ایک اور بے وزن غزل اصلاح کے لئے

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میری سوچوں پہ جس نے حکمرانی کی​
وہ بچھڑتے وقت اک نشانی دے گیا​
میں اُس کو سوچوں تو آنکھیں بھر آئیں​
میں آنسو روکوں، وہ روانی دے گیا​
میں اُس کو یاد بھی نہ کر سکوں​
میرے خوابوں کو ڈھلتی جوانی دے گیا​
عجیب شرطِ وفا نبھائی اُس نے​
سوکھے ہوئے پھولوں کو پانی دے گیا​
اجڑے ہوئے در کو دیکھا تو یقیں آیا​
وہ مجھ کو انتظار کی پریشانی دے گیا​
بچھڑنا تھا تو بچھڑ جاتا​
وہ کیوں قحطِ عشق کی فراوانی دے گیا​
میں نے اُس سے لال گلاب مانگا تھا​
وہ مجھے جلتی ہوئی رات کی رانی دے گیا​
میں نئے پن کا متلاشی تھا بلال​
مگر وہ ہر چیز پرانی دے گیا​
 
لیجیے تین اشعار تو ہم نے کردیئے، باقی آپ خود کوشش کریں۔
میری سوچوں پر ہے جسکی حکمرانی آج تک​
وہ بچھڑتے وقت مجھ کو یہ نشانی دے گیا​
اُس کو سوچوں آج بھی تو آنکھ بھر آتی ہے کیوں​
میرے بہتے آنسوؤں کو وہ روانی دے گیا​
کچھ عجب شرطِ وفا اُس نے نِبھائی اِس طرح​
سوکھے پھولوں زرد پتوں کو وہ پانی دے گیا​
جناب محمد وارث کی ویب سائٹ ضرور ملاحظہ فرمائیے۔​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
خلیل بھائی وارث بھائی کے اسباق بہت فائدہ مند ہیں، اننجینئرنگ انٹری ٹیسٹ سے فارغ ہو کے ان کا بغور مطالعہ کروں گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے شاعری کی الف بے بھی نہیں معلوم لیکن اچھی شاعری پڑھنا میری کمزوری ہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ غزل کے پہلے شعر کے دونوں مصرعوں کے آخر میں ایک ہی جیسے الفاظ نہیں ہوتے کیا۔ جیسے ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں قافیہ اور ردیف ایک سے ہوتے ہیں؟
 
ہم مبتدیوں سے منتظمو! کیا شعر کا نظم کا پوچھتے ہو​
جو بزم میں ہم نے سیکھا ہے سب سامنے لائے دیتے ہیں​
ذہنوں میں ہمارے کچھ بھی نہیں بس بھس ہی بھرا ہے مان بھی لیں​
کچھ سیکھا ہے ہم نے جو یہاں ، اوروں کو بتائے دیتے ہیں​
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے شاعری کی الف بے بھی نہیں معلوم لیکن اچھی شاعری پڑھنا میری کمزوری ہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ غزل کے پہلے شعر کے دونوں مصرعوں کے آخر میں ایک ہی جیسے الفاظ نہیں ہوتے کیا۔ جیسے ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں قافیہ اور ردیف ایک سے ہوتے ہیں؟

شمشاد بھائی شاید آپ پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ غزل کا پہلا شعر ہمیشہ مطلع ہوتا ہے جس کے دونوں مصرعوں میں قافیہ ہوتا ہے، یقیناً ایسا ہی ہوتا ہے لیکن بعض دفع نہیں بھی ہوتا، بھئی "آفٹر آل" شاعر اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں۔ :)
 
ردیف ، قافیہ ، وزن بحر وغیرہ تو ہر نظم اور غزل کا لازمی جزو ہیں لیکن مطلع کے دونوں مصرعوں میں دریف اور قافیہ کا آنا فرض نہیں بلکہ مستحسن ہے:)، اسی طرح مقطع میں شاعر کا نام بھی مستحسن ہے۔ پوری غزل کی ردیف ایک ہی ہوتی ہے اور قافیے بھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ہم مبتدیوں سے منتظمو! کیا شعر کا نظم کا پوچھتے ہو​
جو بزم میں ہم نے سیکھا ہے سب سامنے لائے دیتے ہیں​
ذہنوں میں ہمارے کچھ بھی نہیں بس بھس ہی بھرا ہے مان بھی لیں​
کچھ سیکھا ہے ہم نے جو یہاں ، اوروں کو بتائے دیتے ہیں​

خلیل بھائی کیا خوب فیض صاحب کے شعر کی پیروڈی کی ہے۔
آپ کی دعائیں ساتھ رہیں تو انشاءاللہ ضرور ایک کامیاب انجینئر بنوں گا اور شاید تُک بندی کی خوبصورت مثال بھی۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین

