے حس و حرکت یوں ہی تخت پر پڑی رہی تبھی کمرے کا دروازہ ہلکی سی چرمراہٹ کے ساتھ کھلا اور ایک سیاہ فام عورت نمودار ہوئی۔عورت کی شکل اندھیرے میں نظر نہ آتی تھی۔عائشہ کے خوف میں اضافہ ہوا مارے ڈر کے اُس کا خون اُس کی رگوں میں جمنے لگا اور وہ کپکپاتے ہوئے ہونٹوں کے درمیان صرف ایک ہی لفظ کہہ پائی .....ماں!!!!
وہ سیاہ فام عورت بچوں کو اغوا کراتی اور اُنہیں فروخت کرتی تھی۔اُس نے کچھ دن عائشہ کو اپنے پاس رکھا اور پھر ایک دن اُسے اپنے ایجنٹ الفانسو کے ہاتھوں اندلس کے ایک مشہور شہر قرطبہ میں ایک پادری کو بیچ دیا۔جس کا کام مسلمان بچوں کو مسیحی بنانا تھا۔ فادر میکڈونلڈ یوں تو نرم خو تھا مگر عائشہ کے لیے نہایت جابر ثابت ہوا کیوں کہ عائشہ عام بچوں کی طرح اُس کی باتوں میں آنے والی نہیں تھی۔وہ اُس کی مذہبی امور پر کی جانے والی باتوں سے متاثر نہیں ہوتی تھی۔عائشہ کی پرورش اُس کے ماں باپ نے مکمل اسلامی طریقے سے کی تھی۔اُس کی ماں نے جب وہ رحم میں تھی تبھی اُسے پورا قرآن کریم کئی مرتبہ سنایا تھا۔اسلامی تعلیمات اُس کے رگ رگ میں پیوست تھی۔اُس کی عمر تو کچی تھی مگر ایمان بہت پکا تھا۔جب فادر میکڈونلڈ کا کام نرمی سے نہ نکلا تو اُس نے عائشہ پر سختی کرنا شروع کر دی۔اکثر و بیشتر وہ اُسے پیٹتے اور بعض دفعہ تو اُسے بھوکا بھی رکھتے۔بھوک کی شدت میں اُسے اپنے ماں باپ بہت یاد آتے اور وہ گھنٹوں اُنہیں یاد کر کے روتی۔ دھیرے دھیرے فادر کا ظلم بڑھتا گیا اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جب عائشہ کو لگا کہ وہ اب کبھی اپنے ماں باپ سے نہیں مل سکتی،وہ کبھی واپس اپنے ملک نہیں جا سکتی تو اُس نے مصلحتاً اُن کی بات ماننے میں ہی بھلائی سمجھی۔اب عائشہ فادر میکڈونلڈ کی بات خامشی سے سنتی اور اُن سے اُن کے مذہبی عقائد کے متعلق سوال بھی کرتی جس سے رفتہ رفتہ فادر کو احساس ہونے لگا کہ اب عائشہ راہ راست پر آ گئی ہے وہ یسوع مسیح کو خدا کا بیٹا تسلیم کرنے لگی ہے تو انہیں دلی خوشی اور اطمینان حاصل ہوا۔اُنہوں نے عائشہ کا نام بیلا رکھ دیا جسے عائشہ نے خامشی سے تسلیم کر لیا۔اب بیلا کو گھر سے باہر نکلنے اور کھیلنے کودنے کی مکمل آزادی حاصل تھی۔ایک روز جب فادر کلیسا کو روانہ ہو گئے تو بیلا گھر سے باہر نکلی اور یونہی کچھ دوری طے کرنے پر اُس کی ملاقات ایک خاتون سے ہوئی جو شکل سے بہت شفیق اور ہمدرد نظر آتی تھیں۔اُن کا لباس مسیحی عورتوں سے مختلف تھا۔سفید عبایا پر ہلکے سرمئی رنگ کا سٹال چہرے کے گرد اس طرح سے لپیٹا تھا کہ سینے سے نیچے تک کا حصہ اُس میں چھپ جاتا تھا۔عجیب سی جاذبیت تھی اُن کی شخصیت میں کہ بیلا نے اپنا قدم خود بہ خود اُن کی جانب بڑھتا ہوا پایا۔وہ بیلا سے بہت محبت سے مخاطب ہوئیں۔اُس نے اس خاتون سے دیر تک مختلف موضوعات پر بات چیت کی اور پھر باتوں ہی باتوں میں اُس نے اندلس کے بارے میں بہت سارے سوالات پئے در پئے کیے۔بیلا کا تجسس دیکھ کر اُس خاتون نے اُسے ایک کتاب تھماتے ہوئے کہا اسے پڑھنا اس میں تمہارے ہر سوال کا جواب ہے،اندلس کی مکمل تاریخ ہے۔بیلا اُس سرخ جلد والی کتاب کو سینے سے لگائے گھر لے آئی ابھی فادر کے آنے میں کچھ وقت رہتا تھا اُس نے جلدی سے کتاب کو آلماری میں اپنے کپڑوں کے نیچے چھپا دیا۔رات کے پچھلے پہر جب فادر میکڈونلڈ گہری نیند میں سو رہے ہوتے تو وہ چپکے سے اُس کتب کا مطالعہ کرتی۔بیلا کی لگن کو دیکھتے ہوئے فادر نے اُسے پچھلے تین سالوں میں اُردو،انگلش،اور دیگر زبانوں کا اتنا علوم تو سکھا دیا تھا کہ وہ آرام سے اُن زبانوں کو پڑھتی اور سمجھ لیتی تھی۔بیلا تو اندلس کے بارے میں اس لیے جاننا چاہتی تھی تا کہ یہاں سے فرار کی کوئی صورت نظر آئے مگر اُس کتاب کو وہ جیوں جیوں پڑھتی گئی اُس کا دل ہی بدلتا گیا۔اب بیلا کا اپنے ماں باپ سے اور ملک سے بچھڑنے کا غم ہلکا ہو گیا تھا کیوں کہ اُس کی جگہ ایک بہت بڑے غم نے لے لی تھی۔۔۔اور وہ غم تھا اندلس کا غم،ایک پوری قوم کا غم،مسلمانوں کا غم۔۔۔۔۔۔۔۔۔کس طرح موسیٰ بن نصیر،عیسٰی بن مزاحم،طارق بن زیاد اور اُن کے جاں نثاروں نے اپنی جان پر کھیل کر اس سرزمین کو عیسائیت سے پاک کیا تھا۔کس آن بان سے اُنہوں نے اسلام کے پرچم کو پورے اندلس میں لہرایا تھا۔مگر آہ کونٹ جولین سے کیا گیا وعدہ کتنا بھاری پڑ گیا ہمیں۔۔۔کاش کہ طارق بن زیاد اور عیسٰی بن مزاحم اُس مسیح كونٹ جولین کو اندلس کا ایک خاص علاقہ دینے کا مشورہ خلیفۂ وقت کو نہ دیتے بلکہ اُس کی وفا شعاری اور انسان دوستی کا صلہ کِسی اَور طرح ادا کرتے۔کاش کہ مسجد قرطبہ آج بھی مسجد ہی رہی ہوتی۔۔۔کاش اُس کے صحن میں آج بھی اذان کے کلمات گونج رہے ہوتے۔کاش کہ اندلس پر مسلمانوں کی کی جانے والی آٹھ سو سالہ حکومت کا انجام اتنا سنگین نہ ہوتا ۔۔۔کاش کہ اُسے کبھی زوال نہ آتا۔۔۔۔۔۔اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سمندر امڈ پڑا۔۔۔۔۔۔اُس نے اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسوؤں کو صاف کیا۔دھندلائے ہوئے منظر صاف ہو چکے تھے۔اُس نے چاروں طرف دیکھا صبح کی رونق ہر سو نظر آ رہی تھی۔رفتہ رفتہ اطراف و جوانب میں چہل پہل بڑھ رہی تھی۔متورم آنکھوں سے وہ پگڈنڈی پر جاتی ہوئی بگھی کو دیکھ رہی تھی کہ اچانک اُسے ہلکی سے پھڑپھڑاہٹ سنائی دی اُس نے دیکھا ایک رنگ برنگے پنکھوں والی خوبصورت تتلی کبھی اُس کے ہاتھ کے پشت پر بیٹھتی ہے تو کبھی سر کے ارد گرد گھومنے لگتی ہے۔۔۔وہ اُسے پیار سے دیکھے گئی۔۔۔زِندگی سے بھرپور اس خلقت کا کوئی مذہب نہیں کوئی دیس نہیں۔۔۔۔کتنی بے فکر کتنی آزاد ہے یہ ۔۔۔۔بیلا کے لبوں پر ہلکی سے مسکراہٹ بکھر گئی۔تبھی اُس نے اپنی پشت پر ایک مدھم چاپ سنی جو جانی پہچانی لگتی تھی اور متواتر وہ چاپ نزدیک اور نزدیک آتی جاتی تھی۔بیلا نے پیچھے مڑ کر دیکھا چہرے پر ایک دلفریب مسکراہٹ سجائے مریم اُس کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔بیلا نے بھی جوابی مسکراہٹ اچھالی۔مریم نے بیلا کے پاس آتے ہی بے تکلفی سے اپنا ہاتھ بیلا کے شانے پر رکھتے ہوئے نہایت خوش اخلاقی سے پوچھا کیسی ہو بیلا؟؟بیلا کو یہ اندازِ تخاطب بہت پیارا لگا۔اُس نے بھی اسی متانت اور محبت سے جواب دیا۔ٹھیک ہوں۔تم کیسی ہو؟تمہارے سامنے ہوں خود دیکھ لو۔ مریم کے اس جواب پر بیلا کو ہے ساختہ ہنسی آ گئی۔برسوں بعد بیلا اس طرح ہنسی تھی۔ہنسنے سے دل کا بوجھ کتنا ہلکا ہو جاتا ہے آج اُسے احساس ہوا۔کافی دیر دونوں گپ شپ کرتی رہیں۔اور پھر باتوں ہی باتوں میں مریم نے ادھُوری چھوڑی ہوئی گفتگو کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے وہی سوال دہرایا بیلا میں خوش نصیب کیسے ہوں؟بیلا پہلے تو کچھ دیر خاموش رہی مگر پِھر گویا ہوئی ہر طرح سے مریم۔تم ہر طرح سے خوش نصیب ہو۔تم اپنے والدین کے ساتھ اپنے ملک میں رہتی ہو اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرتی ہو کوئی فکر نہیں کوئی خوف نہیں ۔بیلا کے رکتے ہی مریم بول پڑی کیا تم اپنے ماں باپ کے ساتھ نہیں رہتی؟بیلا نے نفی میں سر ہلا دیا۔اس سے پہلے کی مریم اُس سے کچھ اور پوچھتی اُس نے اپنے ملک سے قرطبہ پہنچنے تک کی ساری روداد سنا ڈالی۔نیز اُس نے اندلس کی تاریخ بھی اُسے بتائی کس طرح اندلس کو مسلمانوں نے فتح کیا اور پھر کس طرح سکوتِ غرناطہ کے بعد وہ مکمل طور پر ایک بار پھر مسیحوں کے قبضے میں چلا گیا۔بیلا جیسے جیسے اندلس کا قصہ بیان کرتی گئی ویسے ویسے مریم کی آنکھیں برستی گئیں جیسے کہ ساون کا پہلا بادل ٹوٹ کر برستا ہے تیز ۔۔۔۔اور تیز۔۔۔بہت تیز۔ بیلا کی داستان غم سن کر مریم کافی نڈھال سی ہو گئی۔مگر اُسے ابھی یہ بات سمجھ نہ آئی کہ بیلا قرطبہ سے غرناطہ کیسے آئی۔اور یہ بات وہ اُس سے پوچھنا بھی نہیں چاہتی تھی کیوں کہ وہ اور زخمی ہونا نہیں چاہتی تھی اور نہ ہی بیلا کے زخم کو تازہ کرنا مگر بیلا خود بہ خود ہی بتانے لگی کہ تاریخ اندلس پڑھنے کے بعد اُسے ہر مسیحی سے نفرت ہونے لگی۔اُسے فادر میکڈونلڈ کی کہی جانے والی ہر بات پر غصّہ آتا ۔فادر کی شکل دیکھتے ہی اُس کی آنکھوں میں لال لال ڈوریاں پڑھنے لگتیں۔اُس کا تنفس تیز تیز چلنے لگتا۔اس کیفیت سے چھٹکارے کا ایک ہی حل تھا کہ وہ قرطبہ چھوڑ دے اور ایک دن ایسا ہی ہوا جب فادر کلیسا کے لیے روانہ ہوئے۔وہ گھر سے بھاگ کھڑی ہوئی اُس کے پیچھے اُس کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں تھا اس لیے اسے وہاں سے نکلنے میں دشواری نہیں آئی۔مگر اُسے دقّت کا سامنا تب کرنا پڑا جب وہ دوڑتے دوڑتے تھک گئی اور اسے بھوک اور شدید پیاس کا احساس ہوا۔وہ یوں ہی بھوکی پیاسی چلتی رہی۔ چلتے چلتے اُسے ایک جگہ پانی کا نل نظر آیا۔ اُس نے ہاتھوں کا کٹورا بنا کر پانی پیا وہ پانی نہیں بلکہ شہد و شیر تھا۔اُس نے اپنے جسم میں نئی طاقت اور توانائی محسوس کی اور پھر اپنی منزل کی اور گامزن ہوئی ایک ایسی منزل جس کا اُسے خود بھی علم نہ تھا۔مگر کچھ ہی راستہ طے کرنے کے بعد اُسے بھوک ستانے لگی اور جب بھوک شدت کی انتہا پر پہنچ گئی تو اُس نے کچرے کے ڈھیر میں اپنا رزق تلاشا۔خیر پیٹ میں چند نوالے جانے سے کچھ راحت تھی۔اُس نے تھوڑی اور منزل طے کی مگر کچھ دور چلنے کے بعد اچانک آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور ذہن تاریکی میں ڈوبتا گیا۔سٹریٹ لائیٹس کی روشنی بھی تاریکی میں گم ہو گئیں۔اور پھر جب آنکھ کھلی تو اُس نے خود کو ایک کمرے میں پایا جو بہت روشن تھا۔اور کمرے میں بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔جب ذرا دائیں بائیں نظر دوڑائی تو ایک ادھیڑ عمر خاتون کو آرام کرسی پر بیٹھا ہوا پایا۔مجھے جاگتا ہوا دیکھ کر وہ بہت نرم سی مسکان ہونٹوں پر سجاتے ہوئے گویا ہوئیں۔۔تھنگز گوڈ تُم ہوش میں آ گئی
میرے پوچھنے پر اُنہوں نے بتایا کہ وہ مجھے قرطبہ کے کسی علاقے سے جہاں میں بے ہوش پڑی تھی اٹھا لائی ہیں۔اُنہوں نے اپنی تعریف مدر ماروڈ بتائی۔اور یہ بھی کہ وہ اپنی زندگی قوم کے نام وقف کر چکی ہیں۔میں نے باتوں ہی باتوں میں اُن سے فادر میکڈونلڈ کے بارے میں پوچھا۔مگر انہوں نے اس نام سے مکمل لا علمی ظاہر کی اور ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ یہ شہر غرناطہ ہے جو قرطبہ سے تقریباً دو سو کلو میٹر فاصلے پر ہے۔میرے دل کو تسلی ہوئی کم از کم مدر ماروڈ فادر میکڈونلڈ سے تو بہتر تھیں۔ان کی شکل سے مجھے وہ نفرت نہیں ہوتی جو فادر میکڈونلڈ کا چہرہ دیکھ کر ہوتی تھی۔اپنی مکمل کہانی سنا کر بیلا خاموش ہو گئی۔مریم نے دیکھا اُس کی گردن میں ایک لاکٹ پڑی تھی جس کے پینڈینٹ پر اُردو میں اُس کا نام کھدا ہوا تھا "عائشہ"۔گرجا گھر سے پھر ایک بار گھنٹے کی صدا بلند ہوئی۔ طیور چہچہاتے ہوئے اپنے گھروں کی سمت روانہ ہونے لگے۔مریم بھی اپنی جگہ سے اٹھی مگر اُس نے محسوس کیا اُس کا پیر ایک ایک من کا ہوا تھا۔ایک قدم چلنا بھی دشوار لگتا تھا۔اُس کا ذہن ماؤف ہو رہا تھا۔ذہن کے ننھے پردے پر بیلا کی داستانِ غم بلکہ اندلس کی داستان غم پئے در پئے چوٹ کیے جا رہی تھی۔مریم نے خالی خالی نگاہوں سے بیلا کو دیکھتے ہوئے پوچھا بیلا کیا تم میرے ساتھ رہنا پسند کروگی؟
