ایک اور تازہ غزل

t 08:12
شبِ گریہ ہے مگر کوئی بھی آواز نہیں ۔ ۔ ۔
اور خیموں سے اُدھر کوئی بھی آواز نہیں ۔ ۔ ۔

رنگ بُجھتے ہوئے اور آئینے جل اُٹھتے ہوئے ۔ ۔ ۔
ہر طرف رقصِ شرر ۔ کوئی بھی آواز نہیں ۔ ۔ ۔

ڈوبتے ہاتھ ۔ سسکتی ہوئی آنکھیں ہر سمت ۔ ۔ ۔
سَیلِ پُر شور ہے ۔ پَر کوئی بھی آواز نہیں۔ ۔ ۔

آسماں گِرتا ہوا ساتھ لیے بام و دَر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پھر کہاں خیر خبر ۔ کوئی بھی آواز نہیں ۔ ۔ ۔

بَین کرتی ہوئی ۔ کُرلاتی ہوئی راتوں میں ۔ ۔ ۔
مائیں ڈھونڈے ہیں پسر ۔ کوئی بھی آواز نہیں ۔ ۔ ۔

مُنہدِم ہو رہے جو کوئی ۔ پُکارے کیونکر ۔ ۔ ۔
کوئی کیوں آئے جدھر کوئی بھی آواز نہیں ۔ ۔ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ضیا المصطفیٰ تُرک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
ضیا المصطفیٰ صاحب اردو محفل میں خوش آمدید۔

اصلاح کا کام تو اساتذہ کرام کریں گے، آپ اپنا تعارف تو دیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ضیاء المصطفیٰ ترک صاحب، سب سے پہلے تو آپ کو خوش آمدید کہوں گا اور پھر شکریہ ادا کرونگا کہ آپ یہاں تشریف لائے۔ فیس بُک کے حوالے سے اس خاکسار کو آپ سے شرفِ نیازمندی تو حاصل ہی ہے، اب اردو محفل پر آپ تشریف لائے ہیں تو یقیناً یہ ہم سب کیلیے فخر کی بات ہے۔

غزل آپ کی انتہائی خوب ہے، لاجواب۔


رنگ بُجھتے ہوئے اور آئینے جل اُٹھتے ہوئے ۔ ۔ ۔
ہر طرف رقصِ شرر ۔ کوئی بھی آواز نہیں ۔ ۔ ۔

واہ واہ واہ، سبحان اللہ
 

الف عین

لائبریرین
بہت عمدہ غزل ہے، ضیا صاحب سے فیس بک سے میرا بھی تعارف ہے، ممکن ہے الف عین سے نہ پہچان سکے ہوں، خاکسار ا ع یعنی اعجاز عبید ہے۔
 
Top