میری سوچوں پر ہے جسکی حکمرانی آج تک​
وہ بچھڑتے وقت مجھ کو یہ نشانی دے گیا​
اُس کو سوچوں آج بھی تو آنکھ بھر آتی ہے کیوں​
میرے بہتے آنسوؤں کو وہ روانی دے گیا​
کچھ عجب شرطِ وفا اُس نے نِبھائی اِس طرح​
سوکھے پھولوں زرد پتوں کو وہ پانی دے گیا​
ان اشعار کی بحر کیا بنتی ہے؟​
 

یوسف-2

محفلین
ردیف ، قافیہ ، وزن بحر وغیرہ تو ہر نظم اور غزل کا لازمی جزو ہیں لیکن مطلع کے دونوں مصرعوں میں دریف اور قافیہ کا آنا فرض نہیں بلکہ مستحسن ہے:)، اسی طرح مقطع میں شاعر کا نام بھی مستحسن ہے۔ پوری غزل کی ردیف ایک ہی ہوتی ہے اور قافیے بھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔

مجھے بھی بچپن سے شاعری ”کرنے“ کا بہت شوق تھا، ردیف، قافیہ، مطلع، مقطع، کو تو جلد ہی ”قابو“ میں کرلیا اور قافیہ پیمائی شروع بھی کردی۔ لیکن یہ کم بخت (یا خوش بخت) مصرعہ، اپنی من مانی سے باز نہ آیا۔ کب بحر (بے کراں) کے اندر ہےاور کب بحر سے باہر کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ مصرعوں کا وزن ”تولنے“ کے لئے کئی ترازو (کتابیں) بھی خریدے، لیکن نتیجہ لاحاصل۔ بعد میں لوگوں نے ڈرایا کہ میاں آپ شاعر ”بننے“ کی کوشش نہ کریں کہ شاعر ”پیدا“ ہوتا ہے، ”بنتا“ نہیں۔ بہت سی نظمیں غزلیں مدیرانَ جرائد و اخبارات کی ”نااہلی“ کے سبب شائع بھی ہوئیں۔ لیکن جب بھی اور جہاں کہیں کسی ”پیدائشی شاعر“ نے ہمیں سنا، زبانِ حال سے یہی کہا کہ :
کیسی یہ غزل آپ نے بھیجی ہے کہ جس پر
ہنس بھی نہیں سکتا ہوں میں، رو بھی نہیں سکتا
یوں بحر سے خالی ہے کہ خشکی پہ پڑی ہے
شعروں میں وہ سکتہ ہے کہ کچھ ہو نہیں سکتا
(انور مسعود)​
رشید احمد صدیقی نے کہا تو اپنے لئے تھا لیکن صد فیصد اس احقر پر بھی فٹ بیٹھتا ہے کہ ۔۔۔ اول تو مجھے کوئی شعر یاد نہیں رہتا اور جو یاد رہ جاتا ہے، پھر وہ شعر نہیں رہتا۔ ( غالبا" بحر سے باہرآن کر خشکی پر لوٹنے لگتا ہوگا:D ) محمد خلیل الرحمٰن بھائی ! اب جبکہ آپ نے شاعری کی کلاس شروع کر ہی دی ہے تو کیا آپ مجھے بھی مصرعوں کو ”تولنا“ ، تول کر وزن پورا کرنا اورمصرعہ کو بحر کے اندر اندرمشاقی سے تیرانا سکھلا سکتے ہیں :D
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مجھے بھی بچپن سے شاعری ”کرنے“ کا بہت شوق تھا، ردیف، قافیہ، مطلع، مقطع، کو تو جلد ہی ”قابو“ میں کرلیا اور قافیہ پیمائی شروع بھی کردی۔ لیکن یہ کم بخت (یا خوش بخت) مصرعہ، اپنی من مانی سے باز نہ آیا۔ کب بحر (بے کراں) کے اندر ہےاور کب بحر سے باہر کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ مصرعوں کا وزن ”تولنے“ کے لئے کئی ترازو (کتابیں) بھی خریدے، لیکن نتیجہ لاحاصل۔ بعد میں لوگوں نے ڈرایا کہ میاں آپ شاعر ”بننے“ کی کوشش نہ کریں کہ شاعر ”پیدا“ ہوتا ہے، ”بنتا“ نہیں۔ بہت سی نظمیں غزلیں مدیرانَ جرائد و اخبارات کی ”نااہلی“ کے سبب شائع بھی ہوئیں۔ لیکن جب بھی اور جہاں کہیں کسی ”پیدائشی شاعر“ نے ہمیں سنا، زبانِ حال سے یہی کہا کہ :
کیسی یہ غزل آپ نے بھیجی ہے کہ جس پر
ہنس بھی نہیں سکتا ہوں میں، رو بھی نہیں سکتا
یوں بحر سے خالی ہے کہ خشکی پہ پڑی ہے
شعروں میں وہ سکتہ ہے کہ کچھ ہو نہیں سکتا
(انور مسعود)​
رشید احمد صدیقی نے کہا تو اپنے لئے تھا لیکن صد فیصد اس احقر پر بھی فٹ بیٹھتا ہے کہ ۔۔۔ اول تو مجھے کوئی شعر یاد نہیں رہتا اور جو یاد رہ جاتا ہے، پھر وہ شعر نہیں رہتا۔ ( غالبا" بحر سے باہرآن کر خشکی پر لوٹنے لگتا ہوگا:D ) محمد خلیل الرحمٰن بھائی ! اب جبکہ آپ نے شاعری کی کلاس شروع کر ہی دی ہے تو کیا آپ مجھے بھی مصرعوں کو ”تولنا“ ، تول کر وزن پورا کرنا اورمصرعہ کو بحر کے اندر اندرمشاقی سے تیرانا سکھلا سکتے ہیں :D