اس سوال پر بیلا کا ردّ عمل کیا تھا یہ نا قابلِ بیان ہے۔ ایک بار پھر اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سمندر ہچکولے لیتا ہوا اُبل پڑا اور کپکپاتے ہوئے لبوں پر ایک حسین اور پُردرد مسکراہٹ بکھر گئی۔
اُس نے اثبات میں سر ہلا دیا اور بے ساختہ مریم سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگی۔مریم نے اُس کا آنسو صاف کیا اور دونوں دھیرے دھیرے پہاڑی سے نیچے اترنے لگیں۔گھر پہنچ کر مریم نے اپنے والدین سے عائشہ کا مختصر حال احوال بیان کیا ۔مریم کے والدین ایک نیک دل انسان تھے اُنہوں نے عائشہ کو اپنی فیملی کا حصہ بنانے میں ذرا بھی تامّل نہیں کیا۔اگلے روز مریم کو واپس اپنے ملک ہندوستان لوٹنا تھا۔عشائیہ سے فارغ ہو کر مریم کی والدہ تو سامان کی پیکنگ کرنے میں مصروف ہو گئیں جب کہ عائشہ اور مریم سونے کی تیاری کرنے لگیں۔ عائشہ نے مریم کا شکر ادا کرتے ہوئے اُسے گلے سے لگا لیا کہ اُس کی بدولت آج پھر وہ ایک بار عائشہ بن کر زندگی گزار سکے گی۔اُس کے اپنے ماں باپ نہیں ملے تو کیا غم خدا نے اُسے نئے ماں باپ تو عطا کر دیے تھے اور ایک پیاری سہیلی اور بہن بھی۔عائشہ آج ایک لمبی مدت کے بعد پر سکون نیند سوئی تھی۔مگر مریم کی آنکھوں میں نیند کا کہیں نام و نشان ہی نہ تھا۔اُس کے ذہن میں صرف ایک ہی بات گردش کر رہی تھی کہ اندلس پر مسلمانوں کی حکومت آٹھ سو سال تک رہی اور آج اندلس میں مسلمان کا عکس بھی نہیں ہے۔مسجد قرطبہ کو کلیسا میں منتقل کر دیا گیا۔اندلس اور اُس کے اکثر شہروں کے نام بدل دیے گئے۔اُس کے دل پر کوئی مسلسل کلہاڑی سے ضربیں لگا رہا تھا اور ہر ضرب پر وہ بے اختیار کراہتے ہوئے بےچینی سے کروٹ بدلنے لگتی۔اُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اُسے اندلس کی نہیں بلکہ ہندوستان کی کہانی سنائی گئی ہو۔ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت آٹھ سو سال رہی اور آج مسلمانوں کو طرح طرح سے ٹارچر کر کے انہیں ملک بدر کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔بابری مسجد رام مندر میں منتقل ہونے کو ہے۔ہندوستان کے بیشتر شہروں اور مشہور جگہوں کہ نام تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ اُس کے ذہن کے معصوم سے پردے پر صرف ایک ہی سوال اُبھر رہا تھا کیا ہندوستان سے بھی مسلمانوں کا ویسے ہی صفایا ہو جائےگا جیسے اندلس سے ہوا؟؟ اُس کی آنکھوں سے خون کا دریا امڈ پڑا اور منہ سے ایک دل شگاف چیخ بلند ہوئی۔۔اُس کی چیخ سن کر عائشہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ بیتاب ہو کر اُس سے پوچھنے لگی کیا ہوا مریم؟؟کیا ہوا تمہیں؟ مریم کا ذہن تاریکی میں ڈوبنے لگا اُس نے خود کو ایک ہی جملہ کہتے ہوئے سنا۔۔۔ایک اور اندلس نہیں۔۔۔۔ ایک اور اندلس نہیں۔۔۔۔۔
از قلم سحؔر
مغرب کی سیاہی آسمان کی سفیدی کو رفتہ رفتہ ڈھکتے جا رہی تھی ۔تلاش رزق میں سر گرداں طیور اپنے اپنے آشیانے کی اور بڑھ رہے تھے۔تھکے ماندے چرواہے بھی اپنے ریوڑ کے ساتھ السائے ہوئے قدموں سے گھروں کی راہ ناپ رہے تھے۔ جبرالٹر کے ساحل پر اپنی ازلی شان سے کھڑی کچھ قدیم عالیشان عمارتوں کی فلک بوس میناریں جو کچھ دیر پہلے سونا بکھیر رہی تھیں اب تاریکی میں ڈوب چکی تھیں۔
جب ہر شئے اندھیرے میں گم ہونے لگی تو بیلا بھی اپنے خوبصورت چہرے پر برسوں کی تھکان لیے مند رفتاری سے اپنی پناہ گاہ کی طرف بڑھی جو اُس پہاڑی سے کوئی دس بیس میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ یہ اُس کا روز مره کا معمول تھا کہ وہ اس چھوٹی سی پہاڑی سے اطراف و جوانب میں پھیلے وسیع میدانوں ،کچے پکّے راستوں پر چلتی ہوئی بگھیوں اور بیل گاڑیوں غرض مصروف زندگی کی گہما گہمی کو طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک حسرت و یاس کی نگاہوں سے دیکھا کرتی تھی۔اس بیچ کبھی کبھی اُس کی آنکھوں کے کٹورے چھلکنے لگتے تو کبھی پنکھڑی جیسے نازک ہونٹوں پر مسکان در آتی ۔
بیلا کی حسرت بھری نگاہوں میں جو درد ،جو کسک تھی وہ کسی بھی راہ گیر کے قدم کو زنجیر کرنے کے لئے کافی تھی۔
