مجھے بھی بچپن سے شاعری ”کرنے“ کا بہت شوق تھا، ردیف، قافیہ، مطلع، مقطع، کو تو جلد ہی ”قابو“ میں کرلیا اور قافیہ پیمائی شروع بھی کردی۔ لیکن یہ کم بخت (یا خوش بخت) مصرعہ، اپنی من مانی سے باز نہ آیا۔ کب بحر (بے کراں) کے اندر ہےاور کب بحر سے باہر کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ مصرعوں کا وزن ”تولنے“ کے لئے کئی ترازو (کتابیں) بھی خریدے، لیکن نتیجہ لاحاصل۔ بعد میں لوگوں نے ڈرایا کہ میاں آپ شاعر ”بننے“ کی کوشش نہ کریں کہ شاعر ”پیدا“ ہوتا ہے، ”بنتا“ نہیں۔ بہت سی نظمیں غزلیں مدیرانَ جرائد و اخبارات کی ”نااہلی“ کے سبب شائع بھی ہوئیں۔ لیکن جب بھی اور جہاں کہیں کسی ”پیدائشی شاعر“ نے ہمیں سنا، زبانِ حال سے یہی کہا کہ :
کیسی یہ غزل آپ نے بھیجی ہے کہ جس پر
ہنس بھی نہیں سکتا ہوں میں، رو بھی نہیں سکتا
یوں بحر سے خالی ہے کہ خشکی پہ پڑی ہے
شعروں میں وہ سکتہ ہے کہ کچھ ہو نہیں سکتا
(انور مسعود)
رشید احمد صدیقی نے کہا تو اپنے لئے تھا لیکن صد فیصد اس احقر پر بھی فٹ بیٹھتا ہے کہ ۔۔۔ اول تو مجھے کوئی شعر یاد نہیں رہتا اور جو یاد رہ جاتا ہے، پھر وہ شعر نہیں رہتا۔ ( غالبا" بحر سے باہرآن کر خشکی پر لوٹنے لگتا ہوگا
)
محمد خلیل الرحمٰن بھائی ! اب جبکہ آپ نے شاعری کی کلاس شروع کر ہی دی ہے تو کیا آپ مجھے بھی مصرعوں کو ”تولنا“ ، تول کر وزن پورا کرنا اورمصرعہ کو بحر کے اندر اندرمشاقی سے تیرانا سکھلا سکتے ہیں