اس طرح وہ بے بھلوں کا بھی بھلا ہو جائے گا، خلیل جی انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی جا رہی ہیں اور فرمائشیں بڑھ رہی ہیں۔
 
میری سوچوں پر ہے جسکی حکمرانی آج تک​
وہ بچھڑتے وقت مجھ کو یہ نشانی دے گیا​
اُس کو سوچوں آج بھی تو آنکھ بھر آتی ہے کیوں​
میرے بہتے آنسوؤں کو وہ روانی دے گیا​
کچھ عجب شرطِ وفا اُس نے نِبھائی اِس طرح​
سوکھے پھولوں زرد پتوں کو وہ پانی دے گیا​
ان اشعار کی بحر کیا بنتی ہے؟​
بھائی تفصیل اور درست بحر کےلیےتو اساتذہ کا انتظار کرتے ہیں۔۔۔۔۔ میرے اندازے سے تو یہ بحر رمل مثمن محذوف بنتی ہے افاعیل ۔۔فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
 
مجھے بھی بچپن سے شاعری ”کرنے“ کا بہت شوق تھا، ردیف، قافیہ، مطلع، مقطع، کو تو جلد ہی ”قابو“ میں کرلیا اور قافیہ پیمائی شروع بھی کردی۔ لیکن یہ کم بخت (یا خوش بخت) مصرعہ، اپنی من مانی سے باز نہ آیا۔ کب بحر (بے کراں) کے اندر ہےاور کب بحر سے باہر کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ مصرعوں کا وزن ”تولنے“ کے لئے کئی ترازو (کتابیں) بھی خریدے، لیکن نتیجہ لاحاصل۔ بعد میں لوگوں نے ڈرایا کہ میاں آپ شاعر ”بننے“ کی کوشش نہ کریں کہ شاعر ”پیدا“ ہوتا ہے، ”بنتا“ نہیں۔ بہت سی نظمیں غزلیں مدیرانَ جرائد و اخبارات کی ”نااہلی“ کے سبب شائع بھی ہوئیں۔ لیکن جب بھی اور جہاں کہیں کسی ”پیدائشی شاعر“ نے ہمیں سنا، زبانِ حال سے یہی کہا کہ :
کیسی یہ غزل آپ نے بھیجی ہے کہ جس پر
ہنس بھی نہیں سکتا ہوں میں، رو بھی نہیں سکتا
یوں بحر سے خالی ہے کہ خشکی پہ پڑی ہے
شعروں میں وہ سکتہ ہے کہ کچھ ہو نہیں سکتا
(انور مسعود)​
رشید احمد صدیقی نے کہا تو اپنے لئے تھا لیکن صد فیصد اس احقر پر بھی فٹ بیٹھتا ہے کہ ۔۔۔ اول تو مجھے کوئی شعر یاد نہیں رہتا اور جو یاد رہ جاتا ہے، پھر وہ شعر نہیں رہتا۔ ( غالبا" بحر سے باہرآن کر خشکی پر لوٹنے لگتا ہوگا:D ) محمد خلیل الرحمٰن بھائی ! اب جبکہ آپ نے شاعری کی کلاس شروع کر ہی دی ہے تو کیا آپ مجھے بھی مصرعوں کو ”تولنا“ ، تول کر وزن پورا کرنا اورمصرعہ کو بحر کے اندر اندرمشاقی سے تیرانا سکھلا سکتے ہیں :D
اس طرح وہ بے بھلوں کا بھی بھلا ہو جائے گا، خلیل جی انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی جا رہی ہیں اور فرمائشیں بڑھ رہی ہیں۔

لیجیے حضرات حاضر ہے شاعری سیکھنے کا تیر بہدف نسخہ
گر قبول افتد زہے عز و شرف​
 
Top