دس سال کی ایک معصوم اور پر جمال لڑکی کے حزن و ملال اور اس قدر رنجیدہ ہونے کی آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟جو عمر صرف پڑھنے اور کھیلنے کی ہوتی ہے اُس عمر میں اس بےبسی اور پژمردگی کا سبب کیا ہو سکتا ہے؟ہر قریب سے گزرنے والے کے ذہن میں یہ سوال بلا دریغ در آتا۔کچھ اُسے یتیم اور مسکین سمجھ کر اُس سے ہمدردی جتاتے جسے وہ قدرے ناگواری سے برداشت کرتی۔اُس کا حلیہ ایسا بھی نہیں تھا کہ اُسے فقیر خیال کیا جائے مگر باوجود اس کے کچھ ضرورت سے زیادہ سخی اشخاص اُس کی طرف پیسے اور روٹی کے چند ایک نوالے بڑھاتے جنہیں وہ حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیتی اور ایک تلخ نظر اُن پر اس طرح ڈالتی کہ وہ شخص سر سے پاؤں تک ہل جاتا۔ روزانہ بیلا کو ایک ہی جگہ پر صبح سے شام تک بیٹھا ہوا دیکھتے دیکھتے کافی لوگ اسے جاننے لگے تھے۔وہ جس مخصوص جگہ پر بیٹھا کرتی تھی وہاں بے شمار رنگ برنگے پھول اپنا جوبن بکھیرتے تھے۔ وہ خود بھی تو ایک پھول تھی مگر کسی قدر مرجھایا ہوا۔ بہت سی تتلیاں اُن پھولوں پر منڈلاتی ہوئی بیلا کے رخسار کو بھی اپنی نازک پروں سے چھو جاتیں مگر اس خوبصورت لمس کا اُس پر کچھ اثر نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔بستی کے لوگ اسے چائلڈ آف نیچر کہتے تھے کیوں کہ وہ بدلتی ہوئی رتوں، تیزی سے گزرتے ہوئے بادلوں اور اکثر و بیشتر سورج کی چمکتی ہوئی کرنوں سے باتیں کیا کرتی تھی۔جب ڈوبتا ہوا سورج اپنے دکھ پر بین کرتا ہوا خون کا دریا بہاتا تو وہ بھی اُس کے غم میں برابر کی شریک ہوتی اور اس کی آنکھوں سے انگارے برسنے لگتے۔
حال ہی میں ایک مسلمان ٹورسٹ فیملی اندلس میں خاص شہر غرناطہ کے اُسی علاقے میں سیر و سیاحت کی غرض سے آئی ہوئی تھی جہاں بیلا کا پورا دن قلق و افسوس میں گزرتا تھا۔ یہ فیملی کل تین افراد پر مشتمل تھی۔جن میں تیس پینتیس سالہ ایک خوش شکل اور تعلیم یافتہ عورت اور اسی لحاظ کا ایک مرد تھا اُن کی تقریباً آٹھ یا نو سال کی ایک بیٹی تھی جس کا نام مریم تھا۔
مریم بہت شوخ اور چنچل تھی ہر وقت گھومنا پھرنا اور کھیلنا کودنا اُسے بھاتا تھا۔اپنے قیام کے اگلے روز سے ہی اُس نے غرناطہ کی سیر شروع کر دی ۔وہ بہت کھوجی طبیعت کی مالک تھی۔لوگوں سے ملنا باتیں کرنا ،نئے نئے مقامات دیکھنا اور نت نئی چیزوں کے بارے میں جاننے کا اُسے بہت اشتیاق تھا۔ وہ اپنی اسی طبیعت کی وجہ سے اکثر بستی سے کافی دور نکل جاتی تھی ۔ایسے ہی ایک روز وہ گھومتے پھرتے اپنے ٹورسٹ ہاؤس سے کئی میل کے فاصلے پر عین پہاڑی کے اُس خوبصورت حصے پر پہنچ گئی جہاں بیلا دنیا و مافیہا سے الگ تھلگ رنجیدہ سی بیٹھی تھی۔اُس کی بلا کی خوبصورتی نے مریم کو مبہوت کر دیا اور وہ اسے یک ٹک دیکھے گئی۔ایک پل کے لئے اُسے لگا کہ وہ کوئی موم کی نازک سی مورت ہو جو نہایت سلیقے سے اُس جگہ پر تراش دی گئی ہو۔اُس کی معصومیت اور مغمومیت نے مریم کے دل میں ایک ہیجان برپا کر دیا اور وہ کسی مقناطیسی کشش کے زیرِ اثر بیلا کے پاس پہنچی اور اپنی خوش الحاں آواز میں اسے سلام کیا۔
بیلا جو اب تک گرد و پیش سے کٹ کر بیٹھی تھی ذرا چونکی اور متحیر کن نگاہوں سے مریم کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ وہ اجنبی چہرہ جو بہت بشاش تھا بیلا کو بہت بھلا محسوس ہوا ۔۔۔۔۔مریم نے بیلا کی حیرت دیکھ کر خود کو من ہی من کوسا نادان امی نے بتایا تھا نہ کی اندلس مسیحوں کا دیس ہے یوں سلام کرنے کی کیا ضرورت تھی اور اُس نے نہایت عقلمندی سے بات کا رخ موڑتے ہوئے مسکرا کر کہا میرا نام مریم ہے میں اپنے والدین کے ساتھ غرناطہ سیر و سیاحت کے لئے آئی ہوں ۔
مگر بیلا کا کوئی خاص تاثر نہ پا کر مریم تھوڑی دیر رکی لیکن کُچھ ہی توقف کے بعد اپنی باتونی طبیعت کے سبب اُس سے پوچھ بیٹھی ۔۔۔۔تمہارا نام کیا ہے؟بیلا کا ازلی سکوت دم بھر کو ٹوٹا اور مریم نے اس موم کی گڑیا کے پنکھڑی جیسے ہونٹوں میں ذرا سی جنبش کے ساتھ ایک چار حرفی لفظ سنا ۔۔۔۔بیلا
مریم نے ستائشی انداز میں اُس کے نام کو دہرایا۔۔۔۔بیلا اور بہت متانت سے بولی ۔۔۔۔
بہت پیارا نام ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اُسے معلوم ہی نہیں تھا کہ بیلا کے معنی کیا ہوتے ہیں۔مگر اس باتوں کے پٹارے کو چپ کب ہونا تھا۔البتہ اس بے معنی تعریف کو سن کے بیلا نے اسے دکھ بھری نگاہوں سے دیکھا۔جو صاف بتا رہی تھیں کہ وہ اس تعریف کے کھوکھلے پن سے بہ خوبی واقف ہے۔اُن آنکھوں میں کچھ عجیب تشنگی تھی ایک ایسا دکھ جو مریم کے دل میں اٹھتا ہوا محسوس ہوا اپنی پوری زندگی میں اس نے کسی کے درد کو کبھی اس طرح محسوس نہیں کیا تھا جیسے اُس نے اس پری وش کے دکھ کو محسوس کیا اور وہ انسانیت کے جذبے سے سرشار ہو کر قدرے بے چینی سے بول پڑی بیلا تم اتنی غمگین کیوں ہو؟؟
بیلا مریم کے اس بے ساختہ اور نہایت دکھ کے ساتھ پوچھے ہوئے سوال پر حیران ہوئی مگر یہ حیرانی خوش گوار تھی۔بہت مُدت بعد بیلا اپنے لئے کسی کو یوں دکھی، فکرمند اور پریشان دیکھ رہی تھی۔ اُس کے ذہن کے پردے پر ایک مشفق صورت اُبھر آئی جو دونوں ہاتھوں سے اپنی تین یا چار سال کی بچی کا چہرہ تھامے اُس سے بڑے پیار سے اُس کی ناراضگی کا سبب پوچھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ماں کے لاڈ پر اُس ننھی سی گڑیا کی پلکوں سے آنسوؤں کے دو چار قطرے ٹپ ٹپ کرتے اُس کے بھرے بھرے گلابی رخسار کو بھگونے لگے ۔۔۔۔۔وہ آخری لاڈ تھا اُس کے بعد وہ محبت کی دیوی اپنی پیاری شکل اور میٹھی آواز کے ساتھ غائب ہو گئی رہ گئی تو فقط یادیں ۔۔۔۔اور بے موسم بارشیں جو بادلوں سے نہ ہو کر آنکھوں سے ہوتی تھیں ۔۔۔۔خشک آنکھوں سے۔ بیلا بھلا کیسے بھول سکتی تھی کہ اُس نے کن مشکلوں سے قرطبہ سے غرناطہ تک تن تنہا سفر کیا تھا کتنی اذیتوں سے وہ گزری تھی ۔۔۔۔