نایاب جی پھر کیوں نے طاہر القادری کی حمایت کی جائے۔۔۔ یقین کریں کہ طاہر مجھے زہر سے زیادہ برا لگتا تھا ۔۔۔۔ لیکن اسی اردو محفل میں جب جب کچھ اہل ریال کی ان کے خلاف دھاگے دیکھے جو کہ ہاتھ دھو کر بلکہ منہ دھو کر نہیں نہیں جی مکمل غسل کرکے اس کے بعد اپنے پنجے ناخن تراش سے تراش کر بلکہ خراش کر ان کے پیچھے پڑ گئے تو مجھے بھی کچھ ہوش آیا اور بقول شاعر کے برعکسپاکستانی سیاست کے کردار
کس پر انگلی اٹھائیں اور کس کو سر پہ بٹھائیں ۔ ؟
اس حمام میں دھندا ہے بس بہت گندا ہے بس ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
محترم روحانی بابا جینایاب جی پھر کیوں نے طاہر القادری کی حمایت کی جائے۔۔۔ یقین کریں کہ طاہر مجھے زہر سے زیادہ برا لگتا تھا ۔۔۔ ۔ لیکن اسی اردو محفل میں جب جب کچھ اہل ریال کی ان کے خلاف دھاگے دیکھے جو کہ ہاتھ دھو کر بلکہ منہ دھو کر نہیں نہیں جی مکمل غسل کرکے اس کے بعد اپنے پنجے ناخن تراش سے تراش کر بلکہ خراش کر ان کے پیچھے پڑ گئے تو مجھے بھی کچھ ہوش آیا اور بقول شاعر کے برعکس
شورے شد و از خواب عدم چشم کشو دیم
دیدیم کے باقیست شب فتنہ غنودیم
(ایک شور و غل سا مچا اور ہم نے نیند سے آنکھیں کھلیں اور باہر جا کر حالات و واقعات کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ رات کا فتنہ یعنی شریفوں اور (دوغلی نسل یعنی بھٹو اور زرداری پیوند کاری سے جنم لینے والی پارٹی کا نیا چیئرمین بلاول) بلاول بھٹو زرداری کا رومن انگلش میں خطاب اور الطاف حسین بھتہ خور کی جادوگری ایک سحر سا برپا کرہی تھی تو ہم ڈر کے مارے کہ کہیں ان ساحروں کے سحر کا شکار نہ ہوجائیں دوبارہ جا کر سو گئے)
قائد انقلاب پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب سوائے نجدیوں کے اہل دیوبند ، اہل تشعیع اور اہل سنت سب کو قبول ہیں اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے جھنڈے تلے جمع ہوا جائے۔ کیونکہ اس شاہد مسعود حسن نثار اور ہارون الرشیدہ جیسے قلمکار بھی غیر محسوس انداز میں ڈاکٹر صاحب کی پزیرائی کررہے ہیں۔
عبدالرزاق صاحب ۔۔۔ ہم ایک خاص تناظر میں بات کررہے ہیں دیکھیں پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نواز شریف اور زرداری سے کروڑوں گنا اچھے ہیں ۔ باقی آپ ان کے بیانات وغیرہ اٹھا کر دیکھ لیں انہوں نے کبھی بھی علمائے دیوبند کی مخالفت نہیں کی ہے اور اسی طرح شیعہ حضرات بھی ڈاکٹر صاحب کو پسند کرتے ہیں میرے جتنے بھی اہل علم دیوبندی حضرات سے یاد اللہ ہے وہ سب ڈاکٹر صاحب کی تعریف کرتے ہیں لے دے کہ ایک نجدی گروہ ہی رہ جاتا ہے جو کہ ان کو پسند نہیں کرتا ہے تو مجھے بتائیں کہ یہ گروپ کس کو بخشتا ہے۔سب مایہ ہے۔ ان کے بیانات میں ہزاروں تضادات ملتے ہیں۔ آج اس کی جھولی میں کل دوسرے کی گود میں۔ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ ان کو نچاتے رہتے ہیں۔ اور ہم عام لوگ ان کے دفاع یا رد میں اپنا زور صرف کرتے رہتے ہیں۔ غیرملکی آقاؤں کے آگے سبھی دُم ہلاتے ہیں۔ کسی کی حمایت کرکے دیکھ لی جائے جب اُس کا کردار سامنے آتا ہے تو نفرت ہو جاتی ہے۔ اور ان کے پول کھلنے کے بعد بھی اگر ہماری آنکھیں نہیں کھلتیں تو کاتب تقدیر کا یہی فیصلہ رہے گا۔
