محمد شکیل خورشید
محفلین
دیارِ ہست میں مجھ کو اداس چھوڑ گئی
مرا لباس تھی وہ، بے لباس چھوڑ گئی
غضب کہ اذنِ ودع لے کے وہ ہوئی رخصت
مجھے بنا کے وہ تصویرِ یاس چھوڑ گئی
اسے تو درد بھلانے کے ڈھنگ آتے تھے
یہ کیسی ٹھیس تھی جینے کی آس چھوڑ گئی
چلی گئی ہے وہ کوثر کا جام پینے کو
مرے لبوں پہ وہ تا عمر پیاس چھوڑ گئی
وہ خود تو سو گئی دائم سکوں کی نیند شکیل
وبالِ زیست سبھی میرے پاس چھوڑ گئی
مرا لباس تھی وہ، بے لباس چھوڑ گئی
غضب کہ اذنِ ودع لے کے وہ ہوئی رخصت
مجھے بنا کے وہ تصویرِ یاس چھوڑ گئی
اسے تو درد بھلانے کے ڈھنگ آتے تھے
یہ کیسی ٹھیس تھی جینے کی آس چھوڑ گئی
چلی گئی ہے وہ کوثر کا جام پینے کو
مرے لبوں پہ وہ تا عمر پیاس چھوڑ گئی
وہ خود تو سو گئی دائم سکوں کی نیند شکیل
وبالِ زیست سبھی میرے پاس چھوڑ گئی
مدیر کی آخری تدوین: