محمد ریحان قریشی
محفلین
بحر: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
مشتاق ہیں ہم طالبِ دیدار ہوئے ہیں
کوچے سے ترے صبح سے سو بار ہوئے ہیں
(یعنی ہو آئے ہیں. کیا ایسا استعمال درست ہے)
ہم عشقِ صنم میں جو گرفتار ہوئے ہیں
اللہ کی قسم سخت گنہگار ہوئے ہیں
دنیا سے بھی فردوس سے بھی موڑ کے منھ ہم
اے یار فقط تیرے طلبگار ہوئے ہیں
دنیا تو قمر پر ہے مگر اب بھی ادھر تو
عظمت کا نشاں جبہ و دستار ہوئے ہیں
ہم نے ہے کہا خلق کو جینے دو خدارا
مرنے کے اسی بات پہ حقدار ہوئے ہیں
کافر ہے فلاں بدعتی گستاخ فلاں ہے
ہم فتووں سے ملا کے تو بیزار ہوئے ہیں
ملتا ہی نہیں کام کا انسان کوئی اب
سب لوگ یہاں صاحبِ گفتار ہوئے ہیں
سوتے میں تو آتے ہی نہیں خواب ہمیں پر
خوابوں میں ہیں گم جب سے کہ بیدار ہوئے ہیں
پہنچاتے ہیں منزل پہ مگر کون سے رستے
ریحان چلو ان پہ جو پرخار ہوئے ہیں
مشتاق ہیں ہم طالبِ دیدار ہوئے ہیں
کوچے سے ترے صبح سے سو بار ہوئے ہیں
(یعنی ہو آئے ہیں. کیا ایسا استعمال درست ہے)
ہم عشقِ صنم میں جو گرفتار ہوئے ہیں
اللہ کی قسم سخت گنہگار ہوئے ہیں
دنیا سے بھی فردوس سے بھی موڑ کے منھ ہم
اے یار فقط تیرے طلبگار ہوئے ہیں
دنیا تو قمر پر ہے مگر اب بھی ادھر تو
عظمت کا نشاں جبہ و دستار ہوئے ہیں
ہم نے ہے کہا خلق کو جینے دو خدارا
مرنے کے اسی بات پہ حقدار ہوئے ہیں
کافر ہے فلاں بدعتی گستاخ فلاں ہے
ہم فتووں سے ملا کے تو بیزار ہوئے ہیں
ملتا ہی نہیں کام کا انسان کوئی اب
سب لوگ یہاں صاحبِ گفتار ہوئے ہیں
سوتے میں تو آتے ہی نہیں خواب ہمیں پر
خوابوں میں ہیں گم جب سے کہ بیدار ہوئے ہیں
پہنچاتے ہیں منزل پہ مگر کون سے رستے
ریحان چلو ان پہ جو پرخار ہوئے ہیں