قائد انقلاب پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب سوائے نجدیوں کے اہل دیوبند ، اہل تشعیع اور اہل سنت سب کو قبول ہیں اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے جھنڈے تلے جمع ہوا جائے۔ کیونکہ اس شاہد مسعود حسن نثار اور ہارون الرشیدہ جیسے قلمکار بھی غیر محسوس انداز میں ڈاکٹر صاحب کی پزیرائی کررہے ہیں۔
میرے خیال میں عبدالرزاق قادری صاحب نے اس پوسٹ میں ڈاکٹر طاہر القادری کے حوالے سے تو بات ہی نہیں کی۔۔۔کیونکہ اس دھاگے میں جو کالم پوسٹ کیا گیا ہے وہ تو نوازشریف کی منافقت کی کہانی بیان کر رہا ہے اور گمان غالب ہے کہ عبدالرزاق صاحب نے بھی نواز شریف اور انکے حواریوں کی بات کی ہے (یہ بھی ممکن ہے کہ عبدالرزاق صاحب بریلوی تعصب کی رو میں بہہ کر ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے ہی بات کر رہے ہوں۔ اگر ایسی بات ہے تو یہ ایک غیر متعلقہ پوسٹ ہوگی کیونکہ دھاگے کا موضوع کچھ اور ہے)۔۔۔سب مایہ ہے۔ ان کے بیانات میں ہزاروں تضادات ملتے ہیں۔ آج اس کی جھولی میں کل دوسرے کی گود میں۔ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ ان کو نچاتے رہتے ہیں۔ اور ہم عام لوگ ان کے دفاع یا رد میں اپنا زور صرف کرتے رہتے ہیں۔ غیرملکی آقاؤں کے آگے سبھی دُم ہلاتے ہیں۔ کسی کی حمایت کرکے دیکھ لی جائے جب اُس کا کردار سامنے آتا ہے تو نفرت ہو جاتی ہے۔ اور ان کے پول کھلنے کے بعد بھی اگر ہماری آنکھیں نہیں کھلتیں تو کاتب تقدیر کا یہی فیصلہ رہے گا۔
سب مایہ ہے۔ ان کے بیانات میں ہزاروں تضادات ملتے ہیں۔ آج اس کی جھولی میں کل دوسرے کی گود میں۔ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ ان کو نچاتے رہتے ہیں۔ اور ہم عام لوگ ان کے دفاع یا رد میں اپنا زور صرف کرتے رہتے ہیں۔ غیرملکی آقاؤں کے آگے سبھی دُم ہلاتے ہیں۔ کسی کی حمایت کرکے دیکھ لی جائے جب اُس کا کردار سامنے آتا ہے تو نفرت ہو جاتی ہے۔ اور ان کے پول کھلنے کے بعد بھی اگر ہماری آنکھیں نہیں کھلتیں تو کاتب تقدیر کا یہی فیصلہ رہے گا۔
عبدالرزاق صاحب ۔۔۔ ہم ایک خاص تناظر میں بات کررہے ہیں دیکھیں پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نواز شریف اور زرداری سے کروڑوں گنا اچھے ہیں ۔ باقی آپ ان کے بیانات وغیرہ اٹھا کر دیکھ لیں انہوں نے کبھی بھی علمائے دیوبند کی مخالفت نہیں کی ہے اور اسی طرح شیعہ حضرات بھی ڈاکٹر صاحب کو پسند کرتے ہیں میرے جتنے بھی اہل علم دیوبندی حضرات سے یاد اللہ ہے وہ سب ڈاکٹر صاحب کی تعریف کرتے ہیں لے دے کہ ایک نجدی گروہ ہی رہ جاتا ہے جو کہ ان کو پسند نہیں کرتا ہے تو مجھے بتائیں کہ یہ گروپ کس کو بخشتا ہے۔
