طارق شاہ
محفلین
غزل
ایک اور تازیانۂ منظر لگا ہمَیں
آ، اے ہَوائے تازہ! نئے پَر لگا ہمَیں
ندّی چڑھی ہُوئی تھی تو، ہم بھی تھے موج میں
پانی اُتر گیا تو بہت ڈر لگا ہمَیں
گُڑیوں سے کھیلتی ہُوئی بچّی کی آنکھ میں
آنسو بھی آگیا، تو سمندر لگا ہمَیں
بیٹا گِرا جو چھت سے پتنگوں کے پَھیر میں
کُل آسماں پتنگ برابر لگا ہمَیں
دِل پر یقیں نہیں تھا، سو اب کے محاذ پر
دُشمن کا اِک سوار بھی لشکر لگا ہمَیں
دادِ متاعِ عِجْز تو تقدِیر میں نہ تھی
الزامِ خود سَرِی تھا کہ اُڑ کر لگا ہمَیں
افتخار عارف
ایک اور تازیانۂ منظر لگا ہمَیں
آ، اے ہَوائے تازہ! نئے پَر لگا ہمَیں
ندّی چڑھی ہُوئی تھی تو، ہم بھی تھے موج میں
پانی اُتر گیا تو بہت ڈر لگا ہمَیں
گُڑیوں سے کھیلتی ہُوئی بچّی کی آنکھ میں
آنسو بھی آگیا، تو سمندر لگا ہمَیں
بیٹا گِرا جو چھت سے پتنگوں کے پَھیر میں
کُل آسماں پتنگ برابر لگا ہمَیں
دِل پر یقیں نہیں تھا، سو اب کے محاذ پر
دُشمن کا اِک سوار بھی لشکر لگا ہمَیں
دادِ متاعِ عِجْز تو تقدِیر میں نہ تھی
الزامِ خود سَرِی تھا کہ اُڑ کر لگا ہمَیں
افتخار عارف