مزمل شیخ بسمل
محفلین
ادھر وہ چلے میرے گھر سے نکل کے
اِدھر رہ گئیں حسرتیں ہاتھ مل کے
بنے خاک عاشق جدائی میں جل کے
اگر چاہتا ہے کہ آنسو نہ چھلکے
جلا دیں نہ اے چرخ آہیں نکل کے
ذرا مجھ پہ ہر چال چلیو سنبھل کے
ہوا خاک نخلِ حیات اپنا جل کے
ابھی دن بھی آئے نہ تھے پھول پھل کے
حسینوں نے چھینا مرا دل غضب ہے
جواں جب ہوا میرے سینے میں پل کے
ابھی حشر ہوتا ہے برپا جہاں میں
ابھی فتنہ گر دو قدم دیکھ چل کے
دمِ مرگ تم آئے بہرِ عیادت
قضا رہ گئی آج پھر ہاتھ مل کے
ترے ہجر میں کیا بتاؤں ستم گر
بہے خوب آنکھوں سے چشمے اہل کے
کسی بیوفا کی جدائی میں اے دل
مزا تو یہی ہے کہ آنسو نہ چھلکے
کوئی اور تجھ سا نہیں حسن والا
ترے در سے آخر کہاں جائیں ٹل کے
اگر تم ہو جنت کے طالب تو بسمل
صداقت سے خوگر ہو اچھے عمل کے