میرے خیال میں عبدالرزاق قادری صاحب نے اس پوسٹ میں ڈاکٹر طاہر القادری کے حوالے سے تو بات ہی نہیں کی۔۔۔ کیونکہ اس دھاگے میں جو کالم پوسٹ کیا گیا ہے وہ تو نوازشریف کی منافقت کی کہانی بیان کر رہا ہے اور گمان غالب ہے کہ عبدالرزاق صاحب نے بھی نواز شریف اور انکے حواریوں کی بات کی ہے (یہ بھی ممکن ہے کہ عبدالرزاق صاحب بریلوی تعصب کی رو میں بہہ کر ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے ہی بات کر رہے ہوں۔ اگر ایسی بات ہے تو یہ ایک غیر متعلقہ پوسٹ ہوگی کیونکہ دھاگے کا موضوع کچھ اور ہے)۔۔۔
تمام پارٹیوں کے تمام سیاست دان لاکھوں روپے کا لباس اور جوتے پہن کر کر وڑوں کی گاڑی میں تشریف لاتے ہیں اور عوامی جلسہ میں انہوں نے ایسے ایسے پر فیوم لگا رکھے ہوتے ہیں کہ ان کو پسینے کی تکلیف نہ سہنا پڑے ۔ یا ان کے ڈائس کے سامنے خفیہ اے ۔ سی لگا ہو تا ہے اور وہ بھی بلند و بانگ دعوؤں سے غریب غرباء کو ان کا حق دلانے کے لیے پُر سوز تقریرکر تا ہے ۔ جوکہ کسی لاکھ پتی بیور و کر یٹ نے لکھی ہوتی ہے اور شاعروں کا کلا م پڑھتا ہے جس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ بندہ غریبوں کا سچا غم گسار ہے اور خیر خواہ بھی ۔غریبوں کی اعانت کے جتنے اشتہارات ہم اخبارات اور ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں۔ ان کا دسواں حصہ بھی عملی نمونے کی صورت میں نظر نہیں آتا ۔اگر کوئی منصوبہ سامنے آجاتا ہے تو اس میں اتنے زیادہ فنی عیب ہوتے ہیں کہ وہ بہت جلد ناکام ہو جاتا ہے ۔یاپھر بد نیتی کی بناء پر اتنے نااہل اور کرپٹ لو گ بھرتی کیے جاتے ہیں جو معاشر ے کے لیے ناسور بن جاتے ہیں اور حقیقتا توناسور کا علاج اُسے کاٹ پھینکنا ہی ہے ورنہ اقبال فرشتوں کے لیے اپنے کلا م میں یوں نہ فرماتے ۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اُس کھیت کے ہر خو شۂ گند م کو جلا دو الغر ض ہمارے ہاں سونے کو تولنے کے لیے پیتل کے تکڑی بٹے استعمال کیے جاتے ہیں اور مو م کی سیڑھی لگا کر سورج کو چھونے کی کو شش کی جاتی ہے اور اس کے سد باب کے لیے ابھی گہری خا موشی ہے ۔ ابھی نہر سوئی ہوئی ہے اُس میں پتھر گرا کر دیکھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ ابھی شور دریا کو چیلنج کر نے والا کوئی سکوت سمندر سامنے نہیں آیا ۔ ابھی قوم مایوس ہے۔ ابھی اس کو کسی مسیحا کا انتظار ہے ۔ پچھلی چھ دہائیوں میں ابھی تک پاکستان میں کوئی مسیحا بھی ان کے ملک کی باگ ڈور نہیں سنبھال پایا ۔ شاید عوام میں شعور کی کمی ہے یقیناًعوام میں شعور ہی کی کمی ہے کیونکہ ان کی فکری تربیت درست انداز میں کرنے والا کوئی محرک ابھی تک ان کے حواس پر نہیں چھایا۔ ان پر کفار کا میڈیا اثر انداز ہو رہا ہے ان پر مغربی تہذیب کا رنگ غالب ہے ۔ فریبِ نظری دل کش روپ میں انہیں برباد کر رہی ہے ۔ پھولوں کی رکھوالی مالی کی بجائے چور اور ڈاکو کر رہے ہیں۔ انقلا ب اور تبدیلی کے الفاظ اتنی بار استعمال ہو چکے ہیں کہ اب ان کی کوئی و قعت نہیں رہی ۔ ہر گلی سے ایک انقلا ب آور شخصیت کی صدا بلند ہو رہی ہے ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ داغ دار دامن کے ساتھ کوئی کیسے دوسروں کی داد رسی کرے گا ۔ بُرے کر دار کے حامل ماضی والے افراد قرآن و حدیث کے حوالے دے کر کس طرح لوگوں کی تقدیر یں بدلیں گے ۔ اپنی ذات کو تبدیل کرلینے سے قاصر لو گ کر وڑوں لو گو ں کے قائد ہونے کے کیونکر رواہیں؟ پرآسائش زندگی گزارنے والے کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ عام شہری کے تجربے سے گزرے اور اس کے معاملات کو ذاتی طور پر سمجھ سکے ۔ جن کے بچے نالا ئق بھی ہوں تو اعلیٰ ترین اور مہنگے ترین اداروں میں باآسانی پڑھیں ان کو ٹا ٹ سکو ل کی تعریف کس منطق کے تحت سمجھ میں آئے اور وہ بچے بھی جو ان ہو کر کیا عوامی خدمات بجالانے کے قابل ہوں ؟؟؟؟؟
ہم خاموش تماشائی ہیں۔ کبھی کبھی غصہ بھی نکال لیتے ہیں اپنے حلقہ احباب میں "ان" کے خلافپاکستانی سیاست ایک فلم ہے اور سیاسی شخصیات اس کے مختلف کردار
سو اس میں جذبانی اور سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے
جس طرح ایک فلم پر تجزیہ اور تبصرہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں کوئی اختلاف بحث یا لڑائی نہیں ہوتی اسی طرح پاکستانی سیاست اور سیاست سے جڑی ہوئی شخصیات کو لینا چاہیے
ہاہ ہاہ ہاہ ۔۔۔! جناب عبدالرزاق صاحب تو خود بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔۔!(یہ بھی ممکن ہے کہ عبدالرزاق صاحب بریلوی تعصب کی رو میں بہہ کر ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے ہی بات کر رہے ہوں۔ اگر ایسی بات ہے تو یہ ایک غیر متعلقہ پوسٹ ہوگی کیونکہ دھاگے کا موضوع کچھ اور ہے)۔۔۔
کاش آئی ایس آئی تینوں مسلح افواج کے اعلیٰ افسران اور بیوروکریسی سے متعلق افراد کے بھی آڈیو ویڈیو ریکارڈ جمع کرنے کے لئے کوئی بلڈنگ بنوا لے کہ ان کی کہانیاں بہرطور سیاستدانوں سے کئی گنا زیادہ ہوں گی۔سیاستدانوں کی کہانیوں کی خفیہ فائلیں آڈیو ویڈیو اتنی زیادہ ہو چکی تھیں کہ آئی ایس آئی نے نیا ہیڈ کوارٹر بنوایا جس میں ایک بلڈنگ ان کا رکارڈ رکھے گی کیونکہ پرانا سٹوریج چھوٹا پڑ چکا تھا
کاش آئی ایس آئی تینوں مسلح افواج کے اعلیٰ افسران اور بیوروکریسی سے متعلق افراد کے بھی آڈیو ویڈیو ریکارڈ جمع کرنے کے لئے کوئی بلڈنگ بنوا لے کہ ان کی کہانیاں بہرطور سیاستدانوں سے کئی گنا زیادہ ہوں گی۔
دو آدھی آدھی الماریوں کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ آئی ایس آئی مسلح افواج کے صرف حاضر سروس افسروں کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ایسا بھی سیل ہے پر اس میں ایک دو الماریاں ہیں بس وہ ببھی آدھی آدھی سی ۔ بیورو کریسی کی تو کیا ہی باتاں
ساجد بھائی........اگر آپ غور کریں، تو بدقسمتی سے اس تمام بحث میں بن جانے والے دو گروہ مسلک کے اختلاف ہی کی بنیاد پہ قائم ہیں.....الا ماشاءاللہ.........اور وہ تبرّا ہے، کہ الامان و الحفیظایک بار پھر گزارش ہے کہ سیاست میں مسلکی اورفروعی اختلافات نہ لائیں۔