کتنے دِن اُس نے کوڑے کے ڈھیر سے سڑی گلی روٹی کے ٹکڑے کھا کر صبح و شام کئے، اُس چھوٹی سی بچی نے وقت کی کتنی مار سہہ کر بالآخر وہ مسکن پایا جہاں اُسے رات بسر کرنے کے لئے اچھے اور گرم بستر مہیہ تھے یہ ایک چھوٹا سا مکان تھا جو دو متوسط قسم کے کمرے، ایک چھوٹے سے کچن اور ایک اٹیچڈ لیٹرین باتھ روم پر مشتمل تھا۔ اس مکان کی واحد مکین درمیانہ عمر کی ایک خوش اخلاق اور انسان دوست عورت تھیں جو ایک اولڈ ایج ہوم میں خدمت خلق کیا کرتی تھیں اس لئے معاشرے میں اُن کو کافی رعب اور عزت حاصل تھی۔ لوگ اُنہیں مدر ماروڈ (mother marwood) کہتے تھے۔ انہوں نے بیلا کو سڑک کے کنارے سویا ہوا پا کر اُسے محبت سے جگایا اور اپنے ساتھ اُسے اپنے گھر لے آئیں۔یہاں اُسے ہر قسم کی آزادی تھی اُس کے سپرد کوئی کام نہیں تھا صبح تڑکے وہ ناشتہ پیک کر کے اولڈ ایج ہوم کو روانہ ہو جاتیں اور بیلا بے خا نما برباد سڑکوں اور گلیوں کی خاک اڑاتی پھرتی اور غروب آفتاب کے بعد جب ہر سو اندھیرا چھانے لگتا تو واپس اُسی مسکن پر آ ٹھہرتی جہاں مدر ماروڈ کے پہنچنے میں کچھ ہی دیر باقی رہتی تھی۔روز مرہ کی اس آوارگی نے بیلا کو بالآخر ایک ایسی پہاڑی پر پہنچا دیا جہاں اُس نے ایک وسیع اور سپاٹ سا حصہ دیکھا جس پر قدرت نے نہایت خوبصورتی سے نرم نرم گھاس کی ہری اور مخملیں قالین بچھائی ہوئی تھی اور اس قالین میں جا بہ جا رنگ برنگے پھول ٹانک دیے تھے وہ جگہ بیلا کو اتنی پسند آئی تھی کہ اس نے اُس جگہ کو ہی اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں وہ صبح سے شام تک بیٹھی دور بہت دور افق کے اُس بار دیکھنے کی کوشش کرتی تھی۔ جہاں اُسے ایک خوبصورت دنیا نظر آتی ایک خیالی دنیا جس میں ایک چھوٹی سی بچی اپنے والدین کے ساتھ سرسوں کی لہلہاتی فصلوں کے درمیان اُچھل کود کرتی ہوئی کبھی پگڈنڈی سے اتر کر تنگ سڑک پر پہنچ جاتی تو کبھی کھیت کے عقبی حصے کو پار کر کے تالاب کے کنارے پر۔اسی اثناء میں اُس بچی کی ماں اُسے مدھر اور میٹھی آواز میں پکارتی۔۔۔۔عائشہ!!عائشہ!!
اُس نے سر جھٹک کر دیکھا سامنے بیٹھی مریم بہت متجسس سی اپنے جواب کی منتظر مریم کو یک ٹک تکے جا رہی تھی۔بیلا کے ہونٹوں پر ایک خفیف سا تبسم بکھرا جس میں دکھ تھا درد تھا شکستگی تھی ۔۔۔۔مریم نے اسی مسکراہٹ کے درمیان بیلا کو کہتے سنا مریم تم بہت خوش نصیب ہو۔۔۔بہت خوش نصیب۔۔۔مریم کو اس جواب پر حیرت ہوئی۔اُس نے سوچا یہ تو اُس کا جواب نہ تھا۔میں خوش نصیب کیسے ہوئی بیلا؟؟؟؟مریم کے تجسس نے ایک اور سوال اچھالا۔اس سے پہلے کہ بیلا کچھ کہتی کلیسا کے گھنٹے کا ارتعاش فضا میں بلند ہوا،ٹن۔۔۔ ٹن۔۔۔۔ ٹن۔۔۔۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سبھی راہ گیر پہاڑی کے خوبصورت دامن کو خیر آباد کہنے لگے مریم نے بیلا سے پوچھا یہ کیسی صدا ہے؟؟بیلا نے بتایا کہ کلیسا کی گھنٹی صبح کے اختمام پر روزانہ بجتی ہے یہ رات کے آنے کا پُز زور اعلان کرتی ہے۔مریم نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور اُس نے دیکھا کہ سورج مطلع مغرب میں مستغرق ہوتے ہوئے سپیدۂ فلک کو لالے کے پھول مار رہا ہے جس سے اُس کا سفید لبادہ قرمزی رنگ میں رنگ گیا۔۔طیور غول بنائے تیز رفتاری سے اپنے آشیانے کی اور بڑھنے لگے۔۔۔قرمزی رنگ رفتہ رفتہ سرمئی اور پھر سیاہی میں تبدیل ہونے لگا۔اسی اثناء میں بیلا نے مریم کے کاندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اب رات ہونے کو آئی ہے تمہیں بھی اپنے گھر جانا چاہیے۔ مریم نے مسکرا کر اُس کے بات کی تائید کی اور السائے ہوئے قدموں سے پہاڑی سے اترنے لگی ۔۔۔مگر دو چار قدم چلنے کے بعد رکی اور پیچھے پلٹ کر بیلا کو محبت سے دیکھتے ہوئے بولی کیا ہم کل پھر ملیں گے؟؟بیلا نے بھی اسی محبت اور اپنائیت سے جواب دیا ہاں ضرور۔۔۔۔۔دونوں مسکرا دیں۔مریم کا عکس جب لامحدود راستے میں گم ہو گیا تو بیلا نے بھی اپنے گھر کی راہ لی مگر آج وہ قدرے خوش تھی، بشّاش تھی۔آج کی رات بیلا اور مریم دونوں کے لیے بہت طویل رات تھی۔انتظار کے لمحے کاٹنے سے نہیں کٹتے۔۔۔۔دونوں بے چین تھیں مگر دونوں کی بے چینیاں مختلف تھیں۔۔۔مریم کو بیلا کی پُر اسرار شخصیت اور نا آشنا سی شناسائی کو جاننے کا اشتیاق تھا۔۔۔تو بیلا کو اپنی داستانِ غم سنانے کا،برسوں سے پکتے لاوے کو باہر نکالنے کا،اپنے آپ کو آشکار کرنے کا۔ایک کو کہانی سن کر چین ملنا تھا اور دوسرے کو کہانی سنا کر۔۔۔۔۔مگر کیا دونوں کو حقیقتاً سکون مل جانے والا تھا؟کیا سکون حاصل کرنا اتنا آسان ہوتا ہے؟؟کیا واقعی غم سنانے سے غم ہلکے ہو جاتے ہیں؟اس طرح کے بہت سے سوال ہیں۔مگر ہر سوال کا من چاہا جواب نہیں ہوتا یا پھر سرے سے کوئی جواب ہی نہیں ہوتا۔غرض رات خدا خدا کر کے گزر گئی۔مدر ماروڈ صبح تڑکے بیلا کو ناشتہ وقت پر کر لینے کی نصیحت کرتی ہوئی اولڈ ایج ہوم کو روانہ ہو گئیں۔اور بیلا آدھ یا پون گھنٹہ گزرنے کے بعد ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر اپنے اُسی معین مقام کی طرف چل دی جدھر وہ روزانہ جایا کرتی تھی۔ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ جب اپنے سفر کو روانہ ہوئی تو راستے میں وہی سارے مناظر اُس کی آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے نظر آنے لگے جو کچھ اُس نے اُس کتاب میں پڑھے تھے جو اُسے ایک ہندی نژاد خاتون نے اُس کے تجسس کو مٹانے کے لیے دی تھی۔ ہر روز انہی مناظر میں کھوئی ہوئی نہ جانے کب وہ پہاڑی کے وسط میں بچھی مخملیں قالین تک پہنچ جاتی اُسے اندازہ ہی نہیں ہو پاتا تھا۔صاف نیلے آسمان پر بادلوں کے سفید، شفاف ٹکڑے اس طرح پھر رہے تھے جیسے بھٹکا ہوا مسافر راستہ ڈھونڈھتا ہو۔ایک چھوٹے ننھے بادل کے ٹکڑے کو سفاک ہوا تیزی سے بہا لے جا رہی تھی اور کئی دوسرے بادل کے ٹکڑے تیزی سے اس کا تعاقب کر رہے تھے جیسے وہ اُس ننھے ٹکڑے کو پکڑنا چاہتے ہوں مگر دیکھتے ہی دیکھتے ننھا ٹکڑا کہیں گم ہو گیا اور اُس کے تعاقب میں سر گرداں چند ایک ٹکڑے بیکراں آسمان میں بھٹک گئے۔اُس نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لیں گرم گرم آنسو کے دو قطرے رخسار پر لڑھک گئے۔قدرت اُسی سانحے کو دہرا رہی تھی جو آج کے چھ سال پہلے واقع ہوا تھا جب وہ صرف چار سال کی تھی۔بہت خوش باش وہ اپنے والدین کے ساتھ میلے کی سیر کو نکلی تھی۔خوب گھوم پھر لینے کے بعد جب وہ گھر لوٹنے لگے۔اچانک فضا میں شور و غوغا بلند ہوا بہت ساری چیخیں سنائی دینے لگیں افرا تفری کا عالم ہو گیا اور پھر ایک بھاری تن و توش والا آدمی اُس چار سال کی بچی کو کاندھے پر اٹھائے تیزی سے بھیڑ کو چیرتا ہوا بھاگنے لگا اُس کے ماں باپ اور دیگر لوگوں نے اُس شخص کا تعاقب کیا جتنا وہ کر سکتے تھے۔۔۔۔اُس کی ماں دوڑتی جاتی تھی اور حلق پھاڑ پھاڑ کر لوگوں سے مدد کی بھیک مانگتی جاتی تھی۔اری کوئی تو بچا لو میری بچّی کو۔۔۔۔ کوئی تو بچا لو میری بچی کو۔۔۔۔عائشہ۔۔ عائشہ۔۔۔میری بچی۔۔۔۔میری بچی
اُدھر عائشہ پر خوف کی شدت سے غشی طاری ہو گئی۔ننھا ذہن کتنی دیر ماں باپ کو روتا چیختا اور اپنے پیچھے پیچھے دوڑتے دیکھتا۔اور پھر جب اُس کی آنکھ کھلی وہ ایک اندھیرے کمرے میں تھی۔صرف کھڑکی کا ایک پٹ ہی کھلا تھا جس سے کچھ روشنی چھن کر فرش پر گر رہی تھی۔عائشہ بے حس و حرکت یوں ہی تخت پر پڑی رہی تبھی کمرے کا دروازہ ہلکی سی چرمراہٹ کے ساتھ کھلا اور ایک سیاہ فام عورت نمودار ہوئی۔عورت کی شکل اندھیرے میں نظر نہ آتی تھی۔عائشہ کے خوف میں اضافہ ہوا مارے ڈر کے اُس کا خون اُس کی رگوں میں جمنے لگا اور وہ کپکپاتے ہوئے ہونٹوں کے درمیان صرف ایک ہی لفظ کہہ پائی .....ماں!!!!
وہ سیاہ فام عورت بچوں کو اغوا کراتی اور اُنہیں فروخت کرتی تھی۔اُس نے کچھ دن عائشہ کو اپنے پاس رکھا اور پھر ایک دن اُسے اپنے ایجنٹ الفانسو کے ہاتھوں اندلس کے ایک مشہور شہر قرطبہ میں ایک پادری کو بیچ دیا۔جس کا کام مسلمان بچوں کو مسیحی بنانا تھا۔ فادر میکڈونلڈ یوں تو نرم خو تھا مگر عائشہ کے لیے نہایت جابر ثابت ہوا کیوں کہ عائشہ عام بچوں کی طرح اُس کی باتوں میں آنے والی نہیں تھی۔وہ اُس کی مذہبی امور پر کی جانے والی باتوں سے متاثر نہیں ہوتی تھی۔عائشہ کی پرورش اُس کے ماں باپ نے مکمل اسلامی طریقے سے کی تھی۔اُس کی ماں نے جب وہ رحم میں تھی تبھی اُسے پورا قرآن کریم کئی مرتبہ سنایا تھا۔اسلامی تعلیمات اُس کے رگ رگ میں پیوست تھی۔اُس کی عمر تو کچی تھی مگر ایمان بہت پکا تھا۔جب فادر میکڈونلڈ کا کام نرمی سے نہ نکلا تو اُس نے عائشہ پر سختی کرنا شروع کر دی۔اکثر و بیشتر وہ اُسے پیٹتے اور بعض دفعہ تو اُسے بھوکا بھی رکھتے۔بھوک کی شدت میں اُسے اپنے ماں باپ بہت یاد آتے اور وہ گھنٹوں اُنہیں یاد کر کے روتی۔ دھیرے دھیرے فادر کا ظلم بڑھتا گیا اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جب عائشہ کو لگا کہ وہ اب کبھی اپنے ماں باپ سے نہیں مل سکتی،وہ کبھی واپس اپنے ملک نہیں جا سکتی تو اُس نے مصلحتاً اُن کی بات ماننے میں ہی بھلائی سمجھی۔اب عائشہ فادر میکڈونلڈ کی بات خامشی سے سنتی اور اُن سے اُن کے مذہبی عقائد کے متعلق سوال بھی کرتی جس سے رفتہ رفتہ فادر کو احساس ہونے لگا کہ اب عائشہ راہ راست پر آ گئی ہے وہ یسوع مسیح کو خدا کا بیٹا تسلیم کرنے لگی ہے تو انہیں دلی خوشی اور اطمینان حاصل ہوا۔اُنہوں نے عائشہ کا نام بیلا رکھ دیا جسے عائشہ نے خامشی سے تسلیم کر لیا۔اب بیلا کو گھر سے باہر نکلنے اور کھیلنے کودنے کی مکمل آزادی حاصل تھی۔ایک روز جب فادر کلیسا کو روانہ ہو گئے تو بیلا گھر سے باہر نکلی اور یونہی کچھ دوری طے کرنے پر اُس کی ملاقات ایک خاتون سے ہوئی جو شکل سے بہت شفیق اور ہمدرد نظر آتی تھیں۔اُن کا لباس مسیحی عورتوں سے مختلف تھا۔سفید عبایا پر ہلکے سرمئی رنگ کا سٹال چہرے کے گرد اس طرح سے لپیٹا تھا کہ سینے سے نیچے تک کا حصہ اُس میں چھپ جاتا تھا۔عجیب سی جاذبیت تھی اُن کی شخصیت میں کہ بیلا نے اپنا قدم خود بہ خود اُن کی جانب بڑھتا ہوا پایا۔وہ بیلا سے بہت محبت سے مخاطب ہوئیں۔اُس نے اس خاتون سے دیر تک مختلف موضوعات پر بات چیت کی اور پھر باتوں ہی باتوں میں اُس نے اندلس کے بارے میں بہت سارے سوالات پئے در پئے کیے۔بیلا کا تجسس دیکھ کر اُس خاتون نے اُسے ایک کتاب تھماتے ہوئے کہا اسے پڑھنا اس میں تمہارے ہر سوال کا جواب ہے،اندلس کی مکمل تاریخ ہے۔بیلا اُس سرخ جلد والی کتاب کو سینے سے لگائے گھر لے آئی ابھی فادر کے آنے میں کچھ وقت رہتا تھا اُس نے جلدی سے کتاب کو آلماری میں اپنے کپڑوں کے نیچے چھپا دیا۔رات کے پچھلے پہر جب فادر میکڈونلڈ گہری نیند میں سو رہے ہوتے تو وہ چپکے سے اُس کتب کا مطالعہ کرتی۔