خرم شہزاد خرم
لائبریرین
http://nawaiadab.com/khurram/ایک-اور-سال-بے-کار-گیا/
32 سال پانی کی طرح بہ گے۔ اور ابھی تک کچھ بھی ایسا نہیں کیا جس پر فخر کر سکوں کہ میں نے کسی کے لیے کچھ کیا ہے۔ ابھی تک سہاروں کی تلاش میں ہوں۔ ابھی تک امیدیں لگائی ہوئی ہیں۔ 32 سال، کم نہیں ہوتے ایک صدی کے چوتھائی حصے سے بھی زیاہ ہوتے ہیں 32 سال اور اگر اتنے عرصے میں اگر انسان کچھ خاص کام نا کر سکا ہوں، ایسا کام جس سے دوسروں کو فائدہ ہو، جس کام سے دوسروں کو سہولت ہو۔ تو سمجھ لیں کہ سارے کا سارا عرصہ بے کار ہی گیا۔ اور اگر کوئی ایسا کام بھی نا کیا ہو کہ اپنے بعد چھوڑ کے جانے والوں کے ہی کام آئے تو پھر لعنت ہے ایسی زندگی پر۔
جب کچھ کرنے کی لگن ہو تو انسان بہت کچھ کر لیتا ہے۔ کسی آس میں نہیں رہتا کہ اگر میرے پاس یہ ہوتا تو میں وہ کر دیتا، اگر میرے پاس وہ ہوتا تو میں یہ کر دیتا۔ 32 سال؟ سوچ کر ہی حیرت ہوتی ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو ،شرمندگی محسوس ہوتی ہے کیونکہ اتنی مسافت کے باوجود نا منزل تک پہنچ سکا ہوں اور نا ہی کہیں دور تک منزل کا نشان نظر آتا ہے۔ اپنے پیچھے دیکھتا ہوں تو دوووور، دور تک بس گرد ہی گرد نظر آتی ہے جو اپنی لاش کو گھسیٹتے ہوئے اڑ رہی ہے اور یہ ایسی گرد ہے جو اس وقت تک نہیں بیٹھے گی جب تک میں کوئی ایسا کام نہیں کر لوں گا جس سے مجھے سکوں ملے گا۔
لیکن کب؟ کب وہ وقت آئے گا جب میں کچھ کرنے کے قابل بنوں گا؟ کب میں کچھ کر سکوں گا۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی زندگی بس سال گزارنے والی مشین ہے۔
خیر 13 اگست کو زندگی کا ایک اور ناکام اور بے کار سال گزر گیا
32 سال پانی کی طرح بہ گے۔ اور ابھی تک کچھ بھی ایسا نہیں کیا جس پر فخر کر سکوں کہ میں نے کسی کے لیے کچھ کیا ہے۔ ابھی تک سہاروں کی تلاش میں ہوں۔ ابھی تک امیدیں لگائی ہوئی ہیں۔ 32 سال، کم نہیں ہوتے ایک صدی کے چوتھائی حصے سے بھی زیاہ ہوتے ہیں 32 سال اور اگر اتنے عرصے میں اگر انسان کچھ خاص کام نا کر سکا ہوں، ایسا کام جس سے دوسروں کو فائدہ ہو، جس کام سے دوسروں کو سہولت ہو۔ تو سمجھ لیں کہ سارے کا سارا عرصہ بے کار ہی گیا۔ اور اگر کوئی ایسا کام بھی نا کیا ہو کہ اپنے بعد چھوڑ کے جانے والوں کے ہی کام آئے تو پھر لعنت ہے ایسی زندگی پر۔
جب کچھ کرنے کی لگن ہو تو انسان بہت کچھ کر لیتا ہے۔ کسی آس میں نہیں رہتا کہ اگر میرے پاس یہ ہوتا تو میں وہ کر دیتا، اگر میرے پاس وہ ہوتا تو میں یہ کر دیتا۔ 32 سال؟ سوچ کر ہی حیرت ہوتی ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو ،شرمندگی محسوس ہوتی ہے کیونکہ اتنی مسافت کے باوجود نا منزل تک پہنچ سکا ہوں اور نا ہی کہیں دور تک منزل کا نشان نظر آتا ہے۔ اپنے پیچھے دیکھتا ہوں تو دوووور، دور تک بس گرد ہی گرد نظر آتی ہے جو اپنی لاش کو گھسیٹتے ہوئے اڑ رہی ہے اور یہ ایسی گرد ہے جو اس وقت تک نہیں بیٹھے گی جب تک میں کوئی ایسا کام نہیں کر لوں گا جس سے مجھے سکوں ملے گا۔
لیکن کب؟ کب وہ وقت آئے گا جب میں کچھ کرنے کے قابل بنوں گا؟ کب میں کچھ کر سکوں گا۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی زندگی بس سال گزارنے والی مشین ہے۔
خیر 13 اگست کو زندگی کا ایک اور ناکام اور بے کار سال گزر گیا