بیلا کی لگن کو دیکھتے ہوئے فادر نے اُسے پچھلے تین سالوں میں اُردو،انگلش،اور دیگر زبانوں کا اتنا علوم تو سکھا دیا تھا کہ وہ آرام سے اُن زبانوں کو پڑھتی اور سمجھ لیتی تھی۔بیلا تو اندلس کے بارے میں اس لیے جاننا چاہتی تھی تا کہ یہاں سے فرار کی کوئی صورت نظر آئے مگر اُس کتاب کو وہ جیوں جیوں پڑھتی گئی اُس کا دل ہی بدلتا گیا۔اب بیلا کا اپنے ماں باپ سے اور ملک سے بچھڑنے کا غم ہلکا ہو گیا تھا کیوں کہ اُس کی جگہ ایک بہت بڑے غم نے لے لی تھی۔۔۔اور وہ غم تھا اندلس کا غم،ایک پوری قوم کا غم،مسلمانوں کا غم۔۔۔۔۔۔۔۔۔کس طرح موسیٰ بن نصیر،عیسٰی بن مزاحم،طارق بن زیاد اور اُن کے جاں نثاروں نے اپنی جان پر کھیل کر اس سرزمین کو عیسائیت سے پاک کیا تھا۔کس آن بان سے اُنہوں نے اسلام کے پرچم کو پورے اندلس میں لہرایا تھا۔مگر آہ کونٹ جولین سے کیا گیا وعدہ کتنا بھاری پڑ گیا ہمیں۔۔۔کاش کہ طارق بن زیاد اور عیسٰی بن مزاحم اُس مسیح كونٹ جولین کو اندلس کا ایک خاص علاقہ دینے کا مشورہ خلیفۂ وقت کو نہ دیتے بلکہ اُس کی وفا شعاری اور انسان دوستی کا صلہ کِسی اَور طرح ادا کرتے۔کاش کہ مسجد قرطبہ آج بھی مسجد ہی رہی ہوتی۔۔۔کاش اُس کے صحن میں آج بھی اذان کے کلمات گونج رہے ہوتے۔کاش کہ اندلس پر مسلمانوں کی کی جانے والی آٹھ سو سالہ حکومت کا انجام اتنا سنگین نہ ہوتا ۔۔۔کاش کہ اُسے کبھی زوال نہ آتا۔۔۔۔۔۔اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سمندر امڈ پڑا۔۔۔۔۔۔اُس نے اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسوؤں کو صاف کیا۔دھندلائے ہوئے منظر صاف ہو چکے تھے۔اُس نے چاروں طرف دیکھا صبح کی رونق ہر سو نظر آ رہی تھی۔رفتہ رفتہ اطراف و جوانب میں چہل پہل بڑھ رہی تھی۔متورم آنکھوں سے وہ پگڈنڈی پر جاتی ہوئی بگھی کو دیکھ رہی تھی کہ اچانک اُسے ہلکی سے پھڑپھڑاہٹ سنائی دی اُس نے دیکھا ایک رنگ برنگے پنکھوں والی خوبصورت تتلی کبھی اُس کے ہاتھ کے پشت پر بیٹھتی ہے تو کبھی سر کے ارد گرد گھومنے لگتی ہے۔۔۔وہ اُسے پیار سے دیکھے گئی۔۔۔زِندگی سے بھرپور اس خلقت کا کوئی مذہب نہیں کوئی دیس نہیں۔۔۔۔کتنی بے فکر کتنی آزاد ہے یہ ۔۔۔۔بیلا کے لبوں پر ہلکی سے مسکراہٹ بکھر گئی۔تبھی اُس نے اپنی پشت پر ایک مدھم چاپ سنی جو جانی پہچانی لگتی تھی اور متواتر وہ چاپ نزدیک اور نزدیک آتی جاتی تھی۔بیلا نے پیچھے مڑ کر دیکھا چہرے پر ایک دلفریب مسکراہٹ سجائے مریم اُس کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔بیلا نے بھی جوابی مسکراہٹ اچھالی۔مریم نے بیلا کے پاس آتے ہی بے تکلفی سے اپنا ہاتھ بیلا کے شانے پر رکھتے ہوئے نہایت خوش اخلاقی سے پوچھا کیسی ہو بیلا؟؟بیلا کو یہ اندازِ تخاطب بہت پیارا لگا۔اُس نے بھی اسی متانت اور محبت سے جواب دیا۔ٹھیک ہوں۔تم کیسی ہو؟تمہارے سامنے ہوں خود دیکھ لو۔ مریم کے اس جواب پر بیلا کو ہے ساختہ ہنسی آ گئی۔برسوں بعد بیلا اس طرح ہنسی تھی۔ہنسنے سے دل کا بوجھ کتنا ہلکا ہو جاتا ہے آج اُسے احساس ہوا۔کافی دیر دونوں گپ شپ کرتی رہیں۔اور پھر باتوں ہی باتوں میں مریم نے ادھُوری چھوڑی ہوئی گفتگو کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے وہی سوال دہرایا بیلا میں خوش نصیب کیسے ہوں؟بیلا پہلے تو کچھ دیر خاموش رہی مگر پِھر گویا ہوئی ہر طرح سے مریم۔تم ہر طرح سے خوش نصیب ہو۔تم اپنے والدین کے ساتھ اپنے ملک میں رہتی ہو اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرتی ہو کوئی فکر نہیں کوئی خوف نہیں ۔بیلا کے رکتے ہی مریم بول پڑی کیا تم اپنے ماں باپ کے ساتھ نہیں رہتی؟بیلا نے نفی میں سر ہلا دیا۔اس سے پہلے کی مریم اُس سے کچھ اور پوچھتی اُس نے اپنے ملک سے قرطبہ پہنچنے تک کی ساری روداد سنا ڈالی۔نیز اُس نے اندلس کی تاریخ بھی اُسے بتائی کس طرح اندلس کو مسلمانوں نے فتح کیا اور پھر کس طرح سکوتِ غرناطہ کے بعد وہ مکمل طور پر ایک بار پھر مسیحوں کے قبضے میں چلا گیا۔بیلا جیسے جیسے اندلس کا قصہ بیان کرتی گئی ویسے ویسے مریم کی آنکھیں برستی گئیں جیسے کہ ساون کا پہلا بادل ٹوٹ کر برستا ہے تیز ۔۔۔۔اور تیز۔۔۔بہت تیز۔ بیلا کی داستان غم سن کر مریم کافی نڈھال سی ہو گئی۔مگر اُسے ابھی یہ بات سمجھ نہ آئی کہ بیلا قرطبہ سے غرناطہ کیسے آئی۔اور یہ بات وہ اُس سے پوچھنا بھی نہیں چاہتی تھی کیوں کہ وہ اور زخمی ہونا نہیں چاہتی تھی اور نہ ہی بیلا کے زخم کو تازہ کرنا مگر بیلا خود بہ خود ہی بتانے لگی کہ تاریخ اندلس پڑھنے کے بعد اُسے ہر مسیحی سے نفرت ہونے لگی۔اُسے فادر میکڈونلڈ کی کہی جانے والی ہر بات پر غصّہ آتا ۔فادر کی شکل دیکھتے ہی اُس کی آنکھوں میں لال لال ڈوریاں پڑھنے لگتیں۔اُس کا تنفس تیز تیز چلنے لگتا۔اس کیفیت سے چھٹکارے کا ایک ہی حل تھا کہ وہ قرطبہ چھوڑ دے اور ایک دن ایسا ہی ہوا جب فادر کلیسا کے لیے روانہ ہوئے۔وہ گھر سے بھاگ کھڑی ہوئی اُس کے پیچھے اُس کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں تھا اس لیے اسے وہاں سے نکلنے میں دشواری نہیں آئی۔مگر اُسے دقّت کا سامنا تب کرنا پڑا جب وہ دوڑتے دوڑتے تھک گئی اور اسے بھوک اور شدید پیاس کا احساس ہوا۔وہ یوں ہی بھوکی پیاسی چلتی رہی۔ چلتے چلتے اُسے ایک جگہ پانی کا نل نظر آیا۔ اُس نے ہاتھوں کا کٹورا بنا کر پانی پیا وہ پانی نہیں بلکہ شہد و شیر تھا۔اُس نے اپنے جسم میں نئی طاقت اور توانائی محسوس کی اور پھر اپنی منزل کی اور گامزن ہوئی ایک ایسی منزل جس کا اُسے خود بھی علم نہ تھا۔مگر کچھ ہی راستہ طے کرنے کے بعد اُسے بھوک ستانے لگی اور جب بھوک شدت کی انتہا پر پہنچ گئی تو اُس نے کچرے کے ڈھیر میں اپنا رزق تلاشا۔خیر پیٹ میں چند نوالے جانے سے کچھ راحت تھی۔اُس نے تھوڑی اور منزل طے کی مگر کچھ دور چلنے کے بعد اچانک آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور ذہن تاریکی میں ڈوبتا گیا۔سٹریٹ لائیٹس کی روشنی بھی تاریکی میں گم ہو گئیں۔اور پھر جب آنکھ کھلی تو اُس نے خود کو ایک کمرے میں پایا جو بہت روشن تھا۔اور کمرے میں بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔جب ذرا دائیں بائیں نظر دوڑائی تو ایک ادھیڑ عمر خاتون کو آرام کرسی پر بیٹھا ہوا پایا۔مجھے جاگتا ہوا دیکھ کر وہ بہت نرم سی مسکان ہونٹوں پر سجاتے ہوئے گویا ہوئیں۔۔تھنگز گوڈ تُم ہوش میں آ گئی
میرے پوچھنے پر اُنہوں نے بتایا کہ وہ مجھے قرطبہ کے کسی علاقے سے جہاں میں بے ہوش پڑی تھی اٹھا لائی ہیں۔اُنہوں نے اپنی تعریف مدر ماروڈ بتائی۔اور یہ بھی کہ وہ اپنی زندگی قوم کے نام وقف کر چکی ہیں۔میں نے باتوں ہی باتوں میں اُن سے فادر میکڈونلڈ کے بارے میں پوچھا۔مگر انہوں نے اس نام سے مکمل لا علمی ظاہر کی اور ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ یہ شہر غرناطہ ہے جو قرطبہ سے تقریباً دو سو کلو میٹر فاصلے پر ہے۔میرے دل کو تسلی ہوئی کم از کم مدر ماروڈ فادر میکڈونلڈ سے تو بہتر تھیں۔ان کی شکل سے مجھے وہ نفرت نہیں ہوتی جو فادر میکڈونلڈ کا چہرہ دیکھ کر ہوتی تھی۔اپنی مکمل کہانی سنا کر بیلا خاموش ہو گئی۔مریم نے دیکھا اُس کی گردن میں ایک لاکٹ پڑی تھی جس کے پینڈینٹ پر اُردو میں اُس کا نام کھدا ہوا تھا "عائشہ"۔گرجا گھر سے پھر ایک بار گھنٹے کی صدا بلند ہوئی۔ طیور چہچہاتے ہوئے اپنے گھروں کی سمت روانہ ہونے لگے۔مریم بھی اپنی جگہ سے اٹھی مگر اُس نے محسوس کیا اُس کا پیر ایک ایک من کا ہوا تھا۔ایک قدم چلنا بھی دشوار لگتا تھا۔اُس کا ذہن ماؤف ہو رہا تھا۔ذہن کے ننھے پردے پر بیلا کی داستانِ غم بلکہ اندلس کی داستان غم پئے در پئے چوٹ کیے جا رہی تھی۔مریم نے خالی خالی نگاہوں سے بیلا کو دیکھتے ہوئے پوچھا بیلا کیا تم میرے ساتھ رہنا پسند کروگی؟
اس سوال پر بیلا کا ردّ عمل کیا تھا یہ نا قابلِ بیان ہے۔ ایک بار پھر اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سمندر ہچکولے لیتا ہوا اُبل پڑا اور کپکپاتے ہوئے لبوں پر ایک حسین اور پُردرد مسکراہٹ بکھر گئی۔
اُس نے اثبات میں سر ہلا دیا اور بے ساختہ مریم سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگی۔مریم نے اُس کا آنسو صاف کیا اور دونوں دھیرے دھیرے پہاڑی سے نیچے اترنے لگیں۔گھر پہنچ کر مریم نے اپنے والدین سے عائشہ کا مختصر حال احوال بیان کیا ۔مریم کے والدین ایک نیک دل انسان تھے اُنہوں نے عائشہ کو اپنی فیملی کا حصہ بنانے میں ذرا بھی تامّل نہیں کیا۔اگلے روز مریم کو واپس اپنے ملک ہندوستان لوٹنا تھا۔عشائیہ سے فارغ ہو کر مریم کی والدہ تو سامان کی پیکنگ کرنے میں مصروف ہو گئیں جب کہ عائشہ اور مریم سونے کی تیاری کرنے لگیں۔ عائشہ نے مریم کا شکر ادا کرتے ہوئے اُسے گلے سے لگا لیا کہ اُس کی بدولت آج پھر وہ ایک بار عائشہ بن کر زندگی گزار سکے گی۔اُس کے اپنے ماں باپ نہیں ملے تو کیا غم خدا نے اُسے نئے ماں باپ تو عطا کر دیے تھے اور ایک پیاری سہیلی اور بہن بھی۔عائشہ آج ایک لمبی مدت کے بعد پر سکون نیند سوئی تھی۔مگر مریم کی آنکھوں میں نیند کا کہیں نام و نشان ہی نہ تھا۔اُس کے ذہن میں صرف ایک ہی بات گردش کر رہی تھی کہ اندلس پر مسلمانوں کی حکومت آٹھ سو سال تک رہی اور آج اندلس میں مسلمان کا عکس بھی نہیں ہے۔مسجد قرطبہ کو کلیسا میں منتقل کر دیا گیا۔اندلس اور اُس کے اکثر شہروں کے نام بدل دیے گئے۔اُس کے دل پر کوئی مسلسل کلہاڑی سے ضربیں لگا رہا تھا اور ہر ضرب پر وہ بے اختیار کراہتے ہوئے بےچینی سے کروٹ بدلنے لگتی۔اُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اُسے اندلس کی نہیں بلکہ ہندوستان کی کہانی سنائی گئی ہو۔ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت آٹھ سو سال رہی اور آج مسلمانوں کو طرح طرح سے ٹارچر کر کے انہیں ملک بدر کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔بابری مسجد رام مندر میں منتقل ہونے کو ہے۔ہندوستان کے بیشتر شہروں اور مشہور جگہوں کہ نام تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ اُس کے ذہن کے معصوم سے پردے پر صرف ایک ہی سوال اُبھر رہا تھا کیا ہندوستان سے بھی مسلمانوں کا ویسے ہی صفایا ہو جائےگا جیسے اندلس سے ہوا؟؟ اُس کی آنکھوں سے خون کا دریا امڈ پڑا اور منہ سے ایک دل شگاف چیخ بلند ہوئی۔۔اُس کی چیخ سن کر عائشہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ بیتاب ہو کر اُس سے پوچھنے لگی کیا ہوا مریم؟؟کیا ہوا تمہیں؟ مریم کا ذہن تاریکی میں ڈوبنے لگا اُس نے خود کو ایک ہی جملہ کہتے ہوئے سنا۔۔۔ایک اور اندلس نہیں۔۔۔۔ ایک اور اندلس نہیں۔۔۔۔۔
از قلم سحؔر